سنا ہے سال بدلے گا
تمام دن مصروفیات سے ہونے والی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھ پر نیند کا غلبہ بھی ڈیرے ڈال رہا ہے۔
تمام دن مصروفیات سے ہونے والی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھ پر نیند کا غلبہ بھی ڈیرے ڈال رہا ہے۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ سورج کی روشنی میں رزق حلال میں سرگرداں کوئی بھی تھکا ہوا شخص جب اپنے گھر لوٹتا ہے تو سکون و آرام کا متلاشی رہتا ہے۔ اسی لیے تو کرنسی نوٹ پر لکھا ہوتا ہے '' رزق حلال عین عبادت ہے۔''
شب بھر خواب خر گوش کی سی کیفیت میں رہنے کے بعد علی الصبح بیدار ہونا اور پھر سے معمولات زند گی کے لیے گھر سے نکل جانا یہ سب کیا ہے؟ یقینا زندگی کا تیز رفتار مشینی پہیہ ہے جو مسلسل عمل پیہم ہے، رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وقت کے مقرر کردہ فاصلاتی نظام کے تحت سیکنڈ کے بعد منٹ ، منٹ کے بعد گھنٹہ، گھنٹوں کے بعد دن اور دنوں کی لگا تار گنتی جب 365 تک ہو جاتی ہے تو یہ سال بن جاتا ہے یعنی ٹھیک 12 مہینے کا عددی ہندسہ ایک کیلنڈر ایر (Calendar Year) بن جاتا ہے۔
یہ تمام تغیرات اتنی تیزی سے روبہ عمل ہو تے ہیں کہ کبھی کبھی تو وقت سے بھی بے وفائی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ برس ہا برس سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ وقت بڑا ظالم ہوتا ہے، یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہ و قت ہی ہے جو جاتے ہوئے اپنے ساتھ زمانے کو بھی بہا لے جاتا ہے اور جو وقت کی قدر و منزلت نہیں سمجھتے اور نہ ہی زندگی میں اسے اہمیت دیتے ہیں، حیل و حجت تلاش کر نے کے مرتکب ہو تے ہیں تو وقت ان کا بھی بو ریا بستر سمیٹ کر چلا جاتا ہے۔
اردو کی ضرب المثل ہے ''اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت'' اسی لیے تو سیانے کہتے آ رہے ہیں کہ ''وقت کی قدر کرو۔'' قابل غور ہے یہ امر کہ نئے سال کی تبدیلی کا عمل چونکہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہے جو اسلامی لحاظ سے بڑی بابرکت اور مقدس ہے۔ سال کا پہلا دن جمعۃ المبارک تھا، بلاشبہ بڑا معتبر ہے۔ اس ضمن میں ملت اسلامیہ مبارک با د کی مستحق ہے اس دعا کے ساتھ کہ اے خالق کائنات! جس با بر کت انداز سے اس سال کا آغاز ہوا ہے اسی انداز سے اس کا اختتام بھی ہو۔(آمین)
عمر رفتہ کے اس کٹھن سفر میں ہم آج الحمد اللہ سال 2016ء کا سورج طلوع ہوتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ عالم بشریت نئے سال کی آمد کے استقبال میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایک جشن کا سماں ہے۔ آتش بازی، ہوائی فائرنگ، رنگ برنگی پھلجڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔ عزم سالِ نو کے عہد و پیمان کے پیغامات اپنے دوستوں، عزیز و اقارب چاہنے والوں کو Wish کی صورت میں ارسال کیے جا رہے ہیں۔ سیل فون پر ایس ایم ایس کا بھرپور راج ہے۔ ہر سیکنڈ پر موبائل کی ٹون سنائی دے رہی ہے۔
