جن اقوام کوہم نے مہذب کیا وہ آج ہم کوغیرمہذب کہہ رہی ہیں شمس الرحمٰن فاروقی
پریم چند اورستیہ جیت رے دونوں نے لکھنؤکی تہذیب کوبدنام کیا ، ممتازنقاد اورفکشن نگار شمس الرحمٰن فاروقی سے مکالمہ
اردو ادب کی تاریخ میں ان جیسی پہلودار شخصیت نہیں، نقاد، ادبی نظریہ ساز، کلاسیکی متون کے شارح، محقق، لغت نویس، شاعر، فکشن نگار، مترجم ، مدیر، عروض نویس، مبصر۔ شناخت کے اتنے متنوع حوالوں میں تنقید اورفکشن سب سے معتبر، باقیوں میں سے کسی کو ان کا کمزوربچہ نہیں کہا جاسکتا ( مثلاً ساحری، شاہی ، صاحبقرانی :داستان امیرحمزہ کا مطالعہ '' جیسی معرکتہ الآراکتاب سے داستانی ادب سے لوگوں کی دلچسپی میں قابل قدر اضافہ ہوا ۔ چارجلدوں میں ''شعرشورانگیز''کے عنوان سے میرکے منتخب کلام کا انتخاب ، شرح اور شاعری پرنقد،یہ کام میرشناسی میںوقیع درجہ رکھتا ہے۔چار دہائیوں تک ''شب خون''جیسا معیاری ادبی پرچہ نکالنا، مدیرانہ صلاحیتوں کا جیتا جاگتاثبوت ہے )
تنقید کی طرف آئے توتھوڑے عرصے میں نقاد کی حیثیت سے ممتازحیثیت حاصل کرلی ۔ غیر قطعی اورگول مول بات کہنے کو نقاد کے منصب کے منافی جانتے ہیں ۔ تنقید کا مقصد، ان کی دانست میں معلومات نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے ۔ فن پارے کی کسی تعبیرکو حتمی نہیں سمجھتے ، اس لیے کوئی تنقید، ان کے نزدیک ،حرف آخرنہیں ہوسکتی۔
اردوتنقید میں جدیدیت کے علمبردار بنے، جس نے کئی مباحث چھیڑے ۔ اس فکر کا بنیادی نکتہ تو یہ ہے کہ ادب کی خوبی ادب کے دائرے میں طے ہوسکتی ہے اورادب میں غیر ادبی معیار رائج کرنا ، ادب اورادیب دونوں سے غداری ہے۔ کہتے ہیں، ادب کی تفہیم وتنقید ،ادب کے اصولوں سے ہونی چاہیے نہ کہ جغرافیہ یا سیاست کے اصولوں سے ۔ ادیب پرکسی حکم یا نظریہ کی پابندی جائز نہیں سمجھتے۔
ادبی کام کے ذریعے تہذیبی وقار اور خود اعتمادی بحال کرنے پر یقین ہے ۔ یہ بات ان کے ذہن میں رہتی ہے ،خواہ تنقید کی مد میں کچھ لکھ رہے ہوں خواہ فکشن ۔ اوراس اصول کی خاطر قدامت پسندی کا طعنہ سننے کو بھی تیار ہیں ۔ علامہ اقبال اورمحمد حسن عسکری کو مربی، اس لیے مانتے ہیں کہ دونوں مغربی ادب اورروایت سے گہری واقفیت کے باوجود مغرب سے متاثرہوئے نہ مرعوب۔ اپنی کتاب'' تنقیدی افکار''میں لکھتے ہیں ''یہ اقبال ہی تھے جنھوں نے ہمیں سکھایا کہ مغربی فکراورتہذیب سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی کمزوریوں اورنارسائیوں پربھی نظررکھنا چاہیے ۔
اقبال ہی نے ہمیں بتایا کہ مغرب نے ہمارا فکری اورتہذیبی استحصال کیا اور ہمیں اپنی ادبی اورتہذیبی روایت سے دوررکھنے کی کامیاب سازش رچی ۔ اقبال نے مشرق کومحض تاریخ پارینہ کی طرح نہیں ، بلکہ ایک زندہ وجود کے طورپردیکھنے کی تلقین کی۔ ترقی پسند تحریک کے فروغ کے باعث ہم نے اقبال کے سکھائے ہوئے تہذیبی نکات بھلا دیے۔ محمد حسن عسکری نے مغرب کے علی الرغم اپنی روایت میں مضبوطی تلاش کرنے کی صلاحیت ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی تو پرانے سلسلے پھر قائم ہوئے ۔ ''
اٹھارویں صدی کوہندی اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول '' اردو فارسی ادب ، تصوف ،علوم عقلیہ ونقلیہ ،فنون حرب وضرب، موسیقی ،ان میدانوں میں اٹھارویں صدی والوں نے جو نئے نئے مضمارو بیدار دریافت کئے اور فتح کئے ،ان کی مثال پہلے نہیں ملتی ،بعد میں ملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں ۔ اوراٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے۔ہم لوگ چند شہر آشوبوں ، چند ہجوؤں ، تعصب اورکینہ پر مبنی چند افسانوں کوتاریخ قرار دے کراٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال ، انتشار، بدامنی ، طوائف الملوکی ،امیروں کی مفلسی اور غریبوں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں ۔ ''
ان کا فکشن بتاتا ہے کہ ہمارا ایک ماضی تھا ۔ ایک زندہ تہذیب سے ناتا تھا ، جس کا چہرہ چنگیز سے تاریک ترنہیں، روشن ورخشاں تھا۔ دلی کی تہذیبی عظمت کابھرپور بیان ان کے فکشن میںآیا ہے ۔ ان کی دانست میں دلی ہی نہیں لکھنؤکی تہذیبی زندگی کا نقشہ بھی صحیح طورپر نہیں کھینچا گیا ۔ ان دنوں وہ جس ناول پرکام کررہے ہیں، اس کا پس منظرلکھنؤکا ہے، جس میں وہ لکھنؤ کی اصل تہذیب کا نین نقشہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ تورہا اس بنیاد کا سرسری سا تعارف جس پران کے علمی کام کی بلند عمارت ایستادہ ہے، اب کچھ ذکر ان کی لاہورمیں ہونے والی پذیرائی کا ۔
وہ نومیرکے اواخرمیں لاہورآئے ۔ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں کلیدی خطبہ میں، فیض کی مقبولیت کے اسباب بیان کئے۔ ایک سیشن میں میر پرگفتگو کی ۔ معروف تعلیمی ادارے '' لمز''کے گورمانی سنٹر برائے زبان وادب کے مہمان بنے ۔ ادب کیوں؟ اور ''اردو غزل کی تہذیب ''کے موضوعات پرلیکچر دیے۔ گورنمنٹ کالج میں طلبا سے خطاب کیا ۔
مجلس ترقی ادب میں اہل علم سے ملے ۔ حلقہ ارباب ذوق کے مہمان بنے ۔ ممتازادیب انتظار حسین سے شمس العلما کا خطاب ملا ۔ فارسی زبان وادب کے استاد معین نظامی نے سبک ہندی کا عالم اورعارف قرا ر دیا ۔ نوجوانوں میں جس قدر مقبول ہیں، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ حلقہ ارباب ذوق کے جلسے میں ہوا،جہاں ان کی آمد کے باعث تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
ان کی گفتگوسننے طالبان ادب توپہنچتے رہے ، لیکن وہ جن کا جام خود علم سے لبریز ہے، وہ بھی خوشہ چینی کے لیے برابر آتے رہے جیسے انتظار حسین، ڈاکٹرخورشید رضوی اورڈاکٹرتحسین فراقی، اوربھی بہیترے صاحبان علم ان کی طلاقت لسانی کے جوہردیکھنے آئے ، یہ تین نام تومثال کے طور پر ہیں ۔ چند ایک ایسے بھی تھے، جو بوجوہ ان تک نہ پہنچ سکے تووہ خود ان کے پاس بہ نفس نفیس پہنچے ۔ معروف شاعر ظفراقبال سے ملنے ان کے فارم ہاؤس گئے ، جہاں ہمدم دیرینہ سے خوب گپ شپ ہوئی۔ ہندوستان لوٹنے سے ایک روز قبل محمدسلیم الرحمن سے ملنے ان کے ہاں گئے اورکہا کہ اس شہرکے ادبی قطب سے ملے بغیربھلا میں کیسے لوٹ جاتا ۔ اس شہرسے ملنے والی محبت نے ان کو نہال کردیا ۔ اس دورے میں شادمانی کا ایک ذاتی پہلو بھی تھا ۔
ان کی لائق فائق اسکالربیٹی مہرافشاں فاروقی بھی ان کے ہم راہ تھیں ،جن کی لیاقت کی تعریف سن کر و ہ اس لیے خوش تھے کہ ان کی ادبی تربیت ضائع نہیں گئی اوران کے گھنیرے سائے سے نکل کربیٹی اپنی الگ سے علمی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہری ہے ۔علم کا ایسا استحضاراردو کے کم ہی ادیبوں کونصیب ہوا ہوگا ۔ ذہن ان کا بڑا منظم ہے، جوبات کرتے ہیں، ذہن میں اچھی طرح پک کرزبان پرآتی ہے ۔ ان سے ہماری جوگفتگو ہوئی، امید ہے قارئین کوپسند آئے گی ۔
٭٭٭
شمس الرحمن فاروقی نے اردو میں افسانے لکھے جو ''سوار اور دوسرے افسانے'' کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپے۔ ''کئی چاند تھے سرآسماں''جیسا بڑا ناول لکھا ۔ ''قبض زماں ''کے عنوان سے ناولٹ ہے۔ ان سب کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ اردو سے اپنے ناول کوانگریزی میں منتقل کرنے کا تجربہ قرۃ العین حیدر او رعبداللہ حسین دونوں نے کیا ،لیکن ان سے بات بنی نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا ناول ہی نہیں، اس کا ترجمہ بھی ان دونوں سے بازی لے گیا ۔ انگریزی زبان کی گہری سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے داد پائی ۔ مقبول عام ہوا ۔ ترجمہ کرنے پر آئے تو ناول پر اکتفا نہ کیا ۔ افسانوں اور ناولٹ کا ترجمہ بھی کر دیا ۔ فکشن لکھ لیا ۔ اسے انگریزی میں منتقل کر لیا۔ یہ سب تو ہو گیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ بحر فکشن سے اب کیا اچھلنے کو ہے ؟
