لاہور سے بھوربن تک
جیسے ہی ہماری اسلام آباد کے لیے روانگی ہوئی، گردآلود آندھی کے جھکڑ چلنے لگے
جیسے ہی ہماری اسلام آباد کے لیے روانگی ہوئی، گردآلود آندھی کے جھکڑ چلنے لگے۔ اگر ہم موٹرکار میں نہ ہوتے تو چند منٹ میں سب کا حلیہ بھوتوں سے ملتا جلتا ہو جاتا کیونکہ گرد اڑنے کے ساتھ ہی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ کئی دنوں سے ایسے ہی ہو رہا تھا۔ تیز ہوا گردباد میں تو تبدیل ہو جاتی لیکن بادلوں کو بھی اڑا کر لے جاتی۔ پھر کچھ ہی دیر میں بارش تیز ہوئی تو گرد سے اٹا ہوا رستہ بھی صاف ہونے لگا۔
یہ تو صحیح ہے کہ سب انسانوں کا خمیر مٹی سے اٹھا ہے اور ایک دن انھیں منوں مٹی تلے ہی ابدی نیند سو جانا ہوتا ہے لیکن وقت معین سے پہلے تو کوئی بھی مٹی کی چادر اوڑھنا نہیں چاہتا۔ ویسے مٹی اور گرد سے شہر ملتان کی یاد آ گئی جسے لوگ چار عدد ''گ'' کے حوالے سے یاد کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں ''گرد، گرما، گدا، گورستان۔'' گرمی اور وسیع قبرستان تو ملتان کی ایک پہچان ہیں لیکن گرد اور گداگروں کی حد تک تو اب ملک کے تمام شہر خودکفیل ہو چکے ہیں۔
گرد میں اگر گندگی شامل کر دی جائے، اس کے لیے ٹائلٹ اور کچن کی مثال دیتے ہوئے شرمندگی تو ہوتی ہے لیکن اگر کسی پبلک ٹائلٹ میں چلے جایئے تو رفع حاجت کی تو شاید نوبت ہی آنے سے انکار کر دے، قے ضرور آ جائے گی۔ باقی رہی گداگری تو اگرچہ یہ جرم قابل دست اندازیٔ پولیس ہے لیکن جس ملک کے حکمران غیروں سے مانگ کر شاہانہ ترقیاتی منصوبے بنا اور کمیشن کھا رہے ہوں وہاں گداگری کنٹرول ہو گی یا پروان چڑھے گی۔
ایک عرصہ سے یہ شکایت سننے میں آ رہی تھی بہت سے ریستوران اور ہوٹل اپنے کچن صاف نہیں رکھتے اور گاہکوں کو باسی، ناخالص، مضرصحت خوراک، گندے پانی میں دھلے برتنوں میں کھلا کر بیماریاں پھیلاتے ہیں اور متعلقہ محکمے یا تو چشم پوشی سے کام لیتے ہیں یا اس گھناؤنے فعل میں ساجھے دار ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لے کر ایک فوڈ اتھارٹی قائم کی جس نے قابل قدر کام کیا اور کئی ماہ تک داد و تحسین کی یوں حق دار ہوئی کہ بلالحاظ ریڈ کر کے ذمے داروں کو جرمانے، قید اور تالہ بندی کی سزائیں دیں جس کا خاطرخوا نتیجہ نکلا۔ یہ کام احسن طریقے پر پراگریس کر رہا تھا کہ اب یکدم روک دینا پڑا ہے۔ شنید ہے کہ جس اتھارٹی نے اس نیک کام کا کریڈٹ لیا تھا، فوڈ اتھارٹی کی اس روح رواں نے اسی کے ایک لاڈلے پر ہاتھ ڈال دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس فوڈ اتھارٹی کی گردن مروڑ دی گئی ہے اور اب وہ غیرفعال ہے۔
ہماری پہلی منزل اسلام آباد، دوسری کوہِ مری اور تیسری بھوربن تھی۔ موسم کی پہلی بارش راستے ہی میں شروع ہو چکی تھی۔ موسم سرما اپنے جوبن پر ہو اور بارش نہ ہو اس کا نقصان انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو ہوتا ہے جب کہ ڈاکٹر حضرات کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ہمارے اسلام آباد میں داخل ہونے تک بارش آہستہ ہو کر رک چکی تھی۔ میری ملازمت کی ابتداء اسی شہر سے ہوئی تھی۔ تب یہ شہر سیدھا سادا عام شہروں جیسا خاموش لیکن پرسکون اور خوبصورت تھا۔ اس کا مقامی انتظامیہ کا سینئر افسر ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اور انسپکٹر پولیس ہوتا تھا۔ مجھ سے پہلے زر محمد RM تعینات رہے۔
