پی ایس ایل کو سٹہ لیگ نہیں بننے دینا
اب تک پی ایس ایل نے اینٹی کرپشن کے جو منصوبے بنائے وہ بظاہر تو ٹھیک دکھائی دیتے ہیں
''ٹاس کا سکہ فضا میں اچھلا اور پھر زمین پر آگرا، ہیڈ ہے یا ٹیل اس سے پہلے کہ دونوں کپتانوں میں سے کوئی دیکھ پاتا ریفری نے فوراً اسے اچک کر جیب میں رکھ لیا، پھر وہ ایک کپتان سے کہنے لگے کہ آپ ٹاس جیت گئے ہیں، سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے''
قارئین یہ واقعہ گذشتہ عرصے بنگلہ دیش لیگ کے ایک میچ میں پیش آیا، ایونٹ میں اس کے علاوہ بھی کئی میچز میں ''مشکوک'' معاملات دکھائی دیے،بعض کی تو اندرون خانہ تحقیقات بھی جاری ہیں، یہ وہ ٹورنامنٹ ہے جس میں ہمارے کئی اہم کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا، اس سے قبل بھارت میں آئی پی ایل کے دوران جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے، پلیئرز، بورڈ آفیشلز، فرنچائز مالکان، امپائرز سب فکسنگ میں ملوث رہ چکے، آسٹریلیا تک کو اپنے بگ بیش میں اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے جس کی وجہ سے اس نے انتہائی غیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔
اب ایسے میں بات پاکستان کی ہو تو ویسے ہی لوگوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، پلیئرز کی نیلامی کے وقت بعض ''نامی گرامی'' افراد مسکراتے ہوئے تصاویر کھنچواتے دکھائی دیے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ایونٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے، بدقسمتی سے ہم جاوید میانداد،عبدالقادر، محسن خان، راشد لطیف اور عامر سہیل جیسے ایماندار افراد کو دور رکھ کر مشکوک لوگوں کو ہی آگے لاتے ہیں، نجانے اس کے پیچھے کیا مقصد ہوتا ہے، عامر قومی ٹیم میں واپس آ گئے اور اب سلمان بٹ اور آصف کی واپسی کیلیے مہم شروع ہو چکی،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرپشن کے خلاف ''عدم برداشت'' کی پالیسی کتنی حقیقی ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی کیسز بدقسمتی سے ہمارے ساتھ جڑے ہیں، اس لیے دنیا بھر کی نظریں اس لیگ پر ہوں گی، بھارت بھی دل میں جل بھن رہا ہو گا کہ یہ کہاں اپنی لیگ کرانے لگ گئے، وہاں کے بکیز بھی آستینیں چڑھائے بیٹھے ہوں گے، ایسے میں منتظمین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایونٹ کو فکسرز سے بچانے کیلیے اقدامات کریں۔ راشد لطیف نے فکسنگ روکنے کیلیے اپنا کیریئر داؤ پر لگا دیا تھا، اب اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ''پی ایس ایل کہیں پاکستان سٹہ لیگ نہ بن جائے'' تو اس بات پر غصے کے بجائے غور کرنا چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں ایونٹ میں اینٹی کرپشن یونٹ کا مشیر بنا دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا، اپنی صاف گوئی کی وجہ سے راشد حکام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتے ہیں، کم سے کم نجم سیٹھی کو ان سے ملاقات کر کے شکوک کی وجوہات معلوم کرنی چاہیئں تاکہ سدباب کیا جا سکے۔
