مغرب کا تصور آزادی اور ہم پہلا حصہ
لفظ ’آزادی‘ ایسا خوبصورت اور سحرانگیز لفظ ہے کہ مغرب کی طرح آج ہم بھی اس کے دلدادہ نظر آتے ہیں
لفظ 'آزادی' ایسا خوبصورت اور سحرانگیز لفظ ہے کہ مغرب کی طرح آج ہم بھی اس کے دلدادہ نظر آتے ہیں اور مغرب کی نقالی کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، لیکن شاید ہماری اکثریت کو یہ علم نہیں کہ یہ ایک مغربی اصطلاح ہے جس میں بہت کچھ پوشیدہ ہے، آئیے تھوڑا سا جائزہ لیں کہ اس میں کیا کچھ پوشیدہ ہے۔
لفظ 'آزادی' کے ساتھ ایک اہم سوال بھی اپنا وجود رکھتا ہے کہ 'کس سے آزادی؟' اس سوال سے متعلق مغرب میں یہ تعریف کی گئی ہے کہ ''حدود بندیوں، پابندیوں، جکڑبندیوں اور رکاوٹوں'' کے خاتمے کے نتیجے میں جو شے نمودار ہو گی، دراصل وہی 'آزادی' ہے۔
اس سوال پر کہ 'کس سے آزادی ؟' غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ''حدود بندیوں، پابندیوں، جکڑ بندیوں اور رکاوٹوں'' سے آزادی چاہیے وہ عموماً تین اقسام کی ہوتی ہیں یعنی ۔
-1 مذہبی
-2معاشرتی اور خاندانی
3۔ قانونی رکاوٹیں یا پابندیاں
مذہبی رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی فرد کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں سب سے زیادہ پابندیاں مذہب کی جانب سے ہی آتی ہیں۔ مثلاً فرد کے سونے، جاگنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں، عبادت کے لیے مخصوص اوقات ہو تے ہیں، حلال و حرام کے حوالے سے ہدایات ہوتی ہیں، خواتین کے حوالے سے پردہ اور مخلوط ماحول کی پابندیاں، ستر کا حکم، طریقہ تعلیم و مقاصد تعلیم بھی مذہب ہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح یہ کہ کاروبار کس طرح کرنا ہے۔
اس سے متعلق شرائط، لباس زیب تن کرنے سے متعلق ہدایات کہ کس طرح اور کس حد تک ستر کا خیال رکھنا ہے، پھر زندگی کے تمام آداب کی پابندی مثلاً محلے دار، رشتے دار، مہمان وغیرہ سے میل جول کے آداب، شادی بیاہ کے آداب۔ یوں آزادی کے حصول یا اس میں اضافے کے لیے مذہبی پابندیاں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ مذہبی عقائد کی آزادانہ تشریحات میں مذہبی رہنما مثلاً پادری، علماء اور پنڈت وغیرہ کا اہم کردار ہوتا ہے یہ لوگوں کو مذہبی تعلیمات (یعنی پابندیوں) سے روشناس کراتے ہیں اور اس سلسلے میں تلقین و تنبیہ کرتے ہیں چنانچہ یہ مذہبی رہنما یعنی یہ اتھارٹی بھی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
با الفاظ دیگر ایک مذہبی معاشرے میں، مذہبی رکاوٹیں ہی (مغرب کے تصور آزادی کے مطابق) آزادی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ لٰہذا ایک ایسی ریاست کا وجود لانا ہو کہ جہاں مکمل آزادی ہو یعنی فرد آزاد ہو کہ وہ اپنی مرضی کے تحت مذہبی تعلیمات و احکامات پر چاہے عمل کرے یا بالکل نہ کرے، وہاں مذہبی اتھارٹی کو ختم کرنا ضروری ہو گا۔