اب اسلام آباد اپنے فلائی اوورز، انڈر پاسز، برجز، میٹرو بسز اور خوبصورت سڑکوں اور چوراہوں کے علاوہ شاپنگ مالز کی وجہ سے ایک ماڈرن اور ماڈل سٹی بن چکا ہے جہاں رستہ بھول جانا کوئی عجب نہیں۔ ہمارے ساتھ بھی روشنیوں کی چکاچوند کے باوجود یہی ہوا۔ رات کے کھانے پر ایک ہوٹل میں ایک خوشگوار ملاقات پی ٹی وی کے نئے چیئرمین عطا الحق قاسمی اور ایکسپریس کے پروگرام کامیڈی تھیٹر کے میزبان اور خوش کلام شاعر وصی شاہ سے ہو گئی۔
راولپنڈی اور اسلام آباد وہ جڑواں شہر ہیں جہاں میری ملاقات اپنے عزیز ترین اور زندگی کا سرمایہ دوستوں امجد ورک ایڈیشنل فنانس سیکریٹری، توقیر حسین ایمبیسڈر، سید عامر رضا، مطیع الرحمن مرزا، نذیر چوہدری، صادق مرزا، ایم بلال، احمد فراز، افضل شگری، اقبال فرید، ملک رحمان، شوکت ایوب، اختر ایوب، سلیم اقبال، شوکت سیٹھی اور بہت سے احباب سے رہی۔
کوہِ مری میں پوسٹ آفس سے پنڈی پوائنٹ تک اور پھر واپسی صرف اسی ایریا تک چہل قدمی کرنے والوں کی ایسی سیرگاہ تھی جس پر اکثر شناساؤں اور دوستوں سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ یہاں تعیناتی کے عرصہ میں دوردراز سے احباب آتے رہے جنھیں ریسٹ ہاؤسز میں ٹھہرانے کی سہولت تھی۔ کوہ مری میں پہلی بار اپنے میٹرک کے زمانے میں اپنے بزرگ کرنل سعید کے ہمراہ آیا۔ بطور RM تعیناتی کے دنوں غلام مصطفی جتوئی وزیراعلیٰ سندھ تھے، ان کی فیملی سندھ ہاؤس میں قیام پذیر تھی۔
ان ہی دنوں میرے دوست شیخ لطف الرحمن لطفی بھی کراچی سے میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ جتوئی صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ جتوئی سے ملاقات ہوئی تو قریبی رفاقت میں بدل گئی۔ لطفی سے تو اس کی دوستی سگے بھائیوں سے بھی نزدیکی قرب پا گئی۔ اب ان کا تو کراچی میں روز کا ملنا ہے جب کہ اپنی ملاقات مرتضیٰ جتوئی سے لاہور یا کراچی موجود ہونے تک محدود ہو گئی ہے۔ کوہ مری سے یاد آیا کہ کچہری کی عمارت سے باہر ہر وقت بیس پچیس مقامی بزرگ آپس میں گپ شپ کرتے بیٹھے رہتے تھے۔
انھیں کچہری میں ویسے کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ کسی سے معلوم کیا تو اس نے ہنس کر کہا ان کے پانچ ''ک'' مشہور ہیں، کُلا یعنی سر پر پگڑی، کوٹ جو انھوں نے ہر وقت پہنا ہوتا ہے، کنڈی وہ چھتری ہے جو بارش سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہتی ہے اور کوڑ یعنی جھوٹ کہ یہ کچہری آنے والے کو آفر دیتے رہتے ہیں کہ گواہی کی ضرورت ہو تو ہماری خدمت حاضر ہے اور آخر میں کچہری جہاں یہ شوقیہ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ یہ ہو گئے کوہ مری کے بزرگوں کے پانچ عدد ''ک''۔ اس ''ک'' اور ''گ'' کے کھیل میں ایک اور ''ک'' کا استعمال یاد آتا ہے اور وہ ہے سکھ حضرات کا ''کچھا، کڑا، کرپان، کنگھا، کیس'' جن میں پہلا ''کچھ'' یعنی انڈر ویئر، کڑا یعنی کلائی میں پہنا کڑا، کرپان یعنی تلوار، کنگھا جو وہ جوڑے میں پھنسائے رکھتے ہیں اور کیس یعنی سر کے بال جن کا وہ جوڑا بناتے ہیں۔
