فرماں بردار مخلوق
’’اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور جو انہیں حکم ہوتا ہے، اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
یہ دنیا اﷲ رب العزت نے کیوں اور کس لیے تخلیق فرمائی؟ انسان اس دنیا میں کیسے آیا؟ خالق کائنات نے یہ دنیا کیوں تخلیق فرمائی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو انسانی ذہن میں ہمیشہ سے ابھرتے رہے ہیں اور ابھرتے رہیں گے۔
اس کے پیچھے رب کائنات کی کیا مصلحت اور کیا مشیت تھی؟ صرف یہ کہ اس زمین پر وہ اپنا نائب پیدا کرے جو اس کی عبادت کرے اور اسے اپنا واحد رب تسلیم کرے۔ یہ انسان اپنے رب کی فرماں برداری کرے اور اس کے حکم کے سامنے اپنا سر جھکائے۔ اس کے لیے اﷲ نے پہلے مٹی سے حضرت آدم کو تخلیق کیا۔ اس کے بعد مٹی کے اس پتلے میں اپنی روح پھونک کر اس میں جان ڈال دی اور ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا۔ پھر اسے جذبات و احساسات کے تحفے بھی عطا کیے۔
یہاں خالق کائنات نے حضرت آدم کو تنہا تخلیق نہیں کیا، بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے اور ان کا ساتھ دینے کے لیے اماں حوا کو پیدا فرمایا اور ان دونوں کو جنت کی تمام نعمتیں عطا کیں، مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی کہ فلاں فلاں کام نہ کرنا، فلاں درخت کے قریب نہ جانا، مگر وہ دونوں غلطی کر بیٹھے اور شیطان کے بہکاوے میں آگئے جس کی پاداش میں ان دونوں یعنی حضرت آدم ؑ اور اماں حوا کو زمین پر پھینک دیا گیا۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنے رب سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور مسلسل توبہ و استغفار کرتے رہے۔ آخر رحیم و کریم رب نے ان کی معافی قبول کرلی۔ مگر ساتھ ہی انہیں سختی سے یہ تاکید بھی کردی کہ اب نہ وہ دونوں ایسی کوئی غلطی دوبارہ کریں گے اور نہ ان کی اولاد ایسا کوئی کام کرے گی جو رب العزت کے حکم کے خلاف ہو۔
انہیں صرف پروردگار عالم کی فرماں برداری کا حکم ملا اور کہا گیا کہ وہ صرف اسی ایک اور واحد اﷲ کی عبادت کریں جو تمام جہانوں کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ یہاں خالق کائنات نے ایک اور فضل یہ فرمایا کہ دنیا والوں کے لیے اعلان ہوا کہ جو حکم ربی کے مطابق چلیں گے، انہیں روز حشر انعامات الٰہیہ سے نوازا جائے گا اور جو اس کے حکم کے خلاف کریں گے یا اس کی حکم عدولی کریں گے، وہ آخرت کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ جس کے بعد دنیا میں نسل انسانی کے فروغ کا سلسلہ شروع ہوا اور جن لوگوں نے فرماں برداری کا مظاہرہ کیا، وہ کامیاب ہوئے اور جنہوں نے شیطان کی پیروی کی، وہ بلاشبہہ بہت بڑے خسارے میں مبتلا ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں اﷲ رب العزت کی عبادت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
عبادت الٰہی سے مراد اپنے خالق کی فرماں برداری ہے، اس کے احکام کی تعمیل ہے۔ دنیا میں آنے والے ہر جان دار کے لیے خلاق اعظم کا یہی حکم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کی تابع داری اور فرماں برداری کریں اور صرف اسی ایک رب کی عبادت کی جائے، صرف اسی کے آگے جھکا جائے۔ یہ حکم اﷲ رب العزت نے ان سب جان داروں کو دیا ہے جو اس کے حکم سے اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، یہاں اپنے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب جان دار اس پاک پروردگار کی عبادت کرکے خود کو اس کی مخلص اور فرماں بردار مخلوق ثابت کرتے ہیں۔ انہی میں انسان بھی ہے جو اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے باقی تمام مخلوقات پر برتری رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو ہی وہ فضیلت اور برتری حاصل ہوئی کہ اسی کو پیغمبر، نبی اور رسول کے درجے پر فائز کیا گیا اور ساتھ ہی اسے بھی فرماں برداری کا حکم دیا گیا۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:''اور تمام جان دار جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، سب اﷲ کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے بھی، اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے۔'' (سورۃ النحل آیت 49)