اپنے Well Wishers کوتحائف کی شکل میں نیو ایئرکیک، خوبصورت اور دیدہ زیب ڈائریز، کیلنڈرز کی عنایات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بیرونی دنیا سال نو کو مذہبی جوش خروش کے ساتھ مناتی ہے۔ ساحلی شہر کراچی کے عوام کی بڑی تعداد ساحل سمندر سے نئے سال کا افق ہو تا ہوا، سورج کے نظارے کے لیے سمندر کا رخ کیے ہوئے تھی، مگر ساحل کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں تھیں تا کہ منچلوں کو موٹر سائیکلوں کے سائلینسر نکال کر شور و غوغا سے روکا جا سکے۔
یہ سال کیسے گزرگیا! حیرانی کی بات ہے۔ ہم نے کیا کھو یا اور کیا پایا؟ کچھ پتہ نہیں۔ اس سال ہم نے سوائے ہائے گرمی! ہائے گرمی! ہائے بجلی! ہائے بجلی! ہائے آگ! ہائے آگ! ہائے پانی! ہائے پانی! کی پُرآشوب صداؤں کے کچھ نہیں سنا۔ یوں ہی ہائے ہائے میں یہ سال بھی گزرگیا۔ بجلی اور پانی نے مظلوم اور مفلوک الحال عوام کا جنا زہ نکال کر رکھ دیا۔
ہمیں خدشہ ہے کہ کیا نیا سا ل بھی ایسا ہی ہو گا؟ کیا عوام جہاد کے لیے پہلے سے تیاری کر لیں؟ بنیادی ضروریات زندگی کے بھنور سے نکلیں گے تو تب ہی ہم ملک کی تعمیر نو کا سوچ سکیں گے۔ اب آپ ہی بتایے کہ سال شروع ہوتے ہی پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا بم گرا دیا گیا ہے جب کہ عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں مسلسل نیچے کی طرف گر رہی ہیں۔
ادھر حکو مت کی جانب سے پورے سال کا طے شدہ تعطیلات کے شیڈول کے مطابق مذہبی تعطیلات عیدالفطر، عید الاضحٰی، یومِ عاشور، عید میلا د النبی ﷺ کے علاوہ عام قومی اور عالمی سطح کی تعطیلات مجموعی طور پر جن کی عددی تعداد کل پانچ ہے جو بالتر تیب اس طرح سے ہے۔ 5 فروری (یوم کشمیر)، 23 مارچ (یوم پاکستان)، یکم مئی (مزدور ڈے)، 14 اگست (یو م آزادی) ،25 دسمبر (کرسمس ڈے اور ولاد ت قائد اعظم )۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال حکومت کی جانب سے 6 ستمبر (یو م دفاع) ،9 نومبر (یوم اقبال)کی مد میں ہو نے والی تعطیلات میں تخفیف کی گئی تھی۔
ہم زمانہ طالب علمی سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے اور زندگی کی دوڑ میں ہمیشہ مثبت خیالات و احساسات کے ساتھ اچھے امید کے دامن کو ہاتھ سے کسی قیمت پر نہیں چھوڑ نا چاہیے کیونکہ امید ہی ایک ایسا واحد سہارا ہے جس پر دنیا قائم ہے۔
اس حقیقت کو ولیم شکسپئیر بھی تسلیم کر تے ہوئے کہتاہے '' مصیبت زدوں کا واحد سہارا امید ہے'' کسی دانشور نے خوب کہا ہے ''امید زندگی کا لنگر ہے اس کا سہارا چھوڑ دینے سے انسا ن کی کوششیں گہرے پانی میں ڈو ب جاتی ہیں۔'' نئے سال کی نوید کا مقصد ہی یہ ہے کہ ذات باری تعالی ٰ نے آپ کو زندگی میں ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال کا رنگ کیسا ہو گا! مجموعی طور پر حالات کا معیارکیسا رہے گا؟ ملک و قوم کے مستقبل میں تبدیلی کس انداز میں طے ہو گی؟ جیسے اٹھنے والے سوالات جو ہر ذی شعور انسان کے لیے باعث فکر ضرورہیں۔ کسی حساس اور مفکر شاعر نے تو یہاں تک اپنی تشویش کا اظہارکیا ہے۔
نتیجہ پھر وہی ہو گا
سنا ہے سال بد لے گا
پرندے پھر وہی ہونگے
شکاری جا ل بد لے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو
بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہوں گے
سنا ہے سال بد لے گا
وہی حاکم، وہی غربت
وہی قاتل، وہی غاصب
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
دعا ہے 2016ء میں آپ کا اور ہمارا حال بدلے
شب بھر خواب خر گوش کی سی کیفیت میں رہنے کے بعد علی الصبح بیدار ہونا اور پھر سے معمولات زند گی کے لیے گھر سے نکل جانا یہ سب کیا ہے؟ یقینا زندگی کا تیز رفتار مشینی پہیہ ہے جو مسلسل عمل پیہم ہے، رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وقت کے مقرر کردہ فاصلاتی نظام کے تحت سیکنڈ کے بعد منٹ ، منٹ کے بعد گھنٹہ، گھنٹوں کے بعد دن اور دنوں کی لگا تار گنتی جب 365 تک ہو جاتی ہے تو یہ سال بن جاتا ہے یعنی ٹھیک 12 مہینے کا عددی ہندسہ ایک کیلنڈر ایر (Calendar Year) بن جاتا ہے۔
یہ تمام تغیرات اتنی تیزی سے روبہ عمل ہو تے ہیں کہ کبھی کبھی تو وقت سے بھی بے وفائی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ برس ہا برس سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ وقت بڑا ظالم ہوتا ہے، یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہ و قت ہی ہے جو جاتے ہوئے اپنے ساتھ زمانے کو بھی بہا لے جاتا ہے اور جو وقت کی قدر و منزلت نہیں سمجھتے اور نہ ہی زندگی میں اسے اہمیت دیتے ہیں، حیل و حجت تلاش کر نے کے مرتکب ہو تے ہیں تو وقت ان کا بھی بو ریا بستر سمیٹ کر چلا جاتا ہے۔
اردو کی ضرب المثل ہے ''اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت'' اسی لیے تو سیانے کہتے آ رہے ہیں کہ ''وقت کی قدر کرو۔'' قابل غور ہے یہ امر کہ نئے سال کی تبدیلی کا عمل چونکہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہے جو اسلامی لحاظ سے بڑی بابرکت اور مقدس ہے۔ سال کا پہلا دن جمعۃ المبارک تھا، بلاشبہ بڑا معتبر ہے۔ اس ضمن میں ملت اسلامیہ مبارک با د کی مستحق ہے اس دعا کے ساتھ کہ اے خالق کائنات! جس با بر کت انداز سے اس سال کا آغاز ہوا ہے اسی انداز سے اس کا اختتام بھی ہو۔(آمین)
عمر رفتہ کے اس کٹھن سفر میں ہم آج الحمد اللہ سال 2016ء کا سورج طلوع ہوتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ عالم بشریت نئے سال کی آمد کے استقبال میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایک جشن کا سماں ہے۔ آتش بازی، ہوائی فائرنگ، رنگ برنگی پھلجڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔ عزم سالِ نو کے عہد و پیمان کے پیغامات اپنے دوستوں، عزیز و اقارب چاہنے والوں کو Wish کی صورت میں ارسال کیے جا رہے ہیں۔ سیل فون پر ایس ایم ایس کا بھرپور راج ہے۔ ہر سیکنڈ پر موبائل کی ٹون سنائی دے رہی ہے۔
اپنے Well Wishers کوتحائف کی شکل میں نیو ایئرکیک، خوبصورت اور دیدہ زیب ڈائریز، کیلنڈرز کی عنایات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بیرونی دنیا سال نو کو مذہبی جوش خروش کے ساتھ مناتی ہے۔ ساحلی شہر کراچی کے عوام کی بڑی تعداد ساحل سمندر سے نئے سال کا افق ہو تا ہوا، سورج کے نظارے کے لیے سمندر کا رخ کیے ہوئے تھی، مگر ساحل کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں تھیں تا کہ منچلوں کو موٹر سائیکلوں کے سائلینسر نکال کر شور و غوغا سے روکا جا سکے۔
