سایۂ خدائے ذوالجلال… ایک مطالعہ
ہمارے ملک میں بہت سی نابغہ روزگار شخصیات ہیں، جن کے دم سے پاکستان کی آن، بان، استحکام اور شان باقی ہے
چند روز قبل کی بات ہے جب ممتازصحافی اور معتبر قلمکار جلیس سلاسل نے مجھے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد کی کتاب عنایت کی۔ کتاب کا ٹائٹل اوراس کا عنوان بے حد متاثرکن تھا ''سایۂ خدائے ذوالجلال'' کا مفہوم پوری کائنات اور خصوصاً ہمارے ملک کا احاطہ کرتا ہے۔ اس مالک دوجہاں اور تخلیق عالم کی مہربانی کرم نوازی اور احسان ہی تو ہے کہ آج تک ہمارا ملک پاکستان دشمنوں کے نرغے میں رہتا اورکاری وار سہتا ہوا قائم و دائم ہے، اگر غوروفکر کے چراغ روشن کیے جائیں تو یہ ایک معجزہ بھی ہے اور وطن سے محبت کرنے والوں کی نیک نیتی بھی ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سی نابغہ روزگار شخصیات ہیں، جن کے دم سے پاکستان کی آن، بان، استحکام اور شان باقی ہے، اس کی وجہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے، اسے ایٹمی طاقت بخشنے والی شخصیت محسن پاکستان اور فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے اور مذکورہ کتاب ایسی ہی جگمگاتی اور روشن ہستیوں سے مرصع ہے۔
سایۂ خدائے ذوالجلال کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ فہرست پر نگاہ دوڑائیے تو دس نہیں، بیس نہیں، تیس بھی نہیں پورے 45 مضامین شامل کتاب ہیں اور سب مختلف موضوعات پر مبنی ہیں، کل صفحات 458 ہیں۔ مختلف اور خاص مواقعوں پر لی گئی تصاویرکتاب کی زینت اور اہمیت میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس کتاب کے پڑھنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے تخلیقی و تعمیری کاموں سے ناواقف تھی لیکن جناب! یہ ان کی تحریروں کا کمال ہے کہ کتاب کے اوراق پڑھتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد کے خیالات و احساسات، ان کی سوچ اور ان کی فکر سے آگاہی ہوتی چلی جاتی ہے۔
ان کی تحریروں نے مجھے اس بات سے بھی آشکارا کیا کہ ڈاکٹر صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ نرم خو، شرافت اور لیاقت کا پیکر ہیں، وہ بنیادی طور پر سائنس دان ہیں، ایک عمومی خیال یہ بھی ہے کہ بھلا سائنس دان کیونکر معاشرتی مسائل کو زیر بحث لاسکتا ہے اور وہ بھی قلم کے ذریعے؟
لیکن نہیں جناب! کوئی بھی شخص کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو، اور کسی بھی علوم کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوالیا ہو، لیکن ان علوم وفنون کے حصول کے ساتھ وہ معاشرے کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ناانصافیوں پرکڑھتا ہے اور اگر لکھنے کی صلاحیت سے آشنا ہو تب تو سونے پہ سہاگہ۔
ڈاکٹر معین الدین وفاقی اردو یونیورسٹی میں 2005 سے شعبہ نباتیات میں بحیثیت فارن پروفیسر کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکا میں سکونت پذیر تھے اور وہاں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے تھے، ڈاکٹر معین الدین احمد کا شمار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ سائنس دانوں میں کیا جاتا ہے، 5 کتابوں کے مصنف کہلاتے ہیں، حال ہی میں سائنس کا ایک جنرل نکالنے کی ابتدا کی ہے۔
''سایۂ خدائے ذوالجلال'' کے تمام مضامین قابل توجہ ہیں لیکن چند مضامین میں مقناطیسیت پنہاں ہے، تحریر کی کشش دل کو چھو لیتی ہے، میں نے مضمون کی ابتدا میں پاکستان کی مایہ ناز شخصیت ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیا تھا، بات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر قلم رواں ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے قد وقامت کے اعتبار سے ہی بڑے نہیں بلکہ اپنے کارناموں اورکردا کی بدولت سب سے بڑے ہوگئے ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے ان کی صلاحیت و لیاقت میں چار چاند لگے اور ہمارا ملک ایٹمی طاقت بن گیا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چار حج اور پچاس، ساٹھ عمروں کی سعادت حاصل کرنیوالے محسن پاکستان عبدالقدیر خان کو گھناؤنی سازش کے تحت ذہنی اذیت سے ہمکنارکیا گیا۔
