خود کو بے سائبان نہ کیجیے
والدین کی سب سے بڑی ذمے داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت، تعلیم کے لیے اب بڑے بڑے نام ہمارے پاس موجود ہیں،
ISLAMABAD:
والدین کی سب سے بڑی ذمے داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت، تعلیم کے لیے اب بڑے بڑے نام ہمارے پاس موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے تربیت کے لیے پہلے کی طرح والدین کے پاس وقت موجود نہیں اورکوئی ایسے ادارے بھی موجود نہیں، جو بچوں کی کونسلنگ کرسکیں یا والدین کی بھی کونسلنگ کرسکیں ۔ ابھی ایسی بھی ہوا چلی نہیں کہ والدین خود اپنی کونسلنگ کے بارے میں سوچیں۔ بہت اہم اور انتہائی وقت کی ضرورت اس شعبے میں کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ والدین اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگیں اور بچے اپنے آپ کو انتہائی اسمارٹ سمجھنے لگیں تو یہی کچھ ہوسکتا ہے، جو ہو رہا ہے۔
ایک بگاڑکی صورت حال دن بہ دن زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے، عبدالستار ایدھی نے بے سہارا افراد کے لیے ایدھی ہومز بنوائے تو اچھے خاصے اپنے گھروں میں بسے ہوئے والدین کو ان کی سگی اولاد نے بوجھ سمجھتے ہوئے گھروں سے نکال کر ان سینٹر میں بسا دیا، کہیں والدین کے لیے گھر چھوٹے تھے، کہیں دل اتنے چھوٹے ہوگئے کہ سگی اولاد اپنے والدین کے لیے ایک مہینے تمہارے گھر، ایک مہینے میرے گھر، پر بحث ہونے لگی اور اگر والدین بڑھاپے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو بیٹا یا بیٹی، والدین کے جراثیم سے اپنے بچوں کو بچانے لگیں کہ والدین خود رہیں تاکہ ان کے بچے صحت مند رہیں۔
محبت اندھی ہوتی ہے، عاشق کی بھی اور والدین کا بھی خاص طور پر ماں کی۔ جو ساری جوانی، ساری عمر اس شوق و لگن میں بچوں پر وار دی جاتی ہے کہ بچے بڑے ہوکر اس کو ملکہ بنا دیں گے۔کسی محل کی نہ سہی مگر اپنے دنوں کی ملکہ ضرور بنا لیں گے وہ خوب خوشیوں کے ساتھ بیٹا، بہو اوران کے بچوں میں اپنے بڑھاپے کی بہاریں دیکھے گی مگر قسمت کا حال تو ضرور اللہ بہتر جانتا ہے، غیب اور مستقبل تو صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
ساری زندگی کی تھکن ساری سوچیں کیا، اس لیے تھیں کہ بڑھاپے کے ساتھ ساتھ، بے سہارا بے آس و مددگار گزرے گی کیا جوان ہوکر اولاد والدین کا سہارا بننے کے بجائے وہ ادارے اور سینٹر ڈھونڈیں گے جس میں وہ بوڑھے والدین کو ''جمع'' کرا سکیں تاکہ ان کے دن و رات تسلی اور سکون سے گزریں اور ان اولادوں کی اولاد صحت مند و توانا رہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ اگر اسی طرح ہماری سوچ ''ماڈرن'' ہوتی چلی گئی تو کونسلنگ کے زیادہ ایسے سینٹر اور ادارے بنانے پڑیں گے جس میں بے سہارا لوگ رہ سکیں۔ ایسے بے سہارا جن کے اپنے خود ان کو بے سہارا کردیں اور دنیا کی رنگینیوں کا حصہ بن جائیں۔
ایک قصہ یاد آرہا ہے آپ بھی سن لیجیے ''ایک بوڑھی خاتون ایک ویلفیئر سینٹر میں سالوں سے رہ رہی تھی، آخری وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش کی، بیٹا تشریف لے آیا، بوڑھی خاتون نے بیٹے سے کہا کہ 'اب میں مرنے والی ہوں ایک آخری خواہش ہے پوری کردو' بیٹے نے حیران ہوکر ماں کو دیکھا کہ آج تک کوئی بھی فرمائش اس کی ماں نے نہیں کی اب جب کہ مرنے والی ہے تو کون سی فرمائش آگئی، بولا' بولیے کیا فرمائش ہے۔' ماں نے کہا 'بیٹا یہاں پر نہ پنکھا ہے اور نہ اے سی، سخت گرمی ہوتی ہے، تم ایک اے سی لگا دو' بیٹا سخت حیران ہوا کہ اب جب کہ ماں مرنے والی ہے تو اے سی کی کیوں ضرورت ہے ۔ بولا کہ 'اماں اب اے سی کی کیوں ضرورت آن پڑی؟'