اس سوال پر بتایا: ''قبض زماں ''کے بعد ایک ناول شروع کیا ہے ۔ اس کا پس منظر لکھنؤکا ہے ۔ جرأت کے دوشاگرد تھے۔ دونوں نے طے کیا کہ گومتی کے کنارے جاکرمعاملہ طے کریں گے ۔ وہاں تلواریں نکل آئیں ۔ ایک کم زخمی ہوا ۔ دوسرا لڑائی کے بعد زخموں سے چور گھر پہنچا۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا معاملہ ہوا؟کیا قصہ ہوا؟اس نے ظاہرنہ کیا۔ دو دن بعد مرگیا ۔ اب جوصاحب قاتل تھے، اس ڈرسے کہ مقتول کے گھروالے پکڑیں گے یا پولیس والے،اس لیے وہ ڈرکے مارے دلی بھاگ گئے ۔
وہاں جاکر خواجہ میردرد کے شاگرد ہوگئے۔ چند برس دلی میں رہے ۔ پھرسوچا اب معاملہ دب گیا ہوگا ۔ لوگ بھول گئے ہوں گے ۔ لکھنؤکے لوگوں کوکچھ خبرتھی کہ یہ وہی آدمی ہے،جس نے مارا ہے ۔ اب اس کی لکھنؤآمد کا لوگوں کا جانے کس طرح پتا چلاکہ قاتل شہرمیں پہنچا تو اسے مار دیا ۔ پرانے تذکرے پڑھتا رہتا ہوں ۔ ان میں جرات کے ان شاگردوں کا احوال پڑھنے کوملا جودلچسپ لگا ۔ اب یہ چھوٹی سی کہانی ہے اس کوپھیلاؤں گا ۔ یہ اہم لوگ نہیں تھے ۔ لکھنؤاوردلی کا ماحول آجائے گا ۔ انشا اورجرأت کو ڈالیں گے۔
لکھنؤکی تہذیب کی اصل صورت بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ پریم چند کوتاریخ کا کچھ پتا نہیں تھا، اس لیے انھوں نے واجد علی شاہ اور لکھنؤکی تہذیب کوبدنام کیا ۔ ان کا افسانہ ''شطرنج کے کھلاڑی'' لکھنؤکی تہذیب کوبہت بدنام کرتا ہے، اس سے زیادہ بدنام ستیہ جیت رے کی فلم کرتی ہے۔ پریم چند نے کہانی میں معاشرے کا انحطاط دکھایا ہے ، اورجوخرابیاں انھوں نے گنوائی ہیں، وہ اربن کلچرمیں عام تھیں، ان کا انحطاط سے تعلق نہیں تھا ۔ ''
٭ ہم نے پوچھا ''اپنی تحریرکو دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟''
کہنے لگے: ''اپنی تحریرکوترجمہ کرنے میں آزادی ہوجاتی ہے۔ کسی دوسرے کے فکشن کوترجمہ کریں تومتن سے وفادار اوراس کا احترام کرناپڑتا ہے ۔ متن میرا اپنا ہے تومجھے آزادی ہے کہ اگر کوئی اردو کا لفظ انگریزی میں کہیں آہی نہیں رہا یا انگریزی کے آہنگ میں فٹ نہیں بیٹھ رہا تومیں کچھ اور لکھ سکتا ہوں ۔ مجھے معلوم ہے مافی الضمیرکیا ہے۔
ترجمے کے بارے میں شکایت ہوئی کہ انگریزی پرانی اورمشکل ہے۔ اردومیں جس عہد کا بیان ہے، اس کا آج کی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس ذائقہ کو تھوڑا برقراررکھنے کے لیے ، جدید انگریزی تقاضے پورے نہیں کرسکتی تھی۔ محنت تو ہے، لیکن لفظوں میں بچپن سے دلچسپی ہے ۔
جہاں نیا لفظ سنا کان کھڑے ہو گئے۔ ہمارے زمانے میں تو کیا، اب بھی جوانگریزی پڑھائی جاتی ہے، وہ زیادہ تراٹھارویں انیسویں صدی تک آ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ اب اس زمانے کی کتابوں کے جونئے ایڈیشن بنے ہیں، طالب علموں کوپڑھانے کے لیے، ان کے حاشیہ میں ایسے ایسے الفاظ کے معنی ہیں، جومیرے خیال میں بالکل سامنے کے ہیں اوران کے معنی مجھے خوب معلوم ہیں ۔بیس بائیس برس کا جولڑکا امریکا اورلندن میں پڑھ رہا ہے،اس کے لیے یہ الفاظ غیرمانوس ہیں ۔ انگریزی پڑھی بہت ہے ، اس لیے مجھے پرانے الفاظ یاد تھے ،اس لیے زیادہ ڈھونڈنا نہیں پڑا ۔ ترجمے میں ایک سال ، ایک مہینہ لگا ۔''
٭ ''ترجمے میں کیا سب کچھ منتقل ہوگیا یا پھرکہیں اصل کوقربان بھی کرنا پڑا؟''
''ترجمے میں ناول کی جزیات اورپروٹوکول سب آگئے ۔ فارسیت اس کی قربان کرنی پڑی جوadded charm تھا ۔ عورتوں کی زبان قربان کرنی پڑی۔
٭ ''ترجمے میں کہیں پھنسے؟''
''ترجمے میں نہیں لیکن جب اردومیں لکھ رہا تھا توایک مقام پرمشکل پیش آئی ۔ وزیرخانم جب نواب شمس الدین کے گھر جاتی ہے ، تواب معاملہ یہ ہے کہ شب باشی کا مرحلہ کیسے لایا جائے، کس نہج سے لایا جائے، یہ بھی نہ لگے کہ وزیرخانم اتاولی ہو رہی ہے، نہ ہی وہ مجبورلگے، اس کا وقاراورتمکنت برقراررہے۔ اس سے قبل دونوں میں ملاقات رہ چکی ہے، خط کتابت ہوچکی ، تحفے تحائف کا معاملہ بھی ہو گیا تھا ،جس کے بارے میں لکھ آیا تھا لیکن نواب شمس الدین کے ہاں اس کا جانا اوربات آگے بڑھانا مجھے مشکل لگا لیکن ہوگیا اورمیں نے اسے لکھ ڈالا جس کی لوگوں نے تعریف بھی کی۔ ''
٭ '' شمس الرحمن فاروقی نے لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جانے والے تہذیب، کاغذ پردوبارہ سے زندہ کرکے دکھائی ہے۔ اس کی انفرادیت جن چیزوں پراستوارتھی، ان کا بیان اس طریق پرکہ مثال نہ ملے ۔ انتظارحسین کواس ناول میں دسترخوان کے بیان کی کمی کھٹکی تھی اورانھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ تہذیبیں اپنے دسترخوان سے بھی پہچانی جاتی ہیں، اس لیے اس کا بھی ذکرآجاتا توکیا مضائقہ تھا ؟''
اس اعتراض پران کا جواب یہ رہا ''کھانے کا ذکرتوہے اس میں، ان کی مراد تھی کھانوں کے نام نہیں، جیسے داستانوں میں ہوتے ہیں۔جب انھوں نے لکھا توخیال آیا کہ میں نے ایسا کیوں نہ کیا۔ وجہ یہ کہ مجھے یہ بڑی ڈیڈ سے فہرست لگتی ہے ۔ مثلاً روٹی کی پندرہ قسمیں ہیں، ان میں سے بارہ کومیں جانتا نہیں کہ کیسی ہوتی ہیں ۔ اگرمیں ایسا کرتا توفہرست سازی ہوتی۔ سوچ سوچ کرکھانوں کے نام ڈالنا فہرست سازی اورمکینیکل سا کام لگتا۔اس کے بجائے دوسری چیزوں کا بیان اہم لگا جیسے کپڑوں یازیورات کے بارے میں لکھنا۔ ''
٭ '' شمس الرحمن فاروقی سے ہم نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ فاروقی صاحب نے ایک زمانے میں علامتی افسانہ لکھنے والوں کی بڑی ہوا باندھی ۔ انور سجاد کونئے افسانے کا معماراعظم قراردیا لیکن جب خود فکشن لکھا تو اس راہ کو اختیار کرنے کے بجائے حقیقت نگاری سے کام لیا ؟''
ان کے بقول: ''یہ بات کئی لوگوں نے کہی۔ میں نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ لکھنے کا صرف ایک اسلوب ہے ،جس کواختیارکریں ۔ میں نے توکہا کہ کئی طرح کے اسلوب ہو سکتے ہیں ،اورآج میں جس اسلوب کی سفارش کر رہا ہوں ، وہ پرانے اسالیب سے ہٹ کر ہے۔ پرانا منسوخ کبھی نہیں ہوتا ، پرانے کواستعمال کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے ۔ میں نے یہ تھوڑی کہا کہ اس طرح کا افسانہ نہ لکھیں، نہ کہا کہ آپ اس طرح کا افسانہ ہی لکھیں ۔ میں نے بات کی کہ آپ کوآزادی ہونی چاہیے یہ نہیں کہ افسانے کا جونمونہ پریم چند نے بنادیا یا منٹونے بنادیا ،اس کے پابند ہوکررہ جائیں اوراس سے آگے نہ جائیں۔ میں نے جب تجریدی اورعلامتی افسانے کوسراہا توساتھ میں یہ تونہیں کہا کہ اورطرح کی چیزیں نہ لکھو ۔ میں نے ''شب خون ''میں ''منزل ہے کہاں تیری''کے نام سے تجریدی رنگ میں ا فسانہ لکھا ۔ یہ نہیں کہ میں اس رنگ میں لکھنے پرقادر نہیں ۔ لیکن مجھے آزادی ہے کہ جوبات مجھے کہنی ہے،اس کے لیے جوہیت مجھے پسند ہے،اسے استعمال کرتا ہوں ۔ ''
٭ '' مطلب یہ کہ آپ جس طرح کا فکشن لکھ رہے ہیں، اس کے لیے انورسجاد اورسریندرپرکاش جیسا اسلوب موزوں نہیں؟''