بھوربن شمال کی جانب کوہ مری سے 15 منٹ کی ڈرائیو کی مسافت پر ایک اور سیرگاہ ہے جس کے دو ہوٹل سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔ ایک ہوٹل کی چار رہائشی کمروں کی منزلیں گراؤنڈ لیول سے زیرزمین ہیں۔ اسلام آباد سے کوہ مری تک اب دو رویہ سڑک ہے۔ چار دن کا لاہور سے بھوربن اور واپسی کا دورہ پلک جھپکنے تک مکمل ہو گیا، زندگی کا سفر بھی کسی کے لیے مشکل اور طویل ہوتا ہے تو کسی کے لیے خوشگوار اور مختصر۔
یہ تو صحیح ہے کہ سب انسانوں کا خمیر مٹی سے اٹھا ہے اور ایک دن انھیں منوں مٹی تلے ہی ابدی نیند سو جانا ہوتا ہے لیکن وقت معین سے پہلے تو کوئی بھی مٹی کی چادر اوڑھنا نہیں چاہتا۔ ویسے مٹی اور گرد سے شہر ملتان کی یاد آ گئی جسے لوگ چار عدد ''گ'' کے حوالے سے یاد کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں ''گرد، گرما، گدا، گورستان۔'' گرمی اور وسیع قبرستان تو ملتان کی ایک پہچان ہیں لیکن گرد اور گداگروں کی حد تک تو اب ملک کے تمام شہر خودکفیل ہو چکے ہیں۔
گرد میں اگر گندگی شامل کر دی جائے، اس کے لیے ٹائلٹ اور کچن کی مثال دیتے ہوئے شرمندگی تو ہوتی ہے لیکن اگر کسی پبلک ٹائلٹ میں چلے جایئے تو رفع حاجت کی تو شاید نوبت ہی آنے سے انکار کر دے، قے ضرور آ جائے گی۔ باقی رہی گداگری تو اگرچہ یہ جرم قابل دست اندازیٔ پولیس ہے لیکن جس ملک کے حکمران غیروں سے مانگ کر شاہانہ ترقیاتی منصوبے بنا اور کمیشن کھا رہے ہوں وہاں گداگری کنٹرول ہو گی یا پروان چڑھے گی۔
ایک عرصہ سے یہ شکایت سننے میں آ رہی تھی بہت سے ریستوران اور ہوٹل اپنے کچن صاف نہیں رکھتے اور گاہکوں کو باسی، ناخالص، مضرصحت خوراک، گندے پانی میں دھلے برتنوں میں کھلا کر بیماریاں پھیلاتے ہیں اور متعلقہ محکمے یا تو چشم پوشی سے کام لیتے ہیں یا اس گھناؤنے فعل میں ساجھے دار ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لے کر ایک فوڈ اتھارٹی قائم کی جس نے قابل قدر کام کیا اور کئی ماہ تک داد و تحسین کی یوں حق دار ہوئی کہ بلالحاظ ریڈ کر کے ذمے داروں کو جرمانے، قید اور تالہ بندی کی سزائیں دیں جس کا خاطرخوا نتیجہ نکلا۔ یہ کام احسن طریقے پر پراگریس کر رہا تھا کہ اب یکدم روک دینا پڑا ہے۔ شنید ہے کہ جس اتھارٹی نے اس نیک کام کا کریڈٹ لیا تھا، فوڈ اتھارٹی کی اس روح رواں نے اسی کے ایک لاڈلے پر ہاتھ ڈال دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس فوڈ اتھارٹی کی گردن مروڑ دی گئی ہے اور اب وہ غیرفعال ہے۔
ہماری پہلی منزل اسلام آباد، دوسری کوہِ مری اور تیسری بھوربن تھی۔ موسم کی پہلی بارش راستے ہی میں شروع ہو چکی تھی۔ موسم سرما اپنے جوبن پر ہو اور بارش نہ ہو اس کا نقصان انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو ہوتا ہے جب کہ ڈاکٹر حضرات کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ہمارے اسلام آباد میں داخل ہونے تک بارش آہستہ ہو کر رک چکی تھی۔ میری ملازمت کی ابتداء اسی شہر سے ہوئی تھی۔ تب یہ شہر سیدھا سادا عام شہروں جیسا خاموش لیکن پرسکون اور خوبصورت تھا۔ اس کا مقامی انتظامیہ کا سینئر افسر ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اور انسپکٹر پولیس ہوتا تھا۔ مجھ سے پہلے زر محمد RM تعینات رہے۔
اب اسلام آباد اپنے فلائی اوورز، انڈر پاسز، برجز، میٹرو بسز اور خوبصورت سڑکوں اور چوراہوں کے علاوہ شاپنگ مالز کی وجہ سے ایک ماڈرن اور ماڈل سٹی بن چکا ہے جہاں رستہ بھول جانا کوئی عجب نہیں۔ ہمارے ساتھ بھی روشنیوں کی چکاچوند کے باوجود یہی ہوا۔ رات کے کھانے پر ایک ہوٹل میں ایک خوشگوار ملاقات پی ٹی وی کے نئے چیئرمین عطا الحق قاسمی اور ایکسپریس کے پروگرام کامیڈی تھیٹر کے میزبان اور خوش کلام شاعر وصی شاہ سے ہو گئی۔
راولپنڈی اور اسلام آباد وہ جڑواں شہر ہیں جہاں میری ملاقات اپنے عزیز ترین اور زندگی کا سرمایہ دوستوں امجد ورک ایڈیشنل فنانس سیکریٹری، توقیر حسین ایمبیسڈر، سید عامر رضا، مطیع الرحمن مرزا، نذیر چوہدری، صادق مرزا، ایم بلال، احمد فراز، افضل شگری، اقبال فرید، ملک رحمان، شوکت ایوب، اختر ایوب، سلیم اقبال، شوکت سیٹھی اور بہت سے احباب سے رہی۔
کوہِ مری میں پوسٹ آفس سے پنڈی پوائنٹ تک اور پھر واپسی صرف اسی ایریا تک چہل قدمی کرنے والوں کی ایسی سیرگاہ تھی جس پر اکثر شناساؤں اور دوستوں سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ یہاں تعیناتی کے عرصہ میں دوردراز سے احباب آتے رہے جنھیں ریسٹ ہاؤسز میں ٹھہرانے کی سہولت تھی۔ کوہ مری میں پہلی بار اپنے میٹرک کے زمانے میں اپنے بزرگ کرنل سعید کے ہمراہ آیا۔ بطور RM تعیناتی کے دنوں غلام مصطفی جتوئی وزیراعلیٰ سندھ تھے، ان کی فیملی سندھ ہاؤس میں قیام پذیر تھی۔
ان ہی دنوں میرے دوست شیخ لطف الرحمن لطفی بھی کراچی سے میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ جتوئی صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ جتوئی سے ملاقات ہوئی تو قریبی رفاقت میں بدل گئی۔ لطفی سے تو اس کی دوستی سگے بھائیوں سے بھی نزدیکی قرب پا گئی۔ اب ان کا تو کراچی میں روز کا ملنا ہے جب کہ اپنی ملاقات مرتضیٰ جتوئی سے لاہور یا کراچی موجود ہونے تک محدود ہو گئی ہے۔ کوہ مری سے یاد آیا کہ کچہری کی عمارت سے باہر ہر وقت بیس پچیس مقامی بزرگ آپس میں گپ شپ کرتے بیٹھے رہتے تھے۔
انھیں کچہری میں ویسے کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ کسی سے معلوم کیا تو اس نے ہنس کر کہا ان کے پانچ ''ک'' مشہور ہیں، کُلا یعنی سر پر پگڑی، کوٹ جو انھوں نے ہر وقت پہنا ہوتا ہے، کنڈی وہ چھتری ہے جو بارش سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہتی ہے اور کوڑ یعنی جھوٹ کہ یہ کچہری آنے والے کو آفر دیتے رہتے ہیں کہ گواہی کی ضرورت ہو تو ہماری خدمت حاضر ہے اور آخر میں کچہری جہاں یہ شوقیہ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ یہ ہو گئے کوہ مری کے بزرگوں کے پانچ عدد ''ک''۔ اس ''ک'' اور ''گ'' کے کھیل میں ایک اور ''ک'' کا استعمال یاد آتا ہے اور وہ ہے سکھ حضرات کا ''کچھا، کڑا، کرپان، کنگھا، کیس'' جن میں پہلا ''کچھ'' یعنی انڈر ویئر، کڑا یعنی کلائی میں پہنا کڑا، کرپان یعنی تلوار، کنگھا جو وہ جوڑے میں پھنسائے رکھتے ہیں اور کیس یعنی سر کے بال جن کا وہ جوڑا بناتے ہیں۔
بھوربن شمال کی جانب کوہ مری سے 15 منٹ کی ڈرائیو کی مسافت پر ایک اور سیرگاہ ہے جس کے دو ہوٹل سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں۔ ایک ہوٹل کی چار رہائشی کمروں کی منزلیں گراؤنڈ لیول سے زیرزمین ہیں۔ اسلام آباد سے کوہ مری تک اب دو رویہ سڑک ہے۔ چار دن کا لاہور سے بھوربن اور واپسی کا دورہ پلک جھپکنے تک مکمل ہو گیا، زندگی کا سفر بھی کسی کے لیے مشکل اور طویل ہوتا ہے تو کسی کے لیے خوشگوار اور مختصر۔