اب تک پی ایس ایل نے اینٹی کرپشن کے جو منصوبے بنائے وہ بظاہر تو ٹھیک دکھائی دیتے ہیں، میری گزشتہ دنوں کرنل (ر) اعظم سے تفصیلی گفتگو ہوئی، وہ ایونٹ میں اینٹی کرپشن اور سیکیورٹی کے معاملات دیکھیں گے، ہر ٹیم کے ساتھ انٹیگریٹی آفیسرز کا تقرر ہو گا، ساتھ فون ریکارڈز وغیرہ پر بھی نظر رکھی جائے گی، مگر اب بکیز اور حرام کھانے میں ماہر کھلاڑی بڑے چالاک ہو گئے ہیں، وہ نت نئے انداز سے رقم کماتے ہیں، آئی سی سی بھی نجی لیگز کیلیے اپنے اے سی ایس یو آفیشلز کو نہیں بھیجتی، اس لیے بکیز کو بھی آسانی ہو گئی ہے، پاکستان ویسے ہی منفی خبروں کی زد میں رہتا ہے لہذا لیگ کو محفوظ رکھنا بیحد ضروری ہے، اسی صورت بڑے کھلاڑی اس میں حصہ لیتے رہیں گے۔
پی ایس ایل کے روح رواں نجم سیٹھی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ''ٹویٹر والوں'' کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یقیناً وہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی اہمیت سے بھی واقف ہوں گے ورنہ ٹی وی شو اور اخباری کالم کا سلسلہ جاری نہ رکھتے،انھیں ٹویٹر پرہزاروں فالوورز انہی میڈیمز نے دیے،بدقسمتی سے پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ بیحد کمزور ہے،پی ایس ایل کے حوالے سے معلومات کا حصول آسان نہیں ہوتا، سیٹھی صاحب کو اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایونٹ کیلیے پلیئرز کی نیلامی میں یونس خان کو نظر انداز کیا گیا، سعید اجمل بھی سپلیمنٹری کیٹیگری میں منتخب ہوئے، یہ ان کھلاڑیوں کی نہیں ہماری کرکٹ کی توہین ہے، مجھے یاد ہے کہ آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کیلیے جب بھارت گیا تو میں نے ان کے ایک ٹاپ آفیشل سے پوچھا تھا کہ ''آپ نے راہول ڈریوڈ جیسے ٹیسٹ کرکٹرز کو کیوں ٹی ٹوئنٹی لیگ میں شامل کیا'' ان کا جواب تھا کہ '' ہم نے اپنے ہیرو کی عزت افزائی کی، چند لاکھ یا کروڑ سے نہ ہم غریب ہوتے نہ وہ امیر، بات صرف عزت کی ہے کہ ہم نے ملک کیلیے خدمات انجام دینے والے کو یاد رکھا'' کاش پی ایس ایل میں بھی ایسا ہی ہوتا، یونس اگر کپتان بن کر کھیلنے کا کہہ رہے تھے تو یہ کوئی حرف آخر تو نہیں تھا۔
انھیں بات کر کے سمجھایا جا سکتا تھا کہ بطور پلیئر و ٹیم رہنما ساتھ رہیں اس سے نئے کھلاڑیوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا، اسی طرح سعید اجمل نے پاکستان کو اتنے میچز جتوائے، اب ان کی بولنگ کارآمد نہیں رہی تو کوئی پوچھنے کو تیار نہیں، فرنچائزز نے15 ''عظیم کھلاڑی'' لے لیے وہیں اپنی نظر میں ایک ''بے اثر'' بولر سعید اجمل کو بھی منتخب کر لیتے تو کیا غلط ہوتا،فکسرزکے پیچھے بھاگنے کے بجائے کاش ہم بھی اپنے اصل ہیروز کی قدر کریں اور ان کا احترام کرنا سیکھ جائیں، اس وقت تو ''ریوڑیوں'' والی مثال ہی صادق آتی ہے، بورڈ سے منسلک افراد کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔
مشتاق احمد اور شاہد اسلم جیسے لوگ قومی ٹیم کے ساتھ پی ایس ایل ٹیموں کیلیے بھی کام کر کے نوٹ کمائیں گے، محمد اکرم کو بھی استعفی دیتے ہی نیا کام مل گیا، اعجاز احمد اور معین خان جیسے ''پارسا'' بھی لیگ سے منسلک ہیں، ڈین جونز کے بارے میں سکندر بخت نے گذشتہ دنوں بڑا انکشاف کیا تھا، واقعی منتظمین نے اپنے اشتہار کے مطابق لیگ کیلیے بڑے ''نیک ''آفیشلز کا انتخاب کیا ہے،دیکھیں ایونٹ میں کیا ہوتا ہے۔
