بولنے والا موبائل
استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی نے پاکستانی عوام کے نفسیاتی رجحان میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان میں پائیدار، مضبوط اور دیرپا چلنے والے موبائل سیٹ متعارف ہوئے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب موبائل ہاتھ میں لے کر چلنا ایک اسٹیٹس کا حصہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ موبائل سیٹ بہت مہنگے اور عوام کی پہنچ سے دور تھے۔لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور پھر نئی نئی موبائل سیٹ کمپنیوں کی پاکستان میں آمد ہوئی جنہوں نے جدید اور سستے موبائل متعارف کروانے شروع کیے۔
ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں موجود فیچرز، جیسے ٹچ موبائل، ریڈیو، ٹارچ، ایک سے زیادہ سم لگانے کی سہولت وغیرہ بیک وقت موجود تھیں۔ پھر اس پر مزید یہ نہایت سستے داموں مارکیٹ میں نظر آنے لگے۔ پھر اِس کے ساتھ بھی عوام نے وہی سلوک کیا جو ہر نئی آنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستانی عوام کرتی ہے۔ موبائل سیٹ اتنے عام ہوئے کہ اب گدھا گاڑی والے سے لے کر ایک فقیر کے پاس بھی موبائل آگیا۔
عوام کے ہاتھ موبائل آنے سے گویا عوام کو قوت گویائی مل گئی۔ جسے دیکھو موبائل پر کسی نہ کسی سے بات میں مصروف نظر آئے گا۔ کوئی راہ چلتے موبائل پر بات کرتے ہوئے چلتا دکھائی دے گا تو کوئی گاڑی چلاتے ہوئے کانوں سے موبائل یا ہینڈ فری لگائے دکھائی دے گا، اِس سے آگے بڑھ کر آپ کو کہیں نہ کہیں کوئی راہ چلتے موبائل سے سلفیاں لیتا نظر آئے گا تو کوئی موبائل پر ٹیکسٹ میسجز کرنے میں مصروف ہے۔
وقت نے گویا سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ لوگ جو ملنے کے لیے دور دراز سے ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے تھے، اب موبائل پر بات کرکے وقت بچالیتے ہیں۔ اپنوں سے جڑے لوگ گھر کے اپنوں سے بھی دور چلے گئے ہیں۔ ناشتے کی میز پر بیٹھا بچہ اپنے والد کو دیکھ رہا ہے جو ناشتہ کے ساتھ ساتھ موبائل سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسکول میں بچے پڑھنے کے بجائے موبائل سے استفادہ کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرسکیں۔ لکھنے پڑھنے کا رجحان تو پہلے بھی نہیں تھا اور موبائل نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور ایک ایسی زبان متعارف کروا دی جسے پتا نہیں کیوں رومن اردو کا لقب دے دیا گیا۔ خط لکھنے کا رواج گویا ختم ہو کر رہ گیا اور پھر جواب کا انتظار۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ پہلے گھڑی ختم ہوئی پھر ریڈیو ختم ہوا، پھر ٹارچ ختم ہوئی اور اب کیمرے بھی مارکیٹ سے غائب ہورہے ہیں۔
آج اگر صحیح معنوں میں کوئی کمپنی پاکستان میں بزنس کررہی ہے تو وہ یہی موبائل کمپنیاں ہیں جن کے اشتہارت سے ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ موبائل ہی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جیسے جیسے موبائل کے کسٹمرز میں بے حساب اضافہ ہوا ہے۔ اسی قدر موبائل کے سیٹ اور ان کی کوالٹی میں بھی فرق آیا ہے۔ لوگ ایک سیٹ ایک سال وارنٹی میں رکھ کر وارنٹی ختم ہونے سے پہلے فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ان کو شاید اچھی قیمت ملے نہ ملے لیکن نیا موبائل مل جاتا ہے۔
استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی نے پاکستانی عوام کے نفسیاتی رجحان میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دوستی کرکے نبھانے کے بجائے استعمال کر کے بھول جاتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر موبائل خریدتے وقت پر انہیں چیزوں کو نہ صرف پسند کرتا ہوں بلکہ پائیدار اور مضبوطی کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں۔ یہی سوچ کر نوکیا کا ایک موبائل سیٹ خریدا تھا کہ جس میں شاید وہ سب فیچرز نہیں تھے جو ایک اچھے موبائل کی پہچان سمجھے جاسکتے ہوں لیکن پچھلے دنوں یہ موبائل بھی 6 ماہ بعد ہی دھوکہ دے گیا۔ میں نے موبائل کا وارنٹی کارڈ نکالا اور اس پر دیئے گئے کسٹمر کیئر سینٹر گلشن اقبال برانچ جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ اسے یہاں سے بند ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے اور اب ان کا صرف ایک ہی آفس ہے جو عبداﷲ ہارون روڈ پر واقع ہے۔