مذہب کے بعد 'آزادی' کی راہ میں رکاوٹیں معاشرہ اور خاندان لاتا ہے۔ مثلاً نئی نسل پر سب سے زیادہ پابندیاں خاندان کے بزرگ اور ماں باپ لگاتے ہیں۔ اخلاقی وغیر اخلاقی فکر یہی لوگ دیتے ہیں، محرم و نامحرم کے درس پر عمل درآمد بھی یہی اتھارٹی عمل کراتی ہے۔ گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ بھی یہی اتھارٹی ڈالتی ہے۔ اس تناظر میں مغرب کا فلسفی ڈلیوز کہتا ہے کہ سب سے بڑا استعمار درحقیقت خاندان اور ماں باپ ہوتے ہیں جو بچے کو پیدائش کے وقت سے ہی جکڑ بندیوں کا شکار کر لیتے ہیں، یعنی بچپن ہی سے ایک بچے پر اپنی مخصوص زبان، مخصوص ثقافت، روایات اور طرز فکر مسلط کر دی جاتی ہے۔
اسی طرح خاندان کی جانب سے بہت ساری رکاوٹیں ماں، باپ، بھائی اور شوہر وغیرہ کی اتھارٹی آزادی میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں جیسے جیسے 'آزادی' کا حصول تیز تر ہوا ، ویسے ویسے وہاں خاندانی نظام کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔
جب کسی معاشرے میں مرد و زن کو آزادی یا حقوق مل رہے ہوں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے میں مذہبی، معاشرتی، خاندانی پابندیاں رکاوٹیں ختم ہونے کے باعث اس معاشرے میں مذہب، معاشرت و خاندان کے حفظ مراتب بھی ختم ہو رہے ہوتے ہیں۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معاشرے میں موجود ایسی اتھارٹیز جن کے پاس فرد کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کی صلاحیت (قوت) ہوتی ہے، ان سے رکاوٹ کھڑی کرنے کی یہ قوت چھین کر فرد کو منتقل کر دی جاتی ہے، اسی عمل کا نام آزادی ہے۔
یہ منتقلی حق کے نام پر کی جاتی ہے کہ یہ قوت صرف فرد کا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب میں 'حق ' کے حصول کے لیے مختلف ادارے (این جی اوز) کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جب کسی معاشرے میں خواتین یا بچوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ مذہب، اخلاقیات، روایات، خاندانی بالخصوص ماں، باپ، بھائی اور شوہر کی جانب سے مسلط کردہ اخلاقی، مذہبی، روایاتی جکڑبندیوں، پابندیوں اور ان کی اتھارٹی کو کمزور کر کے (یعنی ان کی قوت چھین کر) 'حق' (Right) کی اصطلاح کے تناظر میں فرد کی سطح پر عورت یا بچے کو منتقل کر دی جائے اور ریاست ان اتھارٹی کی قوت ختم کر کے فرد کی پشت پر کھڑی ہو جائے تا کہ ریاست کی قوت کے بل پر ان ختم ہونے والی اتھارٹی کے دباؤ کے اثرات کو ختم کیا جا سکے۔
اس عمل سے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے، مثلاً اس تصور آزادی کے تحت جس معاشرے میں افراد اپنے بزرگوں (ماں، باپ وغیرہ ) کی خدمت کے لیے اپنا وقت صرف کریں گے ان کی زندگی میں رکاوٹ زیادہ ہو گی بہ نسبت ان افراد کے جو اپنے بزرگوں کی خدمت نہیں کرتے لیکن پھر ایسے آزاد معاشرے میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے 'اولڈ ہاؤسز' بھی لازمی ہونگے اور ڈے کیئر سینٹرز بھی ہونگے، جہاں والدین اپنے بچوں کو دن بھر چھوڑ کر خود آزادی سے اپنا وقت ملازمت وغیرہ میں گزار سکتے ہیں۔
'آزادی ' کے اس تصور میں قانونی رکاوٹ بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قانون فرد کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ قانونی رکاوٹوں کی سب سے خطرناک بات اس میں پنہاں ہوتی ہے کہ فرد اگر ان جکڑ بندیوں کو نظر انداز کر کے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اس لیے ایک آزاد معاشرے اور فرد کی زندگی میں سب سے زیادہ عملی رکاوٹیں، پابندیاں قانونی جکڑبندیوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔
اسی لیے ان سے نجات کے لیے ایسی تحریکات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ان قانونی دائرہ کار (Legal spare) کو محدود کیا جائے یا پھر ایسی قانون سازی ہو کہ جس کہ مقصد (یا جس کے نتیجے میں) قانونی دائرہ کار کی وسعت و خطرناکی کا خاتمہ ہو سکے اور غیر موثر ہو سکے نیز سب سے بڑھ کر یہ کہ قانونی پابندیوں کے نتیجے میں بھی 'آزادی' برآمد ہو۔ اسی لیے مغرب میں سزائے موت کے خلاف مختلف این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
زنا بالجبر کی سزا سنگسار کے بجائے کم سے کم کیے جانے یا ختم کیے جانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ امریکی قانون میں شادی کے لیے 'مرد اور عورت' کی شرط طے تھی جس کو آزادی کی رہ میں رکاوٹ سمجھا گیا اور قانونی طور پر اس رکاوٹ کو اس طرح دورکر دیا گیا کہ اب امریکی قانون میں شادی کی تعریف میں ترمیم کر کے لفظ 'مرد و عورت ' کے بجائے ایک شخص (Person)کر دیا گیا یعنی اب ایک person کسی دوسرے person سے شادی کر سکتا ہے خواہ ان کی جنس ایک ہی ہو ، یوں قانونی طور پر ہم جنس پرستی کی آزادی بھی فرد کو مل گئی۔
فرانس نے بھی اپنے ملکی قوانین میں شادی کی تعریف بدل ڈالی اور 2013ء سے یہاں بھی ہم جنس پرستوں کو شادی کے لیے قانونی سہارا مل گیا۔ دنیا بھر میں کم و بیش 14 ممالک میں اس قسم کی قانون سازی کر کے فرد کی آزادی کو مزید بڑھا دیا گیا۔ ان ممالک میں کینیڈا، ناروے، آئس لینڈ، اسپین، سوئیڈن، ڈنمارک، ارجنٹائن، یوروگوئے، ساؤتھ افریقہ اور نیدرلینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ (جاری ہے)
لفظ 'آزادی' کے ساتھ ایک اہم سوال بھی اپنا وجود رکھتا ہے کہ 'کس سے آزادی؟' اس سوال سے متعلق مغرب میں یہ تعریف کی گئی ہے کہ ''حدود بندیوں، پابندیوں، جکڑبندیوں اور رکاوٹوں'' کے خاتمے کے نتیجے میں جو شے نمودار ہو گی، دراصل وہی 'آزادی' ہے۔
اس سوال پر کہ 'کس سے آزادی ؟' غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ''حدود بندیوں، پابندیوں، جکڑ بندیوں اور رکاوٹوں'' سے آزادی چاہیے وہ عموماً تین اقسام کی ہوتی ہیں یعنی ۔
-1 مذہبی
-2معاشرتی اور خاندانی
3۔ قانونی رکاوٹیں یا پابندیاں
مذہبی رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی فرد کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں سب سے زیادہ پابندیاں مذہب کی جانب سے ہی آتی ہیں۔ مثلاً فرد کے سونے، جاگنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں، عبادت کے لیے مخصوص اوقات ہو تے ہیں، حلال و حرام کے حوالے سے ہدایات ہوتی ہیں، خواتین کے حوالے سے پردہ اور مخلوط ماحول کی پابندیاں، ستر کا حکم، طریقہ تعلیم و مقاصد تعلیم بھی مذہب ہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح یہ کہ کاروبار کس طرح کرنا ہے۔
اس سے متعلق شرائط، لباس زیب تن کرنے سے متعلق ہدایات کہ کس طرح اور کس حد تک ستر کا خیال رکھنا ہے، پھر زندگی کے تمام آداب کی پابندی مثلاً محلے دار، رشتے دار، مہمان وغیرہ سے میل جول کے آداب، شادی بیاہ کے آداب۔ یوں آزادی کے حصول یا اس میں اضافے کے لیے مذہبی پابندیاں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ مذہبی عقائد کی آزادانہ تشریحات میں مذہبی رہنما مثلاً پادری، علماء اور پنڈت وغیرہ کا اہم کردار ہوتا ہے یہ لوگوں کو مذہبی تعلیمات (یعنی پابندیوں) سے روشناس کراتے ہیں اور اس سلسلے میں تلقین و تنبیہ کرتے ہیں چنانچہ یہ مذہبی رہنما یعنی یہ اتھارٹی بھی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
با الفاظ دیگر ایک مذہبی معاشرے میں، مذہبی رکاوٹیں ہی (مغرب کے تصور آزادی کے مطابق) آزادی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ لٰہذا ایک ایسی ریاست کا وجود لانا ہو کہ جہاں مکمل آزادی ہو یعنی فرد آزاد ہو کہ وہ اپنی مرضی کے تحت مذہبی تعلیمات و احکامات پر چاہے عمل کرے یا بالکل نہ کرے، وہاں مذہبی اتھارٹی کو ختم کرنا ضروری ہو گا۔
مذہب کے بعد 'آزادی' کی راہ میں رکاوٹیں معاشرہ اور خاندان لاتا ہے۔ مثلاً نئی نسل پر سب سے زیادہ پابندیاں خاندان کے بزرگ اور ماں باپ لگاتے ہیں۔ اخلاقی وغیر اخلاقی فکر یہی لوگ دیتے ہیں، محرم و نامحرم کے درس پر عمل درآمد بھی یہی اتھارٹی عمل کراتی ہے۔ گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ بھی یہی اتھارٹی ڈالتی ہے۔ اس تناظر میں مغرب کا فلسفی ڈلیوز کہتا ہے کہ سب سے بڑا استعمار درحقیقت خاندان اور ماں باپ ہوتے ہیں جو بچے کو پیدائش کے وقت سے ہی جکڑ بندیوں کا شکار کر لیتے ہیں، یعنی بچپن ہی سے ایک بچے پر اپنی مخصوص زبان، مخصوص ثقافت، روایات اور طرز فکر مسلط کر دی جاتی ہے۔
اسی طرح خاندان کی جانب سے بہت ساری رکاوٹیں ماں، باپ، بھائی اور شوہر وغیرہ کی اتھارٹی آزادی میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں جیسے جیسے 'آزادی' کا حصول تیز تر ہوا ، ویسے ویسے وہاں خاندانی نظام کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔
جب کسی معاشرے میں مرد و زن کو آزادی یا حقوق مل رہے ہوں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے میں مذہبی، معاشرتی، خاندانی پابندیاں رکاوٹیں ختم ہونے کے باعث اس معاشرے میں مذہب، معاشرت و خاندان کے حفظ مراتب بھی ختم ہو رہے ہوتے ہیں۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معاشرے میں موجود ایسی اتھارٹیز جن کے پاس فرد کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کی صلاحیت (قوت) ہوتی ہے، ان سے رکاوٹ کھڑی کرنے کی یہ قوت چھین کر فرد کو منتقل کر دی جاتی ہے، اسی عمل کا نام آزادی ہے۔
یہ منتقلی حق کے نام پر کی جاتی ہے کہ یہ قوت صرف فرد کا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب میں 'حق ' کے حصول کے لیے مختلف ادارے (این جی اوز) کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جب کسی معاشرے میں خواتین یا بچوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ مذہب، اخلاقیات، روایات، خاندانی بالخصوص ماں، باپ، بھائی اور شوہر کی جانب سے مسلط کردہ اخلاقی، مذہبی، روایاتی جکڑبندیوں، پابندیوں اور ان کی اتھارٹی کو کمزور کر کے (یعنی ان کی قوت چھین کر) 'حق' (Right) کی اصطلاح کے تناظر میں فرد کی سطح پر عورت یا بچے کو منتقل کر دی جائے اور ریاست ان اتھارٹی کی قوت ختم کر کے فرد کی پشت پر کھڑی ہو جائے تا کہ ریاست کی قوت کے بل پر ان ختم ہونے والی اتھارٹی کے دباؤ کے اثرات کو ختم کیا جا سکے۔
