زبیر سے کاشف آخری حصہ
اس حوالے سے شادی بلکہ منگنی سے پہلے کسی ایک کا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے
اس حوالے سے شادی بلکہ منگنی سے پہلے کسی ایک کا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے۔ اگر وہ اس مرض کے چھوٹے حصے کا بھی شکار نہیں ہے کہ پھر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک کو علم ہوتا ہے تو وہ مائنر تھیلیسمیا کا شکار ہے تو دوسرے کا ٹیسٹ لازمی ہے۔ اگر دوسرا فریق اس بیماری میں مبتلا ہے تو پھر شادی کرنا خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوچکی ہے اور ٹیسٹ بھی مفت یا کم لاگت میں ہوجاتے ہیں۔ نکاح نامے میں بھی ایک کالم ہونا چاہیے کہ دلہا دلہن مائنر تھیلیسمیا کا شکار تو نہیں ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ مرض بالکل اسی احتیاط کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے۔
کالم اب ایک نازک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ زبیر کی آسان کہانی تو آپ نے پڑھ لی۔ اب کاشف کی مشکل کہانی ہے۔ کمزور دل کے والد محمد اقبال نے ہماری مانگرول میمن جماعت کی تقریب تقسیم انعامات میں سنائی۔ ''کاشف اقبال تھیلیسمیا کیئر سینٹر'' سے متعلق انھوں نے ایک کتابچہ بھی دیا۔ زبیر کے علاوہ ہمارے ہم زلف کی صاحبزادی زہرہ سہیل نامی ایک بہادر بچی ہر ماہ خون لگوانے آتی ہے۔ یوں اس مرض کے حوالے سے ایک تسلسل نے کاشف کے والد جناب محمد اقبال کی داستان غم کے درد کو دل پر محسوس کرنے پر مجبور کیا۔ دو حوالوں سے کاشف کی داستان زبیر سے مختلف ہے۔ ان دو باتوں کے سبب ہی کمزور دل والوں کو پیشکش کی کہ وہ اس مرحلے پر کالم کا مطالعہ چھوڑ دیں۔ یہی بات KITCC کے رسالے کے سرورق پر دی گئی ہے کہ ''کمزور دل والے چاہیں تو اس کو نہ پڑھیں۔''
کاشف اقبال (1980-96) کے والد کو ڈاکٹروں نے آئرن سے متعلق آگاہ نہیں کیا۔ یہ پہلی بات ہے جو زبیر سے مختلف ہے۔ محمد اقبال اپنے کتابچے ''مجھے زندگی چاہیے'' میں یہ بات یوں بیان کرتے ہیں۔ ''ہم نے چار سالہ کاشف کو چھوٹے بڑے درجن بھر ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ان عقلمند ڈاکٹر صاحبان کا کام تھا کہ ہمیں بتاتے کہ خون دینے کے ساتھ آئرن جسم میں ہی رہ جاتا ہے۔ یہ اضافی فولاد جسم سے نکالنے کے ڈسفرال انجکشن ایک پمپ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ نارمل حالت میں چالیس سے ڈیڑھ سو ملی گرام ہونا چاہیے۔ کاشف کا ٹیسٹ کروایا تو یہ پانچ ہزار سے زیادہ تھا۔
چودہ سال تک ڈاکٹر صاحبان نے یہ ٹیسٹ نہیں کروایا۔ میں مسجد میں رو رو کر دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ میرے بیٹے کو زندگی اور صحت بخش دے۔ میرا بیٹا چودہ سال سے موت و زندگی سے لڑ رہا ہے۔ پھر یہ بات میں نے ایک ڈاکٹر صاحبہ کو بتائی۔ان سے پوچھا کہ کیا پوری دنیا میں تھیلیسمیا کا علاج نہیں؟ انھوں نے خرچ پچاس ساٹھ لاکھ بتایا۔ اسٹیل مل کے ملازمت پیشہ شخص کے لیے سن 95 کے پانچ چھ ملین روپے۔ انھوں نے کہا کہ اٹلی میں ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے بشرط یہ کہ ٹشو میچنگ ہوجائے۔'' آئرن بڑھ جانے کے علاوہ غیر ملکی سفر دوسری بات ہے جو زبیر سے الگ ہے۔ اسی بات نے کاشف اور ان کے والد اقبال کی داستان کو المناکی کے ساتھ حوصلہ مندی بھی عطا کی ہے۔