ایک بار غلطی کرنے کے بعد دوبارہ غلطی کرنا کچھ مناسب نہ تھا۔ اس لیے پہلے گوگل کے نقشہ پر اسے تلاش کرکے اس بات کو یقینی بنایا کہ اب یہ غلطی نہ ہونے پائے۔ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ دفتر یہاں سے تھوڑا دور عمہ ٹاور، فاطمہ جناح روڈ پر شفٹ ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچے تو علم ہوا کہ میرے موبائل میں ایک دلچسپ فیچر ہے جس سے میں اس سے قبل واقف نہ تھا اور وہ یہ کہ موبائل بولتا بھی ہے۔ خراب ہونے والے موبائل نے بتایا کہ اس میں پانی گیا ہے۔ اس سے قبل ٹیکنیشن نے سیٹ دیکھتے ہی بتادیا تھا کہ یہ کہیں گرا ہے۔ اس لیے وارنٹی کلیم نہیں ہوسکتی۔ میں یہاں سے نامراد لوٹنے والا اکیلا شخص نہ تھا بلکہ اس سے قبل بھی میرے سامنے کئی حضرات لڑتے جھگڑتے جاچکے تھے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کئی بار میرا سابقہ دوسری موبائل کمپنیوں کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ وارنٹی دینا ایک بات ہے اور اسے نبھانا دوسری بات۔
یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ میرا سیٹ تو سستا سا تھا۔ جسے میں ٹھیک کروالوں گا لیکن موبائل سیٹ کمپنیوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ اگر وہ اشتہارات کے بجائے کسٹمرز پر تھوڑا پیسہ خرچ کردیں تو شاید ایک بار کسٹمر بننے والے کسی دوسرے کے پاس کبھی نہ جائیں اور اگر آپ نے وارنٹی کو نبھانا نہیں ہے تو برائے کرم اس طرح لوگوں کو خوار نہ کریں۔ موبائل کے ساتھ دیئے گئے وارنٹی کارڈ پر تمام پتے اور نمبرز غلط شائع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کس قدر کسٹمرز کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ آج میں نے آپ کے سامنے موبائل کا وہ فیچر رکھا ہے جس سے آپ اس وقت واقف ہوں گے جب آپ کا موبائل وارنٹی کے اندر خراب ہوگا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جب تعداد بڑھ جائے تو معیار میں فرق آہی جاتا ہے۔ اور ویسے بھی ہم معیار کے نہیں تعداد کے قائل ہیں۔
[poll id="887"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں موجود فیچرز، جیسے ٹچ موبائل، ریڈیو، ٹارچ، ایک سے زیادہ سم لگانے کی سہولت وغیرہ بیک وقت موجود تھیں۔ پھر اس پر مزید یہ نہایت سستے داموں مارکیٹ میں نظر آنے لگے۔ پھر اِس کے ساتھ بھی عوام نے وہی سلوک کیا جو ہر نئی آنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستانی عوام کرتی ہے۔ موبائل سیٹ اتنے عام ہوئے کہ اب گدھا گاڑی والے سے لے کر ایک فقیر کے پاس بھی موبائل آگیا۔
عوام کے ہاتھ موبائل آنے سے گویا عوام کو قوت گویائی مل گئی۔ جسے دیکھو موبائل پر کسی نہ کسی سے بات میں مصروف نظر آئے گا۔ کوئی راہ چلتے موبائل پر بات کرتے ہوئے چلتا دکھائی دے گا تو کوئی گاڑی چلاتے ہوئے کانوں سے موبائل یا ہینڈ فری لگائے دکھائی دے گا، اِس سے آگے بڑھ کر آپ کو کہیں نہ کہیں کوئی راہ چلتے موبائل سے سلفیاں لیتا نظر آئے گا تو کوئی موبائل پر ٹیکسٹ میسجز کرنے میں مصروف ہے۔
وقت نے گویا سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ لوگ جو ملنے کے لیے دور دراز سے ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے تھے، اب موبائل پر بات کرکے وقت بچالیتے ہیں۔ اپنوں سے جڑے لوگ گھر کے اپنوں سے بھی دور چلے گئے ہیں۔ ناشتے کی میز پر بیٹھا بچہ اپنے والد کو دیکھ رہا ہے جو ناشتہ کے ساتھ ساتھ موبائل سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسکول میں بچے پڑھنے کے بجائے موبائل سے استفادہ کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرسکیں۔ لکھنے پڑھنے کا رجحان تو پہلے بھی نہیں تھا اور موبائل نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور ایک ایسی زبان متعارف کروا دی جسے پتا نہیں کیوں رومن اردو کا لقب دے دیا گیا۔ خط لکھنے کا رواج گویا ختم ہو کر رہ گیا اور پھر جواب کا انتظار۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ پہلے گھڑی ختم ہوئی پھر ریڈیو ختم ہوا، پھر ٹارچ ختم ہوئی اور اب کیمرے بھی مارکیٹ سے غائب ہورہے ہیں۔