ماں نے جواب دیا، بیٹا اپنے لیے نہیں تیرے لیے کہہ رہی ہوں، تجھے اے سی کی عادت ہے جو یہاں نہیں ہے آج میں ہوں یہاں کل تیری اولاد بھی تجھے یہاں چھوڑے گی توکم ازکم تیرے لیے کچھ انتظام تو ہو۔''
ایسی ہوتی ہیں مائیں جاتے جاتے بھی اپنی اولاد کی بھلائی ہی سوچ رہی ہوتی ہیں۔ ساری جوانی محنت و مشقت اور سختی برداشت کی اورآخری وقت میں بھی لوہے کی کیلیں مقدر بن گئی، کیسی بدبختی ہے ان لوگوں کے لیے جو جنت کے دروازے اپنے اوپر خود بند کرلیتے ہیں اور جہنم کی آگ کو اپنے لیے ٹھنڈک تصورکرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان پڑھ لوگ ہی ایسا کرتے ہیں بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ، کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ بھی ایسے ایسے رویے پیش کرتے نظر آتے کہ گمان ہوتا ہے کہ جوکتابوں میں قیامت کی نشانیاں پڑھی ہیں وہ شاید ان ہی لوگوں پہ پوری اترتی ہیں۔
جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت ضروری ہے، اگر والدین کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں یا عورت ومرد دونوں ہی اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مصروف ہوگئے ہیں اور کم کم وقت اپنی نسل کی تعلیم وتربیت کو دے پارہے ہیں توکم ازکم اس میدان کو خالی نہ چھوڑا جائے، کیونکہ اس کے خالی پن کے اثرات نہایت ہی مضر اورخطرناک حد تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی بچوں کے لیے ایسے ہی ضروری ہے، جیسے جینے کے لیے آکسیجن، اعلیٰ ڈگریاں اچھی ملازمت تو دلاسکتی ہیں مگر اعلیٰ انسان بننے کے لیے اچھی سوچ اور مثبت رویے کی ضرورت بہرحال ہے اور رہے گی۔
جس طرح ممتاز سماجی کارکن ستار ایدھی نے لاوارث لوگوں کے لیے مرکز بنائے کہ اللہ کریں کہ کوئی ایسے ہی سامنے آئیں اور ان لاوارث لوگوں کو لاوارث بنانے والے لوگوں کے لیے ان کی تربیت کے سینٹر بنائے۔ عجیب گھن چکر معاشرہ بنا ہوا ہے۔ والدین کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے بچے MBA یا ماسٹرز کرنے کے بعد بھی اچھے انسان نہیں بن پاتے، کبھی ڈاکو، کبھی دہشت گرد کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اورکچھ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ شاید ان کے والدین بھی ہکا بکا رہ جاتے ہیں، مگر سارے دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں اور بات بہت آگے جاچکی ہوتی ہے۔
ہمیں ماڈرن اور دلفریب ہونے سے زیادہ اس بات پر شدید توجہ دینا چاہیے کہ نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے بچوں کی زندگیوں میں جو خلا تیزی سے ہوتا جا رہا ہے ہم اسے کس طرح بھرسکتے ہیں۔ تاقیامت تک والدین اور اولاد کے معاملات چلتے رہیں گے، مگر اس میں انصاف اور خلوص و محبت ناپید ہو تو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہوتی رہے گی۔
والدین اولاد کو اور اولاد سوسائٹی کو الزام دیتے رہیں گے، ایک دوسرے سے بات کرنا، بات سمجھنا اور سمجھانا بہت ضروری ہے۔ جوانی کی اکڑ میں لات نہ ماریے ان کمزور اور لاغر لوگوں کو جنھوں نے اپنی تمام توانائیاں آپ کو توانا بنانا میں لگا دیں، جنھوں نے اپنا تمام سرمایہ آپ پر نچھاورکردیا اس امید میں کہ آپ ایک بہتر انسان اور ایک بہتر سائبان بنیں گے اور وہ ایسے آخری کچھ ماہ و سال بہتر انداز میں گزار پائیں گے۔
ہٹلر نے اپنی قوم میں جنون پیدا کرنے کے لیے لڑنے کے لیے بچوں میں اسلحہ کھلونوں کی شکل میں دیا اور ہمہ وقت تمام ماحول ایسا بنوایا کہ جنگ اور جیت ہی ان کا مقدر ہے۔
اس طرح پورے معاشرے میں تعلیم و تربیت کے ذریعے پورے کے پورے جذبات اور احساسات کو بدل کے رکھ دیا، ''رہے ہٹلر'' کے نعرے فضاؤں میں گونجتے رہتے اور تاریخ آج بھی ہمیں ہٹلر کو بھولنے نہیں دیتی۔
بہت سی تاریخ میں زندہ کہانیاں ہمیں بھولنا بھی نہیں چاہئیں کہ ہمارا آج ہی ہمارے کل کا پتہ دیتا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ زندہ جو کل بھی تھا اور آنے والے کل میں بھی رہے گا، مگر ہم کیا پا رہے ہیں اورکیا کھو رہے ہیں، تیز دنیا کے تیز ترین انسان، تیزی کے ساتھ ہی تنزلی کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں جس کے دماغ میں جو سما رہا ہے وہ وہی کررہا ہے اور اپنے آپ کو سہی بھی سمجھ رہا ہے۔
انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے۔ اپنے احساسات کو جھنجھوڑیے اپنی غفلت کو دور کیجیے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کیجیے اور دعا مانگیے اللہ سے کہ اللہ ہم سب کو اپنی ہدایت پانے والا بنادے۔
اللہ عالی شان کی رحمت ہم پر برستی رہے۔ بوڑھے والدین تنہا نہ جئیں بلکہ ان انگلی پکڑ کر چلانے والوں کے سائے ہم پر مسکراتے چہروں کے ساتھ رہیں۔ کمزور، لاغر جسم بے بسی کی تصویر نہ بنے کہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر انھیں دھکے نہ دیے جائیں۔ اپنے دل و دماغ کو اپنے گھروں کی طرح وسیع اور اپنے ڈرائنگ روم کی طرح روشن رکھیے۔ سمجھیں سوچیں، اپنی تربیت خود کیجیے۔ بہتر سوچ ہی بہتر ماحول بناسکتی ہے۔
والدین کی سب سے بڑی ذمے داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت، تعلیم کے لیے اب بڑے بڑے نام ہمارے پاس موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے تربیت کے لیے پہلے کی طرح والدین کے پاس وقت موجود نہیں اورکوئی ایسے ادارے بھی موجود نہیں، جو بچوں کی کونسلنگ کرسکیں یا والدین کی بھی کونسلنگ کرسکیں ۔ ابھی ایسی بھی ہوا چلی نہیں کہ والدین خود اپنی کونسلنگ کے بارے میں سوچیں۔ بہت اہم اور انتہائی وقت کی ضرورت اس شعبے میں کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ والدین اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگیں اور بچے اپنے آپ کو انتہائی اسمارٹ سمجھنے لگیں تو یہی کچھ ہوسکتا ہے، جو ہو رہا ہے۔
ایک بگاڑکی صورت حال دن بہ دن زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے، عبدالستار ایدھی نے بے سہارا افراد کے لیے ایدھی ہومز بنوائے تو اچھے خاصے اپنے گھروں میں بسے ہوئے والدین کو ان کی سگی اولاد نے بوجھ سمجھتے ہوئے گھروں سے نکال کر ان سینٹر میں بسا دیا، کہیں والدین کے لیے گھر چھوٹے تھے، کہیں دل اتنے چھوٹے ہوگئے کہ سگی اولاد اپنے والدین کے لیے ایک مہینے تمہارے گھر، ایک مہینے میرے گھر، پر بحث ہونے لگی اور اگر والدین بڑھاپے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تو بیٹا یا بیٹی، والدین کے جراثیم سے اپنے بچوں کو بچانے لگیں کہ والدین خود رہیں تاکہ ان کے بچے صحت مند رہیں۔
محبت اندھی ہوتی ہے، عاشق کی بھی اور والدین کا بھی خاص طور پر ماں کی۔ جو ساری جوانی، ساری عمر اس شوق و لگن میں بچوں پر وار دی جاتی ہے کہ بچے بڑے ہوکر اس کو ملکہ بنا دیں گے۔کسی محل کی نہ سہی مگر اپنے دنوں کی ملکہ ضرور بنا لیں گے وہ خوب خوشیوں کے ساتھ بیٹا، بہو اوران کے بچوں میں اپنے بڑھاپے کی بہاریں دیکھے گی مگر قسمت کا حال تو ضرور اللہ بہتر جانتا ہے، غیب اور مستقبل تو صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
ساری زندگی کی تھکن ساری سوچیں کیا، اس لیے تھیں کہ بڑھاپے کے ساتھ ساتھ، بے سہارا بے آس و مددگار گزرے گی کیا جوان ہوکر اولاد والدین کا سہارا بننے کے بجائے وہ ادارے اور سینٹر ڈھونڈیں گے جس میں وہ بوڑھے والدین کو ''جمع'' کرا سکیں تاکہ ان کے دن و رات تسلی اور سکون سے گزریں اور ان اولادوں کی اولاد صحت مند و توانا رہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ اگر اسی طرح ہماری سوچ ''ماڈرن'' ہوتی چلی گئی تو کونسلنگ کے زیادہ ایسے سینٹر اور ادارے بنانے پڑیں گے جس میں بے سہارا لوگ رہ سکیں۔ ایسے بے سہارا جن کے اپنے خود ان کو بے سہارا کردیں اور دنیا کی رنگینیوں کا حصہ بن جائیں۔
ایک قصہ یاد آرہا ہے آپ بھی سن لیجیے ''ایک بوڑھی خاتون ایک ویلفیئر سینٹر میں سالوں سے رہ رہی تھی، آخری وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش کی، بیٹا تشریف لے آیا، بوڑھی خاتون نے بیٹے سے کہا کہ 'اب میں مرنے والی ہوں ایک آخری خواہش ہے پوری کردو' بیٹے نے حیران ہوکر ماں کو دیکھا کہ آج تک کوئی بھی فرمائش اس کی ماں نے نہیں کی اب جب کہ مرنے والی ہے تو کون سی فرمائش آگئی، بولا' بولیے کیا فرمائش ہے۔' ماں نے کہا 'بیٹا یہاں پر نہ پنکھا ہے اور نہ اے سی، سخت گرمی ہوتی ہے، تم ایک اے سی لگا دو' بیٹا سخت حیران ہوا کہ اب جب کہ ماں مرنے والی ہے تو اے سی کی کیوں ضرورت ہے ۔ بولا کہ 'اماں اب اے سی کی کیوں ضرورت آن پڑی؟'
ماں نے جواب دیا، بیٹا اپنے لیے نہیں تیرے لیے کہہ رہی ہوں، تجھے اے سی کی عادت ہے جو یہاں نہیں ہے آج میں ہوں یہاں کل تیری اولاد بھی تجھے یہاں چھوڑے گی توکم ازکم تیرے لیے کچھ انتظام تو ہو۔''
ایسی ہوتی ہیں مائیں جاتے جاتے بھی اپنی اولاد کی بھلائی ہی سوچ رہی ہوتی ہیں۔ ساری جوانی محنت و مشقت اور سختی برداشت کی اورآخری وقت میں بھی لوہے کی کیلیں مقدر بن گئی، کیسی بدبختی ہے ان لوگوں کے لیے جو جنت کے دروازے اپنے اوپر خود بند کرلیتے ہیں اور جہنم کی آگ کو اپنے لیے ٹھنڈک تصورکرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان پڑھ لوگ ہی ایسا کرتے ہیں بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ، کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ بھی ایسے ایسے رویے پیش کرتے نظر آتے کہ گمان ہوتا ہے کہ جوکتابوں میں قیامت کی نشانیاں پڑھی ہیں وہ شاید ان ہی لوگوں پہ پوری اترتی ہیں۔
جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت ضروری ہے، اگر والدین کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں یا عورت ومرد دونوں ہی اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مصروف ہوگئے ہیں اور کم کم وقت اپنی نسل کی تعلیم وتربیت کو دے پارہے ہیں توکم ازکم اس میدان کو خالی نہ چھوڑا جائے، کیونکہ اس کے خالی پن کے اثرات نہایت ہی مضر اورخطرناک حد تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی بچوں کے لیے ایسے ہی ضروری ہے، جیسے جینے کے لیے آکسیجن، اعلیٰ ڈگریاں اچھی ملازمت تو دلاسکتی ہیں مگر اعلیٰ انسان بننے کے لیے اچھی سوچ اور مثبت رویے کی ضرورت بہرحال ہے اور رہے گی۔