قارئین یہ واقعہ گذشتہ عرصے بنگلہ دیش لیگ کے ایک میچ میں پیش آیا، ایونٹ میں اس کے علاوہ بھی کئی میچز میں ''مشکوک'' معاملات دکھائی دیے،بعض کی تو اندرون خانہ تحقیقات بھی جاری ہیں، یہ وہ ٹورنامنٹ ہے جس میں ہمارے کئی اہم کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا، اس سے قبل بھارت میں آئی پی ایل کے دوران جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے، پلیئرز، بورڈ آفیشلز، فرنچائز مالکان، امپائرز سب فکسنگ میں ملوث رہ چکے، آسٹریلیا تک کو اپنے بگ بیش میں اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے جس کی وجہ سے اس نے انتہائی غیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔
اب ایسے میں بات پاکستان کی ہو تو ویسے ہی لوگوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، پلیئرز کی نیلامی کے وقت بعض ''نامی گرامی'' افراد مسکراتے ہوئے تصاویر کھنچواتے دکھائی دیے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ایونٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے، بدقسمتی سے ہم جاوید میانداد،عبدالقادر، محسن خان، راشد لطیف اور عامر سہیل جیسے ایماندار افراد کو دور رکھ کر مشکوک لوگوں کو ہی آگے لاتے ہیں، نجانے اس کے پیچھے کیا مقصد ہوتا ہے، عامر قومی ٹیم میں واپس آ گئے اور اب سلمان بٹ اور آصف کی واپسی کیلیے مہم شروع ہو چکی،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرپشن کے خلاف ''عدم برداشت'' کی پالیسی کتنی حقیقی ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی کیسز بدقسمتی سے ہمارے ساتھ جڑے ہیں، اس لیے دنیا بھر کی نظریں اس لیگ پر ہوں گی، بھارت بھی دل میں جل بھن رہا ہو گا کہ یہ کہاں اپنی لیگ کرانے لگ گئے، وہاں کے بکیز بھی آستینیں چڑھائے بیٹھے ہوں گے، ایسے میں منتظمین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایونٹ کو فکسرز سے بچانے کیلیے اقدامات کریں۔ راشد لطیف نے فکسنگ روکنے کیلیے اپنا کیریئر داؤ پر لگا دیا تھا، اب اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ''پی ایس ایل کہیں پاکستان سٹہ لیگ نہ بن جائے'' تو اس بات پر غصے کے بجائے غور کرنا چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں ایونٹ میں اینٹی کرپشن یونٹ کا مشیر بنا دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا، اپنی صاف گوئی کی وجہ سے راشد حکام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتے ہیں، کم سے کم نجم سیٹھی کو ان سے ملاقات کر کے شکوک کی وجوہات معلوم کرنی چاہیئں تاکہ سدباب کیا جا سکے۔
اب تک پی ایس ایل نے اینٹی کرپشن کے جو منصوبے بنائے وہ بظاہر تو ٹھیک دکھائی دیتے ہیں، میری گزشتہ دنوں کرنل (ر) اعظم سے تفصیلی گفتگو ہوئی، وہ ایونٹ میں اینٹی کرپشن اور سیکیورٹی کے معاملات دیکھیں گے، ہر ٹیم کے ساتھ انٹیگریٹی آفیسرز کا تقرر ہو گا، ساتھ فون ریکارڈز وغیرہ پر بھی نظر رکھی جائے گی، مگر اب بکیز اور حرام کھانے میں ماہر کھلاڑی بڑے چالاک ہو گئے ہیں، وہ نت نئے انداز سے رقم کماتے ہیں، آئی سی سی بھی نجی لیگز کیلیے اپنے اے سی ایس یو آفیشلز کو نہیں بھیجتی، اس لیے بکیز کو بھی آسانی ہو گئی ہے، پاکستان ویسے ہی منفی خبروں کی زد میں رہتا ہے لہذا لیگ کو محفوظ رکھنا بیحد ضروری ہے، اسی صورت بڑے کھلاڑی اس میں حصہ لیتے رہیں گے۔
پی ایس ایل کے روح رواں نجم سیٹھی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ''ٹویٹر والوں'' کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یقیناً وہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی اہمیت سے بھی واقف ہوں گے ورنہ ٹی وی شو اور اخباری کالم کا سلسلہ جاری نہ رکھتے،انھیں ٹویٹر پرہزاروں فالوورز انہی میڈیمز نے دیے،بدقسمتی سے پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ بیحد کمزور ہے،پی ایس ایل کے حوالے سے معلومات کا حصول آسان نہیں ہوتا، سیٹھی صاحب کو اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایونٹ کیلیے پلیئرز کی نیلامی میں یونس خان کو نظر انداز کیا گیا، سعید اجمل بھی سپلیمنٹری کیٹیگری میں منتخب ہوئے، یہ ان کھلاڑیوں کی نہیں ہماری کرکٹ کی توہین ہے، مجھے یاد ہے کہ آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کیلیے جب بھارت گیا تو میں نے ان کے ایک ٹاپ آفیشل سے پوچھا تھا کہ ''آپ نے راہول ڈریوڈ جیسے ٹیسٹ کرکٹرز کو کیوں ٹی ٹوئنٹی لیگ میں شامل کیا'' ان کا جواب تھا کہ '' ہم نے اپنے ہیرو کی عزت افزائی کی، چند لاکھ یا کروڑ سے نہ ہم غریب ہوتے نہ وہ امیر، بات صرف عزت کی ہے کہ ہم نے ملک کیلیے خدمات انجام دینے والے کو یاد رکھا'' کاش پی ایس ایل میں بھی ایسا ہی ہوتا، یونس اگر کپتان بن کر کھیلنے کا کہہ رہے تھے تو یہ کوئی حرف آخر تو نہیں تھا۔
انھیں بات کر کے سمجھایا جا سکتا تھا کہ بطور پلیئر و ٹیم رہنما ساتھ رہیں اس سے نئے کھلاڑیوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا، اسی طرح سعید اجمل نے پاکستان کو اتنے میچز جتوائے، اب ان کی بولنگ کارآمد نہیں رہی تو کوئی پوچھنے کو تیار نہیں، فرنچائزز نے15 ''عظیم کھلاڑی'' لے لیے وہیں اپنی نظر میں ایک ''بے اثر'' بولر سعید اجمل کو بھی منتخب کر لیتے تو کیا غلط ہوتا،فکسرزکے پیچھے بھاگنے کے بجائے کاش ہم بھی اپنے اصل ہیروز کی قدر کریں اور ان کا احترام کرنا سیکھ جائیں، اس وقت تو ''ریوڑیوں'' والی مثال ہی صادق آتی ہے، بورڈ سے منسلک افراد کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔
مشتاق احمد اور شاہد اسلم جیسے لوگ قومی ٹیم کے ساتھ پی ایس ایل ٹیموں کیلیے بھی کام کر کے نوٹ کمائیں گے، محمد اکرم کو بھی استعفی دیتے ہی نیا کام مل گیا، اعجاز احمد اور معین خان جیسے ''پارسا'' بھی لیگ سے منسلک ہیں، ڈین جونز کے بارے میں سکندر بخت نے گذشتہ دنوں بڑا انکشاف کیا تھا، واقعی منتظمین نے اپنے اشتہار کے مطابق لیگ کیلیے بڑے ''نیک ''آفیشلز کا انتخاب کیا ہے،دیکھیں ایونٹ میں کیا ہوتا ہے۔