آج اگر صحیح معنوں میں کوئی کمپنی پاکستان میں بزنس کررہی ہے تو وہ یہی موبائل کمپنیاں ہیں جن کے اشتہارت سے ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ موبائل ہی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جیسے جیسے موبائل کے کسٹمرز میں بے حساب اضافہ ہوا ہے۔ اسی قدر موبائل کے سیٹ اور ان کی کوالٹی میں بھی فرق آیا ہے۔ لوگ ایک سیٹ ایک سال وارنٹی میں رکھ کر وارنٹی ختم ہونے سے پہلے فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ان کو شاید اچھی قیمت ملے نہ ملے لیکن نیا موبائل مل جاتا ہے۔
استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی نے پاکستانی عوام کے نفسیاتی رجحان میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دوستی کرکے نبھانے کے بجائے استعمال کر کے بھول جاتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر موبائل خریدتے وقت پر انہیں چیزوں کو نہ صرف پسند کرتا ہوں بلکہ پائیدار اور مضبوطی کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں۔ یہی سوچ کر نوکیا کا ایک موبائل سیٹ خریدا تھا کہ جس میں شاید وہ سب فیچرز نہیں تھے جو ایک اچھے موبائل کی پہچان سمجھے جاسکتے ہوں لیکن پچھلے دنوں یہ موبائل بھی 6 ماہ بعد ہی دھوکہ دے گیا۔ میں نے موبائل کا وارنٹی کارڈ نکالا اور اس پر دیئے گئے کسٹمر کیئر سینٹر گلشن اقبال برانچ جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ اسے یہاں سے بند ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے اور اب ان کا صرف ایک ہی آفس ہے جو عبداﷲ ہارون روڈ پر واقع ہے۔
ایک بار غلطی کرنے کے بعد دوبارہ غلطی کرنا کچھ مناسب نہ تھا۔ اس لیے پہلے گوگل کے نقشہ پر اسے تلاش کرکے اس بات کو یقینی بنایا کہ اب یہ غلطی نہ ہونے پائے۔ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ دفتر یہاں سے تھوڑا دور عمہ ٹاور، فاطمہ جناح روڈ پر شفٹ ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچے تو علم ہوا کہ میرے موبائل میں ایک دلچسپ فیچر ہے جس سے میں اس سے قبل واقف نہ تھا اور وہ یہ کہ موبائل بولتا بھی ہے۔ خراب ہونے والے موبائل نے بتایا کہ اس میں پانی گیا ہے۔ اس سے قبل ٹیکنیشن نے سیٹ دیکھتے ہی بتادیا تھا کہ یہ کہیں گرا ہے۔ اس لیے وارنٹی کلیم نہیں ہوسکتی۔ میں یہاں سے نامراد لوٹنے والا اکیلا شخص نہ تھا بلکہ اس سے قبل بھی میرے سامنے کئی حضرات لڑتے جھگڑتے جاچکے تھے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کئی بار میرا سابقہ دوسری موبائل کمپنیوں کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ وارنٹی دینا ایک بات ہے اور اسے نبھانا دوسری بات۔
یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ میرا سیٹ تو سستا سا تھا۔ جسے میں ٹھیک کروالوں گا لیکن موبائل سیٹ کمپنیوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ اگر وہ اشتہارات کے بجائے کسٹمرز پر تھوڑا پیسہ خرچ کردیں تو شاید ایک بار کسٹمر بننے والے کسی دوسرے کے پاس کبھی نہ جائیں اور اگر آپ نے وارنٹی کو نبھانا نہیں ہے تو برائے کرم اس طرح لوگوں کو خوار نہ کریں۔ موبائل کے ساتھ دیئے گئے وارنٹی کارڈ پر تمام پتے اور نمبرز غلط شائع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کس قدر کسٹمرز کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ آج میں نے آپ کے سامنے موبائل کا وہ فیچر رکھا ہے جس سے آپ اس وقت واقف ہوں گے جب آپ کا موبائل وارنٹی کے اندر خراب ہوگا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جب تعداد بڑھ جائے تو معیار میں فرق آہی جاتا ہے۔ اور ویسے بھی ہم معیار کے نہیں تعداد کے قائل ہیں۔
[poll id="887"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