اس عمل سے ان کی عزت ووقار پرکیا اثر پڑ سکتا ہے؟ چاند، سورج اور آسمان پر بھلا کوئی تھوک سکتا ہے؟ نہیں ناں۔ ہمارے ملک میں آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے کرپشن اس قدر پھیل چکی ہے کہ ہر ادارہ اس کی زد میں آگیا ہے۔ آئے دن جعلی ڈگریوں کی خریدوفروخت کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں، سرقہ کی لعنت علیحدہ، ایسے ایسے حضرات بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہوگئے ہیں کہ جن کا علم وادب، تہذیب و ثقافت، بدلتے زمانے کے تقاضوں، معاشرتی بدحالی، سماجی برائیوں کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے، ان حالات میں معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا؟ ڈاکٹر صاحب کا مضمون ''تحقیق میں چوری'' اسی قسم کی تعلیمی بدعنوانی و بددیانتی پر روشنی ڈالتا ہے۔
معلم ومتکلم کے حوالے سے ایک مضمون ڈاکٹر سید عبدالقادر جنیدی (مرحوم) کے حوالے سے بھی ہے، تحریر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ بڑے عالم اور بڑے انسان تھے، زندگی درس وتدریس میں بسر کی۔ امریکا گئے پی ایچ ڈی کیا، لیبیا میں بحیثیت استاد کے ذمے داریوں کا حق ادا کیا، بے شمارکالجوں کے پرنسپل رہے، ان کے شاگردوں نے ان کا نام روشن کیا کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، لیکن ایسے قابل اور شفیق استاد کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے کہ زمین کانپ جائے اور آسمان لرز اٹھے کہ یہ پیشۂ پیغمبری ہے۔
اس عظیم استاد کے ساتھ بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا نے اس وقت ان کا گریبان پکڑ کرکہتے ہیں کہ تمہارا تو باپ بھی دستخط کرے گا۔ جب انھوں نے زکوٰۃ فارم پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا! یہ تو غریبوں کا حق ہے، بے شک سرداروں اور زمینداروں کی اولاد نے محض دولت کے نشے میں چور ہوکر بڑے بڑوں کا استحصال کیا ہے۔'خدارا ہوش کے ناخن لیں' اور 'عطا آباد جھیل' دونوں مضامین پانی کے حوالے سے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں مضامین میں پانی کا ذخیرہ کرنے کے بارے میں مفید معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ کاش کے اہل اقتدار مطالعے کو اپنی عادت بنالیں توکمزور ترین معاشرتی ڈھانچہ مضبوط بن سکتا ہے۔
''سایہ خدائے ذوالجلال'' میں ایک ایسا مضمون بھی ہے، جو ہمیں دعوت فکر دیتا ہے، فہم و ادراک اور تفکرکے لیے راہیں ہموارکرتا ہے کہ آج کے مسلمان اس بات پر ضرور غور کریں کہ آیا وہ ہی کیوں پستی کے اندھیروں میں دھکیلے جا رہے ہیں، کیوں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور جائے پناہ کہیں نہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ''قوموں کی نفسیات پر تحقیق کی ضرورت'' اس تحریر کو پڑھنا ہرگز نہ بھولیے گا۔
(تقریب تعارف کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)
ہمارے ملک میں بہت سی نابغہ روزگار شخصیات ہیں، جن کے دم سے پاکستان کی آن، بان، استحکام اور شان باقی ہے، اس کی وجہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے، اسے ایٹمی طاقت بخشنے والی شخصیت محسن پاکستان اور فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے اور مذکورہ کتاب ایسی ہی جگمگاتی اور روشن ہستیوں سے مرصع ہے۔
سایۂ خدائے ذوالجلال کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ فہرست پر نگاہ دوڑائیے تو دس نہیں، بیس نہیں، تیس بھی نہیں پورے 45 مضامین شامل کتاب ہیں اور سب مختلف موضوعات پر مبنی ہیں، کل صفحات 458 ہیں۔ مختلف اور خاص مواقعوں پر لی گئی تصاویرکتاب کی زینت اور اہمیت میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس کتاب کے پڑھنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے تخلیقی و تعمیری کاموں سے ناواقف تھی لیکن جناب! یہ ان کی تحریروں کا کمال ہے کہ کتاب کے اوراق پڑھتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد کے خیالات و احساسات، ان کی سوچ اور ان کی فکر سے آگاہی ہوتی چلی جاتی ہے۔
ان کی تحریروں نے مجھے اس بات سے بھی آشکارا کیا کہ ڈاکٹر صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ نرم خو، شرافت اور لیاقت کا پیکر ہیں، وہ بنیادی طور پر سائنس دان ہیں، ایک عمومی خیال یہ بھی ہے کہ بھلا سائنس دان کیونکر معاشرتی مسائل کو زیر بحث لاسکتا ہے اور وہ بھی قلم کے ذریعے؟
لیکن نہیں جناب! کوئی بھی شخص کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو، اور کسی بھی علوم کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوالیا ہو، لیکن ان علوم وفنون کے حصول کے ساتھ وہ معاشرے کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ناانصافیوں پرکڑھتا ہے اور اگر لکھنے کی صلاحیت سے آشنا ہو تب تو سونے پہ سہاگہ۔
