دنیا تبدیلیوں کی زد میں

قارئین کرام معذرت کے ساتھ میں پچھلے دنوں علیل رہا اور غالباً یہ سوچنے سمجھنے سے عاری کہ کیا لکھا جائے۔

saifuzzaman1966@gmail.com

قارئین کرام معذرت کے ساتھ میں پچھلے دنوں علیل رہا اور غالباً یہ سوچنے سمجھنے سے عاری کہ کیا لکھا جائے۔ اگرچہ ایسے درجنوں معاملات ٹی وی چینلز پر، اخبارات میں دیکھنے، سننے کو ملے جن پر تبصرہ کرنے کی خواہش نے تقریباً مجھے جکڑ لیا لیکن کیا کرتا حالات سے مجبور، بس دل ہی دل میں مسوس کرکے رہ گیا۔

بہر حال حاضر ہوں۔کچھ عرض کرنے کے لیے دراصل دنیا بھر میں حالات اس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، بعض اوقات یقین نہیں ہوتا کہ انسان اس قدر متمدن ہونے کے باوجود قریب قریب وہیں پر کھڑا ہے جہاں اس نے ایک تہذیب کی بنیاد ڈالی تھی۔ ایک معاشرہ استوارکیا اور معاشرتی اکائیاں ترتیب دی تھیں۔ مجھے یاد ہے پچھلی ہزار سالہ جنگی تاریخ جس میں چنگیز خان، ہلاکو خان جیسے کچھ غیر انسانی رویے رکھنے والے بادشاہوں کو چھوڑ کر جنھوں نے لاکھوں لوگ قتل کیے، باقی جنگوں میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر جنگی قوانین کا اطلاق مختلف انداز میں ہوا اور ان سے خاص رعایت برتی گئی یا انھیں مستثنیٰ قرار دیا گیا۔

جب کہ آج جب ہم عراق پر امریکی حملے کو دیکھتے ہیں، افغانستان، شام کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف لگتا ہے کہ جملہ مخلوقات میں اگر کسی مخلوق نے ترقی کی تو وہ انسان ہے اوراگر کوئی مخلوق گراوٹ کی تمام حدیں پارکرگئی ظلم وبربریت کی انتہائی حد سے بھی گزرگئی تو وہ بھی انسان ہے۔ زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسئلہ گرم یا سرد پانیوں تک رسائی کا نہیں نہ ہی سرحدی جمع تفریق کا بلکہ مذہبی منافرت کا ہے۔آج خطہ ارض پر رہنے، بسنے والی تمام اقوام مصرہیں کہ ان کے مذہب کو سچا تسلیم کرتے ہوئے قبول کرلیا جائے۔ باقی سب جھوٹ ودروغ گوئی یا قصوں،کہانیوں پر مشتمل، موجودہ حالات میں اگر ہم اس پہلو سے جڑے دوسرے نقطۂ نظرکا جائزہ لیں تو اس کے بعد نسلی یا قومی برتری کا جنون اپنے آپ کو عظیم تر منوانے کا خبط، جوہٹلر موصوف کو بھی رہا۔ جس کی نذر دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسان ہوئے۔

اگرچہ یہ خبط نیا نہیں ارتقائے انسانی میں بھی ہمیں اس کے شواہد ملتے ہیں لیکن اس وقت یہ عروج پر ہے اوراس کا حل کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ البتہ تیسری عالمی جنگ کے بادل اب واضح طور پر گھن گرج رہے ہیں لیکن ہوگا کیا۔ پھر کروڑوں بے قصور انسانی جانوں کا اتلاف۔

بے شمارگھروں کی بربادی اوراس پر بھی کون کس کو بڑا مان لے گا۔ حالانکہ جو بڑے ہوگئے، انھیں بڑا ہی کہا جاتا ہے۔ان کی من مانی صرف ان کے ملکوں تک محدود نہیں۔ دنیا کے دیگر بظاہر آزاد ممالک کی حد تک بھی اس کا دائرہ وسیع ہے۔ بھئی امریکا، ایشیاء ، انگلینڈ، فرانس، آسٹریلیا، چین کو کون Boss نہیں کہتا یا عملاً کون ان ممالک کی بزرگی سے انکارکرتا ہے تب پھر یہ روز مرہ کی جنگیں کیوں؟ برتری کا یہ جنون کیسا؟ قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ کا ترجمہ ''کہ انسان فطرتاً عجلت پسند اورجھگڑالو ہے'' سب سے بڑا اور عظیم سچ ہے۔


دوسری طرف سعودی عرب کی سربراہی میں 38 یا شاید 39 مسلم ممالک کا ایسا اتحاد وجود میں آنا، جس کا مشترکہ مقصد دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہونا ہے، لیکن اس میں وطن عزیزکی شمولیت ایک ایسا معاملہ ہے جو غور طلب ہے بعد میں یہ نہ ہو کہ ''بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟'' مجھے ذاتی طور پر یہ رائے دینے میں اختلاج ہورہا ہے کہ یہ اتحاد شاید وہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جن کی تکمیل کے لیے اسے تشکیل دیا گیا۔ جب کہ اس کی کامیابی تو مشکوک ہے ہی لیکن ناکامی کیا غضب ڈھائے گی۔ لہٰذا بڑی احتیاط کی ضرورت ہے بہت سوچ بچار ہونی چاہیے۔ بالخصوص اس معاملے کو پارلیمنٹ میں کئی ایک روز بحث کا حصہ بننا چاہیے اور بحث میں بھی ہر جماعت کے وہ چنیدہ ممبران اسمبلی شامل ہوں جو کم و بیش فہم و فراست رکھتے ہیں۔ تب اس پر فیصلہ ہو اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

محض یہ کہہ دینا کہ فلاں ملک ہمارا بچپن کا دوست ہے۔ فلاں قوم سے ہمارے دیرینہ اٹوٹ مراسم ہیں، وہ محسن ہے، اس کی قربانیاں ہمارے لیے ان گنت ہیں۔ کافی نہیں۔ ہم ایک قوم ہیں،20 کروڑ نفوس پر مشتمل ایک ایسی قوم جو متحد بھی نہیں، فرقوں، طبقوں، صوبوں میں منقسم قوم توکیا ہم سدھار پائیں؟ اگر کچھ برا ہوا تو۔ کیونکہ اتحاد میں ہمارے علاوہ جو ممالک شامل ہیں وہ اندر اور باہر دونوں اطراف سے مضبوط ہیں۔ ان کی معیشت، بادشاہت جمہوریت ہم سے بہت زیادہ مستحکم ہے۔

وہ بلاشبہ ایک قوم ہیں۔ لہٰذا محترمین و مکرمین میری ناقص رائے، ناقص رائے اس لیے کہ اسے کوئی نہ پڑھے گا نہ سنے گا۔ بلکہ یہ شایع ہونے کے چند روز بعد ردی اخبارکا ایک ٹکڑا ہوگی۔ لیکن پھر بھی شاید1% فی صد کسی تک پہنچ جائے۔ یہی ہے کہ بہت سی خاموش صدیوں میں کوئی ایک صدی تبدیلیوں سے لبریز ہوتی ہے، جس میں جنگیں بھی ہوتی ہیں، جس میں عظیم دانشور، مفکر،گلوکار، صداکار، شاعر، ادیب بھی پیدا ہوتے ہیں اور مجھے موجودہ صدی میں کچھ اسی طرح کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔قارئین! بلدیاتی الیکشن کے تمام مراحل مکمل ہوئے بحسن و خوبی یا کچھ لے دے کے معاملہ نمٹ گیا۔

جیسا کہ میں نے اپنے کچھ گزشتہ کالمز میں بے ایمانی کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ الیکشن خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد میں ان پر بہت شرمندہ ہوا۔ کیوں کہ میں نے جس دھاندلی کا خطرہ اس وقت آپ کے سامنے پیش کیا تھا ہونے والی دھاندلی اس سے 1000% گنا زیادہ تھی، میں ایک جملے میں تو شاید ہی اس کی وضاحت کرسکوں لیکن اگر دو امیدواران کے مقابلے کا اعلان ہو تو وہ اس طرح ہونا چاہیے کہ فلاں فلاں سے دو بکیں (Two Books) آگے رہا جناب بیلٹ پیپرز کی Books الیکشن سے ایک روز قبل امیدواران میں باقاعدہ پریذائڈنگ آفیسرز کے دستخط اور میگنیٹ سیاہی کی مہر کے ساتھ تقسیم ہوچکی تھیں اگلے دن انھیں بیلٹ بکس میں ڈالنا تھا۔ جو کامیاب حکمت عملی کے ساتھ ڈالا گیا، وہ جیت گیا، بلکہ میں آپ کو طریقہ کار سے بھی آگاہ کرتا چلوں کہ ایک ووٹر کے پاس 10 ووٹ تھے جو اس نے اپنے اصل ووٹ کے ساتھ ملاکر یا اس میں لپٹ کر Box میں ڈال دیے، اس میں جو بہادر رہا جیت گیا۔ جو ڈر گیا وہ ہار گیا۔

میں نے در اصل اس سے قبل یہ معاملہ کبھی دیکھا نہیں تھا لہٰذا جب، جب عمران خان اس پر گفتگو فرماتے تھے تو میںان سے اختلاف کیا کرتا کہ بھائی صاحب کو Rigging کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا لیکن جب میں نے خود دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ اب تو ووٹرز کی منت سماجت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، مثلاً کیوں ہم بھمپل قصائی کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگائیں۔ یا کیوں منا پان والے کے سامنے ہاتھ جوڑیں، کیسی برادری،کس کا قبیلہ، کون سا محلہ، سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا کون اتنے لوگوں کے منہ لگے، جب ایک شریف پڑھا لکھا پریذائڈنگ آفیسر ہاتھ آگیا تو بہر حال اس پر مزید گفتگو پھر کسی تحریر میں کرتے ہی، فی الحال پاکستان زندہ باد، الیکشن کمیشن پایندہ باد۔
Load Next Story