روزاپارکس اوربس

روزاانتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔تعلیم کے میدان میں سیاہ فام بچوں کے اسکول بالکل علیحدہ تھے۔


راؤ منظر حیات January 16, 2016
[email protected]

گیارہ سال کی بچی بس اسٹاپ پرکھڑی اسکول بس کاانتظارکررہی تھی۔قیامت کی بارش اورسردی سے ٹھٹھررہی تھی۔ لاری اس کے سامنے رکی۔ڈرائیورنے دروازہ کھولا۔ خالی بس اسٹاپ کودیکھا۔دروازہ بندکیااورروانہ ہوگیا۔بچی نے بے بسی سے اردگرددیکھا۔ٹھنڈاسکی ہڈیوں کومنجمدکررہی تھی۔اپنے اسکول نہیں جاسکتی تھی کیونکہ معلوم نہیں تھاکہ سیاہ فام بچوں کے لیے گاڑی کب آئیگی۔بستہ کندھے پرڈال کرگھرکی طرف چل پڑی۔بارش کاپانی اس قدرسردتھاکہ بدن نیلاہوناشروع ہو گیا۔گھرپہنچ کربہت دیرروتی رہی۔

روزاانتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔تعلیم کے میدان میں سیاہ فام بچوں کے اسکول بالکل علیحدہ تھے۔ اسکول میں داخل ضرورہوئی مگراپنے مشکل گھریلوحالات کی بدولت جلدہی اسکول چھوڑنے پرمجبورہوگئی۔پھر اس کی شادی ریمنڈپارکس سے ہوگئی جوپیشے کے اعتبارسے نائی تھا۔دونوں میاں بیوی غربت کی اَن دیکھی چکی میں مسلسل پس رہے تھے۔

گھرچلانااس درجہ دشوارتھاکہ روزاہرادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے پر مجبورتھی۔1900ء میں مونٹگمری شہرکی انتظامیہ نے ایک قانون بنایاتھاکہ تمام بسوں میں کالے اورسفیدفام لوگوں کی سیٹیں علیحدہ علیحدہ ہونگیں۔بس کے دودروازے ہوتے تھے۔ سفید لوگ شروع کے دروازے سے داخل ہوکراپنی مخصوص نشستوں پربیٹھ جاتے تھے۔سیاہ فام لوگ پہلے دروازے سے بس میں داخل ہوتے تھے۔ٹکٹ خریدتے تھے اورپھربس سے باہرچلے جاتے تھے۔

اپنی نشست پربیٹھنے کے لیے بس کے آخری دروازے سے سوارہوتے تھے۔سیاہ فام لوگ اس ناانصافی کو اپنی قسمت سمجھ کرقبول کرچکے تھے۔مسافربسوں کے ڈرائیور صرف گورے رکھے جاتے تھے۔یہ ڈرائیورایک اورحرکت بھی کرتے تھے۔اگربس میں سفیدفام مسافروں کی تعدادبڑھ جائے توکالے لوگوں کوان کی مختص نشستوں سے اٹھادیتے تھے۔ کالے درمیانی راہداری میں کھڑے ہونے پرمجبورہوتے تھے اورگورے لوگ بڑے آرام سے ان کی نشستوں پربراجمان ہوجاتے تھے۔

1943ء میں روزااپنے کام پرجارہی تھی۔قانون کے مطابق بس کے پہلے دروازے سے داخل ہوکراپناٹکٹ خریدا۔ بس کے ڈرائیورنے حکم دیاکہ وہ اب بس سے باہرنکلے اور پچھلے دروازے سے دوبارہ داخل ہو۔روزاباہرنکلی اوردوبارہ بس میں سوارنہیں ہوئی۔ڈرائیورحسب دستورایک سفیدفام تھا اوراس کا نام جیمزبلیک تھا۔سیاہ فام روزاخاموش رہی۔اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ1900ء کے قانون کو توڑ سکے۔ خیر عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ روزاپارکس کی ذہنی نسبت انسانی حقوق کی تنظیموں سے بڑھتی جارہی تھی۔وہ اس سیاسی جدوجہد کاحصہ بن رہی تھی جس کا واحد مقصد سیاہ فام لوگوں کے ذہن اورقسمت کوبدلناتھا۔