ڈاکٹر معین الدین وفاقی اردو یونیورسٹی میں 2005 سے شعبہ نباتیات میں بحیثیت فارن پروفیسر کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکا میں سکونت پذیر تھے اور وہاں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے تھے، ڈاکٹر معین الدین احمد کا شمار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ سائنس دانوں میں کیا جاتا ہے، 5 کتابوں کے مصنف کہلاتے ہیں، حال ہی میں سائنس کا ایک جنرل نکالنے کی ابتدا کی ہے۔
''سایۂ خدائے ذوالجلال'' کے تمام مضامین قابل توجہ ہیں لیکن چند مضامین میں مقناطیسیت پنہاں ہے، تحریر کی کشش دل کو چھو لیتی ہے، میں نے مضمون کی ابتدا میں پاکستان کی مایہ ناز شخصیت ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیا تھا، بات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر قلم رواں ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے قد وقامت کے اعتبار سے ہی بڑے نہیں بلکہ اپنے کارناموں اورکردا کی بدولت سب سے بڑے ہوگئے ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے ان کی صلاحیت و لیاقت میں چار چاند لگے اور ہمارا ملک ایٹمی طاقت بن گیا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چار حج اور پچاس، ساٹھ عمروں کی سعادت حاصل کرنیوالے محسن پاکستان عبدالقدیر خان کو گھناؤنی سازش کے تحت ذہنی اذیت سے ہمکنارکیا گیا۔
اس عمل سے ان کی عزت ووقار پرکیا اثر پڑ سکتا ہے؟ چاند، سورج اور آسمان پر بھلا کوئی تھوک سکتا ہے؟ نہیں ناں۔ ہمارے ملک میں آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے کرپشن اس قدر پھیل چکی ہے کہ ہر ادارہ اس کی زد میں آگیا ہے۔ آئے دن جعلی ڈگریوں کی خریدوفروخت کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں، سرقہ کی لعنت علیحدہ، ایسے ایسے حضرات بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہوگئے ہیں کہ جن کا علم وادب، تہذیب و ثقافت، بدلتے زمانے کے تقاضوں، معاشرتی بدحالی، سماجی برائیوں کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے، ان حالات میں معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا؟ ڈاکٹر صاحب کا مضمون ''تحقیق میں چوری'' اسی قسم کی تعلیمی بدعنوانی و بددیانتی پر روشنی ڈالتا ہے۔
معلم ومتکلم کے حوالے سے ایک مضمون ڈاکٹر سید عبدالقادر جنیدی (مرحوم) کے حوالے سے بھی ہے، تحریر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ بڑے عالم اور بڑے انسان تھے، زندگی درس وتدریس میں بسر کی۔ امریکا گئے پی ایچ ڈی کیا، لیبیا میں بحیثیت استاد کے ذمے داریوں کا حق ادا کیا، بے شمارکالجوں کے پرنسپل رہے، ان کے شاگردوں نے ان کا نام روشن کیا کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، لیکن ایسے قابل اور شفیق استاد کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے کہ زمین کانپ جائے اور آسمان لرز اٹھے کہ یہ پیشۂ پیغمبری ہے۔
اس عظیم استاد کے ساتھ بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا نے اس وقت ان کا گریبان پکڑ کرکہتے ہیں کہ تمہارا تو باپ بھی دستخط کرے گا۔ جب انھوں نے زکوٰۃ فارم پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا! یہ تو غریبوں کا حق ہے، بے شک سرداروں اور زمینداروں کی اولاد نے محض دولت کے نشے میں چور ہوکر بڑے بڑوں کا استحصال کیا ہے۔'خدارا ہوش کے ناخن لیں' اور 'عطا آباد جھیل' دونوں مضامین پانی کے حوالے سے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں مضامین میں پانی کا ذخیرہ کرنے کے بارے میں مفید معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ کاش کے اہل اقتدار مطالعے کو اپنی عادت بنالیں توکمزور ترین معاشرتی ڈھانچہ مضبوط بن سکتا ہے۔
''سایہ خدائے ذوالجلال'' میں ایک ایسا مضمون بھی ہے، جو ہمیں دعوت فکر دیتا ہے، فہم و ادراک اور تفکرکے لیے راہیں ہموارکرتا ہے کہ آج کے مسلمان اس بات پر ضرور غور کریں کہ آیا وہ ہی کیوں پستی کے اندھیروں میں دھکیلے جا رہے ہیں، کیوں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور جائے پناہ کہیں نہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ''قوموں کی نفسیات پر تحقیق کی ضرورت'' اس تحریر کو پڑھنا ہرگز نہ بھولیے گا۔
(تقریب تعارف کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)