فرینڈلی اپوزیشن کا قبل از وقت خاتمہ
جمہوریت بھلا کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو لیکن اُس کے فوائد و ثمرات سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔
ہماری قومی سیاست کے روایتی طریقہ کار اور سیاست دانوں کی موقعہ شناسی کو دیکھتے ہوئے یہ توقع تو کی جا رہی تھی کہ جیسے جیسے اگلے عام انتخابات قریب آتے جائیں گے پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومتِ وقت کے خلاف متحد اور منظم ہو کر ہر ایشو پر اُسے سخت اور ٹف ٹائم دیں گی، لیکن کراچی میں رینجرز کو مکمل اختیار دینے کے تنازع کے بعد یہ کام غیر ارادی طور پر کچھ پہلے ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب ِ اختلاف اور اُن کی جماعت نے ویسے تو اب تک حکومت کو ہر معاملے میں مکمل سپورٹ کیا۔ خاص کر دھرنے والے دنوں میں تو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ پارلیمنٹ کی ساری جماعتوں نے مل کر میاں صاحب کو اپنی واضح، ٹھوس اور غیر مشروط حمایت سے اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ اپنے اِس دورِ اقتدار کے سب سے مشکل اور خطرناک مرحلے سے بخیر و عافیت نکل آئے، ورنہ ایک دو موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔
میثاقِ جمہوریت کے متعین کردہ اُصولوں کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان غیر تحریری طور پر ایک سمجھوتہ بہرحال موجود ہے کہ دونوں اپنے اختلافات کی بناء پر اس حد تک آگے تک نہیں جائیں گے، جہاں کوئی تیسرا فریق اِن دونوں کی کشمکش اور مخدوش حالات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کر جائے اور وطنِ عزیز ایک بار بے یقینی اور نا اُمیدی کے اندھیروں میں غرق ہو جائے۔
جمہوریت بھلا کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو لیکن اُس کے فوائد و ثمرات سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ آج اگر حکومت کو اُس کے من مانے فیصلوں سے روکا جا رہا ہے تو اِسی جمہوریت کی بدولت۔ عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر دھرنا دے پائے تو یہ بھی اِسی جمہوریت کے تحت ممکن ہوا، ورنہ اگر کوئی غیرآئینی اور غیر جمہوری حکومت ہوتی تو وہ اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ٹی وی پر ٹاک شوز کے اینکروں اور تبصرہ نگاروں کی بے اعتدالی اور بے باکی اِسی جمہوریت کے ثمرات میں سے ایک ہے۔
اِ ن سب حالات اور حقیقتوں کے باوجود یہ بات ضرور محسوس کی گئی ہے کہ جب سے رینجرز نے کراچی میں دہشت گردی کے خلاف لڑتے لڑتے کرپشن کرنے والوں کے گریبانوں پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے زعماء کے تیور بدلنے لگے اور وہ پہلے نیم دلانا انداز اور دھیمے سروں میں احتجاج کرنے لگے اور پھر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور اُن کے مسلسل ریمانڈز پر اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ کھل کر میدان میں اُتر آئے۔
اور اب حالات یہ ہیں کہ حکومت کو اپنے ہر بڑے منصوبے اور کام میں زبردست مشکل کا سامنا ہے وہ نہ پاکستان اسٹیل ملز کو پرائیوٹائز کر پا رہی ہے اور نہ پی آئی اے کو۔ نہ کوئی ٹیکس ریفارم لا پا رہی ہے اور نہ ٹیکس ایمنسٹی کے اپنے پروگرام پر عمل کر پا رہی ہے۔ ایوان ِ بالا میں اکثریت چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے اور وہاں بیٹھے ہوئے چیئرمین کا تعلق بھی اُسی پارٹی سے ہے، لہذا اب وفاقی حکومت کے ہر تجویز کردہ اسکیم اور منصوبے کے خلاف ابتدا ہی میں قرارداد پاس کر کے ناکام و نامراد بنا دیا جاتا ہے۔
اپوزیشن اگر اِن دو بڑے قومی اداروں کو نجی تحویل میں دینے کے خلاف ہے، تو پھر اُسے درست کرنے کے طریقے بھی بتانا چاہیے۔ قوم اِ ن دونوں اداروں کو مسلسل خسارے میں چلانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ صرف قرارداد پاس کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا رول احسن طریقے سے ادا کر دیا ہے اور حکومتِ وقت کو اُس کے ہاتھ پیر باندھ کر اُسے نیچا دکھا دیا ہے، بالکل غلط اور نامناسب سوچ اور رویہ ہے۔
مخالفت میں قرارداد لانے والوں کو اُس کا دوسرا متبادل حل بھی نہ صرف تجویز کرنا چاہیے بلکہ اُس پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی بتانا چاہیے۔ ہر جمہوری معاشرے میں درست اور مثبت مخالفت کو سراہا جاتا ہے مگر مخالفت برائے مخالفت کے اُصولوں کے تحت محض غیر ضروری اور ضرر رساں مخالفت کی کسی طرح بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔
کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے بدلے اور انتقام کے طور پر کی جانے والی اپوزیشن اپنی اہمیت و افادیت کھو دیا کرتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کرپشن کے ناسور نے اِس ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز اگر آج تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں تو اِس کی بھی ایک بڑی وجہ کرپشن ہی ہے، اگر ہم نے اِس بڑے ناسور کا علاج نہیں کیا تو پھر ہمارا وطن عزیز اِسی طرح مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں میں غرق ہو کر دنیا کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
یہ درست ہے کہ کرپشن صرف صوبہ سندھ میں نہیں ہے بلکہ سارے ملک میں اِس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ہمیں کہیں سے تو اِسے روکنے کا اہتمام شروع کرنا ہو گا۔ جہاں سب سے زیادہ کرپشن ہے وہیں سے اِس کا آغاز کیا جائے تو اِس میں حرج اور مضائقہ کیا ہے۔ اِس وقت ہمارے دو صوبے پنجاب اور کے پی کے ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں بھی پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے مگر صوبہ سندھ ایک واحد صوبہ ہے جہاں اِس سمت میں کوئی قابل ِذکر کام نہیں ہو رہا۔ یہاں کے شہری اور دیہی سبھی لوگ اچھے دنوں کو ترس رہے ہیں۔ نہ کوئی بڑا پروجیکٹ اب تک سامنے آیا ہے اور نہ کوئی منصوبہ، اسپتالوں، اسکولوں اور دیگر حکومتی محکموں میں بہتری کے کوئی آثار نمودار نہیں ہو رہے۔ سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا حال نہایت ابتر اور شکستہ ہو چکا ہے۔
کوئی ترقیاتی کا م نہیں ہو رہا۔ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ میٹرو بس کی طرز پر کوئی اسکیم زیر ِغور بھی نہیں ہے۔ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ گزشتہ تیس سالوں سے صرف فائلوں ہی میں پڑا ہوا ہے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال بنانے کا کام بھی دس سالوں سے یونہی ادھورا رکھا ہوا ہے، پھر اگر کوئی ادارہ انتباہی اور تادیبی کارروائی کرتا ہے تو اِسے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیکر سندھ پر حملہ کہا جاتا ہے اور پھر جواباً ہر معاملے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ حکومت مخالفت میں اب تک ہم نے اپنے بڑے بڑے قومی ایشوز متنازع اور پیچیدہ بنا کر چھوڑ دیے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ اب پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ حکومت نے اِس کے روٹ میں تبدیلی کر دی ہے۔ جب یہ یقین دلا دیا گیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے تو اب کہا جا رہا ہے کہ مغربی روٹ کو وہ تمام سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو اِس کے مشرقی روٹ کو حاصل ہیں۔
روٹ کو متنازعہ بنانے اور اُس پر سب سے زیادہ اعتراض اگرچہ خیبر پختون خوا کے لیڈروں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اُس میں اپنا وزن ڈالنے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے۔ اُدھر اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اپنی ناکام سیاست میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے اِن ایشوز کو لے کر پی ٹی آئی کی ہم زبان اور ہم سخن بن گئی ہیں۔
خطرہ ہے کہ سیاستدانوں کے اِس غیر محتاط اور غیر دانشمندانہ رویے کی وجہ سے ہما ری ترقی اور خوشحالی کا ضامن اتنا اہم پروجیکٹ کہیں کالا باغ ڈیم کی مانند سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہو جائے اور ہم ایک خوشحال مستقبل کی جانب پیشرفت کرنے کی بجائے زوال و انحطاط کے سابقہ دور کی جانب رجعتِ قہقری کرنے لگیں۔
سیاست اور مخالفت کرنے کے لیے ہمارے پاس ابھی بہت وقت ہے۔ ہماری سیاسی قیادت سے استدعا ہے کہ وہ اِس اہم قومی معاملے کو اپنی کوتاہ اندیشیوں اور خود غرضیوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں اور باہم گفت و شنید اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد از جلد اِسے حل کریں۔ دنیا کی قوموں کو اپنے حالات سدھارنے کے لیے ایسے مواقعے کبھی کبھار ہی ملا کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم احساسِ زیاں سے بے نیاز ہو کر اپنے غیر ذمے دارانہ اور لا اُبالی پن کی وجہ سے دشمن کے ناپاک ارادوں اور سازشوں کو کامیاب کرتے ہوئے یہ سنہری موقع گنوا بیٹھیں۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب ِ اختلاف اور اُن کی جماعت نے ویسے تو اب تک حکومت کو ہر معاملے میں مکمل سپورٹ کیا۔ خاص کر دھرنے والے دنوں میں تو نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ پارلیمنٹ کی ساری جماعتوں نے مل کر میاں صاحب کو اپنی واضح، ٹھوس اور غیر مشروط حمایت سے اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ اپنے اِس دورِ اقتدار کے سب سے مشکل اور خطرناک مرحلے سے بخیر و عافیت نکل آئے، ورنہ ایک دو موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔
میثاقِ جمہوریت کے متعین کردہ اُصولوں کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان غیر تحریری طور پر ایک سمجھوتہ بہرحال موجود ہے کہ دونوں اپنے اختلافات کی بناء پر اس حد تک آگے تک نہیں جائیں گے، جہاں کوئی تیسرا فریق اِن دونوں کی کشمکش اور مخدوش حالات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کر جائے اور وطنِ عزیز ایک بار بے یقینی اور نا اُمیدی کے اندھیروں میں غرق ہو جائے۔
جمہوریت بھلا کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو لیکن اُس کے فوائد و ثمرات سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ آج اگر حکومت کو اُس کے من مانے فیصلوں سے روکا جا رہا ہے تو اِسی جمہوریت کی بدولت۔ عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر دھرنا دے پائے تو یہ بھی اِسی جمہوریت کے تحت ممکن ہوا، ورنہ اگر کوئی غیرآئینی اور غیر جمہوری حکومت ہوتی تو وہ اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ٹی وی پر ٹاک شوز کے اینکروں اور تبصرہ نگاروں کی بے اعتدالی اور بے باکی اِسی جمہوریت کے ثمرات میں سے ایک ہے۔
اِ ن سب حالات اور حقیقتوں کے باوجود یہ بات ضرور محسوس کی گئی ہے کہ جب سے رینجرز نے کراچی میں دہشت گردی کے خلاف لڑتے لڑتے کرپشن کرنے والوں کے گریبانوں پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے زعماء کے تیور بدلنے لگے اور وہ پہلے نیم دلانا انداز اور دھیمے سروں میں احتجاج کرنے لگے اور پھر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور اُن کے مسلسل ریمانڈز پر اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ کھل کر میدان میں اُتر آئے۔
اور اب حالات یہ ہیں کہ حکومت کو اپنے ہر بڑے منصوبے اور کام میں زبردست مشکل کا سامنا ہے وہ نہ پاکستان اسٹیل ملز کو پرائیوٹائز کر پا رہی ہے اور نہ پی آئی اے کو۔ نہ کوئی ٹیکس ریفارم لا پا رہی ہے اور نہ ٹیکس ایمنسٹی کے اپنے پروگرام پر عمل کر پا رہی ہے۔ ایوان ِ بالا میں اکثریت چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے اور وہاں بیٹھے ہوئے چیئرمین کا تعلق بھی اُسی پارٹی سے ہے، لہذا اب وفاقی حکومت کے ہر تجویز کردہ اسکیم اور منصوبے کے خلاف ابتدا ہی میں قرارداد پاس کر کے ناکام و نامراد بنا دیا جاتا ہے۔
اپوزیشن اگر اِن دو بڑے قومی اداروں کو نجی تحویل میں دینے کے خلاف ہے، تو پھر اُسے درست کرنے کے طریقے بھی بتانا چاہیے۔ قوم اِ ن دونوں اداروں کو مسلسل خسارے میں چلانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ صرف قرارداد پاس کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا رول احسن طریقے سے ادا کر دیا ہے اور حکومتِ وقت کو اُس کے ہاتھ پیر باندھ کر اُسے نیچا دکھا دیا ہے، بالکل غلط اور نامناسب سوچ اور رویہ ہے۔
مخالفت میں قرارداد لانے والوں کو اُس کا دوسرا متبادل حل بھی نہ صرف تجویز کرنا چاہیے بلکہ اُس پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی بتانا چاہیے۔ ہر جمہوری معاشرے میں درست اور مثبت مخالفت کو سراہا جاتا ہے مگر مخالفت برائے مخالفت کے اُصولوں کے تحت محض غیر ضروری اور ضرر رساں مخالفت کی کسی طرح بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔
کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے بدلے اور انتقام کے طور پر کی جانے والی اپوزیشن اپنی اہمیت و افادیت کھو دیا کرتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کرپشن کے ناسور نے اِس ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز اگر آج تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں تو اِس کی بھی ایک بڑی وجہ کرپشن ہی ہے، اگر ہم نے اِس بڑے ناسور کا علاج نہیں کیا تو پھر ہمارا وطن عزیز اِسی طرح مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں میں غرق ہو کر دنیا کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔
یہ درست ہے کہ کرپشن صرف صوبہ سندھ میں نہیں ہے بلکہ سارے ملک میں اِس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ہمیں کہیں سے تو اِسے روکنے کا اہتمام شروع کرنا ہو گا۔ جہاں سب سے زیادہ کرپشن ہے وہیں سے اِس کا آغاز کیا جائے تو اِس میں حرج اور مضائقہ کیا ہے۔ اِس وقت ہمارے دو صوبے پنجاب اور کے پی کے ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں بھی پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے مگر صوبہ سندھ ایک واحد صوبہ ہے جہاں اِس سمت میں کوئی قابل ِذکر کام نہیں ہو رہا۔ یہاں کے شہری اور دیہی سبھی لوگ اچھے دنوں کو ترس رہے ہیں۔ نہ کوئی بڑا پروجیکٹ اب تک سامنے آیا ہے اور نہ کوئی منصوبہ، اسپتالوں، اسکولوں اور دیگر حکومتی محکموں میں بہتری کے کوئی آثار نمودار نہیں ہو رہے۔ سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا حال نہایت ابتر اور شکستہ ہو چکا ہے۔
کوئی ترقیاتی کا م نہیں ہو رہا۔ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ میٹرو بس کی طرز پر کوئی اسکیم زیر ِغور بھی نہیں ہے۔ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ گزشتہ تیس سالوں سے صرف فائلوں ہی میں پڑا ہوا ہے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال بنانے کا کام بھی دس سالوں سے یونہی ادھورا رکھا ہوا ہے، پھر اگر کوئی ادارہ انتباہی اور تادیبی کارروائی کرتا ہے تو اِسے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیکر سندھ پر حملہ کہا جاتا ہے اور پھر جواباً ہر معاملے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ حکومت مخالفت میں اب تک ہم نے اپنے بڑے بڑے قومی ایشوز متنازع اور پیچیدہ بنا کر چھوڑ دیے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ اب پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ حکومت نے اِس کے روٹ میں تبدیلی کر دی ہے۔ جب یہ یقین دلا دیا گیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے تو اب کہا جا رہا ہے کہ مغربی روٹ کو وہ تمام سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو اِس کے مشرقی روٹ کو حاصل ہیں۔
روٹ کو متنازعہ بنانے اور اُس پر سب سے زیادہ اعتراض اگرچہ خیبر پختون خوا کے لیڈروں کی جانب سے کیے جا رہے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اُس میں اپنا وزن ڈالنے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے۔ اُدھر اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی اپنی ناکام سیاست میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے اِن ایشوز کو لے کر پی ٹی آئی کی ہم زبان اور ہم سخن بن گئی ہیں۔
خطرہ ہے کہ سیاستدانوں کے اِس غیر محتاط اور غیر دانشمندانہ رویے کی وجہ سے ہما ری ترقی اور خوشحالی کا ضامن اتنا اہم پروجیکٹ کہیں کالا باغ ڈیم کی مانند سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہو جائے اور ہم ایک خوشحال مستقبل کی جانب پیشرفت کرنے کی بجائے زوال و انحطاط کے سابقہ دور کی جانب رجعتِ قہقری کرنے لگیں۔
سیاست اور مخالفت کرنے کے لیے ہمارے پاس ابھی بہت وقت ہے۔ ہماری سیاسی قیادت سے استدعا ہے کہ وہ اِس اہم قومی معاملے کو اپنی کوتاہ اندیشیوں اور خود غرضیوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں اور باہم گفت و شنید اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد از جلد اِسے حل کریں۔ دنیا کی قوموں کو اپنے حالات سدھارنے کے لیے ایسے مواقعے کبھی کبھار ہی ملا کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم احساسِ زیاں سے بے نیاز ہو کر اپنے غیر ذمے دارانہ اور لا اُبالی پن کی وجہ سے دشمن کے ناپاک ارادوں اور سازشوں کو کامیاب کرتے ہوئے یہ سنہری موقع گنوا بیٹھیں۔