''میں اس تہذیب کے بارے میں لکھ رہا ہوں، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے ، وہ ہے ہی نہیں، اکثرلوگوں کے خیال میں وہ کبھی تھی ہی نہیں ، اس کومیں کسی صورت سامنے لانا چاہتا ہوں ۔ بتارہا ہوں کہ وہ تہذیب ایک طرح سے تھی، لوگوں کی داخلی زندگی تھی ،وہ عقل وشعوررکھتے تھے، عشق کے بارے میں ان کے تصورات تھے، یہ نہیں کہ ہمارا کوئی ماضی ہی نہیں تھا۔ہم بالکل جاہل اجڈ اور غیرترقی یافتہ تھے۔ ہم نے تودنیا دیکھی نہیں تھی، جب نیا زمانہ آیا تو ہماری آنکھ کھلی۔ میں نے بتایا کہ نہیں ہماری بھی ایک زندہ تہذیب تھی ۔ اگر ان باتوں کے لیے انورسجاد یا سریندرپرکاش کا اسلوب اختیار کروں تو سامنے ہی کچھ نہیں آئے گا ۔ وہ جس تہذیب کے افسانے ہیں، وہ اپنی جگہ درست اورمعتبر،اورمیں جس تہذیب کے بارے میں لکھ رہا ہوں وہ بھی درست اورمعتبر لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تہذیب زندہ ہے اورمیں جس تہذیب پرلکھ رہا ہوں وہ زندہ نہیں، اورلوگوں کے ذہنوں میں اس کا کوئی نقش نہیں ۔ ''
٭ ''شمس الرحمن فاروقی نے بھرپورزندگی گزاری۔ پوسٹل سروس میں افسر کی حیثیت سے ہندوستان کے مختلف حصوں میں وقت گزرا ۔ باہرکی دنیادیکھی ۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے معاملہ رہا ۔ اس کے باوجود اردگرد جوہورہا ہے یا ہوتا رہا ہے،اس کے بارے میں اپنے مشاہدات کو فکشن کے روپ میں پیش نہیں کرتے ، اور اس ماضی کی طرف باربارپلٹتے ہیں، جوان کا دیکھا بھالا نہیں ۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں :
'' لڑکپن میں جب میں خود کوفکشن نگاربنانے کی کوشش کررہا تھا، آس پاس زندگی میں جوہورہا تھا اسے دیکھتا۔ ایک آدھ افسانہ لکھا۔تعریف بھی ہوئی ۔ ''دلدل سے باہر''کے نام سے پچاس اکاون میں ناولٹ لکھا جوچارقسطوں میں ''معیار''میرٹھ میں شائع ہوا۔ ایک دوست کے پاس ہے، وہ اسے چھپوانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ۔ ہاتھ جوڑتا ہوں کہ بھائی معاف کردو ۔ اس میں یہی تھا کہ دیہاتی زندگی سے شہری زندگی میں لڑکا جاتا ہے، تواسے عشق وشق ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد فکشن لکھنا چھوڑ دیا ۔ اٹھارہ بیس برس پہلے دوبارہ فکشن کی طرف آیا ، تو اب یہ ہے کہ زندگی کے عام واقعات یا چیزیں ہیں، ان کوفکشن میں ڈھال دوں ، تواس سے میں خود کوقاصرپاتا ہوں ۔ مجھے فکشن لکھنے کے لیے ہمیشہ فاصلہ چاہیے ہوتا ہے ۔ تقسیم ہند کے فوری بعد جوفکشن لکھا گیا ہے، اس میں منٹو کے'' سیاہ حاشیے'' کے علاوہ کوئی خاص چیزنہیں لکھی گئی ۔ اشفاق احمد کے ''گڈریا'' کوبھی مان لیجئے ۔ راجندرسنگھ بیدی کا ''لاجونتی'' بہت بعد میں لکھا گیا ۔
اس میں وہ درد اورشدت ہے، جسے آپ محسوس کرچکے ہیں، اوراب آپ کے ضمیر کا حصہ ہے ۔ میں اگرکوئی معمولی ناول پڑھ رہا ہوں، مثلاً کوئی جاسوسی ناول، جوادبی کارنامہ بھی نہیں، اس میں ہیروئن جب خطرے میں گھرتی ہے ، توہمیں ڈرلگ رہا ہے ، اس کا ریپ نہ ہوجائے، اغوا نہ ہو جائے،اس پرکوئی تیزاب نہ پھینک دے،پڑھتے وقت مسلسل کہتا رہتا ہوں کہ یارایسا نہ ہوتا تواچھا تھا اورویسا نہ ہوتا تواچھا تھا، جبکہ مجھے معلوم ہے۔
ساری بات افسانہ ہے ،اخبارمیں کسی کے قتل کی خبرپڑھتا ہوں تو تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن یہ نہیں کہتاکہ کاش یہ نہ ہوتا ، کاش وہ نہ ہوتا، مجھے پتا ہے یہ ہوچکا ہے۔اخبارکی خبرپرمیں روؤں توکیا فائدہ نہ روؤں توکیا فائدہ ۔ افسانے میں جو ہو رہا ہے ، وہ میرے سامنے ہورہا ہے، اورہونے سے مراد یہ کہ میرے ضمیرمیں جاگزیں ہو۔ روزمرہ کی چیزیں میرے لیے افسانہ نہیں بنتیں۔ فکشن میں کوشش کرتا ہوں، جوبہت پہلے ہوچکا ہے،اسے دوبارہ لاسکوں ۔ ''
شمس الرحمن فاروقی ''کئی چاند تھے سرآسماں '' ناول کے ساتھ تاریخی کی پخ لگانے کومناسب خیال نہیں کرتے ۔ اسے تاریخ کی کتاب قراردینے کی بات پروہ ہنستے ہیں اوراسے صرف اورصرف ناول قراردینے پرزوردیتے ہیں ۔ ان کے بقول: ''کتاب مصنف کی ملکیت ہے ۔ وہ اگرکہے کہ ناول ہے تو وہ ناول ہے ۔ مصنف خود اس کا نقشہ بناتا ہے ۔ اس کی نیت اورعندیہ بھی کوئی چیزہوتا ہے ۔ معنی نہیں، ہیت کے اعتبارسے یہ بات کہتا ہوں ۔ میں نے تاریخی ناول نہیں لکھا ۔
اس میں تاریخی کردار نہیں ۔وہ کردارنہیں، جنھوں نے برصغیرکی تاریخ پر اثر ڈالا ہو ۔ ان لوگوں کا ذکر ہے، جوتاریخ کے حاشیے بلکہ حاشیے کے بھی کونے میں ہیں ۔ اس میں تاریخ وغیرہ کچھ نہیں، اس تہذیب کا بیان ہے،جس کوہم بھول چکے ہیں، اورنہیں جانتے کہ کبھی وہ تھی ۔ یہ ناول لڑکی کے بارے میں ہے،جوبہت خوبصورت ہے۔ بڑھاپے کا اس پراثرنہیں ۔ شعرپڑھتی ہے ۔ بذلہ سنج ہے ۔ مسلمان گھرانے سے ہے۔ باہمت ہے۔ اپنے لیے خود انتخاب کرتی ہے، اس کے لیے لڑتی ہے، اس کا نتیجہ اچھا ہو برا ہو اس کی پروا نہیں۔''
80 برس کے اس بزرگ ادیب کا دل فکشن میں لگ گیا ہے ۔ لگنا بھی چاہیے کہ ان کا یقین ہے کہ تخلیقی کام کی اہمیت اورزندگی کسی بھی دوسرے علمی کام سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے باوجوددوسری علمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔سب سے زیادہ فکرانھیں داستانوں پراپنے جاری کام کومکمل کرنی کی ہے ، جس کی چارجلدیں سامنے آچکی ہیں۔
پانچویں جلد شروع کئے چاربرس ہوگئے لیکن وہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ ان کے خیال میں یہ سلسلہ آٹھ نوجلدوں تک جائے گا۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول لکھنے کے سلسلے میں میرکا کلام اور داستانوں کی غواصی بہت کام آئی۔ ان کے بقول ''اٹھارویں صدی کے اکثرشعرا خاص کرمیرکا کلام ناول کے سلسلے میں بہت کام آیا ۔ داستان کا بڑا رول ہے۔جگہ جگہ اشعارکا استعمال اوراشعارکے ذریعے سے بات کہنا یہ سب داستان کا اثر ہے ، داستانوں کے مطالعہ کے بغیریہ ناول کبھی تخلیق نہ ہوپاتا ۔''
پاموک اور کادرے کا تقابل
اورحان پاموک کوترکی سے محبت ہے،پروہ کہیں اشارہ نہیں دیتے کہ وہ مسلمان بھی ہیں، یا یہ کہ جس ملک کا وہ بیان کررہے ہیں، مسلمان ملک ہے یا رہا ہوگا۔ اپنی تہذیب کوماضی تصورکررہے ہیں، اس میں زندہ نہیں۔مجھے اس سے تھوڑی سے وحشت بھی ہوئی۔ استنبول سے اتنی محبت ہے، تفصیلات بڑے خوبصورت طریقے سے بیان کی ہیں۔
تاریخ کے معاملات اورموجودہ صورت حال کوبڑے اچھے اندازمیں پیش کیا ہے۔مائی نیم ازریڈ میں،کلاسیکی منی ایچرپینٹنگ کے پورے اسلوب پربڑی عمدگی سے لکھا ہے۔کم سے کم اپنے ماضی کا شعورہے، اوراسے گرفت میں لانا چاہتے ہیں، لیکن ایک فاصلے کے ساتھ۔ معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو اس سے خاص لگاؤنہیں، لیکن اس کوکہیں دیکھا ہے، اس لیے بتارہا ہے، شالامارباغ دیکھا ہے، بیان کررہا ہے، لیکن شالامارمیں وہ ہے نہیں، یہ مجھے ان سے شکایت ہے۔
اسماعیل کادرے کا معاملہ بھی اورحان پاموک سے ملتاجلتاہے۔ میرے خیال میں اسے ادب کا نوبیل انعام ملنا چاہیے، لیکن البانیہ والوں کوکون پوچھتا ہے؟ جہاں تک سوال ،ناول نگاری کی قوت کا ہے،اس میں کادرے ، پاموک سے بڑھ کرہے۔ اس کے فکشن میں البانیہ میں انور خوجہ کی حکومت کا وہ دورہے، جب چین سے البانیہ کی دوستی ہوئی۔ اسٹالن اور سوویت روس سے ان کی نہیں بن رہی تھی۔ انور خوجہ نے اسٹالن اوراسٹالن ازم کوطلاق دے دی۔ کادرے کے تقریباً ہرناول میں یا تووہ تاریخ ہے، جوترکوں کے آنے سے پہلے کی ہے یا پھرکمیونسٹ انقلاب کے بعد کی،خاص طورپر انور خوجہ کے زمانے کی۔ مشرقی یورپ اورالبانیہ کی مسلمان تہذیب میں وہ ڈوبا ہوا ہے، لیکن وہ اسے مسلمان تہذیب نہیں کہتا ،البانیہ یا سینٹرل یورپ کی تہذیب بتاتاہے۔
اس نے اپنے ناولوں میں بتایا ہے کہ استبداد کے زمانے میں آدمی کیسے جیتا ہے۔ ہمدردی ، غصہ یا خوف کا اظہارکہیں نہیں، بس یہ کہ اس زمانے میں انسان پرکیا گزررہی تھی،خاص کروہ زمانہ جب مین لائن کیمونسٹ ان سے الگ ہیں۔ اس دورکا سارا جبرہرصفحے پرپھیلا ہے، لیکن بغیرکسی غصے ، ترحم یا افسوس کے۔ بہت ہی زبردست آدمی ہے۔ البانیہ کا ہے، اس لیے کم لوگ جانتے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ قبل اس کی ناول نما چیزپڑھی ہے۔ ساٹھ کے زمانے میں جب وہ ماسکویونیورسٹی میں پڑھتا تھا،اس دورکے مشاہدات کوبیان کیا اورپھراسے جوڑاہے، البانیہ میں ماقبل مسلمان کلچرسے ۔ اس میں داستان گو ہے،جس کی داستان ریکارڈ کرنے لوگ آتے ہیں، وہ ایک جملہ کہتا ہے ،'' یہ جولکھے ہوئے حرف ہیں، یہ توبولے ہوئے حرف کے لاشے ہیں'' اس جملے نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ پوری تہذیب کا نچوڑ اس جملے میں آگیا۔ ادھردریدا صاحب اسی پرمرے ہیں کہ تحریرمقدم ہے، تقریرکے اوپر ۔ ہمارے ہاں زبانی روایت مقدم رہی ہے۔ محمدحسن عسکری نے بتایاکہ زبانی روایت کے معنی کیا ہیں،کیا اس کی قوت ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ دوسوبرس کی تاریخ میں عسکری ایک ہی پیدا ہوا۔
افسانے میں انتظارحسین کا کارنامہ
اور بیدی سے بڑا ہے
اردوفکشن کی تاریخ میں جتنے بڑے نام لیے جاتے ہیں،ان میں سے اکثروں سے انتظارحسین بڑے فکشن نگار ہیں۔ منٹوکی میرے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ صحیح معنوں میں بڑے افسانہ نگار ہیں،ان کے بعد مجھے راجندرسنگھ بیدی نظرآتے ہیں۔ ان دونوں کے بعد انتظارحسین ہیں ۔کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی اورغلام عباس سب بعد میں آتے ہیں ۔
نئی نسل کے لوگوں مثلاً انورسجاد اورسریندرپرکاش کی دنیا چھوٹی ہوکررہ گئی اوروہ ختم ہو گئے۔ اردوافسانے کی تاریخ میں انتظارحسین کے برابرکوئی دوسرا افسانہ نگارنظرنہیں آتا ۔ پریم چند کی بڑی اہمیت ہے۔ پرکھوں میں سے ہیں۔کوئی افسانہ نگار ان کو پڑھے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔ بیدی بڑے افسانہ نگارہیں، اوربھی بڑے افسانہ نگارہوسکتے تھے، اگردل جمعی سے کام کرتے اورفلم ولم میں نہ جاتے۔ بیدی سے جھگڑا بھی رہتا ہے۔ ان کی کرداروں میں جوکمی ہوتی ہے، خاص طورپرعورت کے کردارمیں ،اس کی میں نشاندہی کرتا رہا ہوں، وہ عورت کوہمیشہ مظلوم ہی دکھانا پسند کرتے ہیں۔
ان کی عورتیں کہیں نہ کہیں سے مظلوم ضرور ہیں۔ فکشن سے کچھ نہ کچھ جھگڑا کرنا پڑتا ہے ۔ شاعری کا معاملہ اورہے، اقبال سے مجھے کئی جگہ اختلاف ہے، لیکن ان کی شاعری مجھے پھربھی اچھی لگتی ہے۔ شاعری میں چل جاتا ہے، لیکن فکشن میں ہم چونکہ آدمی کوانوالو کرتے ہیں، کرداروں کوانوالو کرتے ہیں، اس لیے ان سے جھگڑے بغیرگزارانہیں ہوتا، شاعری میں کردارہوتے نہیں، اوراگر ہوں توایسے ہوتے ہیں، کہ کردارہیں بھی اورنہیں بھی۔ اقبال کے ہاں بہت سے کردارہیں، لیکن وہ خیالی ہیں، ان سے ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں۔ مثلاً ابلیس کا کردارہے،اس سے میں کیوں جھگڑوں۔ بیدی کی زبان چاہے ، منٹو اور انتظار جتنی خوبصورت نہ ہو لیکن ان کے پہلے جملے سے لے کرآخری جملے تک ، کوئی جملہ بیکارکا نہیں ہوتا ۔ منٹواوربیدی کے برابرمیں انتظارکورکھ سکتا ہوں ۔
مجموعی طورپرانتظار کا کارنامہ، ان لوگوں سے بڑا ہے ۔ فکشن میں بیانیہ کی لائن میں کمیت کے اعتبارسے وہ ہیں، کیفیت کی اعتبار سے توخیرہیں ہی ۔ کئی قسم کا افسانہ انھوں نے لکھا۔ کتنا ہی ان کوالزام دیا جائے کہ صاحب!وہ ناسٹلجیا کے آدمی ہیں،اوروہ ہیں بھی اور نہیں بھی۔اوراگرہوں توعیب نہیں۔فن افسانہ نگاری میں بیانیہ کی تکنیک میں انھوں نے جومختلف تجربے کئے، اطوار و اسالیب کے، وہ اپنی جگہ کارنامہ ہیں۔ جتنا میں آج، ان کے بارے میں کہہ رہا ہوں، ممکن ہے کم کہہ رہا ہوں ، آیندہ لوگ ان کے بارے میں اس سے زیادہ کہیں گے۔ انتظارکے ہاں جو کمیاں ہیں، وہ بھی ہم سب کو معلوم ہیں۔ لیکن وہ ہیں، جن کووہ لپیٹ لیتے ہیں۔
چھپالیتے ہیں۔ ''بستی '' میں صابرہ کی ایک جھلک انھوں نے باتھ روم میں دکھا دی، اس کے علاوہ عورت کہیں نظرہی نہیں آتی ۔ ڈکنزکی ہیروین کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کوقبض رہتا ہے، واش روم میں کبھی جاتی ہی نہیں۔ اس حد تک مان لیتے ہیں۔ لیکن عورت کی راؤنڈ فگربھی توہوتی ہے، وہ کیوں نظرنہیں آتی۔ ناقابل بیان حصے توآپ چھوڑ دیں، جوقابل بیان حصے ہیں، ان کے بارے میں بھی انتظار نہیں لکھتے ۔ کیوں نہیں لکھتے ،اس کا کیا معاملہ ہے، وہ جانیں، نفسیاتی گرہوں کوکھولنا میں پسند نہیں کرتا۔ انتظارصاحب نے طرح طرح کے کرداربنائے ہیں، اتنی بڑی ان کی دنیاہے ، لیکن اس میں عورتیں نہیں۔ ان کے افسانے اورناول کو میں الگ الگ نہیں دیکھتا ۔ وہ اگرناول لکھیں گے تووہ بھی ان کے افسانے جیسا ہو گا۔
اس لیے وہ بڑے افسانہ نگارہیں، یا بڑے ناول نگار،اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افسانہ نگاربھی مکمل ہیں اورناول نگاربھی مکمل۔ لیکن اپنے طرزکے۔ میں نے ان کی نثرکودھوکا دینے والی نثرکہا ہے تو اس سے مراد یہ کہ دیکھنے میں معلوم ہوتاکہ لکھنے والے نے خاص محنت نہیں کی۔ بات سے بات بنانے کی کوشش۔ اوپرسے آسان، تانے بانے پرغورکریں تو پتاچلے کہ کیا کمال کیا ہے۔ نیرمسعود کوبہت بڑا افسانہ نگارسمجھتا ہوں۔ کمی یہ ہے کہ دوچارلائنیں ان کے پاس ہیں۔
ان چیزوں کووہ غورسے دیکھتے ہیں،ان کے بارے میں ساری باریکیاں جانتے ہیں۔ وہ لوگ کیسے اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان کوسب معلوم ہے ۔ لیکن وہ لکھتے ، اپنے انداز میں ہیں ۔ان کے ہرکردارکی بولی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ نیرمسعود بول رہے ہوتے ہیں۔ خاص طرح کی زبان کو،ماحول کو،اتنا گہرادیکھتے ہیں کہ عام طورپرلوگ اتنا گہرا نہیں دیکھ سکتے مگران کے ہاں آدمی نہیں، خیالات ہیں۔ نیریٹو فوکس ایک ہے لیکن مضمرات بہت سارے ہیں۔ کردار سے معاملہ نہیں کرتے۔ نثر ان کی بے مثال ہے۔ تشبیہ استعارہ کا استعمال نہیں کرتے ۔ استعاراتی زبان سے بھاگتے ہیں، لیکن نثرکا اسلوب ایسا بنالیا ہے کہ بات کہنے کوsufficientہوجاتی ہے، بیان ادھورا معلوم نہیں ہوتا۔ اکثر لوگوں کے ہاں نثرپوری نہیں ہوتی، لگتا ہے کوئی چیزچھوٹ گئی ہے۔ کہنے سے کچھ رہ گیا ہے۔مثلاًمنٹوکے ہاں ایسے نہیں ہوتا، خراب افسانہ بھی لکھیں گے تولگے گا نہیں کہ کچھ کہنے سے رہ گیا ہے۔
جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، وہ طرح طرح کے ظلم کرتاہے
ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی تہذیب آگے نکل جاتی ہے،اوردنیا کے بڑے حصے پرحاوی ہوجاتی ہے۔ ہم نے بھی ایک زمانے میں دنیا کوفتح کیا ۔دنیا کے بڑے حصے پرحکمران رہے ۔ لوگوں کو مہذب کیا ۔ عقل سکھائی ۔ اس کا بدلا یہ ہے کہ جن کوہم نے مہذب کیا وہ ہم کوغیرمہذب کہہ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے چین کودبانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ جہاں افیون نہیں کھائی جاتی تھی، وہاں زبردستی انھیں اس پرلگایا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت آگے بڑھ رہی ہے، اس لیے ہم آپ کوافیون ضرور کھلائیں گے، خواہ جنگ کیوں نہ کریں ۔
چینیوں کوبدنام کیا کہ وہ افیم کھاتے ہیں، جواکھیلتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، یوں دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کوبدنام کیا گیا ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس جب طاقت تھی توانھوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بہترمعاملہ کیا۔ یہودی اس بات کومانتے ہیں ۔ معروف اسکالربرنارڈ لیوس جویہودی ہے، اس نے اپنی کتاب میں The Jews of Islamمیں مسلمانوں کے یہودیوں سے اچھے سلوک کے بارے میں لکھا ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، وہ طرح طرح کے ظلم کرتاہے۔ ہم لوگوں کے بارے میں کہا گیاکہ ہم ورنیکولر ہیں ، یعنی ان زبانوں کے حامل جن کا رسم الخط نہیں ہے ۔ جبکہ ہم پہلے سے لکھ رہے ہیں ۔ انگریزی سے پہلے ہم لکھ رہے ہیں۔ عربی ، فارسی اورپھراردوبناکرہم لکھ رہے ہیں اورپھربھی ہم کوورنیکولرکہا جارہا ہے۔
فلوبیئر، یوسا اور موپساں کی عورت
فلوبئیرکی ''مادام بواری ''کو فرسٹ ایئرمیں پڑھا ۔باریکیاں پلے نہ پڑھیں۔بس یہ تھا کہ گنوارسے آدمی پراتنی اچھی لڑکی عاشق ہے لیکن وہ ناول میرے ساتھ رہا ۔بہت بعد میںفلوبیئرکے خطوط اورڈائریوں کوپڑھا توناول کوسمجھنے میں بڑے بصیرت افروزاورگہرے نکتے ملے عسکری صاحب نے لکھا کہ کوئی مادام بواری جیسے چارجملے لکھ دے تومیں اسے نثرنگارمان لوں گا۔ مادام بواری کا نظریہ حیات انتہائی pessimisticہے۔ بیانیہ بالکل سپاٹ ہے۔
دونوں میاں بیوی عجب طرح کے لوگ ہیں ۔ ناول نگاری کا ایک انداز ہے ۔ آج کے زمانے میں اگردیکھیں تومادام بواری بالکل پھسپھسی چیزمعلوم ہوتی ہے۔ ماریوبرگاس یوسا کی'' بیڈ گرل'' مجھے مادام بواری کے مقابلے میں زیادہ پاورفل معلوم ہوئی ۔ اس قسم کے موازنے حقیقی نہیں ہیں، کیونکہ مادام بواری آج سے پینسٹھ برس پہلے پڑھی، اوروہ کہانی اس سے 65برس پہلے کی۔'' بیڈ گرل ''آج کی پڑھی ہوئی۔ماحول بھی آج کا۔ اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ بہترکردارنگاری کون کررہا ہے، لیکن یہ مجھے زیادہ پاورفل چیزلگتی ہے، ایک تووہی بات کہ آج کے زمانے کی چیزہے،دوسرے مادام بواری کے مقابلے میں جنسی معاملات میں زیادہexplicit ہے۔
موپساں کا چھوٹا سا ناول ہے"Ball of Fat",۔اس میں لڑائی کے زمانے کا نقشہ ہے۔ لوگ شہرچھوڑ رہے ہیں۔ گاڑی میں سوارلوگ جارہے ہیں، ان میں ایک گول مٹول سی طوائف ہے۔ پہلے تولوگ اسے لفٹ نہیں دیتے۔ کھانا نکالتی ہے توسب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ گاڑی چلتی رہتی ہے۔رات ہوجاتی ہے توان کوہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا ہے۔ ہوٹل میں فوج کا دستہ ٹھہرا ہے ،توکپتان اس پرعاشق ہوجاتا ہے ۔ اگلے دن جب سب جانے کے لیے تیارہورہے ہوتے ہیں، حکم ملتا ہے، آپ نہیں جاسکتے۔
اس طوائف کوبلایاجاتا ہے۔ وہ غصے سے بھری جاتی ہے،تواس سے کہا جاتا ہے کہ سب کوجانے کی اجازت اس وقت ملے گی، جب وہ کپتان کے ساتھ رات گزارنے پرآمادہ ہو۔ وہ راضی نہیں ہوتی۔ اب کئی دن گزرجاتے ہیں۔رفتہ رفتہ سب کا مزاج بدلنے لگتاہے ۔کہا جاتا ہے کہ بھئی!مہمان نوازی بھی کوئی چیزہوتی ہے۔ پیشے کے لوگ یہ کام کرتے ہی رہتے ہیں، اس میں توسب کی بھلائی ہے،آخرکار وہ طوائف تنگ آکرکپتان کی بات مان لیتی ہے۔ سب کوصبح جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔
اب وہ سارے دوبارہ اس خاتون سے کھینچے کھینچے رہنے لگتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ فلوبیئر، یوسا، اورموپساں ، تینوں کے ہاں عورت کا معاملہ مرکزی ہے ۔ موپساں کی عورت صحیح معنوں میں مظلوم ہے۔ مادام بواری ظالم ہے یا نہیں، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ بیڈگرل میں عورت ایک طرح سے ظالم ہے۔ موپساں کی عورت کا کردارنہیں، وہ حالات پیچیدہ ہیں، جس میں وہ ہے۔ فلوبئیر اور یوسا کے ہاں حالات پرطنزہے۔
لڑکپن میں موپساں کوشوق سے پڑھا۔ موپساں جیسا ظالم افسانہ نگارتوکیا انسان بھی نہیں دیکھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، وہ عورتوں کے خلاف ہے ، اس کہانی میں وہ کہاں عورت کے خلاف نظرآتا ہے؟ وہ اس کے مقابلے میں پوری دنیا کے خلاف نظرآتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ لوگ اتنے بیوقوف ، ظالم اورخود غرض ہیں، کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے قاعدے قانون توڑ لیتے ہیں، کسی چیزکی اپنی مرضی کی تعبیرکرلیتے ہیں، اورجب کسی سے کام نکل جائے تواس سے منہ پھیرلیتے ہیں۔ پوری دنیا پرگہرا اورظالمانہ طنز ہے۔ موپساں کے معنی عام طورپرسامنے رہتے ہیں، کم ازکم بظاہر، اس لیے شاید اسے فلوبیئرکے مقابلے میں زیادہ سمجھا ۔
عموماً زبان شاعر پر حاوی ہوتی ہے لیکن انیس زبان پر حاوی ہے
میں میرانیس کوہمیشہ سے چارپانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں ۔ بنیادی بات رواں کلام ہے ۔ یہ بہت بڑی صفت ہے ۔ہم اس کوسمجھ اورقدرنہیں کرپائے ۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو ۔ کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اورروانی سے ادا ہوجاتا ہے ۔ سمجھ میں آجاتا ہے ۔
مصرع میں لگتانہیں لفظ زیادہ ہوگیا ہے یا کم ہوگیا ۔ میرانیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کواپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بن نہیں پڑا ۔ مضمون ایک ہے ، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے ۔ زبان پرغیرمعمولی عبور۔ زبان عام طورپرشاعرپرحاوی ہوتی ہے لیکن میرانیس زبان پرحاوی ہے ۔
معمولی مصرع بھی کہیں گے توایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا ۔اکثریہ توآپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میرانیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے ۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں ۔ اس کے ہربند کے بارے میں بتادوں گا لیکن مجموعی طورپراتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میرانیس ۔ مرثیہ تومرثیہ ،سلام لکھنے بیٹھتا ہے تواس میں کمال کردیتا ہے ۔ میں کبھی گھرمیں سلام پڑھتا تومیری بیوی کہتی نہ پڑھو، مجھے رونا آرہا ہے، یعنی اسے بھی رونا آتا ہے جوسلام کی باریکیوں سے واقف نہیں ۔ وہ کہتے ہیں
؎زہرا کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب
میرا عقیدہ کچھ بھی ہو لیکن یہ مصرع مجھ پر بہت اثر کرتا ہے
کیا پرانے کیا معاصر، منیرؔ پر کسی شاعر کا اثر نہیں
منیرنیازی کا پرانا عاشق ہوں ۔بچوں کو اس کا عاشق بنایا ۔ کلام یاد کرایا ۔ بچپن میں وہ منیرنیازی کی شاعری پڑھتے رہتے ۔ وہ واحد شاعرہے ، جس پرکسی آدمی کا اثرمعلوم نہیں ہوتا ۔کسی معاصرکا اثرنہیں۔پرانے شاعرکا اثرنہیں ۔ معاصرکے اثرسے کوئی نہیں بھاگ سکتا لیکن وہ بھاگا ۔ ایک زمانے میں مجھے ان کا بہت کلام یاد تھا ۔ مجھے لوگوں نے شکایت کی کہ صاحب آپ نے اپنے مضمون میں غزل میں بھی ان کواتنا اہم دکھا دیا ،غزل میں توان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ،میں نے کہا کہ آپ حضرات جوبھی سمجھتے رہیں،ہم توکہتے ہیں دوشعروں پرزندہ رہیں گے ۔
٭اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
٭صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا
وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، اسے بیان کردیتا ہے ۔ ان کی نظم ''آغاززمستاں میں دوبارہ''مجھے بہت پسند ہے ۔
میری اینجیوپلاسٹی ہوئی تھی ۔ اس کی ڈرافٹ خراب ہوگئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کوکھولنا پڑے گا،اسے کھولنے کی کوشش میں فریکچر ہو گیا۔ بہت درد ہورہا تھا ۔ میں رویا نہیں ۔ چلاّیا نہیں ۔ بٹیا میری پردے کے پیچھے تھی ۔ مرتے مرتے مجھے کوئی اور شاعر یاد نہیں آیا منیرنیازی یاد آیا۔میں نے شعرپڑھا
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
تنقید کی طرف آئے توتھوڑے عرصے میں نقاد کی حیثیت سے ممتازحیثیت حاصل کرلی ۔ غیر قطعی اورگول مول بات کہنے کو نقاد کے منصب کے منافی جانتے ہیں ۔ تنقید کا مقصد، ان کی دانست میں معلومات نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے ۔ فن پارے کی کسی تعبیرکو حتمی نہیں سمجھتے ، اس لیے کوئی تنقید، ان کے نزدیک ،حرف آخرنہیں ہوسکتی۔
اردوتنقید میں جدیدیت کے علمبردار بنے، جس نے کئی مباحث چھیڑے ۔ اس فکر کا بنیادی نکتہ تو یہ ہے کہ ادب کی خوبی ادب کے دائرے میں طے ہوسکتی ہے اورادب میں غیر ادبی معیار رائج کرنا ، ادب اورادیب دونوں سے غداری ہے۔ کہتے ہیں، ادب کی تفہیم وتنقید ،ادب کے اصولوں سے ہونی چاہیے نہ کہ جغرافیہ یا سیاست کے اصولوں سے ۔ ادیب پرکسی حکم یا نظریہ کی پابندی جائز نہیں سمجھتے۔
ادبی کام کے ذریعے تہذیبی وقار اور خود اعتمادی بحال کرنے پر یقین ہے ۔ یہ بات ان کے ذہن میں رہتی ہے ،خواہ تنقید کی مد میں کچھ لکھ رہے ہوں خواہ فکشن ۔ اوراس اصول کی خاطر قدامت پسندی کا طعنہ سننے کو بھی تیار ہیں ۔ علامہ اقبال اورمحمد حسن عسکری کو مربی، اس لیے مانتے ہیں کہ دونوں مغربی ادب اورروایت سے گہری واقفیت کے باوجود مغرب سے متاثرہوئے نہ مرعوب۔ اپنی کتاب'' تنقیدی افکار''میں لکھتے ہیں ''یہ اقبال ہی تھے جنھوں نے ہمیں سکھایا کہ مغربی فکراورتہذیب سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی کمزوریوں اورنارسائیوں پربھی نظررکھنا چاہیے ۔
اقبال ہی نے ہمیں بتایا کہ مغرب نے ہمارا فکری اورتہذیبی استحصال کیا اور ہمیں اپنی ادبی اورتہذیبی روایت سے دوررکھنے کی کامیاب سازش رچی ۔ اقبال نے مشرق کومحض تاریخ پارینہ کی طرح نہیں ، بلکہ ایک زندہ وجود کے طورپردیکھنے کی تلقین کی۔ ترقی پسند تحریک کے فروغ کے باعث ہم نے اقبال کے سکھائے ہوئے تہذیبی نکات بھلا دیے۔ محمد حسن عسکری نے مغرب کے علی الرغم اپنی روایت میں مضبوطی تلاش کرنے کی صلاحیت ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی تو پرانے سلسلے پھر قائم ہوئے ۔ ''
اٹھارویں صدی کوہندی اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول '' اردو فارسی ادب ، تصوف ،علوم عقلیہ ونقلیہ ،فنون حرب وضرب، موسیقی ،ان میدانوں میں اٹھارویں صدی والوں نے جو نئے نئے مضمارو بیدار دریافت کئے اور فتح کئے ،ان کی مثال پہلے نہیں ملتی ،بعد میں ملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں ۔ اوراٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے۔ہم لوگ چند شہر آشوبوں ، چند ہجوؤں ، تعصب اورکینہ پر مبنی چند افسانوں کوتاریخ قرار دے کراٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال ، انتشار، بدامنی ، طوائف الملوکی ،امیروں کی مفلسی اور غریبوں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں ۔ ''
ان کا فکشن بتاتا ہے کہ ہمارا ایک ماضی تھا ۔ ایک زندہ تہذیب سے ناتا تھا ، جس کا چہرہ چنگیز سے تاریک ترنہیں، روشن ورخشاں تھا۔ دلی کی تہذیبی عظمت کابھرپور بیان ان کے فکشن میںآیا ہے ۔ ان کی دانست میں دلی ہی نہیں لکھنؤکی تہذیبی زندگی کا نقشہ بھی صحیح طورپر نہیں کھینچا گیا ۔ ان دنوں وہ جس ناول پرکام کررہے ہیں، اس کا پس منظرلکھنؤکا ہے، جس میں وہ لکھنؤ کی اصل تہذیب کا نین نقشہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ تورہا اس بنیاد کا سرسری سا تعارف جس پران کے علمی کام کی بلند عمارت ایستادہ ہے، اب کچھ ذکر ان کی لاہورمیں ہونے والی پذیرائی کا ۔
وہ نومیرکے اواخرمیں لاہورآئے ۔ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں کلیدی خطبہ میں، فیض کی مقبولیت کے اسباب بیان کئے۔ ایک سیشن میں میر پرگفتگو کی ۔ معروف تعلیمی ادارے '' لمز''کے گورمانی سنٹر برائے زبان وادب کے مہمان بنے ۔ ادب کیوں؟ اور ''اردو غزل کی تہذیب ''کے موضوعات پرلیکچر دیے۔ گورنمنٹ کالج میں طلبا سے خطاب کیا ۔
مجلس ترقی ادب میں اہل علم سے ملے ۔ حلقہ ارباب ذوق کے مہمان بنے ۔ ممتازادیب انتظار حسین سے شمس العلما کا خطاب ملا ۔ فارسی زبان وادب کے استاد معین نظامی نے سبک ہندی کا عالم اورعارف قرا ر دیا ۔ نوجوانوں میں جس قدر مقبول ہیں، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ حلقہ ارباب ذوق کے جلسے میں ہوا،جہاں ان کی آمد کے باعث تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
ان کی گفتگوسننے طالبان ادب توپہنچتے رہے ، لیکن وہ جن کا جام خود علم سے لبریز ہے، وہ بھی خوشہ چینی کے لیے برابر آتے رہے جیسے انتظار حسین، ڈاکٹرخورشید رضوی اورڈاکٹرتحسین فراقی، اوربھی بہیترے صاحبان علم ان کی طلاقت لسانی کے جوہردیکھنے آئے ، یہ تین نام تومثال کے طور پر ہیں ۔ چند ایک ایسے بھی تھے، جو بوجوہ ان تک نہ پہنچ سکے تووہ خود ان کے پاس بہ نفس نفیس پہنچے ۔ معروف شاعر ظفراقبال سے ملنے ان کے فارم ہاؤس گئے ، جہاں ہمدم دیرینہ سے خوب گپ شپ ہوئی۔ ہندوستان لوٹنے سے ایک روز قبل محمدسلیم الرحمن سے ملنے ان کے ہاں گئے اورکہا کہ اس شہرکے ادبی قطب سے ملے بغیربھلا میں کیسے لوٹ جاتا ۔ اس شہرسے ملنے والی محبت نے ان کو نہال کردیا ۔ اس دورے میں شادمانی کا ایک ذاتی پہلو بھی تھا ۔
ان کی لائق فائق اسکالربیٹی مہرافشاں فاروقی بھی ان کے ہم راہ تھیں ،جن کی لیاقت کی تعریف سن کر و ہ اس لیے خوش تھے کہ ان کی ادبی تربیت ضائع نہیں گئی اوران کے گھنیرے سائے سے نکل کربیٹی اپنی الگ سے علمی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہری ہے ۔علم کا ایسا استحضاراردو کے کم ہی ادیبوں کونصیب ہوا ہوگا ۔ ذہن ان کا بڑا منظم ہے، جوبات کرتے ہیں، ذہن میں اچھی طرح پک کرزبان پرآتی ہے ۔ ان سے ہماری جوگفتگو ہوئی، امید ہے قارئین کوپسند آئے گی ۔
٭٭٭
شمس الرحمن فاروقی نے اردو میں افسانے لکھے جو ''سوار اور دوسرے افسانے'' کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپے۔ ''کئی چاند تھے سرآسماں''جیسا بڑا ناول لکھا ۔ ''قبض زماں ''کے عنوان سے ناولٹ ہے۔ ان سب کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ اردو سے اپنے ناول کوانگریزی میں منتقل کرنے کا تجربہ قرۃ العین حیدر او رعبداللہ حسین دونوں نے کیا ،لیکن ان سے بات بنی نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا ناول ہی نہیں، اس کا ترجمہ بھی ان دونوں سے بازی لے گیا ۔ انگریزی زبان کی گہری سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے داد پائی ۔ مقبول عام ہوا ۔ ترجمہ کرنے پر آئے تو ناول پر اکتفا نہ کیا ۔ افسانوں اور ناولٹ کا ترجمہ بھی کر دیا ۔ فکشن لکھ لیا ۔ اسے انگریزی میں منتقل کر لیا۔ یہ سب تو ہو گیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ بحر فکشن سے اب کیا اچھلنے کو ہے ؟
اس سوال پر بتایا: ''قبض زماں ''کے بعد ایک ناول شروع کیا ہے ۔ اس کا پس منظر لکھنؤکا ہے ۔ جرأت کے دوشاگرد تھے۔ دونوں نے طے کیا کہ گومتی کے کنارے جاکرمعاملہ طے کریں گے ۔ وہاں تلواریں نکل آئیں ۔ ایک کم زخمی ہوا ۔ دوسرا لڑائی کے بعد زخموں سے چور گھر پہنچا۔ لوگوں نے پوچھا ، کیا معاملہ ہوا؟کیا قصہ ہوا؟اس نے ظاہرنہ کیا۔ دو دن بعد مرگیا ۔ اب جوصاحب قاتل تھے، اس ڈرسے کہ مقتول کے گھروالے پکڑیں گے یا پولیس والے،اس لیے وہ ڈرکے مارے دلی بھاگ گئے ۔
وہاں جاکر خواجہ میردرد کے شاگرد ہوگئے۔ چند برس دلی میں رہے ۔ پھرسوچا اب معاملہ دب گیا ہوگا ۔ لوگ بھول گئے ہوں گے ۔ لکھنؤکے لوگوں کوکچھ خبرتھی کہ یہ وہی آدمی ہے،جس نے مارا ہے ۔ اب اس کی لکھنؤآمد کا لوگوں کا جانے کس طرح پتا چلاکہ قاتل شہرمیں پہنچا تو اسے مار دیا ۔ پرانے تذکرے پڑھتا رہتا ہوں ۔ ان میں جرات کے ان شاگردوں کا احوال پڑھنے کوملا جودلچسپ لگا ۔ اب یہ چھوٹی سی کہانی ہے اس کوپھیلاؤں گا ۔ یہ اہم لوگ نہیں تھے ۔ لکھنؤاوردلی کا ماحول آجائے گا ۔ انشا اورجرأت کو ڈالیں گے۔
لکھنؤکی تہذیب کی اصل صورت بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ پریم چند کوتاریخ کا کچھ پتا نہیں تھا، اس لیے انھوں نے واجد علی شاہ اور لکھنؤکی تہذیب کوبدنام کیا ۔ ان کا افسانہ ''شطرنج کے کھلاڑی'' لکھنؤکی تہذیب کوبہت بدنام کرتا ہے، اس سے زیادہ بدنام ستیہ جیت رے کی فلم کرتی ہے۔ پریم چند نے کہانی میں معاشرے کا انحطاط دکھایا ہے ، اورجوخرابیاں انھوں نے گنوائی ہیں، وہ اربن کلچرمیں عام تھیں، ان کا انحطاط سے تعلق نہیں تھا ۔ ''
٭ ہم نے پوچھا ''اپنی تحریرکو دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟''
کہنے لگے: ''اپنی تحریرکوترجمہ کرنے میں آزادی ہوجاتی ہے۔ کسی دوسرے کے فکشن کوترجمہ کریں تومتن سے وفادار اوراس کا احترام کرناپڑتا ہے ۔ متن میرا اپنا ہے تومجھے آزادی ہے کہ اگر کوئی اردو کا لفظ انگریزی میں کہیں آہی نہیں رہا یا انگریزی کے آہنگ میں فٹ نہیں بیٹھ رہا تومیں کچھ اور لکھ سکتا ہوں ۔ مجھے معلوم ہے مافی الضمیرکیا ہے۔
ترجمے کے بارے میں شکایت ہوئی کہ انگریزی پرانی اورمشکل ہے۔ اردومیں جس عہد کا بیان ہے، اس کا آج کی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس ذائقہ کو تھوڑا برقراررکھنے کے لیے ، جدید انگریزی تقاضے پورے نہیں کرسکتی تھی۔ محنت تو ہے، لیکن لفظوں میں بچپن سے دلچسپی ہے ۔
جہاں نیا لفظ سنا کان کھڑے ہو گئے۔ ہمارے زمانے میں تو کیا، اب بھی جوانگریزی پڑھائی جاتی ہے، وہ زیادہ تراٹھارویں انیسویں صدی تک آ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ اب اس زمانے کی کتابوں کے جونئے ایڈیشن بنے ہیں، طالب علموں کوپڑھانے کے لیے، ان کے حاشیہ میں ایسے ایسے الفاظ کے معنی ہیں، جومیرے خیال میں بالکل سامنے کے ہیں اوران کے معنی مجھے خوب معلوم ہیں ۔بیس بائیس برس کا جولڑکا امریکا اورلندن میں پڑھ رہا ہے،اس کے لیے یہ الفاظ غیرمانوس ہیں ۔ انگریزی پڑھی بہت ہے ، اس لیے مجھے پرانے الفاظ یاد تھے ،اس لیے زیادہ ڈھونڈنا نہیں پڑا ۔ ترجمے میں ایک سال ، ایک مہینہ لگا ۔''
٭ ''ترجمے میں کیا سب کچھ منتقل ہوگیا یا پھرکہیں اصل کوقربان بھی کرنا پڑا؟''
''ترجمے میں ناول کی جزیات اورپروٹوکول سب آگئے ۔ فارسیت اس کی قربان کرنی پڑی جوadded charm تھا ۔ عورتوں کی زبان قربان کرنی پڑی۔
٭ ''ترجمے میں کہیں پھنسے؟''
''ترجمے میں نہیں لیکن جب اردومیں لکھ رہا تھا توایک مقام پرمشکل پیش آئی ۔ وزیرخانم جب نواب شمس الدین کے گھر جاتی ہے ، تواب معاملہ یہ ہے کہ شب باشی کا مرحلہ کیسے لایا جائے، کس نہج سے لایا جائے، یہ بھی نہ لگے کہ وزیرخانم اتاولی ہو رہی ہے، نہ ہی وہ مجبورلگے، اس کا وقاراورتمکنت برقراررہے۔ اس سے قبل دونوں میں ملاقات رہ چکی ہے، خط کتابت ہوچکی ، تحفے تحائف کا معاملہ بھی ہو گیا تھا ،جس کے بارے میں لکھ آیا تھا لیکن نواب شمس الدین کے ہاں اس کا جانا اوربات آگے بڑھانا مجھے مشکل لگا لیکن ہوگیا اورمیں نے اسے لکھ ڈالا جس کی لوگوں نے تعریف بھی کی۔ ''
٭ '' شمس الرحمن فاروقی نے لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جانے والے تہذیب، کاغذ پردوبارہ سے زندہ کرکے دکھائی ہے۔ اس کی انفرادیت جن چیزوں پراستوارتھی، ان کا بیان اس طریق پرکہ مثال نہ ملے ۔ انتظارحسین کواس ناول میں دسترخوان کے بیان کی کمی کھٹکی تھی اورانھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ تہذیبیں اپنے دسترخوان سے بھی پہچانی جاتی ہیں، اس لیے اس کا بھی ذکرآجاتا توکیا مضائقہ تھا ؟''
اس اعتراض پران کا جواب یہ رہا ''کھانے کا ذکرتوہے اس میں، ان کی مراد تھی کھانوں کے نام نہیں، جیسے داستانوں میں ہوتے ہیں۔جب انھوں نے لکھا توخیال آیا کہ میں نے ایسا کیوں نہ کیا۔ وجہ یہ کہ مجھے یہ بڑی ڈیڈ سے فہرست لگتی ہے ۔ مثلاً روٹی کی پندرہ قسمیں ہیں، ان میں سے بارہ کومیں جانتا نہیں کہ کیسی ہوتی ہیں ۔ اگرمیں ایسا کرتا توفہرست سازی ہوتی۔ سوچ سوچ کرکھانوں کے نام ڈالنا فہرست سازی اورمکینیکل سا کام لگتا۔اس کے بجائے دوسری چیزوں کا بیان اہم لگا جیسے کپڑوں یازیورات کے بارے میں لکھنا۔ ''
٭ '' شمس الرحمن فاروقی سے ہم نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ فاروقی صاحب نے ایک زمانے میں علامتی افسانہ لکھنے والوں کی بڑی ہوا باندھی ۔ انور سجاد کونئے افسانے کا معماراعظم قراردیا لیکن جب خود فکشن لکھا تو اس راہ کو اختیار کرنے کے بجائے حقیقت نگاری سے کام لیا ؟''
ان کے بقول: ''یہ بات کئی لوگوں نے کہی۔ میں نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ لکھنے کا صرف ایک اسلوب ہے ،جس کواختیارکریں ۔ میں نے توکہا کہ کئی طرح کے اسلوب ہو سکتے ہیں ،اورآج میں جس اسلوب کی سفارش کر رہا ہوں ، وہ پرانے اسالیب سے ہٹ کر ہے۔ پرانا منسوخ کبھی نہیں ہوتا ، پرانے کواستعمال کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے ۔ میں نے یہ تھوڑی کہا کہ اس طرح کا افسانہ نہ لکھیں، نہ کہا کہ آپ اس طرح کا افسانہ ہی لکھیں ۔ میں نے بات کی کہ آپ کوآزادی ہونی چاہیے یہ نہیں کہ افسانے کا جونمونہ پریم چند نے بنادیا یا منٹونے بنادیا ،اس کے پابند ہوکررہ جائیں اوراس سے آگے نہ جائیں۔ میں نے جب تجریدی اورعلامتی افسانے کوسراہا توساتھ میں یہ تونہیں کہا کہ اورطرح کی چیزیں نہ لکھو ۔ میں نے ''شب خون ''میں ''منزل ہے کہاں تیری''کے نام سے تجریدی رنگ میں ا فسانہ لکھا ۔ یہ نہیں کہ میں اس رنگ میں لکھنے پرقادر نہیں ۔ لیکن مجھے آزادی ہے کہ جوبات مجھے کہنی ہے،اس کے لیے جوہیت مجھے پسند ہے،اسے استعمال کرتا ہوں ۔ ''
٭ '' مطلب یہ کہ آپ جس طرح کا فکشن لکھ رہے ہیں، اس کے لیے انورسجاد اورسریندرپرکاش جیسا اسلوب موزوں نہیں؟''
