جال نیا شکاری پرانا

آزادی نسواں اور صنفی امتیاز کے خاتمے کا حصول پاکستان میں خواتین کو ’’موٹر سائیکل چلانے‘‘ کی آزادی ملنا قرار پایا ہے۔


مہتاب عزیز January 13, 2016
مغربی تھنک ٹینک واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں مضبوط خاندانی اور اقدار سے محبت موجود رہے گی، تب تک یہاں سیکولر ازم کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ فوٹو: اے ایف پی

FAISALABAD: یہ 1920ء کے عشرے کا آغاز تھا۔ جب یورپ پہلی جنگِ عظیم کے تباہ کُن اثرات کی وجہ سے بدترین کساد بازاری کا شکار تھا۔ جنگ کے باعث یورپ کی صنعتیں بُری طرح تباہی کا شکار ہوئیں تھیں۔ بدترین تباہی کے بعد مستقبل میں ایک اور بڑی جنگ کے آثار بھی نمایاں طور دکھائی دے رہے تھے۔

عین یہی موقع تھا جب بڑے سرمایہ داروں (جن میں اکثریت یہودیوں کی تھی) نے اپنے سرمائے کو جنگ زدہ یورپ سے محفوظ سرزمین امریکہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ میں بڑے بڑے صنعتی یونٹ قائم ہونے لگے۔ شہروں میں فلک بوس عمارات تعمیر ہونا شروع ہوگئیں۔ اچانک صنعتی اور تعمیراتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے مزدورں اور ہنر مندوں کے معاوضوں میں ہوش رہا اضافہ ہوگیا۔ امریکی معاشرہ جو اُس وقت تک ایک زرعی معاشرہ تھا جہاں خواتین کے مزدوری کرنے کو معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ مرد ہی خاندان کا کفیل ہوا کرتا تھا۔ اس لئے دستیاب ورک فورس محدود تھی۔ سرمایہ داروں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے مضبوط امریکی خاندانی نظام کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کے لئے آزادی نسواں کی ایک بڑی اشتہاری مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں خواتین کی آزادیوں کا عنوان ''سیگریٹ پینا'' تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت تک امریکہ میں خواتین کے لئے ''سیگریٹ پینا'' معیوب سمجھا جاتا تھا۔ خواتین کو بتایا جاتا کہ انہیں اقدار کی بیڑیوں میں جکڑ کر سیگریٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہیں یہ زنجیریں توڑ کر سیگریٹ پینے کا حق حاصل کرنا ہوگا۔ ان اشتہارات میں خواتین کو باور کروایا جاتا کہ سیگریٹ پینے سے اُن کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، اُن کا سراپہ اسمارٹ اور شخصیت جازبِ نظر دکھائی دے گی۔ اشتہاری مہم کامیاب رہی، خواتین نے سگریٹ کا بے محابہ استعمال شروع کردیا۔ جس کے لئے انہیں زیادہ پیسوں کی ضرورت پڑنے لگی۔ دوسری جانب خاندان سے بغاوت کے نتیجے میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔



اس تباہی کے نتیجے میں خواتین کی بڑی تعداد کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے محنت مزدوری کے لئے نکلنا پڑا۔ جس کے نتیجے میں طلب اور رسد کی قوانین کے مطابق نہ سرمایہ داروں کو سستی لیبر میسر آئی بلکہ خواتین کو مردوں کی نسبت مزید کم معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ رجحان امریکہ میں آج تک برقرار ہے، ایک صدی بعد بھی اکثر پیشوں میں خواتین کو مردوں سے کم معاوضہ ملتا ہے۔

آج ویسی ہی کمپین ''ویمن آن وہیلز'' کے نام سے لاہور میں چلائی جا رہی ہے۔ آزادی نسواں اور صنفی امتیاز کے خاتمے کا حصول یہاں خواتین کو ''موٹر سائیکل چلانے'' کی آزادی ملنا قرار پایا ہے۔ یاد رہے کہ یہی مہم 80ء کے عشرے میں انڈیا میں چلائی گئی تھی۔ وہاں بھی خواتین کو موٹر سائیکل اور اسکوٹر چلانے کی ترغیب دی گئی تھی۔ آج انڈیا کے بڑے شہروں میں ہر تیسرے اسکوٹر پر ایک خاتون براجمان نظر آتی ہے۔ اس مہم کے نتیجے میں ہندوستان کی ورک فورس میں اضافہ اور مختلف پیشوں کے معاوضے خطے کے دیگر ممالک کی نسبت خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی شہری علاقوں میں خاندانی نظام بھی بُری طرح بگڑ چکا ہے۔



اب شہباز شریف غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر یہی کھیل پاکستان میں کھیل رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہی وزیر اعظم نوازشریف پاکستان کو لبرل بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ مغربی تھنک ٹینک واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں مضبوط خاندانی اور اقدار سے محبت موجود رہے گی، تب تک یہاں سیکولر ازم کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو بظاہر بے ضرر کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن ماضی کے تجربات اُن کے تباہ کُن اثرات کی افادیت ثابت کرچکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں برسرِ اقتدار صنعت کار خاندان کی خواہش سستی ترین لیبر فورس کا حصول بھی ہے۔



بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) پہلے ہی قرار دے چکا ہے کہ اگر پاکستان کے شہروں میں خواتین کو گھروں سے نکالا جائے اور انکو شہر کے اندر سفر پر آمادہ کیا جا سکے تو دستیاب لیبر فورس میں ایک تہائی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد طلب اور رسد کے قانون کی روشنی میں مزدور کے معاوضے میں 30 فیصد کی کمی ہو جائے گی۔

[poll id="888"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں