وفاقیت سے انحراف کیوں

پاکستان میں اس وقت اقتدار و اختیار کی ایک نئی کشمکش شروع ہوچکی ہے


Muqtida Mansoor January 14, 2016
[email protected]

پاکستان میں اس وقت اقتدار و اختیار کی ایک نئی کشمکش شروع ہوچکی ہے ۔ بعض طاقتور مقتدر حلقے پاکستان کوایک بار پھر وفاق کے بجائے ایک وحدانی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس سلسلے میں دو مختلف انداز میں کام کیا جارہا ہے۔ ایک طرف ذرایع ابلاغ کے ذریعے 18ویں ترمیم کے خلاف منظم مہم شروع کردی گئی ہے ، جب کہ دوسری طرف صدارتی نظام کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کراچی میں جاری آپریشن کے بارے میں گو کہ یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ یہ جرائم کے خلاف مہم ہے لیکن جس انداز میں سندھ کی دو مقبول جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، اس سے اس تصور کو تقویت مل رہی ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمران صوبائی خود مختاری اور وفاقیت کو ختم کرنے کے لیے کراچی کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے مقتدر حلقوں کے ذہنوں میں حکمرانی کے حوالے سے مختلف نوعیت کے خوف اور خدشات روز اول ہی سے جاگزیں رہے ہیں۔ جن میں ابتدائی برسوں کے دوران بنگال کی آبادی کی عددی برتری کے باعث اقتدار پر اس کے غلبے کا خوف تھا۔ اس وقت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی مجموعی آبادی 46 فیصد، جب کہ اکیلے مشرقی پاکستان کی آبادی 54فیصد تھی۔ چنانچہ حکمران اشرافیہ نے اقتدار پر بنگالیوں کی ممکنہ بالادستی کا راستہ روکنے کے لیے پیریٹی کا اصول وضع کیا۔ اس مقصد کے لیے مغربی حصے میں ون یونٹ قائم کیا گیا جس کے نتیجے میں اس خطے کے وفاقی یونٹوں کی تاریخی، سیاسی اور ثقافتی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی۔

اگر سیاسی اور عمرانی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو سابقہ مشرقی پاکستان اپنی عددی برتری کی بنیاد پر صرف سیاسی بالادستی حاصل کرسکتا تھا۔ بیوروکریسی میں واضح نمایندگی نہ ہونے کے باعث اقتدار پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ، مگر اس کے باوجود ہر طرح سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔1971میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد تقریباً وہی صورتحال باقی ماندہ پاکستان میں پیدا ہوگئی۔

جہاں ایک صوبہ (پنجاب) کی آبادی باقی تین صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ مشرقی پاکستان کی موجودگی کے زمانے میں بھی گو کہ پنجاب سول اور ملٹری بیوروکریسی میں ریاستی پالیسی سازی پر حاوی تھا لیکن مشرقی پاکستان کے الگ ہوجانے کے بعد اقتدار و اختیار پراس کی گرفت میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے ریاستی فیصلہ سازی میں اس کا اثر بڑھ گیا۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک اور تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ یعنی پاکستان میں عملاً کوئی بھی جماعت قومی جماعت نہیں رہی ہے۔ پیپلزپارٹی جو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی، آج صرف دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ تحریک انصاف میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ ملک گیر جماعت بن جاتی، مگر فکری تضادات اور سیاسی نا بلوغت اس کے قومی جماعت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) نے شروع ہی سے دانستہ طور پر خود کو پنجاب تک محدود رکھا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ پنجاب میں اپنی مقبولیت کی بنیاد پر وہ پورے ملک پر حکمرانی کرسکتی ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری(CPEC) کے حوالے سے چھوٹوں صوبوں سے اٹھنے والی آوازوں پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی نے خود کو پختون سیاست تک محدود کرلیا ہے، جب کہ نیشنل پارٹی کوششوں کے باوجود بلوچستان سے آگے نہیں بڑھ پا رہی۔

پیدا ہونے والی درج بالاصورتحال نے چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ خدشات راسخ کردیے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان کے یہاں سے ابھرنے والی سیاسی قیادت کبھی وفاقی سطح پر اقتدار کا حصہ نہیں بن سکے گی، کیونکہ پنجاب قومی اسمبلی میں اپنی عددی برتری کے باعث ہمیشہ پورے ملک پر قابض رہے گا ۔