اس آیۂ مبارکہ پر غور فرمائیے۔ یہ آیت بالکل واضح انداز میں بتارہی ہے کہ جان دار کیا کام کررہے ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ 'اور تمام جان دار جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، سب اﷲ کے آگے سجدہ کرتے ہیں' یعنی دنیا میں جو بھی جان دار ہیں اور جہاں بھی ہیں، چاہے وہ خشکی میں ہوں، فضاؤں میں یا پانی یعنی سمندر یا دریا میں ہوں، وہ سب اپنے اپنے مقام پر اپنے اپنے ماحول اور اپنی اپنی کیفیت میں اپنے اپنے حساب سے اس ایک اور اکیلے رب کی عبادت میں مصروف ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ ہر مخلوق یعنی وہ جان جو پروردگار عالم نے مختلف مقامات پر پیدا فرمائی، وہ اپنی تخلیق پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے، اس کا شکر ادا کررہی ہے، اسی کی حمد و ثناء کررہی ہے اور اس کی پاکی کو بیان کرتے ہوئے اس کی عبادت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
مزید ارشاد ہورہا ہے کہ 'اور فرشتے بھی اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے' دیکھیے! اس آیت میں فرشتوں کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔ فرشتے تو اﷲ کی وہ مخلوق ہیں جو ہر ایک کو نظر نہیں آتے، وہ اﷲ کے حکم سے صرف اسی کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور یہ نہایت پاکیزہ مخلوق بھی اپنے رب کی ربوبیت کا اقرار کرتی ہے۔ چوں کہ فرشتوں کو نہ کھانے پینے کی حاجت ہے اور نہ کسی دنیاوی چیز کی، بلکہ وہ تو ہر ضرورت سے آزاد ہیں۔ اس کے باوجود وہ ہمہ وقت اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ دنیا کے دیگر لوگوں اور دیگر مخلوقات پر برتری رکھتے ہیں، نہ وہ سوتے ہیں نہ جاگتے ہیِں، نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، بلکہ صرف اپنے رب کی عبادت میں لگے رہتے ہیں، اس لیے ان میں تھوڑا بہت غرور آجانا چاہیے کہ وہ دیگر مخلوقات سے زیادہ اپنے رب کے فرماں بردار ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔
یہ فرشتے اپنے رب کی اس عطا پر غرور یا گھمنڈ کرنے کے بجائے اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اﷲ کی فرماں بردار مخلوق شب و روز اس کی عبادت میں لگی رہتی ہے اور اس خاص عنایت پر اپنے رب کی مشکور و ممنون رہتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تمام مخلوقات جن میں انسان بھی شامل ہے، اتنی عبادت و ریاضت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتی ہیں۔ ممکن ہے بعض نیک اور فرماں بردار لوگوں کو دیکھ کر عام لوگ یہ سوچتے ہوں کہ یہ تو اﷲ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی مشکل کوئی آزمائش پیش نہیں آتی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اﷲ رب العزت اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی مشکلات میں مبتلا کرتا ہے اور پھر انہیں ان مشکلات سے نجات بھی دلاتا ہے۔
دنیا میں رہنے بسنے والی تمام مخلوقات جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، وہ سب کی سب اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے سے ڈرتی ہیں۔ دراصل ڈر اور خوف فرماں برداری کا حسن ہوتا ہے۔ جب تک انسان اپنے خالق و مالک سے نہیں ڈرے گا، اس کی بندگی میں نہ اخلاص پیدا ہوگا اور نہ اثر، اس لیے فرماں بردار بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈرتے رہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو انہیں ارشاد ہوتا ہے، اس پر عمل کرتے ہیں۔'' (سورۃ النحل آیت 50)
اس آیۂ مبارکہ میں فرماں برداروں کی ایک اہم خصوصیت بیان کی گئی ہے۔ یہ اﷲ کے وہ محبوب بندے ہیں جو اس کے محبوب ہونے کے باوجود اس سے بہت ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں۔ روز آخرت کی پکڑ انھیں لرزائے دیتی ہے۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ قیامت میں اپنے پالنے والے کو اپنے دنیاوی اعمال کا کیا جواب دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رب کے تمام احکام مانتے ہیں اور جو کچھ اس نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اپنے رب کے راستے سے نہیں ہٹتے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام اہل ایمان کو پوری زندگی ایمان پر قائم رکھے، آمین
اس کے پیچھے رب کائنات کی کیا مصلحت اور کیا مشیت تھی؟ صرف یہ کہ اس زمین پر وہ اپنا نائب پیدا کرے جو اس کی عبادت کرے اور اسے اپنا واحد رب تسلیم کرے۔ یہ انسان اپنے رب کی فرماں برداری کرے اور اس کے حکم کے سامنے اپنا سر جھکائے۔ اس کے لیے اﷲ نے پہلے مٹی سے حضرت آدم کو تخلیق کیا۔ اس کے بعد مٹی کے اس پتلے میں اپنی روح پھونک کر اس میں جان ڈال دی اور ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا۔ پھر اسے جذبات و احساسات کے تحفے بھی عطا کیے۔
یہاں خالق کائنات نے حضرت آدم کو تنہا تخلیق نہیں کیا، بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے اور ان کا ساتھ دینے کے لیے اماں حوا کو پیدا فرمایا اور ان دونوں کو جنت کی تمام نعمتیں عطا کیں، مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی کہ فلاں فلاں کام نہ کرنا، فلاں درخت کے قریب نہ جانا، مگر وہ دونوں غلطی کر بیٹھے اور شیطان کے بہکاوے میں آگئے جس کی پاداش میں ان دونوں یعنی حضرت آدم ؑ اور اماں حوا کو زمین پر پھینک دیا گیا۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنے رب سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور مسلسل توبہ و استغفار کرتے رہے۔ آخر رحیم و کریم رب نے ان کی معافی قبول کرلی۔ مگر ساتھ ہی انہیں سختی سے یہ تاکید بھی کردی کہ اب نہ وہ دونوں ایسی کوئی غلطی دوبارہ کریں گے اور نہ ان کی اولاد ایسا کوئی کام کرے گی جو رب العزت کے حکم کے خلاف ہو۔
انہیں صرف پروردگار عالم کی فرماں برداری کا حکم ملا اور کہا گیا کہ وہ صرف اسی ایک اور واحد اﷲ کی عبادت کریں جو تمام جہانوں کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ یہاں خالق کائنات نے ایک اور فضل یہ فرمایا کہ دنیا والوں کے لیے اعلان ہوا کہ جو حکم ربی کے مطابق چلیں گے، انہیں روز حشر انعامات الٰہیہ سے نوازا جائے گا اور جو اس کے حکم کے خلاف کریں گے یا اس کی حکم عدولی کریں گے، وہ آخرت کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ جس کے بعد دنیا میں نسل انسانی کے فروغ کا سلسلہ شروع ہوا اور جن لوگوں نے فرماں برداری کا مظاہرہ کیا، وہ کامیاب ہوئے اور جنہوں نے شیطان کی پیروی کی، وہ بلاشبہہ بہت بڑے خسارے میں مبتلا ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں اﷲ رب العزت کی عبادت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
عبادت الٰہی سے مراد اپنے خالق کی فرماں برداری ہے، اس کے احکام کی تعمیل ہے۔ دنیا میں آنے والے ہر جان دار کے لیے خلاق اعظم کا یہی حکم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کی تابع داری اور فرماں برداری کریں اور صرف اسی ایک رب کی عبادت کی جائے، صرف اسی کے آگے جھکا جائے۔ یہ حکم اﷲ رب العزت نے ان سب جان داروں کو دیا ہے جو اس کے حکم سے اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، یہاں اپنے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب جان دار اس پاک پروردگار کی عبادت کرکے خود کو اس کی مخلص اور فرماں بردار مخلوق ثابت کرتے ہیں۔ انہی میں انسان بھی ہے جو اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے باقی تمام مخلوقات پر برتری رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو ہی وہ فضیلت اور برتری حاصل ہوئی کہ اسی کو پیغمبر، نبی اور رسول کے درجے پر فائز کیا گیا اور ساتھ ہی اسے بھی فرماں برداری کا حکم دیا گیا۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:''اور تمام جان دار جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، سب اﷲ کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے بھی، اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے۔'' (سورۃ النحل آیت 49)