''مجھے زندگی چاہیے'' نامی رسالے کے پچیس صفحات کو پچیس سطروں میں سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ محمد اقبال رقم طراز ہیں کہ ''شاید اللہ نے کاشف کو اٹلی میں علاج کا ایک موقع دیا ہو۔ اہم مسئلہ رقم جمع کرنے کا تھا۔ اسٹیل مل کے چیئرمین نے پچاس لاکھ کا سن کر کہا کہ تم پاگل ہوگئے ہو۔ پانچ مہینے کی بھاگ دوڑ کے بعد پانچ لاکھ روپے جمع ہوئے۔ کاشف کے اسکول کے ساتھی گاڑیاں روک کر اپیل کرتے۔ بچوں نے دو لاکھ جمع کیے۔ ایک سال ہوگیا لیکن علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی۔ پی ٹی وی نے اپیل چلوانے سے انکار کردیا۔ وہیں غزالہ یاسمین نے معین اختر سے ملوایا (یقین جانیں معین جتنا بڑا فنکار تھا اس سے کہیں بڑا درد مند انسان تھا۔
2004 میں کتاب ''عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں'' کی افتتاحی تقریب کے حوالے سے آرٹس کونسل کے سیکریٹری یاور مہدی صاحب کے دفتر میں ملاقات کے دوران معین کی سادگی دیکھنے کا موقع ملا، اس عظیم فنکار نے اسٹیل مل میں امدادی شو کیا یوں رقم بارہ لاکھ تک پہنچی۔ کئی لوگوں نے فنڈ کے سلسلے میں کچھ گل کھلائے۔ بدعنوانیوں اور فراڈ کا علم ہونے پر دل مزید دکھی ہوا۔ معین اختر نے حوصلہ دیا کہ رقم کم ہے پھر بھی کاشف کو اٹلی لے جاؤ۔ وہاں کی رکن پارلیمنٹ سوزانوتھا نے بہت مدد کی۔ ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹروں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے انکار کردیا کہ آئرن کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ آپریشن کیا تو کاشف مر جائے گا۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور لندن گئے۔ وہاں ہمارا کوئی نہیں تھا لیکن آنٹی محترمہ یاسمین نیازی نے بہت مدد کی۔ لندن کی مہنگائی میں ہماری رقم پانی کی طرح خرچ ہو رہی تھی۔ خون جلدی جلدی لگ رہا تھا۔
جس خوفناک پریشانی سے ہم گزرے وہ لکھ دوں تو روح کانپ جائے۔ لندن میں پاکستانی کمیونٹی کے ظفر خان نے مفت دوائیں دیں۔ کاشف کی طبیعت پھر خراب ہونے لگی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ تو تین دن پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ ہم نے اللہ کے حضور رو رو کے دعائیں کیں کہ بیٹے کو زندگی دے۔ اسپتال کے ڈاکٹر بھرپور کوشش کرتے رہے۔ میرے سامنے میرے کاشف کا دل پھٹ گیا۔ ناک اور آنکھوں سے نکلنے والی خون کی دھار کو میں کبھی نہ بھلا سکوں گا۔ ہمارے خاندان پر قیامت کی بجلی گر گئی۔ اس نے آخر میں کہا ''ابو مجھے معاف کردینا میں نے آپ کو بہت تکلیف دی۔'' کاشف ہمیں چھوڑ گیا۔ ایک خوفناک وقت تھم گیا۔ ہمارے پاس کفن دن کے پیسے نہیں تھے۔ سب کچھ لندن میں لوگوں نے کیا اور مجھے پتہ بھی نہیں لگنے دیا۔ کاشف کے جنازے پر عہد کیا کہ اللہ مجھے اتنی زندگی دے کہ پاکستان جاکر تھیلیسمیا کے بچوں کے لیے کچھ کروں۔''
یہ ہے ایک مرض کی داستان جس کا فی الوقت کوئی علاج نہیں۔ صرف احتیاط ہے کہ تھیلیسمیا مائنر کے دو لوگ آپس میں شادی نہ کریں۔ یہ ادھوری داستان ہے۔ المناکی کی داستان۔ عزم، ہمت اور حوصلے کی ایک اور داستان ہے کہ کس طرح ایک باپ نے اپنے بیٹے کے انتقال کے بعد ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ حوصلہ مندی کی یہ داستان ایک علیحدہ کالم کا تقاضا کرتی ہے۔ آگہی اور احتیاط ہی سے بچا جاسکتا ہے کہ کل کوئی اس طرح کی باتیں نہ لکھے ۔اپنے پیاروں کی رخصتی پر کوئی آنسو نہ بہائے۔ نہ کوئی رسالے شایع کروائے اور نہ کوئی ایسے کالم لکھے جس کا عنوان ہو ''زبیر سے کاشف تک۔''