صدر اوباما کا آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب

امریکا میں صدارتی نامزدگی کی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے بارے میں اہانت آمیز رویہ اپنایا جا رہا ہے۔

امریکا میں صدارتی نامزدگی کی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے بارے میں اہانت آمیز رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

امریکی صدر بارک اوباما نے ہفتے کو اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا کہ پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کاخطرہ برقرار رہے گا، مسلمانوں کی توہین اور مساجد کی توڑ پھوڑ سے امریکا محفوظ نہیں ہو گا' یہ سراسر غلط ہے، ایسے اقدامات سے دنیا کی نظروں میں ہماری توقیر کم ہو گی' ہمیں مذہب اور نسل کے نام پر ہونے والی سیاست کو مسترد کر دینا چاہیے' گوانتا ناموبے جیل بند کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہوں، انسانی حقوق کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

کسی کو شک ہے کہ انصاف کیسے ہوتا ہے تو اسامہ بن لادن سے پوچھ لے، القاعدہ اورداعش امریکی عوام کے لیے براہ راست خطرہ ہیں، ہماری اولین ترجیح امریکی عوام کو تحفظ دینا ہے، مٹھی بھر دہشت گرد جن کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں، وہ بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، دولت اسلامیہ کی جانب سے جہاں تیسری جنگ عظیم کی بات کی جا رہی ہے اس سے امریکا کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، امریکا کی خارجہ پالیسی کا محور داعش کے خطرات کے گرد ہونا چاہیے جس کے لیے کانگریس کو فوجی آپریشن کی منظوری دینا ہو گی۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ داعش کو وہ سبق سکھائیں گے جو اس سے پہلے دوسرے دہشت گردوں کو سکھایا، اتحادیوں کے ساتھ داعش کے ٹھکانوں پر دس ہزار سے زائد حملے کیے جن کا مقصد داعش کی قیادت اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔

امریکا میں صدارتی نامزدگی کی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے بارے میں اہانت آمیز رویہ اپنایا جا رہا ہے' حیرت انگیز امر ہے کہ ٹرمپ کو امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو رہی ہے جو نہ صرف امریکا میں رہنے والے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تشویشناک ہے' یہی وجہ ہے کہ صدر بارک اوباما نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حالیہ حملوں اور صدارتی نامزدگی کی مہم میں مسلمانوں کے بارے میں توہین آمیز رویے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ ان حرکات سے امریکا محفوظ نہیں ہو سکتا بلکہ دنیا بھر میں اس کی سبکی ہو رہی ہے۔


برداشت اور رواداری کے حوالے سے امریکا کا جو امیج بنا ہوا ہے اس کے بارے میں بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کے رویے کو امریکی عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد کی جانب سے ملنے والی حمایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام میں بھی برداشت کا رویہ ختم اور وہ مسلمانوں کے بارے میں متعصب ہوتے جا رہے ہیں۔ جن قوموں میں دوسروں کے بارے میں برداشت کا رویہ کمزور پڑ جائے وہاں نفرتیں جنم لیتی ہیں۔

صدر بارک اوباما کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ ابھی پاکستان' افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کی صورت حال پیدا ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی۔جہاں تک عراق'شام اور افغانستان کی صورت حال کا سامنا ہے تو اسے بگاڑنے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا ڈرامہ رچا کر امریکا نے عراق جیسے پرامن ملک پر حملہ کر کے اسے داخلی عدم استحکام سے دوچار کر دیا اور داعش کا وجود بھی انھی امریکی کارروائیوں کا ردعمل ہے بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ داعش کا قیام امریکا ہی عمل میں لایا اور وہی اس کو سپورٹ کر رہا ہے۔

پہلے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے نام پر اس نے افغانستان میں تباہی مچائے رکھی اور اب وہ داعش کی آڑ لے کر عراق' شام اور پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے ' عراق' شام اور یمن تو ناکام ریاستیں قرار پا چکی ہیں مگر اب ترکی اور سعودی عرب جیسے پرامن ملکوں میں بھی داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس سے وہاں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

افغانستان' عراق اور شام میں امن کب قائم ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر جو موجودہ صورت حال جاری ہے اور امریکا کی جانب سے داعش کو سبق سکھانے کے اعلان کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں وہاں امن کا قیام قائم ہوتا نظر نہیں آ رہا اور آگ اور خون کا کھیل جاری رہے گا۔ سیاسی تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امریکا نے ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلم ممالک میں تیسری عالمی جنگ شروع کر رکھی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تمام مسلم ممالک کو انتشار اور عدم استحکام سے دوچار کرتا چلا جا رہا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کر کے کافی حد تک امن قائم کیا ہے مگر دہشت گردی کے خطرات بدستور موجود ہیں اور اب داعش کے پھیلاؤ کے خدشات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام مسلم ممالک کے حکمران اور مذہبی رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اپنی ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ پالیسی اپنائیں اگر اب بھی انھوں نے اس جانب توجہ نہ دی تو معاملات مزید بگڑتے چلے جائیں گے۔
Load Next Story