یہ سال کیسے گزرگیا! حیرانی کی بات ہے۔ ہم نے کیا کھو یا اور کیا پایا؟ کچھ پتہ نہیں۔ اس سال ہم نے سوائے ہائے گرمی! ہائے گرمی! ہائے بجلی! ہائے بجلی! ہائے آگ! ہائے آگ! ہائے پانی! ہائے پانی! کی پُرآشوب صداؤں کے کچھ نہیں سنا۔ یوں ہی ہائے ہائے میں یہ سال بھی گزرگیا۔ بجلی اور پانی نے مظلوم اور مفلوک الحال عوام کا جنا زہ نکال کر رکھ دیا۔
ہمیں خدشہ ہے کہ کیا نیا سا ل بھی ایسا ہی ہو گا؟ کیا عوام جہاد کے لیے پہلے سے تیاری کر لیں؟ بنیادی ضروریات زندگی کے بھنور سے نکلیں گے تو تب ہی ہم ملک کی تعمیر نو کا سوچ سکیں گے۔ اب آپ ہی بتایے کہ سال شروع ہوتے ہی پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا بم گرا دیا گیا ہے جب کہ عالمی منڈیوں میں پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں مسلسل نیچے کی طرف گر رہی ہیں۔
ادھر حکو مت کی جانب سے پورے سال کا طے شدہ تعطیلات کے شیڈول کے مطابق مذہبی تعطیلات عیدالفطر، عید الاضحٰی، یومِ عاشور، عید میلا د النبی ﷺ کے علاوہ عام قومی اور عالمی سطح کی تعطیلات مجموعی طور پر جن کی عددی تعداد کل پانچ ہے جو بالتر تیب اس طرح سے ہے۔ 5 فروری (یوم کشمیر)، 23 مارچ (یوم پاکستان)، یکم مئی (مزدور ڈے)، 14 اگست (یو م آزادی) ،25 دسمبر (کرسمس ڈے اور ولاد ت قائد اعظم )۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال حکومت کی جانب سے 6 ستمبر (یو م دفاع) ،9 نومبر (یوم اقبال)کی مد میں ہو نے والی تعطیلات میں تخفیف کی گئی تھی۔
ہم زمانہ طالب علمی سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے اور زندگی کی دوڑ میں ہمیشہ مثبت خیالات و احساسات کے ساتھ اچھے امید کے دامن کو ہاتھ سے کسی قیمت پر نہیں چھوڑ نا چاہیے کیونکہ امید ہی ایک ایسا واحد سہارا ہے جس پر دنیا قائم ہے۔
اس حقیقت کو ولیم شکسپئیر بھی تسلیم کر تے ہوئے کہتاہے '' مصیبت زدوں کا واحد سہارا امید ہے'' کسی دانشور نے خوب کہا ہے ''امید زندگی کا لنگر ہے اس کا سہارا چھوڑ دینے سے انسا ن کی کوششیں گہرے پانی میں ڈو ب جاتی ہیں۔'' نئے سال کی نوید کا مقصد ہی یہ ہے کہ ذات باری تعالی ٰ نے آپ کو زندگی میں ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال کا رنگ کیسا ہو گا! مجموعی طور پر حالات کا معیارکیسا رہے گا؟ ملک و قوم کے مستقبل میں تبدیلی کس انداز میں طے ہو گی؟ جیسے اٹھنے والے سوالات جو ہر ذی شعور انسان کے لیے باعث فکر ضرورہیں۔ کسی حساس اور مفکر شاعر نے تو یہاں تک اپنی تشویش کا اظہارکیا ہے۔
نتیجہ پھر وہی ہو گا
سنا ہے سال بد لے گا
پرندے پھر وہی ہونگے
شکاری جا ل بد لے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو
بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہوں گے
سنا ہے سال بد لے گا
وہی حاکم، وہی غربت
وہی قاتل، وہی غاصب
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
دعا ہے 2016ء میں آپ کا اور ہمارا حال بدلے