اس صورتحال سے بچنے کے تین ممکنہ طریقے ہوسکتے ہیں۔ اول، صوبوں کی تشکیل نو کی جائے اور نئے صوبے اس طرح تشکیل دیے جائیں کہ ان کے درمیان آبادی اور رقبے کے لحاظ سے زیادہ فرق نہ ہو۔ اس فارمولے پر پنجاب اور بلوچستان تو شاید آمادہ ہوجائیں، مگر سندھ کسی بھی طور اپنی دھرتی کی تقسیم پر تیار نہیں ہوگا بلکہ خدشہ ہے کہ اس تصور کو عملی شکل دینے کی کوئی بھی کوشش صوبے میں خوفناک سیاسی انتشار اور کشت و خون کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا اس فارمولے پر فی الحال عمل ممکن نظر نہیں آتا۔

دوئم، ملکی آئین میں معمولی ردوبدل کرکے طریقہ انتخاب کو عام کے بجائے متناسب نمایندگی میں تبدیل کردیا جائے۔ اس طرح ملک Electablesاور سیاسی موروثیت کے چنگل سے نکل سکتا ہے جس کے نتیجے میں مخصوص طبقات کی سیاسی بالادستی کسی حد تک کم ہونے کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔

سوئم، اس قضیے سے نکلنے کی ایک تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اقتدارو اختیارات کو جس قدر زیادہ ممکن ہو ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک مکمل بااختیاریت کے ساتھ منتقل کردیا جائے تاکہ عوام کو مقامی سطح پر اپنے معاملات طے کرنے کا حق حاصل ہوجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاستی انتظامی ڈھانچے کو دو درجاتی (Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier)کردیا جائے اور ضلع کو بھی صوبے کی طرز پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیار حاصل ہوں۔ یہ اختیارات ضلع سے تحصیل اور پھر یونین کونسل کی سطح تک مزید نیچے کی طرف منتقل کیے جائیں۔ مقامی معاملات اور ترقیاتی کاموں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت خاصی حد تک ختم ہوجانے سے عوام میں اقتدار و اختیار میں شراکت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔

لیکن معاملہ درج بالا تجاویز میں سے کسی ایک پر عمل کرنے سے بھی حل ہوتا نظر نہیں آرہاہے کیونکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہم اور طاقتور حلقے جو وفاقی نظام میں پنجاب کی عددی اور انتظامی برتری کے باعث اقتدار و اختیار کو مکمل طورپر اپنے کنٹرول رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس لیے انھیں وفاقیت کی بنیاد پر صوبائی خودمختاری کی ڈھیلی ڈھالی شکل بھی قابل قبول نہیں ہے اور صدارتی نظام کے حق میں رائے عامہ ہموار کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

وقت گذرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کے اصل اہداف وہ نہیں ہیں، جو بیان کیے جارہے ہیں بلکہ بنیادی مقصد کراچی کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کی دو مقبول جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ، جب کہ دیگر جماعتوں پر ہاتھ نہیں ڈالاجا رہا۔

عرض یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی غیر ذمے دارانہ فیصلے سے قبل مقتدر اشرافیہ کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان کا قیام برطانوی پارلیمان میں جنوری1947میں منظور ہونے والے Partition of British India Act کے تحت عمل میں آیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے برطانوی ہند کی تقسیم دو اصولوں کے تحت ہوئی ہے۔

اول، پہلے سے موجود ہندوستانی ریاست کو بطورIndian Unionآزادی دی گئی۔ دوئم، برٹش انڈیا کے چند انتظامی یونٹوں (جہاں مسلمان اکثریت میں تھے) اور دو یونٹوں کو تقسیم کرکے ان پر مشتمل ایک نئی ریاست تشکیل دی گئی۔اس سلسلے میں ان یونٹوں (صوبوں) کی اسمبلیوں سے نئے الحاق میں شمولیت کے بارے میں رائے لی گئی تھی، جب کہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں ریفرنڈم اور بلوچستان میں سرداروں کے جرگے نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس خطے کے عوام نے اپنی آزادی کوایک دوسرے سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں پاکستان ایک وفاق کی شکل میں وجود میں آیا چنانچہ بھارت کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا قانونی اورمنطقی جوازایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔

لہٰذاحکمران اشرافیہ کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی بنیاد وفاقیت اور جمہوریت پر ہے۔ ان اصولوں سے انحراف یا ان میں ردوبدل کرنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کو بدتر صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس لیے حکمران اشرافیہ کوپاکستان کے وجود، بقا اور سلامتی کی خاطر کسی بھی قسم کے ایڈونچر سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر ملک کو وفاقیت کے حقیقی تصور کے ساتھ مکمل صوبائی خود مختاری دی جائے اور بیوروکریسی کی سیاسی بالادستی ختم کردی جائے، تو پاکستان سیاسی،انتظامی اور دفاعی طورپر زیادہ مضبوط اور مستحکم ریاست بن سکتاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں