اوباما کی آنکھوں میں آنسو

امریکا میں عوام جس کشت و خون کا شکار ہیں اس میں ہتھیاروں کا بے دھڑک استعمال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

امریکا کے صدر بارک اوباما جب امریکا میں ہتھیاروں کے آزادانہ استعمال سے ہونے والے امریکیوں کے جانی نقصان کا ذکر کر رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جنھیں وہ بار بار ہاتھوں سے صاف کر رہے تھے۔

میں نے پہلی بار کسی سربراہ حکومت کو اس طرح آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ اوباما دنیا کی واحد سپرپاور امریکا کے صدر ہیں اور اس قسم کے عہدوں پر فائز شخصیات کو بڑے سے بڑے المیے پر خود کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، لیکن اوباما کے بے اختیار آنسو سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا میں جاری کشت و خون نے اوباما کو بے حد جذباتی بنا دیا ہے۔

امریکا میں عوام جس کشت و خون کا شکار ہیں اس میں ہتھیاروں کا بے دھڑک استعمال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا میں عوام کو جو آزادیاں حاصل ہیں، ان میں ہتھیار رکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ یہ آزادی خواہ وہ امریکا کے شہروں میں ہو یا پاکستان کے کسی صوبے میں لازمی طور پر ہتھیاروں کے ناجائز استعمال تک جا پہنچتی ہے۔

امریکی قوم کا شمار دنیا کی مہذب قوموں میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے ناجائز استعمال کے خلاف ہے اور ہتھیار رکھنے کی غیر مشروط آزادی کو قوم ملک کے مفادات کے خلاف سمجھتی ہے لیکن ہر ملک کی طرح امریکا میں بھی ایک چھوٹی سی اقلیت ہتھیاروں کا ناجائز استعمال کرتی ہے جو خود عوام کی جان و مال کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ امریکا میں جرائم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات پر نظر ڈالیں، تو ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایک مہذب ملک نہیں بلکہ ایک ایسا وحشی ملک ہے جہاں سالانہ لاکھوں لوگ ہتھیاروں کے آزادانہ استعمال کی نذر ہو جاتے ہیں۔ غالباً جرائم کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب ہی نے اوباما کو گن کنٹرول بل پیش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ بل پاس ہو جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گن کنٹرول بل کے آ جانے سے امریکا میں ہونے والا خون خرابہ ختم ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس بل سے امریکا میں ہونے والے بے لگام خون خرابے میں کچھ کمی آ جائے لیکن جب تک ہتھیار عوام کی پہنچ میں ہوں گے اور ہتھیاروں کی صنعت پھل پھول رہی ہے نہ صرف امریکا میں بلکہ ساری دنیا میں خون خرابہ جاری ہی نہیں رہے گا بلکہ اس میں اضافہ اسی رفتار سے ہوتا رہے گا، جس رفتار سے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

معاشروں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات ایک نہیں بلکہ ایک سے زیادہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی مہربانی کی وجہ سے جب لوگ اپنی ضروریات جائز طریقے سے پوری کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو وہ ناجائز طریقے اختیار کرنے لگ جاتے ہیں اور ناجائز طریقوں میں ہتھیاروں کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا المیہ یہ ہے کہ اس نظام میں ہر انسان کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول جائز طریقوں سے ممکن ہی نہیں محروم طبقات کو زیادہ دولت حاصل کرنے کے ''جائز'' طریقے چونکہ اس طرح حاصل نہیں ہوتے جس طرح اشرافیہ اور ان کے مصاحبین کو ہوتے ہیں تو محروم طبقات جرائم کی طرف آتے ہیں۔ جرائم ہیں کیا؟ یہ سوال اس لیے ریلے وینٹ ہو جاتا ہے کہ اشرافیہ کو یہ چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ ناجائز کو جائز بنا لے اور محروم طبقات کے لیے جائز بھی ناجائز ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔


اس امتیازی طریقہ کار کی وجہ عام آدمی اس طبقاتی نظام میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم کی طرف آ جاتا ہے اور یہ جرائم امتیازی رویوں کی وجہ سے معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہتھیاروں کا واحد پہلا اور آخری مقصد انسان کی جان لینا ہوتا ہے، آپ پولیس کے سپاہیوں کی ٹریننگ پر نظر ڈالیں یا دوسرے سیکیورٹی فورسز کے تربیتی نظام پر نظر ڈالیں اس میں نشانہ بازی ہو یا دشمن کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال ہر صورت میں ہتھیاروں کا استعمال انسانوں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔

جب حقیقت یہی ہے تو انسانوں کے کشت و خون پر بے اختیار آنسو بہانے والے اوباما کو گن کنٹرول بل کو شہریوں پر لاگو کرنے کے بجائے ہتھیاروں کی صنعت پر لاگو کرنا چاہیے کیونکہ ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان بھی زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے لیے ہی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کے اس حصول میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے صنعتکار شامل ہوتے ہیں۔ یعنی عوام کے کشت و خون کے دو بنیادی محرکات یا عناصر حصول دولت اور ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہے۔ جب تک ان دو بنیادی عناصر اور محرکات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ایک نہیں ایک ہزار گن کنٹرول بل لے آئیں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا قتل عام جاری رہے گا۔

ہماری دنیا کے بڑے بڑے دانشور حکمران اہل قلم عموماً مرض کی علامات کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہو گئے ہیں، کوئی مدبر سنجیدگی سے مرض اور اس کے محرکات کا پتہ چلانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اوباما کی آنکھوں سے جو آنسو آج بہہ رہے ہیں پچھلے دس پندرہ سال سے دنیا کے اہل دانش کی آنکھوں سے بہہ رہے ہیں۔

اوباما کی آنکھوں میں آنسو امریکیوں کی جانوں کے اتلاف سے آ رہے ہیں اہل دانش کی آنکھوں میں آنسو دنیا بھر کے بے گناہوں کے جانی نقصانات سے آ رہے ہیں۔ اوباما اور ان کے پیشرو نے عراق اور افغانستان پر حملے کر کے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن فوجی حملوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور اس قدر بڑھ گئی کہ اس کا دائرہ افغانستان، عراق اور پاکستان سے نکل کر امریکا، فرانس، جرمنی، روس، چین، برطانیہ وغیرہ تک پھیل گیا، اب کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ اس جن کو کیسے قابو کیا جائے۔

ہمارے خیبر پختونخوا میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے قتل و خونریزی کا بازار گرم ہے وہاں کے دانشور ہتھیار کو مردوں کا زیور کہتے ہیں اور اس علاقے میں جتنا خون خرابہ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے وہ اسی زیور سے ہو رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں دولت کے حصول کی دوڑ کی وجہ سے قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے پسماندہ ملکوں میں نظریاتی پسماندگی کی وجہ سے قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے اور ہر جگہ اس ''نیک کام'' میں ہتھیار ہی استعمال ہو رہے ہیں۔

کیا اوباما اپنے شہریوں کے خلاف گن کنٹرول بل لا کر اس قتل و غارت کو روک سکتے ہیں؟ نہیں نہیں نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو عراق اور افغانستان میں ناکامی ہوتی نہ کھربوں ڈالر کا نقصان ہوتا۔ پسماندہ ملکوں میں مختلف آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ دہشت گردی کا حتمی علاج نہیں ہے۔ اوباما اگر امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے انسانوں کے قتل عام کو روکنا چاہتے ہیں تو انھیں سرمایہ دارانہ نظام کے کیسینو ''دولت کی ہوس'' کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کرنا چاہیے جو ہتھیاروں کی صنعت کے فروغ کا باعث بن رہی ہے اگر اوباما دنیا بھر میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو روکنا چاہتے ہیں تو انھیں تعلیم کو لازمی قرار دے کر جہل کا خاتمہ کرنا پڑے گا، ورنہ سایوں کے تعاقب سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔
Load Next Story