یکم دسمبر1955ء شام کو حسب معمول اپناکام ختم کرنے کے بعدبس اسٹاپ پرکھڑی ہوگئی۔مکمل طورپرتھکی ہوئی تھی۔ عاجزی سے بس کے پہلے دروازے سے داخل ہوئی۔ٹکٹ خریدا۔بس سے باہرنکلی اوردوسرے دروازے سے لاری میں داخل ہوگئی۔سیاہ فام لوگوں کی مخصوص نشستوں پرخاموشی سے بیٹھ گئی۔اس کے ساتھ تین اسی کی نسل کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔

اسے علم نہیں تھاکہ وہ چندلمحوں،منٹوں اوردنوں میں امریکا کومکمل طورپرتبدیل کردیگی۔بس جب اگلے اسٹاپ پر رُکی توچارسفیدفام لوگ بس میں داخل ہوگئے۔لاری میں کوئی جگہ نہیں تھی۔بس کاڈرائیوروہی جیمز بلیک تھاجس نے بارہ برس قبل روزاکے ساتھ تلخ کلامی کی تھی۔اس نے روزااوراس کے ساتھ بیٹھے ہوئے کالے مسافروں کواٹھنے کااشارہ کیا۔

روزا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تینوں لوگ بے بسی سے اٹھے اوران کی نشستوں پرگورے بیٹھ گئے۔مگرابھی ایک نشست کی ضرورت تھی۔ ڈرائیورغصے سے روزاکے پاس آیااور اٹھنے کاحکم دیا۔ روزا نے جواب دیاکہ اس نے قانونی طریقے سے اپنے ٹکٹ خریداہے۔وہ کالوں کے لیے مختص سیٹوں پربیٹھی ہے۔لہذاوہ نہیں اٹھے گی۔بلیک نے پولیس کوبلوا لیا۔ روزا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے بتایاگیاکہ اس نے قانون شکنی کی ہے اوراس پرعدالت میں مقدمہ چلایاجائیگا۔

سیاہ فام لوگوں میں ارتعاش پھیل گیا۔مقامی لوگوں نے ایک بہت مضبوط فیصلہ کرلیا۔متحرک نوجوان لڑکے اورلڑکیوں نے ہزاروں پمپلفٹ تقسیم کرڈالے کہ5دسمبر1955ء کوکوئی سیاہ فام بس میں سفرنہیں کریگا۔ ناانصافی کے خلاف یہ لوگوں کے دل کی آواز تھی۔ 5دسمبر انتہائی سرددن تھااورقیامت کی بارش ہورہی تھی۔اس دن کمال ہوگیا۔دفترجانے کے لیے کالے لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں سیاہ فام ہمسایوں کوبٹھاناشروع کر دیا۔کالے ٹیکسی ڈرائیوروں نے اپناکرایہ عام مسافربس کے برابرکردیا۔وہ دس سینیٹ میں لوگوں کوایک سے دوسری جگہ پہچانے لگے۔

ہزاروں سیاہ فام لوگوں نے اپنے گھر اور دفاتر کی جانب پیدل چلناشروع کردیا۔مرداورخواتین بیس بیس میل تک قیامت کی بارش اورسردی میں پیدل چلتے رہے۔الابامہ ریاست میں زلزلہ ساآگیا۔سفیدفام مقتدر سیاستدان تصوربھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایسابھی ہوسکتا ہے۔ پارکس کوعدالت میں پیش کیاگیا۔اسے دس ڈالرجرمانہ کیا گیا۔

پارکس نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ پورے امریکا میں کہرام مچ گیا۔بہترین وکلاء نے پارکس کا کیس مفت لڑنے کااعلان کردیا۔تمام انسانی حقوق کی تنظیموں ،میڈیااورسول سوسائٹی نے پارکس کاساتھ دینے کافیصلہ کرلیا۔مونٹگمری شہرکے کالے لوگوں نے بسوں میں سفرکرنے سے انکار کردیا۔ 381 دن تک یہ بائیکاٹ جاری رہا۔بسوں کی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں۔ ان کے لیے ممکن ہی نہیں رہاکہ وہ منافع کے بغیر کاروبارجاری رکھ سکیں۔

اس عظیم واقعہ کی بازگشت امریکا کی سپریم کورٹ تک چلی گئی۔سپریم کورٹ نے فیصلہ دیاکہ بسوں میں جلدکی رنگت پرنشستیں مخصوص کرنے کاقانون یکساں حقوق کے خلاف ہے۔حکومت نے سارے امریکا میں کالے اورگوروں کو یکساں حقوق دینے کااعلان کردیا۔روزاپارکس نے ناانصافی کے خلاف مہذب انکارکرکے امریکا کویکسرتبدیل کرڈالا۔

روزاپارکس کے اس واقعہ کاپاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اگرسوچاجائے تواسکاہمارے ملک سے گہرا تعلق ہے۔ بیس کروڑآبادی کے اس ملک میں انیس کروڑ، نناوے لاکھ لوگ الابامہ ریاست کے مونٹگمری شہرکے سیاہ فام لوگوں کی طرح ہیں۔اس تناسب سے یہاں صرف ایک لاکھ سفیدفام پاکستانی ہیں۔یہ ایک لاکھ لوگ ہمارے ملک کی ہر چیز پر قابض ہیں۔ تخت، عدالت، سیاست، کاروبار سب کچھ انھی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔نناوے فیصدلوگوں کے کوئی حقوق نہیں۔

ان کے بچوں کاکوئی مستقبل نہیں۔ان کے لیے کوئی معاشی،سماجی یاسیاسی انصاف نہیں۔ بظاہریہ لوگ اس ملک میں برابرکے زندہ شہری ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ صرف سانس لینے والے گوشت کے مجسمے ہیں۔ان کے جینے اورمرنے میں کوئی تفریق نہیں۔پاکستان کے ایک لاکھ سفیدفام مقتدرطبقے کے بچوں کے اسکول اورکالج مختلف ہیں۔ان کے کھانے کے لیے ہوٹل اورریسٹورنٹ مختلف ہیں۔ان کی کروڑوں روپے کی گاڑیاں غریبوں کی سواریوں کامذاق اُڑاتی ہیں۔

ان کے جہازاورجیٹ طیارے بھی اپنے ہیں۔ان کے ائیرپورٹ بھی مختلف ہیں اورکئی مقامات پرذاتی بھی ہیں۔ یہ تفریق حددرجہ تک موجودہے مگر کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ ذکر تو ضرورہوتاہے مگرنظام کوغریب کے لیے بہتربنانے کاکوئی قدم نہیں اٹھایاجاتا۔اگررحم آجائے تو چند روپوں کاماہانہ تضحیک آمیزوظیفہ یاادنیٰ درجہ کی اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کے بدقسمت سیاہ فام غلاموں اور کنیزوں کوپیٹ کی آگ بجھانے کے ظالمانہ گورگھ دھندے میں ڈال دیاگیاہے جس میں وہ سوچنے کی طاقت سے محروم ہوچکے ہیں۔

بدن اورروح کے واجبی سے تعلق کوقائم رکھنے کے لیے جانوروں کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔ادنیٰ سی تعلیم کے بعداس بے رحم نظام میں ایک ادنیٰ سی نوکری کی تلاش کرتے کرتے اکثرانسان زندگی،مقدر،خوشی اورغم کی دہلیزعبورکرجاتے ہیں۔انھیں یہ سمجھایاجاتاہے کہ یہ سب کچھ تمہارامقدرہے۔یہ تمہارانصیب ہے۔اگریہ دلیل درست ہے توہمارے ہی ملک کے بچے اوربچیاں غیرممالک میں جاکر معجزے کیسے برپاکردیتے ہیں۔وہاں وہ کیسے، جائز طریقے سے ارب پتی ہوجاتے ہیں۔ وہاں، کس طرح سفارش اور چاپلوسی کیے بغیرسیاست اور ریاست کے اہم ترین عہدوں پر فائزہوجاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ناانصافی اورجہالت کی سردبارش ہو رہی ہے۔اچھے مستقبل کی بس رُکتی ہے توبس اسٹاپ پرکھڑے عام لوگوں کواس میں کوئی نشست نہیں ملتی۔ انھیں بتایاجاتاہے کہ ان کے لیے ایک اورلاری آنے والی ہے۔انتظارمیں بظاہر زندہ نظرآنے والے کروڑوں سیاہ فام لوگ مسلسل کھڑے رہتے ہیں۔یہاں کوئی روزا پارکس نہیں جوکہہ سکے کہ میرے حقوق بھی ہیں۔میں بھی زندہ ہوں اورمیں بھی اپنے یکساں حقوق کے لیے لڑسکتی ہوں۔ میں اپنی نشست سے نہیں اٹھونگی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں