اپنا دیس

یہ اپنے دیس کی محبت بھی کیا چیز ہے، جس میں کئی نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں تو کئی پرانے چھوڑ جاتے ہیں


منظور ملاح January 16, 2016
[email protected]

OTTAWA: یہ اپنے دیس کی محبت بھی کیا چیز ہے، جس میں کئی نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں تو کئی پرانے چھوڑ جاتے ہیں۔ البتہ دیس تو موجود رہتا ہے جس کی مٹی جاتے وقت بھی اپنے باہوں میں لے لیتی ہے ۔ کولمبیا کے نوبل لاریٹ ناول نگارگارشیا مارکیز کے شہرہ آفاق ناول "The Hundred Years of Solitude" کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ اپنا دیس وہ ہوتا ہے جس میں آپ کے آباؤ و اجداد دفن ہیں۔

جس کے ہم یادوں کے دریا میں نہاتے رہتے ہیں۔ بقول نوبل لاریٹ پورچوگیزین رائٹر جو زسا راماگو یہ یادیں زمان اور مکان پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ جن کے درمیان ہم جزیرے کی طرح رہتے ہیں جو دو سمندروں کے بیچ ہوتا ہے، ایک ماضی اور دوسرا حال۔ وہ دیس جو اپنوں کے ہاتھوں بنتا اور بگڑتا رہتا ہے، جہاں آج کل جدیدیت سے ماضی کے کلچر و تہذیب کو دھو ڈالا گیا ہے اور ہم بہتر سے بہتری کی تلاش میں یا ذہنی سکون کے لیے اپنے دیس کی بجائے کہیں اور جا کر ٹھہرتے ہیں، گھومتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں، پھر بھی اپنے دیس کی یادیں کہاں پیچھا چھوڑتی ہیں۔

وہ تو ہر وقت سر پر سوار رہتی ہیں، کبھی چاند کی دھیمی دھیمی روشنی کی طرح تو کبھی سورج کی تیز روشنی کی طرح۔ یہ تو میرا دیس جو میرے اندر میں بھی بستا ہے، وہ دیس جو کبھی ہرا بھرا ہوتا تھا، جہاں پانی کھلے ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی طرح پھیلتا، گھومتا، سفر کرتا سمندر کو سلام کرتا تھا۔ اس آبیاری کی وجہ سے پودے ، درخت، جھاڑیاں، گھاس، پرندے، جانور، انسان سب سیراب ہوتے تھے۔ جہاں ساون کی موسم میں قدرتی جھیلیں شاندار مناظر پیش کرتی ہیں ، بیچو بیچ ریت کے ٹیلے ان پر رہتے لوگ، سردیوں میں سائیبریا سے آئے پرندے جب جھیلوں کے پانی میں ڈبکیاں لگاتے تو شفاف پانی سیاہ ہوجاتا۔ کئی باذائقہ دیسی کھانے پکائے جاتے ، یہاں تک کہ گھی یا آئل کا متبادل بھی موجود ہوتا۔ جہاں عورت سات قرآن سمجھی جاتی تھی۔

پڑوس میں کوئی چوری نہیں کرتا، اگر ایسا غلط فعل کرنا ہے تو میلوں دور وارداتیں کی جاتی۔ امیر غریب کے درمیان انفرادی فرق کی بجائے برادری کو اہمیت دی جاتی۔ شادی، غمی میں برابری ساتھ ہوتی۔ دل اور دماغ بڑے تھے، بقول فراز کے ایک شہر کے جب کچے گھر ہوتے تھے تو محبتیں پکی ہوتی تھیں۔ اس لیے ملکیت و زمین کا حساب کتاب نہیں ہو تا تھا، کاغذوں کی بجائے زبان پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔ کسی کا ایک بار نمک کھایا تو پھر اور اولاد کو بھی نصیحت کی جاتی کہ اس احسان کا خیال رکھنا ہے۔ خوشی کے موقعے پر لوگ گیت گنگناتے جاتے، مرد حضرات سردیوں میں آگ کا الاؤ جلا کر ہا تھ بھی تاپتے جاتے اور دنیا جہاں کی باتیں بھی کرتے ۔ کہیں کوئی انسانی قتل ہوجاتا پورا علاقہ کئی دنوں تک افسوس، خوف وہراس میں رہتا۔

