اب ملزمان بھی گراں قدر اثاثہ ہو گئے
ہمارے کچھ سیاست دان تو ایسے بیان دیتے ہیں کہ عقل اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے
ہمارے کچھ سیاست دان تو ایسے بیان دیتے ہیں کہ عقل اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے اور تعلیم یافتہ پاکستانی کی قابلیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے، بھلا ہو ہمارے رینجرز کا کہ اس نے اس شہر کی رونقیں بحال کیں، مکمل تو نہیں جس کی وجہ سندھ انتظامیہ کی اصولی سرد جنگ ہے جو وہ لڑ رہی ہے، رینجرز کے اختیارات کے لیے سندھ انتظامیہ زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہی ہے اور آئین کے دلائل دیئے جا رہے ہیں، چڑ چڑے پن کی یہ حالت ہے کہ چوروں، لٹیروں کو بھی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا، مانا کہ وزیر داخلہ اور رینجرز کے کارنامے لائق تحسین ہیں۔
کراچی پاکستان کا معاشی ستون ہے، کراچی میں وفاقی وزیر داخلہ اور رینجرز کی وجہ سے اب اس شہر کی ادبی اور سماجی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں، مگر 6 دسمبر 2015ء سے اسمبلی کی قرارداد کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے سے قبل وزیر اعلیٰ سے اجازت لینی لازمی ہو گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ملزم بھی ہمارے لیے گراں قدر اثاثہ ہوتے جا رہے ہیں، اب یہ وقت آ گیا ہے کہ عوام کو توبہ و استغفار کا ورد کرنا ہو گا کیونکہ ریاست اور ادارے بہت اہم ہوتے ہیں۔
انھیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کچھ لوگ قانون اور انسانی جان کو بحث و مباحثہ میں ڈال کر نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، تنازعات نمٹانے کے بجائے وہ آگ پر اپنے اصولوں کو پکا کر لائق تحسین بنانا چاہتے ہیں، کچھ سیاست دانوں نے آئین کو علم اور دلائل کا نمونہ بنا کر پیش کر دیا ہے، آئین و جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھی خوب ہیں جب امیر و کبیر لوگوں کی بات ہوتی ہے تو مفادات کے تحت آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور جب مفلس لاچار بھوکے ننگے لوگوں کی بات ہو تو پھر آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
مزے کی بات دیکھیں کہ کچھ بڑے وکیل حضرات سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہ سیاسی فیصلے آئینی طریقے سے بہت والہانہ انداز میں کرتے ہیں اور پھر مفلس لوگوں کا خوشی کا سفر عارضی صورت اختیار کر لیتا ہے، آئین میں بہت سے مواقعے ایسے بھی آتے ہیں جو آئین کے مطابق ہوتے ہیں مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جس میں صاحب استطاعت لوگ شامل ہوتے ہیں، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر یہ الزام تھا کہ جب وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے تو غیر قانونی بھرتیاں کر کے لوگوں کو نوکریاں دیں۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر غریبوں کو نوکریاں دینا جرم ہے تو میں یہ جرم بار بار کروں گا جب کہ ان پر الزام غریبوں کو نوکریاں دینے پر نہیں لگایا تھا بلکہ الزام یہ تھا کہ میرٹ (قابلیت) سے ہٹ کر نوکریاں فراہم کی گئیں، عوام اب ان الفاظ کے ہیر پیر کو سمجھنے لگے ہیں، معصوم عوام کو رینجرز کی کامیابیاں نظر آ رہی ہیں مگر ایک بحرانی کیفیت کا پہاڑ کھڑا کیا جا رہا ہے ۔
آج کل میڈیا پر سیاست دان دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دہشت گردوں کا علاج کرنا کیا جرم ہے وہ اس معاملے پر آئینی دلائل بھی دیتے ہیں اور اس کی آڑ میں معصوم لوگوں کو رینجرز کی خدمات کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، جب کہ آئینی طور پر میڈیکل ضابطہ اخلاق اور ضابطہ فوجداری کے باب 4 اور تعزیرات پاکستان کے باب 11 کے تحت ہر ڈاکٹر، کلینک یا اسپتال کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد یا پولیس کو مطلوب شخص کسی بیماری کا علاج کروانے یا کسی ہتھیار سے زخمی ہو کر آئے تو ڈاکٹر اور اسپتال کا قانونی فرض ہے کہ وہ پولیس کو مطلع کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دہشت گرد کا علاج کرنا جرم نہیں بلکہ پولیس کو مطلع کیے بغیر علاج کرنا جرم ہے، آئین کی پھلجھڑی ان چند سیاست دانوں نے ایسی جلائی ہے کہ اب ان کے بیانات سن کر اور پڑھ کر آنکھیں دھندلی اور کان پک نہیں گئے، اور اب تو اس آئین کو سیاست دانوں نے اس شعر کے مانند کر دیا ہے:
اب یہ سمجھائیں بھئی کس کوکہ تیری چاہت میں
جان ہی نکلی ہے ارمان تو کیا نکلے
تذلیل و تحقیر کا بستہ گلے میں ڈالے شریف شہری اپنے روزگار پر جانے کے لیے صبر کی چادر اوڑھ کر گھنٹوں ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ ملاوٹ ناجائز منافع خوری، تمام سماجی برائیوں، بلا کی کرپشن، رشوت خوری اور پھر مٹھی ضلع تھرپارکر سول اسپتال میں ماہ دسمبر میں 41 بچے اور 56 افراد غذا کی قلت گیسٹرو اور دیگر امراض میں شہید ہوئے، اصل شہید یہ ہیں (یہ سیاسی شہید نہیں ہیں) یہ محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔
کراچی، حیدرآباد سے سکھر تک کچرے کے ڈھیر، ملیریا اور ڈینگی کی پیداوار عملہ آنے کی زحمت ہی نہیں کرتا، لوگ مر رہے ہیں، بلدیاتی نظام خراٹے لے رہا ہے۔ گیس، بجلی، پانی ناپید اب بتائیں آئین کے گیت گانے والے کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ پورے ملک میں غربت کا رقص جاری ہے با اثر ملزم عدالتوں میں وکٹری کا نشان بناتے ہیں کیا ہماری معاشرتی تہذیب اس کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں نہ کوئی اینکر ان سیاست دانوں سے پوچھتا ہے کہ آئین کے تحت عوام کو کیا اختیارات ملنے چاہیے، سب غریبوں اور مفلس لوگوں کے خلاف رسم و رواج نبھا رہے ہیں، غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بہت اچھی بات تعلیم کے حوالے سے کہی کہ اس ملک میں تعلیم پر خاص توجہ دی جائے۔ چین کے ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ اگر چین کی تقدیر بدلنی ہے تو تعلیم کا شعور پیدا کیا جائے اور پھر انھوں نے ووٹر کا تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا اور آج چین ترقی کی سیڑھی پر نمبر 1 کی پوزیشن میں ہے۔
تعلیم یافتہ لوگوں نے باشعور لوگوں کو اسمبلی میں بھیجا اگر ہمارے ہاں بھی ووٹر کی تعلیمی قابلیت میٹرک کر دی جائے تو یقین کریں کہ اسمبلی میں 80 فی صد نوجوان اور آزاد امیدوار رونق افروز ہوں گے، راحیل شریف کی مدت ملازمت پر توسیع کے حوالے سے اعتزاز احسن کو اعتراض ہے جب کہ جنرل کیانی کو پی پی پی حکومت نے اپنے دور میں تین سال کی توسیع دی تھی۔
اب اس سے آگے لکھنا بیکار ہے قارئین۔ سب سمجھ دار ہیں، صوبہ سندھ میں کرپشن ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کے پتے بد عنوانی، بے ایمانی، بد نظمی، قومی اداروں کی بد حالی، توانائی کا بحران، مالیاتی بدعنوانی نت نئے اسکینڈلز، غربت، مہنگائی، بے روزگاری ہیں اور اس تناور درخت کو صرف اور صرف اس صوبے سے رینجرز ہی اکھاڑ سکتی ہے کیونکہ اب ایسا نظر آ رہا ہے کہ کرپشن کی کشتی کو بچانے کے لیے آئین کے ساتھ دلائل خود غرضی کا لبادہ اوڑھ کر دیے جا رہے ہیں۔
بدعنوانیوں اور گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آئینی گیت گائے جا رہے ہیں، کراچی سے لے کر سکھر تک عوامی سہولتوں کا فقدان ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رینجرز کی کامیابیوں نے سوئی ہوئی خلقت کو جگا دیا ہے، سیاسی دلیلوں نے دم توڑ دیا ہے قوم کے لیے ریاست اور ادارے بہت اہم ہیں۔ اس شہر کراچی اور حیدرآباد میں ٹریفک جلیبیوں کی شکل اختیار کر گئی ہے، غرض سارے محکمے چادر تان کر سو رہے ہیں، پانی کے بل آتے ہیں پانی نہیں ہے، گیس کے بل آتے ہیں ، گیس ندارد ہے۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے برانڈ کی مٹھائی کی دکان سے مٹھائی خریدنے کا اتفاق ہوا دس دن پہلے 500 روپے کلو لی۔ اس دفعہ راقم سے 520 روپے مانگے ہم نے کہا بھائی پورے ساڑھے پانچ سو کر دیتے تو اس کا جواب دکاندار نے بے شرمی سے دیتے ہوئے کہا، آپ 550 روپے دے دیں یہ کیا ہے یہ بھی کرپشن ہے جب کہ میدہ، چینی اور دودھ کی قیمتیں برقرار ہیں۔ بیورو کریٹ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار خدارا رینجرز کو سندھ میں کام کرنے دیں رینجرز کا دہشت گردی کرپشن کے خلاف آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے، رینجرز کے لیے زبانی اقرار تو سیاسی لوگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن دل سے ماننے کو تیار نہیں مگر عوامی نظر میں رینجرز کرپشن کے حوالے سے لائق عزت و تکریم ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی پاکستان کا معاشی ستون ہے، کراچی میں وفاقی وزیر داخلہ اور رینجرز کی وجہ سے اب اس شہر کی ادبی اور سماجی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں، مگر 6 دسمبر 2015ء سے اسمبلی کی قرارداد کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے سے قبل وزیر اعلیٰ سے اجازت لینی لازمی ہو گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ملزم بھی ہمارے لیے گراں قدر اثاثہ ہوتے جا رہے ہیں، اب یہ وقت آ گیا ہے کہ عوام کو توبہ و استغفار کا ورد کرنا ہو گا کیونکہ ریاست اور ادارے بہت اہم ہوتے ہیں۔
انھیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کچھ لوگ قانون اور انسانی جان کو بحث و مباحثہ میں ڈال کر نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، تنازعات نمٹانے کے بجائے وہ آگ پر اپنے اصولوں کو پکا کر لائق تحسین بنانا چاہتے ہیں، کچھ سیاست دانوں نے آئین کو علم اور دلائل کا نمونہ بنا کر پیش کر دیا ہے، آئین و جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھی خوب ہیں جب امیر و کبیر لوگوں کی بات ہوتی ہے تو مفادات کے تحت آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور جب مفلس لاچار بھوکے ننگے لوگوں کی بات ہو تو پھر آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
مزے کی بات دیکھیں کہ کچھ بڑے وکیل حضرات سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہ سیاسی فیصلے آئینی طریقے سے بہت والہانہ انداز میں کرتے ہیں اور پھر مفلس لوگوں کا خوشی کا سفر عارضی صورت اختیار کر لیتا ہے، آئین میں بہت سے مواقعے ایسے بھی آتے ہیں جو آئین کے مطابق ہوتے ہیں مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جس میں صاحب استطاعت لوگ شامل ہوتے ہیں، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر یہ الزام تھا کہ جب وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے تو غیر قانونی بھرتیاں کر کے لوگوں کو نوکریاں دیں۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر غریبوں کو نوکریاں دینا جرم ہے تو میں یہ جرم بار بار کروں گا جب کہ ان پر الزام غریبوں کو نوکریاں دینے پر نہیں لگایا تھا بلکہ الزام یہ تھا کہ میرٹ (قابلیت) سے ہٹ کر نوکریاں فراہم کی گئیں، عوام اب ان الفاظ کے ہیر پیر کو سمجھنے لگے ہیں، معصوم عوام کو رینجرز کی کامیابیاں نظر آ رہی ہیں مگر ایک بحرانی کیفیت کا پہاڑ کھڑا کیا جا رہا ہے ۔
آج کل میڈیا پر سیاست دان دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دہشت گردوں کا علاج کرنا کیا جرم ہے وہ اس معاملے پر آئینی دلائل بھی دیتے ہیں اور اس کی آڑ میں معصوم لوگوں کو رینجرز کی خدمات کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، جب کہ آئینی طور پر میڈیکل ضابطہ اخلاق اور ضابطہ فوجداری کے باب 4 اور تعزیرات پاکستان کے باب 11 کے تحت ہر ڈاکٹر، کلینک یا اسپتال کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد یا پولیس کو مطلوب شخص کسی بیماری کا علاج کروانے یا کسی ہتھیار سے زخمی ہو کر آئے تو ڈاکٹر اور اسپتال کا قانونی فرض ہے کہ وہ پولیس کو مطلع کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دہشت گرد کا علاج کرنا جرم نہیں بلکہ پولیس کو مطلع کیے بغیر علاج کرنا جرم ہے، آئین کی پھلجھڑی ان چند سیاست دانوں نے ایسی جلائی ہے کہ اب ان کے بیانات سن کر اور پڑھ کر آنکھیں دھندلی اور کان پک نہیں گئے، اور اب تو اس آئین کو سیاست دانوں نے اس شعر کے مانند کر دیا ہے:
اب یہ سمجھائیں بھئی کس کوکہ تیری چاہت میں
جان ہی نکلی ہے ارمان تو کیا نکلے