جس طرح ممتاز سماجی کارکن ستار ایدھی نے لاوارث لوگوں کے لیے مرکز بنائے کہ اللہ کریں کہ کوئی ایسے ہی سامنے آئیں اور ان لاوارث لوگوں کو لاوارث بنانے والے لوگوں کے لیے ان کی تربیت کے سینٹر بنائے۔ عجیب گھن چکر معاشرہ بنا ہوا ہے۔ والدین کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے بچے MBA یا ماسٹرز کرنے کے بعد بھی اچھے انسان نہیں بن پاتے، کبھی ڈاکو، کبھی دہشت گرد کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اورکچھ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ شاید ان کے والدین بھی ہکا بکا رہ جاتے ہیں، مگر سارے دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں اور بات بہت آگے جاچکی ہوتی ہے۔
ہمیں ماڈرن اور دلفریب ہونے سے زیادہ اس بات پر شدید توجہ دینا چاہیے کہ نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے بچوں کی زندگیوں میں جو خلا تیزی سے ہوتا جا رہا ہے ہم اسے کس طرح بھرسکتے ہیں۔ تاقیامت تک والدین اور اولاد کے معاملات چلتے رہیں گے، مگر اس میں انصاف اور خلوص و محبت ناپید ہو تو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہوتی رہے گی۔
والدین اولاد کو اور اولاد سوسائٹی کو الزام دیتے رہیں گے، ایک دوسرے سے بات کرنا، بات سمجھنا اور سمجھانا بہت ضروری ہے۔ جوانی کی اکڑ میں لات نہ ماریے ان کمزور اور لاغر لوگوں کو جنھوں نے اپنی تمام توانائیاں آپ کو توانا بنانا میں لگا دیں، جنھوں نے اپنا تمام سرمایہ آپ پر نچھاورکردیا اس امید میں کہ آپ ایک بہتر انسان اور ایک بہتر سائبان بنیں گے اور وہ ایسے آخری کچھ ماہ و سال بہتر انداز میں گزار پائیں گے۔
ہٹلر نے اپنی قوم میں جنون پیدا کرنے کے لیے لڑنے کے لیے بچوں میں اسلحہ کھلونوں کی شکل میں دیا اور ہمہ وقت تمام ماحول ایسا بنوایا کہ جنگ اور جیت ہی ان کا مقدر ہے۔
اس طرح پورے معاشرے میں تعلیم و تربیت کے ذریعے پورے کے پورے جذبات اور احساسات کو بدل کے رکھ دیا، ''رہے ہٹلر'' کے نعرے فضاؤں میں گونجتے رہتے اور تاریخ آج بھی ہمیں ہٹلر کو بھولنے نہیں دیتی۔
بہت سی تاریخ میں زندہ کہانیاں ہمیں بھولنا بھی نہیں چاہئیں کہ ہمارا آج ہی ہمارے کل کا پتہ دیتا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ زندہ جو کل بھی تھا اور آنے والے کل میں بھی رہے گا، مگر ہم کیا پا رہے ہیں اورکیا کھو رہے ہیں، تیز دنیا کے تیز ترین انسان، تیزی کے ساتھ ہی تنزلی کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں جس کے دماغ میں جو سما رہا ہے وہ وہی کررہا ہے اور اپنے آپ کو سہی بھی سمجھ رہا ہے۔
انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے۔ اپنے احساسات کو جھنجھوڑیے اپنی غفلت کو دور کیجیے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کیجیے اور دعا مانگیے اللہ سے کہ اللہ ہم سب کو اپنی ہدایت پانے والا بنادے۔
اللہ عالی شان کی رحمت ہم پر برستی رہے۔ بوڑھے والدین تنہا نہ جئیں بلکہ ان انگلی پکڑ کر چلانے والوں کے سائے ہم پر مسکراتے چہروں کے ساتھ رہیں۔ کمزور، لاغر جسم بے بسی کی تصویر نہ بنے کہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر انھیں دھکے نہ دیے جائیں۔ اپنے دل و دماغ کو اپنے گھروں کی طرح وسیع اور اپنے ڈرائنگ روم کی طرح روشن رکھیے۔ سمجھیں سوچیں، اپنی تربیت خود کیجیے۔ بہتر سوچ ہی بہتر ماحول بناسکتی ہے۔