اس آیۂ مبارکہ پر غور فرمائیے۔ یہ آیت بالکل واضح انداز میں بتارہی ہے کہ جان دار کیا کام کررہے ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ 'اور تمام جان دار جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، سب اﷲ کے آگے سجدہ کرتے ہیں' یعنی دنیا میں جو بھی جان دار ہیں اور جہاں بھی ہیں، چاہے وہ خشکی میں ہوں، فضاؤں میں یا پانی یعنی سمندر یا دریا میں ہوں، وہ سب اپنے اپنے مقام پر اپنے اپنے ماحول اور اپنی اپنی کیفیت میں اپنے اپنے حساب سے اس ایک اور اکیلے رب کی عبادت میں مصروف ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ ہر مخلوق یعنی وہ جان جو پروردگار عالم نے مختلف مقامات پر پیدا فرمائی، وہ اپنی تخلیق پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے، اس کا شکر ادا کررہی ہے، اسی کی حمد و ثناء کررہی ہے اور اس کی پاکی کو بیان کرتے ہوئے اس کی عبادت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
مزید ارشاد ہورہا ہے کہ 'اور فرشتے بھی اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے' دیکھیے! اس آیت میں فرشتوں کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔ فرشتے تو اﷲ کی وہ مخلوق ہیں جو ہر ایک کو نظر نہیں آتے، وہ اﷲ کے حکم سے صرف اسی کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور یہ نہایت پاکیزہ مخلوق بھی اپنے رب کی ربوبیت کا اقرار کرتی ہے۔ چوں کہ فرشتوں کو نہ کھانے پینے کی حاجت ہے اور نہ کسی دنیاوی چیز کی، بلکہ وہ تو ہر ضرورت سے آزاد ہیں۔ اس کے باوجود وہ ہمہ وقت اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ دنیا کے دیگر لوگوں اور دیگر مخلوقات پر برتری رکھتے ہیں، نہ وہ سوتے ہیں نہ جاگتے ہیِں، نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، بلکہ صرف اپنے رب کی عبادت میں لگے رہتے ہیں، اس لیے ان میں تھوڑا بہت غرور آجانا چاہیے کہ وہ دیگر مخلوقات سے زیادہ اپنے رب کے فرماں بردار ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔
یہ فرشتے اپنے رب کی اس عطا پر غرور یا گھمنڈ کرنے کے بجائے اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اﷲ کی فرماں بردار مخلوق شب و روز اس کی عبادت میں لگی رہتی ہے اور اس خاص عنایت پر اپنے رب کی مشکور و ممنون رہتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ تمام مخلوقات جن میں انسان بھی شامل ہے، اتنی عبادت و ریاضت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتی ہیں۔ ممکن ہے بعض نیک اور فرماں بردار لوگوں کو دیکھ کر عام لوگ یہ سوچتے ہوں کہ یہ تو اﷲ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی مشکل کوئی آزمائش پیش نہیں آتی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اﷲ رب العزت اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی مشکلات میں مبتلا کرتا ہے اور پھر انہیں ان مشکلات سے نجات بھی دلاتا ہے۔
دنیا میں رہنے بسنے والی تمام مخلوقات جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، وہ سب کی سب اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے سے ڈرتی ہیں۔ دراصل ڈر اور خوف فرماں برداری کا حسن ہوتا ہے۔ جب تک انسان اپنے خالق و مالک سے نہیں ڈرے گا، اس کی بندگی میں نہ اخلاص پیدا ہوگا اور نہ اثر، اس لیے فرماں بردار بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈرتے رہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو انہیں ارشاد ہوتا ہے، اس پر عمل کرتے ہیں۔'' (سورۃ النحل آیت 50)
اس آیۂ مبارکہ میں فرماں برداروں کی ایک اہم خصوصیت بیان کی گئی ہے۔ یہ اﷲ کے وہ محبوب بندے ہیں جو اس کے محبوب ہونے کے باوجود اس سے بہت ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں۔ روز آخرت کی پکڑ انھیں لرزائے دیتی ہے۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ قیامت میں اپنے پالنے والے کو اپنے دنیاوی اعمال کا کیا جواب دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رب کے تمام احکام مانتے ہیں اور جو کچھ اس نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اپنے رب کے راستے سے نہیں ہٹتے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام اہل ایمان کو پوری زندگی ایمان پر قائم رکھے، آمین