عورتیں ہنرمند ہوتیں، مشینری کی بجائے پیدل، گھوڑا، اونٹ یا گدھا سواری کے لیے استعمال کیے جاتے۔ جس کی سواری کا اپنا رومانس ہوتا۔ دور دور مسجدیں موجود تھی ، جہاں پر کوئی آکر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتا، مسجد کا کوئی نام نہ فرقہ۔ لسی، مکھن اور دودھ کا زیادہ استعمال ہوتا ۔ باہر بھی صاف تو اندر بھی صاف۔ برادری کے ذریعے جھگڑے اور ناراضیاں دور کی جاتیں۔ سر پر کپڑا باندھے، کندھوں پر کلہاڑی اٹھائے چرواہے، صبح کے چمکتے سورج کی روشنی میں جنگل کا رخ رکھتے اور شام کے ڈوبتے سورج کے وقت واپس گھر آتے۔

ساون کی برساتیں آنے سے پہلے چھتوں کو مزید مٹی سے مضبوط کیا جاتا ، برسات کے پانی نکالنے کے لیے راستے چھوڑے جاتے، گندم مٹی کی بنے ٹرنکوں میں محفوظ کیا جاتا، مال مویشی کے رہنے کے جگہ پر مٹی بھری جاتی اور بھینسوں ، بکریوں گائیوں کے بچے پیدا ہونے کا انتظار کیا جا تا۔ سردیاں آتیں تو جنگل میں موجود سروں کے لکڑیوں اور تنکوں کو کاٹ کر، لاد کر گھر لے آیا جاتا اور نئے گھر بنائے جاتے، پرانے گھر مرمت کیے جاتے۔ شمال سے آنے والی ہواؤں کو روکنے کے لیے گھروں میں بنے ہوا دان بند کیے جاتے۔ سخت گرمی میں نیم کی چھاؤں کے نیچے آرام کیا جاتا، درختوں پر چڑھ کر بچے خوش ہوتے اور گیت گاتے ، بیر، امرود اور آم توڑے جاتے، مٹی کے کھلونے اور برتن بناکر بچے کھیلتے۔ وقت گزرتا گیا، ہم نے اپنے دیس کے ساتھ چھیڑخوانی شروع کردی۔

انسانی لالچ ، ہوس اور مشینی دور نے آہستہ آہستہ اپنے ہی دیس پروار شروع کردیا ۔ درخت کٹنے لگے ، پانی قید ہوتا گیا، جانور اور پرندے انسانی ہوس کا شکار ہوتے رہے، سرکاری زمینوں پر قبضے ہونے لگے، چراگاہیں بھی تباہ ہوتی گئیں، سائیبریائی پرندے گولیوں اور جالوں کا شکار ہوتے گئے۔

صاف اور ہوادارگھروں کی جگہ Congested آبادیاں وجود میں آنے لگیں، ملوں اور کارخانوں سے فاضل مادے اور دھوئیں خارج ہوتے رہے، پانی کی جگہ خشکی نے منہ نکالا تو جنگلی جیوت بھی روٹھ کر چلی گئیں ، پورا ماحولیاتی نظام تباہ ہوگیا۔ سماجی رشتوں ناتوں کی اہمیت کم ہونے لگی۔ اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی سوچ نے جنم لیا، جنگل کھیتوں میں تبدیل ہوتے گئے ، لسی دودھ کی جگہ سالن چائے نے لے لی، مسجدوں پر فرقوں کی مناسبت سے نام رکھے گئے، تو فطرت نے بھی منہ موڑ لیا، ماحولیاتی آلودگی نے گھونگھٹ اٹھایا تو انسان کے ساتھ موسم بھی بدلتے گئے۔ اب تو اپنے دیس بھی اجنبی لگاتا ہے، ہر کوئی اپنے بس اور استطاعت کے مطابق اسے گدھ کی طرح نوچتا جارہا ہے ۔ بقول ایک مغربی لکھاری'' رو اے میرے محبوب دیس''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں