گٹر کے ڈھکن
معلمات طالبات کوصاف خوبصورت یونیفارم پہننے پر خصوصی زور دیتی ہیں
CHARLOTTE:
لیاری کے علاقے بغدادی کے دوگورنمنٹ گرلزسیکنڈری اسکولز، میرایوب خان نمبر1 اور نمبر 2 ایک ہی عمارت میں قائم ہیں۔بغدادی اوراطراف کی آبادی کی لڑکیاں ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
معلمات طالبات کوصاف خوبصورت یونیفارم پہننے پر خصوصی زور دیتی ہیں۔اس علاقے کی لڑکیاں باشعور ہیں۔انھیں صاف ستھرے اورخوبصورت یونیفارم پسند ہیں۔علاقے کی آبادی نچلے متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔ بعض گھرانے کم آمدنی اور بے روزگاری جیسے بحرانوں کا شکار ہیں مگر والدین بیٹیوں کو یونیفارم فراہم کرنے کے لیے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ضرور مختص کرتے ہیں مگر اس علاقے کا سیوریج کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔
سیوریج کا پانی اسکول کی عمارت کے گرد جمع رہتا ہے، جسکی وجہ سے مچھروں کی افزائش ہوتی رہتی ہے۔ لڑکیاں جب اسکول آتی ہیں توگندا پانی ان کا استقبال کرتا ہے۔ مچھر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور طالبات کے کپڑے اورجوتے خراب ہونا معمول کی بات ہے۔اس گندے پانی کے جوہڑکی بناء پرطالبات اور معلمات متعدد بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں، جس کی بناء پر اسکول میں لڑکیوں اورمعلمات کی غیرحاضری کی شرح بھی زیادہ ہے۔
ضلع وسطی کے علاقے کریم آباد میں اپوا گرلزکالج واقع ہے۔اس کالج میں دور، دور سے طالبات علم کی پیاس بجھانے آتی ہیں۔ طالبات کے درمیان خوبصورت یونیفارم تن زیب کرنے کا صحت مند مقابلہ بھی ہوتا ہے، مگر اس علاقے میں سیوریج لائن کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث گٹرکا پانی سڑکوں پر ہوتا ہے۔ اپوا گرلزکالج جانے کے داخلی راستے پرگندا پانی جمع ہے۔اس پانی کے مسلسل جمع ہونے سے گندے پانی کے جوہڑ بن گئے ہیں، مچھروں کی پیداوار خوب بڑھتی ہے۔
طالبات اور معلمات کے لیے کالج پہنچے کا مرحلہ بہت مشکل ہوگیا ہے۔ کالج کی انتظامیہ اورعلاقے کے مکین واٹر اینڈ سیوریج بورڈ والوں سے شکایات کرتے کرتے تھک چکے ہیں ، سیوریج کا نظام مفلوج ہونے اورگٹروں کے ڈھکن غائب ہونے کی صورتحال پورے کراچی میں ہے۔ شہر کی عام بستیوں اور سڑکوں پرگٹرکا پانی موجود ہوتا ہے۔ یہ صورتحال صرف اندرونِ شہر اور مضافاتی علاقوں کی نہیں ہے بلکہ شہرکی بڑی شاہراہیں مثلاً ایم اے جناح روڈ، شاہراہِ فیصل،ایس ایم توفیق اور یونیورسٹی روڈ وغیرہ بھی اس صورتحال سے متاثر ہوتی ہیں ۔ پانی کی فراہمی اورگندے پانی کی نکاسی کا شعبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکے سپرد ہے۔
بجٹ کے جدید اصولوں کے تحت ہر سال بجٹ میں ایک حصہ سیوریج لائنوں کی تبدیلی اور صفائی کرنے کے آلات کی خریداری کے لیے مختص ہوتا ہے۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں قائم ہوئی تو بلدیاتی ادارے منتخب اراکین کی نگرانی میں کام کررہے تھے۔
منتخب کونسلرز اور ناظمین کا اپنے اپنے علاقے کے مکینوں سے رابطہ تھا۔ جب نعمت اﷲ خان کراچی کے ناظم تھے تو اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی سرپرستی انھیں حاصل تھی، اسی بناء پرکراچی سٹی گورنمنٹ کے پاس فنڈزکی فراوانی تھی اور بلدیاتی اداروں کا نظام درست انداز میں چل رہا تھا۔ پھر ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔
صدر پرویز مشرف نے سٹی گورنمنٹ کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رہا، یوں نہ صرف سابق سٹی ناظم نعمت اﷲ خان دورکے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے بلکہ شہر میں اوورہیڈ برجز، انڈرپاسز اورکشادہ سڑکوں کا جال بچھ گیا۔اس دوران صفائی کا نظام بھی بہتر ہوا۔کونسلر اپنے اپنے علاقے میں پانی کے مسائل اور صفائی کے نظام کی نگرانی کرتے تھے، اسی بناء پر شہر میں پانی کی فراہمی اورگندے پانی کی نکاسی کا نظام خاصی حد تک بہتر ہوا۔کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ اس وقت کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ متوسط طبقے کی بستیوں میں صفائی اور پانی کی فراہمی سڑکوں اور بالائی پلوں کی تعمیر سے خاصی بہتر ہوگئی تھی مگر غریبوں کی بستیوں کے حالات زیادہ بہتر نہ ہوسکے تھے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں منتخب قیادت بلدیاتی اداروں سے رخصت ہوئی۔بیوروکریسی نے ان اداروں کے معاملات براہِ راست سنبھال لیے۔ وزیر بلدیات تمام اختیارات کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے ، یونین کونسل سے لے کر سٹی گورنمنٹ کے فنڈز پہلے ہی اعلیٰ عہدیداروں کو منتقل ہونے لگے،بلدیاتی عملے کے پاس ضروری آلات کی فراہمی کے لیے فنڈزکی دستیابی نہ رہی۔
خاکروب اور سیوریج لائنوں کی صفائی کرنے والا عملہ یہ شکایت کرنے لگا کہ ضروری سامان کی خریداری کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی بلدیاتی اداروں کا مالیاتی خسارہ بڑھنے لگا۔عملے کی تنخواہوں اور ریٹائر ہونے والے ملازمین کی پنشن کے معاملات بھی التواء کا شکار ہوئے۔ سندھ کی مختلف ڈسٹرکٹ کونسل اور سٹی گورنمنٹ کے عملے نے اپنی تنخواہوں کے لیے کئی کئی مہینے تک بھوک ہڑتالیں کیں ۔
سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات دائر ہوئے۔ معزز ججوں کو بلدیاتی عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے متعلقہ افسروں کو شوکاز نوٹس اور توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کرنے پڑے، جس کے نتیجے میں شہرکا بلدیاتی نظام چوپٹ ہوگیا۔ اس زمانے میں بتایا گیا کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کے فنڈز ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال ہوئے اور پیپلزپارٹی کی حکومت اس خسارے کو پورا نہیں کرسکی، سندھ کا بلدیاتی ڈھانچہ مفلوج ہوگیا۔
حکومتِ سندھ نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے انکارکیا۔ سندھ کی اتحادی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں ہوا بلکہ خود مختار بلدیاتی اداروں کے تصورکو سندھ میں لسانی خلیج پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں شہرکوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا، مگر بلدیاتی نظام صرف کراچی میں ہی معطل نہیں ہوا بلکہ پورے سندھ میں یہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ لاڑکانہ، دادو، میرپورخاص، سکھر اورحیدرآباد بھی اسی صورتحال سے شدید متاثر ہوئے۔
سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس فیصل عرب عدالتوں کے معائنے کے لیے گزشتہ سال دادو گئے جہاں دادو بار ایسوسی ایشن کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔ وفد کے شرکاء نے چیف جسٹس سے اور مطالبات کے علاوہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ دادو کی سڑکوں کی زبوں حالی کا نوٹس لیا جائے۔ پیپلز پارٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرانے پر تیارہوئی مگر بلدیاتی اداروں کو مالیاتی اختیارات سے محروم کردیا، مگر اب منتخب قیادت آگئی ہے تو امکان ہے کہ فروری میں منتخب قیادت اپنے فرائض سنبھال لے گی، انتخابات کے فوراً بعد منتخب بلدیاتی قیادت اور صوبائی حکومت کے درمیان تضادات سامنے آگئے۔ عالمگیر خان مارکیٹنگ پروفیشنل ہیں اور تحریکِ انصاف سے وابستہ ہیں۔
انھوں نے بغیر ڈھکن والے گٹرکے سامنے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا اسکیچ بنانے کی مہم شروع کی اور سوشل میڈیا پر اس کی فوٹیج لگادیں۔ عالمگیر خان نے ایسے 40گٹروں کی نشاندہی کی جہاں ڈھکن نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس ہراساں کررہی ہے اور ان کے والد کو فیروز آباد تھانے بلایا گیا ہے۔ وزیر بلدیات نے عالمگیر خان کو دھمکی دی ہے کہ ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بھی جواب میں اسکیچ بنائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور فنڈزجاری کرنے کا اعلان کیا اورکہا کہ وزیراعلیٰ کا کام گٹرکے ڈھکن لگانا نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ کا بنیادی فرض وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی بھی ہوتا ہے۔ یہ پارلیمانی نظام میں مشترکہ ذمے داری کا نظام کہلاتا ہے۔ برطانیہ کا پارلیمانی نظام مشترکہ ذمے داری کے اصول پر قائم ہے۔ برطانیہ میں کسی وزیرکی غلطی پر وزیراعظم اورکابینہ کے مستعفیٰ ہونے کی روایت خاصی مضبوط ہے۔
پاکستان کا موجودہ نظام برطانیہ کے پارلیمانی نظام کی پیروی کرتا ہے۔اس اصول کے تحت وزیر اعلیٰ کا کام گٹرکے ڈھکن لگانا نہیں، بلکہ بلدیاتی امورکی وزارت کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے۔ یوں وزیر اعلیٰ اس ذمے داری سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمگیر نے احتجاج کا جو راستہ اختیارکیا وہ مناسب نہیں ہے ،کیونکہ سڑک پر وزیر اعلیٰ کا اسکیچ بنانے سے ان کے حامیوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ سندھ کیونکہ دو لسانی صوبہ ہے۔
اس بناء پر اس معاملے کو لسانی منافرت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر عالمگیر کی بات درست ہے۔ وزیر بلدیات کی جوابی دھمکی حالات کو بہتر نہیں بناسکتی بلکہ بگاڑسکتی ہے۔ شہر میں صرف گندے پانی کی نکاسی ہی نہیں بلکہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کا معاملہ بھی سنگین صورت اختیارکرگیا ہے۔ شہرکے ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح شہر بھرکی بیشتر سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، جن کی بناء پر ٹریفک کا جام ہونا اور حادثات معمول بن گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس مد میں فنڈز مختص ہی نہیں ہوئے۔
جب شہر کراچی میں صفائی کا مسئلہ سنگین ہوا اور میڈیا نے روزانہ اس بارے میں پروگرام نشرکرنے شروع کیے تو نئے وزیر بلدیات جام خان شورو نے مہم شروع کی مگر یہ مہم وزیر موصوف کے دوروں کی بناء پر اور فوٹیج، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں شائع اور نشر ہونے سے زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ ان تمام مسائل کی جڑیں کرپشن اور بری طرزِ حکومت میں پیوست ہیں۔ جب تک ان اہم مسائل پر اپنا ذہن واضح نہیں کریں گے سندھ بحرانوں کا شکار رہے گا۔