بلوچستان سیکیورٹی فورسز ’’مارو اور پھینک دو‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں امریکا کا الزام
عدالت ہلاکتوں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے ، امریکی مندوب کا جنیوا میں اجلاس سے خطاب
امریکا نے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ صوبے میں سکیورٹی دستے مارو اور پھینک دو کی پالیسی کے تحت شہری حقوق کے حامیوں ، بلوچ کارکنوں ، ان کے اہلِخانہ ، صحافیوں ، سیاسی کارکنوں اور طالبِعلم رہنمائوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔
چنانچہ بلوچ سماج منتشر ہو رہا ہے اور اعتدال پسندی کیلیے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں ۔ یہ بات جنیوا میں امریکی مندوب نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جائزہ اجلاس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِحال پر بحث کے دوران کہی ۔ امریکی مندوب نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں منحرفین کو بزور خاموش کرنے کی کارروائی روکی جائے اور قومی سطح پر تشدد ، شہریوں کو جبری طور پر غائب کرنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے ۔
امریکی مندوب نے احمدیوں اور عیسائیوں کے علاوہ اہلِ تشیع پر بڑھتے ہوئے حملوں اور ان کی چھان بین میں مبینہ تساہل پر بھی تشویش ظاہر کی ۔ قبل ازیں پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے اجلاس سے خطاب کے دوران امریکا کی ڈرون حملوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے سبب دہشت گردی کیخلاف عمومی حمایت حاصل کرنے میں حکومت کو ناکامی ہو رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ اور میڈیا مکمل آزاد ہے ۔ تاہم انھوں نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ پاکستان گذشتہ چار برس میں صحافیوں کیلیے سب سے غیرمحفوظ ممالک میں شمار ہونے لگا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ۔
انھوں نے بلوچستان کے حالات کا براہ راست تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف اقدامات میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جا رہی ہے ۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے شدت پسندوں سے نمٹنے کی کاروائیوں میں انسانی حقوق کے احترام اور پیشہ ورانہ معیارات پر کاربند ہیں اور ان اداروں کے افسروں کیخلاف شکایات کو متعلقہ ادارے ، پارلیمنٹ اور عدلیہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ حنا ربانی نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ نے خواتین کے حقوق سے متعلق جتنی قانون سازی کی اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ سمیت بہت سے مندوبین نے ملالہ یوسفزئی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے امید کی علامت قرار دی ۔
ساڑھے تین گھنٹے کی کارروائی کے دوران اناسی ممالک کی جانب سے پاکستان کو انسانی حقوق کے متعلق مختلف تجاویز دی گئیں ۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، سویڈن اور کینیڈا سمیت زیادہ تر مغربی ممالک نے توہین ِ مذہب کے قانون میں بین الاقوامی کنونشنز کی روشنی میں تبدیلی اور شہریوں کے جبری اغوا کیخلاف بین الاقوامی کنونشن پر دستخط ، خواتین ، بچوں اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کے حقوق کی موثر قانونی پاسداری ، جبری شادی کے رجہان اور انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کیلیے موجود قوانین پر موثر عملدرآمد کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے جانی تحفظ پر بھی زور دیا ۔
الجزائر، سعودی عرب، بحرین اور انڈونیشیا بیشتر افریقی و ایشیائی مسلمان ممالک اور چین، نیپال، بھوٹان، برما اور سری لنکا سمیت علاقائی ممالک نے پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی ، سیاسی اور اندرونی دہشت گردی کے چیلنجوں کے تناظر میں انسانی حقوق کے شعبے میں قانون سازی میں پیشرفت پر اطمینان کا ظاہر کیا ۔ اقوامِ متحدہ کے اس جائزہ اجلاس میں اس بار اڑتالیس ممالک میں انسانی حقوق کے حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ چار سال کے عرصے میں اقوامِ متحدہ کے ایک سو بانوے ارکان میں سے ہر ایک کو ہر چار برس بعد اس جائزے سے گزرنا پڑتا ہے ۔
چنانچہ بلوچ سماج منتشر ہو رہا ہے اور اعتدال پسندی کیلیے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں ۔ یہ بات جنیوا میں امریکی مندوب نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جائزہ اجلاس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِحال پر بحث کے دوران کہی ۔ امریکی مندوب نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں منحرفین کو بزور خاموش کرنے کی کارروائی روکی جائے اور قومی سطح پر تشدد ، شہریوں کو جبری طور پر غائب کرنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے ۔
امریکی مندوب نے احمدیوں اور عیسائیوں کے علاوہ اہلِ تشیع پر بڑھتے ہوئے حملوں اور ان کی چھان بین میں مبینہ تساہل پر بھی تشویش ظاہر کی ۔ قبل ازیں پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے اجلاس سے خطاب کے دوران امریکا کی ڈرون حملوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے سبب دہشت گردی کیخلاف عمومی حمایت حاصل کرنے میں حکومت کو ناکامی ہو رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ اور میڈیا مکمل آزاد ہے ۔ تاہم انھوں نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ پاکستان گذشتہ چار برس میں صحافیوں کیلیے سب سے غیرمحفوظ ممالک میں شمار ہونے لگا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ۔
انھوں نے بلوچستان کے حالات کا براہ راست تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف اقدامات میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جا رہی ہے ۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے شدت پسندوں سے نمٹنے کی کاروائیوں میں انسانی حقوق کے احترام اور پیشہ ورانہ معیارات پر کاربند ہیں اور ان اداروں کے افسروں کیخلاف شکایات کو متعلقہ ادارے ، پارلیمنٹ اور عدلیہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ حنا ربانی نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ نے خواتین کے حقوق سے متعلق جتنی قانون سازی کی اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ سمیت بہت سے مندوبین نے ملالہ یوسفزئی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے امید کی علامت قرار دی ۔
ساڑھے تین گھنٹے کی کارروائی کے دوران اناسی ممالک کی جانب سے پاکستان کو انسانی حقوق کے متعلق مختلف تجاویز دی گئیں ۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، سویڈن اور کینیڈا سمیت زیادہ تر مغربی ممالک نے توہین ِ مذہب کے قانون میں بین الاقوامی کنونشنز کی روشنی میں تبدیلی اور شہریوں کے جبری اغوا کیخلاف بین الاقوامی کنونشن پر دستخط ، خواتین ، بچوں اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کے حقوق کی موثر قانونی پاسداری ، جبری شادی کے رجہان اور انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کیلیے موجود قوانین پر موثر عملدرآمد کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے جانی تحفظ پر بھی زور دیا ۔
الجزائر، سعودی عرب، بحرین اور انڈونیشیا بیشتر افریقی و ایشیائی مسلمان ممالک اور چین، نیپال، بھوٹان، برما اور سری لنکا سمیت علاقائی ممالک نے پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی ، سیاسی اور اندرونی دہشت گردی کے چیلنجوں کے تناظر میں انسانی حقوق کے شعبے میں قانون سازی میں پیشرفت پر اطمینان کا ظاہر کیا ۔ اقوامِ متحدہ کے اس جائزہ اجلاس میں اس بار اڑتالیس ممالک میں انسانی حقوق کے حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ چار سال کے عرصے میں اقوامِ متحدہ کے ایک سو بانوے ارکان میں سے ہر ایک کو ہر چار برس بعد اس جائزے سے گزرنا پڑتا ہے ۔