تذلیل و تحقیر کا بستہ گلے میں ڈالے شریف شہری اپنے روزگار پر جانے کے لیے صبر کی چادر اوڑھ کر گھنٹوں ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ ملاوٹ ناجائز منافع خوری، تمام سماجی برائیوں، بلا کی کرپشن، رشوت خوری اور پھر مٹھی ضلع تھرپارکر سول اسپتال میں ماہ دسمبر میں 41 بچے اور 56 افراد غذا کی قلت گیسٹرو اور دیگر امراض میں شہید ہوئے، اصل شہید یہ ہیں (یہ سیاسی شہید نہیں ہیں) یہ محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔
کراچی، حیدرآباد سے سکھر تک کچرے کے ڈھیر، ملیریا اور ڈینگی کی پیداوار عملہ آنے کی زحمت ہی نہیں کرتا، لوگ مر رہے ہیں، بلدیاتی نظام خراٹے لے رہا ہے۔ گیس، بجلی، پانی ناپید اب بتائیں آئین کے گیت گانے والے کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ پورے ملک میں غربت کا رقص جاری ہے با اثر ملزم عدالتوں میں وکٹری کا نشان بناتے ہیں کیا ہماری معاشرتی تہذیب اس کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں نہ کوئی اینکر ان سیاست دانوں سے پوچھتا ہے کہ آئین کے تحت عوام کو کیا اختیارات ملنے چاہیے، سب غریبوں اور مفلس لوگوں کے خلاف رسم و رواج نبھا رہے ہیں، غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بہت اچھی بات تعلیم کے حوالے سے کہی کہ اس ملک میں تعلیم پر خاص توجہ دی جائے۔ چین کے ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ اگر چین کی تقدیر بدلنی ہے تو تعلیم کا شعور پیدا کیا جائے اور پھر انھوں نے ووٹر کا تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا اور آج چین ترقی کی سیڑھی پر نمبر 1 کی پوزیشن میں ہے۔
تعلیم یافتہ لوگوں نے باشعور لوگوں کو اسمبلی میں بھیجا اگر ہمارے ہاں بھی ووٹر کی تعلیمی قابلیت میٹرک کر دی جائے تو یقین کریں کہ اسمبلی میں 80 فی صد نوجوان اور آزاد امیدوار رونق افروز ہوں گے، راحیل شریف کی مدت ملازمت پر توسیع کے حوالے سے اعتزاز احسن کو اعتراض ہے جب کہ جنرل کیانی کو پی پی پی حکومت نے اپنے دور میں تین سال کی توسیع دی تھی۔
اب اس سے آگے لکھنا بیکار ہے قارئین۔ سب سمجھ دار ہیں، صوبہ سندھ میں کرپشن ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کے پتے بد عنوانی، بے ایمانی، بد نظمی، قومی اداروں کی بد حالی، توانائی کا بحران، مالیاتی بدعنوانی نت نئے اسکینڈلز، غربت، مہنگائی، بے روزگاری ہیں اور اس تناور درخت کو صرف اور صرف اس صوبے سے رینجرز ہی اکھاڑ سکتی ہے کیونکہ اب ایسا نظر آ رہا ہے کہ کرپشن کی کشتی کو بچانے کے لیے آئین کے ساتھ دلائل خود غرضی کا لبادہ اوڑھ کر دیے جا رہے ہیں۔
بدعنوانیوں اور گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آئینی گیت گائے جا رہے ہیں، کراچی سے لے کر سکھر تک عوامی سہولتوں کا فقدان ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رینجرز کی کامیابیوں نے سوئی ہوئی خلقت کو جگا دیا ہے، سیاسی دلیلوں نے دم توڑ دیا ہے قوم کے لیے ریاست اور ادارے بہت اہم ہیں۔ اس شہر کراچی اور حیدرآباد میں ٹریفک جلیبیوں کی شکل اختیار کر گئی ہے، غرض سارے محکمے چادر تان کر سو رہے ہیں، پانی کے بل آتے ہیں پانی نہیں ہے، گیس کے بل آتے ہیں ، گیس ندارد ہے۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے برانڈ کی مٹھائی کی دکان سے مٹھائی خریدنے کا اتفاق ہوا دس دن پہلے 500 روپے کلو لی۔ اس دفعہ راقم سے 520 روپے مانگے ہم نے کہا بھائی پورے ساڑھے پانچ سو کر دیتے تو اس کا جواب دکاندار نے بے شرمی سے دیتے ہوئے کہا، آپ 550 روپے دے دیں یہ کیا ہے یہ بھی کرپشن ہے جب کہ میدہ، چینی اور دودھ کی قیمتیں برقرار ہیں۔ بیورو کریٹ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار خدارا رینجرز کو سندھ میں کام کرنے دیں رینجرز کا دہشت گردی کرپشن کے خلاف آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے، رینجرز کے لیے زبانی اقرار تو سیاسی لوگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن دل سے ماننے کو تیار نہیں مگر عوامی نظر میں رینجرز کرپشن کے حوالے سے لائق عزت و تکریم ہوتی جا رہی ہے۔