اس عمل سے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے، مثلاً اس تصور آزادی کے تحت جس معاشرے میں افراد اپنے بزرگوں (ماں، باپ وغیرہ ) کی خدمت کے لیے اپنا وقت صرف کریں گے ان کی زندگی میں رکاوٹ زیادہ ہو گی بہ نسبت ان افراد کے جو اپنے بزرگوں کی خدمت نہیں کرتے لیکن پھر ایسے آزاد معاشرے میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے 'اولڈ ہاؤسز' بھی لازمی ہونگے اور ڈے کیئر سینٹرز بھی ہونگے، جہاں والدین اپنے بچوں کو دن بھر چھوڑ کر خود آزادی سے اپنا وقت ملازمت وغیرہ میں گزار سکتے ہیں۔
'آزادی ' کے اس تصور میں قانونی رکاوٹ بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قانون فرد کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ قانونی رکاوٹوں کی سب سے خطرناک بات اس میں پنہاں ہوتی ہے کہ فرد اگر ان جکڑ بندیوں کو نظر انداز کر کے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اس لیے ایک آزاد معاشرے اور فرد کی زندگی میں سب سے زیادہ عملی رکاوٹیں، پابندیاں قانونی جکڑبندیوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔
اسی لیے ان سے نجات کے لیے ایسی تحریکات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ ان قانونی دائرہ کار (Legal spare) کو محدود کیا جائے یا پھر ایسی قانون سازی ہو کہ جس کہ مقصد (یا جس کے نتیجے میں) قانونی دائرہ کار کی وسعت و خطرناکی کا خاتمہ ہو سکے اور غیر موثر ہو سکے نیز سب سے بڑھ کر یہ کہ قانونی پابندیوں کے نتیجے میں بھی 'آزادی' برآمد ہو۔ اسی لیے مغرب میں سزائے موت کے خلاف مختلف این جی اوز کام کر رہی ہیں۔
زنا بالجبر کی سزا سنگسار کے بجائے کم سے کم کیے جانے یا ختم کیے جانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ امریکی قانون میں شادی کے لیے 'مرد اور عورت' کی شرط طے تھی جس کو آزادی کی رہ میں رکاوٹ سمجھا گیا اور قانونی طور پر اس رکاوٹ کو اس طرح دورکر دیا گیا کہ اب امریکی قانون میں شادی کی تعریف میں ترمیم کر کے لفظ 'مرد و عورت ' کے بجائے ایک شخص (Person)کر دیا گیا یعنی اب ایک person کسی دوسرے person سے شادی کر سکتا ہے خواہ ان کی جنس ایک ہی ہو ، یوں قانونی طور پر ہم جنس پرستی کی آزادی بھی فرد کو مل گئی۔
فرانس نے بھی اپنے ملکی قوانین میں شادی کی تعریف بدل ڈالی اور 2013ء سے یہاں بھی ہم جنس پرستوں کو شادی کے لیے قانونی سہارا مل گیا۔ دنیا بھر میں کم و بیش 14 ممالک میں اس قسم کی قانون سازی کر کے فرد کی آزادی کو مزید بڑھا دیا گیا۔ ان ممالک میں کینیڈا، ناروے، آئس لینڈ، اسپین، سوئیڈن، ڈنمارک، ارجنٹائن، یوروگوئے، ساؤتھ افریقہ اور نیدرلینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ (جاری ہے)