''میں اس تہذیب کے بارے میں لکھ رہا ہوں، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے ، وہ ہے ہی نہیں، اکثرلوگوں کے خیال میں وہ کبھی تھی ہی نہیں ، اس کومیں کسی صورت سامنے لانا چاہتا ہوں ۔ بتارہا ہوں کہ وہ تہذیب ایک طرح سے تھی، لوگوں کی داخلی زندگی تھی ،وہ عقل وشعوررکھتے تھے، عشق کے بارے میں ان کے تصورات تھے، یہ نہیں کہ ہمارا کوئی ماضی ہی نہیں تھا۔ہم بالکل جاہل اجڈ اور غیرترقی یافتہ تھے۔ ہم نے تودنیا دیکھی نہیں تھی، جب نیا زمانہ آیا تو ہماری آنکھ کھلی۔ میں نے بتایا کہ نہیں ہماری بھی ایک زندہ تہذیب تھی ۔ اگر ان باتوں کے لیے انورسجاد یا سریندرپرکاش کا اسلوب اختیار کروں تو سامنے ہی کچھ نہیں آئے گا ۔ وہ جس تہذیب کے افسانے ہیں، وہ اپنی جگہ درست اورمعتبر،اورمیں جس تہذیب کے بارے میں لکھ رہا ہوں وہ بھی درست اورمعتبر لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تہذیب زندہ ہے اورمیں جس تہذیب پرلکھ رہا ہوں وہ زندہ نہیں، اورلوگوں کے ذہنوں میں اس کا کوئی نقش نہیں ۔ ''
٭ ''شمس الرحمن فاروقی نے بھرپورزندگی گزاری۔ پوسٹل سروس میں افسر کی حیثیت سے ہندوستان کے مختلف حصوں میں وقت گزرا ۔ باہرکی دنیادیکھی ۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے معاملہ رہا ۔ اس کے باوجود اردگرد جوہورہا ہے یا ہوتا رہا ہے،اس کے بارے میں اپنے مشاہدات کو فکشن کے روپ میں پیش نہیں کرتے ، اور اس ماضی کی طرف باربارپلٹتے ہیں، جوان کا دیکھا بھالا نہیں ۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں :
'' لڑکپن میں جب میں خود کوفکشن نگاربنانے کی کوشش کررہا تھا، آس پاس زندگی میں جوہورہا تھا اسے دیکھتا۔ ایک آدھ افسانہ لکھا۔تعریف بھی ہوئی ۔ ''دلدل سے باہر''کے نام سے پچاس اکاون میں ناولٹ لکھا جوچارقسطوں میں ''معیار''میرٹھ میں شائع ہوا۔ ایک دوست کے پاس ہے، وہ اسے چھپوانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ۔ ہاتھ جوڑتا ہوں کہ بھائی معاف کردو ۔ اس میں یہی تھا کہ دیہاتی زندگی سے شہری زندگی میں لڑکا جاتا ہے، تواسے عشق وشق ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد فکشن لکھنا چھوڑ دیا ۔ اٹھارہ بیس برس پہلے دوبارہ فکشن کی طرف آیا ، تو اب یہ ہے کہ زندگی کے عام واقعات یا چیزیں ہیں، ان کوفکشن میں ڈھال دوں ، تواس سے میں خود کوقاصرپاتا ہوں ۔ مجھے فکشن لکھنے کے لیے ہمیشہ فاصلہ چاہیے ہوتا ہے ۔ تقسیم ہند کے فوری بعد جوفکشن لکھا گیا ہے، اس میں منٹو کے'' سیاہ حاشیے'' کے علاوہ کوئی خاص چیزنہیں لکھی گئی ۔ اشفاق احمد کے ''گڈریا'' کوبھی مان لیجئے ۔ راجندرسنگھ بیدی کا ''لاجونتی'' بہت بعد میں لکھا گیا ۔
اس میں وہ درد اورشدت ہے، جسے آپ محسوس کرچکے ہیں، اوراب آپ کے ضمیر کا حصہ ہے ۔ میں اگرکوئی معمولی ناول پڑھ رہا ہوں، مثلاً کوئی جاسوسی ناول، جوادبی کارنامہ بھی نہیں، اس میں ہیروئن جب خطرے میں گھرتی ہے ، توہمیں ڈرلگ رہا ہے ، اس کا ریپ نہ ہوجائے، اغوا نہ ہو جائے،اس پرکوئی تیزاب نہ پھینک دے،پڑھتے وقت مسلسل کہتا رہتا ہوں کہ یارایسا نہ ہوتا تواچھا تھا اورویسا نہ ہوتا تواچھا تھا، جبکہ مجھے معلوم ہے۔
ساری بات افسانہ ہے ،اخبارمیں کسی کے قتل کی خبرپڑھتا ہوں تو تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن یہ نہیں کہتاکہ کاش یہ نہ ہوتا ، کاش وہ نہ ہوتا، مجھے پتا ہے یہ ہوچکا ہے۔اخبارکی خبرپرمیں روؤں توکیا فائدہ نہ روؤں توکیا فائدہ ۔ افسانے میں جو ہو رہا ہے ، وہ میرے سامنے ہورہا ہے، اورہونے سے مراد یہ کہ میرے ضمیرمیں جاگزیں ہو۔ روزمرہ کی چیزیں میرے لیے افسانہ نہیں بنتیں۔ فکشن میں کوشش کرتا ہوں، جوبہت پہلے ہوچکا ہے،اسے دوبارہ لاسکوں ۔ ''
شمس الرحمن فاروقی ''کئی چاند تھے سرآسماں '' ناول کے ساتھ تاریخی کی پخ لگانے کومناسب خیال نہیں کرتے ۔ اسے تاریخ کی کتاب قراردینے کی بات پروہ ہنستے ہیں اوراسے صرف اورصرف ناول قراردینے پرزوردیتے ہیں ۔ ان کے بقول: ''کتاب مصنف کی ملکیت ہے ۔ وہ اگرکہے کہ ناول ہے تو وہ ناول ہے ۔ مصنف خود اس کا نقشہ بناتا ہے ۔ اس کی نیت اورعندیہ بھی کوئی چیزہوتا ہے ۔ معنی نہیں، ہیت کے اعتبارسے یہ بات کہتا ہوں ۔ میں نے تاریخی ناول نہیں لکھا ۔
اس میں تاریخی کردار نہیں ۔وہ کردارنہیں، جنھوں نے برصغیرکی تاریخ پر اثر ڈالا ہو ۔ ان لوگوں کا ذکر ہے، جوتاریخ کے حاشیے بلکہ حاشیے کے بھی کونے میں ہیں ۔ اس میں تاریخ وغیرہ کچھ نہیں، اس تہذیب کا بیان ہے،جس کوہم بھول چکے ہیں، اورنہیں جانتے کہ کبھی وہ تھی ۔ یہ ناول لڑکی کے بارے میں ہے،جوبہت خوبصورت ہے۔ بڑھاپے کا اس پراثرنہیں ۔ شعرپڑھتی ہے ۔ بذلہ سنج ہے ۔ مسلمان گھرانے سے ہے۔ باہمت ہے۔ اپنے لیے خود انتخاب کرتی ہے، اس کے لیے لڑتی ہے، اس کا نتیجہ اچھا ہو برا ہو اس کی پروا نہیں۔''
80 برس کے اس بزرگ ادیب کا دل فکشن میں لگ گیا ہے ۔ لگنا بھی چاہیے کہ ان کا یقین ہے کہ تخلیقی کام کی اہمیت اورزندگی کسی بھی دوسرے علمی کام سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے باوجوددوسری علمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔سب سے زیادہ فکرانھیں داستانوں پراپنے جاری کام کومکمل کرنی کی ہے ، جس کی چارجلدیں سامنے آچکی ہیں۔
پانچویں جلد شروع کئے چاربرس ہوگئے لیکن وہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ ان کے خیال میں یہ سلسلہ آٹھ نوجلدوں تک جائے گا۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول لکھنے کے سلسلے میں میرکا کلام اور داستانوں کی غواصی بہت کام آئی۔ ان کے بقول ''اٹھارویں صدی کے اکثرشعرا خاص کرمیرکا کلام ناول کے سلسلے میں بہت کام آیا ۔ داستان کا بڑا رول ہے۔جگہ جگہ اشعارکا استعمال اوراشعارکے ذریعے سے بات کہنا یہ سب داستان کا اثر ہے ، داستانوں کے مطالعہ کے بغیریہ ناول کبھی تخلیق نہ ہوپاتا ۔''
پاموک اور کادرے کا تقابل
اورحان پاموک کوترکی سے محبت ہے،پروہ کہیں اشارہ نہیں دیتے کہ وہ مسلمان بھی ہیں، یا یہ کہ جس ملک کا وہ بیان کررہے ہیں، مسلمان ملک ہے یا رہا ہوگا۔ اپنی تہذیب کوماضی تصورکررہے ہیں، اس میں زندہ نہیں۔مجھے اس سے تھوڑی سے وحشت بھی ہوئی۔ استنبول سے اتنی محبت ہے، تفصیلات بڑے خوبصورت طریقے سے بیان کی ہیں۔
تاریخ کے معاملات اورموجودہ صورت حال کوبڑے اچھے اندازمیں پیش کیا ہے۔مائی نیم ازریڈ میں،کلاسیکی منی ایچرپینٹنگ کے پورے اسلوب پربڑی عمدگی سے لکھا ہے۔کم سے کم اپنے ماضی کا شعورہے، اوراسے گرفت میں لانا چاہتے ہیں، لیکن ایک فاصلے کے ساتھ۔ معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو اس سے خاص لگاؤنہیں، لیکن اس کوکہیں دیکھا ہے، اس لیے بتارہا ہے، شالامارباغ دیکھا ہے، بیان کررہا ہے، لیکن شالامارمیں وہ ہے نہیں، یہ مجھے ان سے شکایت ہے۔
اسماعیل کادرے کا معاملہ بھی اورحان پاموک سے ملتاجلتاہے۔ میرے خیال میں اسے ادب کا نوبیل انعام ملنا چاہیے، لیکن البانیہ والوں کوکون پوچھتا ہے؟ جہاں تک سوال ،ناول نگاری کی قوت کا ہے،اس میں کادرے ، پاموک سے بڑھ کرہے۔ اس کے فکشن میں البانیہ میں انور خوجہ کی حکومت کا وہ دورہے، جب چین سے البانیہ کی دوستی ہوئی۔ اسٹالن اور سوویت روس سے ان کی نہیں بن رہی تھی۔ انور خوجہ نے اسٹالن اوراسٹالن ازم کوطلاق دے دی۔ کادرے کے تقریباً ہرناول میں یا تووہ تاریخ ہے، جوترکوں کے آنے سے پہلے کی ہے یا پھرکمیونسٹ انقلاب کے بعد کی،خاص طورپر انور خوجہ کے زمانے کی۔ مشرقی یورپ اورالبانیہ کی مسلمان تہذیب میں وہ ڈوبا ہوا ہے، لیکن وہ اسے مسلمان تہذیب نہیں کہتا ،البانیہ یا سینٹرل یورپ کی تہذیب بتاتاہے۔
اس نے اپنے ناولوں میں بتایا ہے کہ استبداد کے زمانے میں آدمی کیسے جیتا ہے۔ ہمدردی ، غصہ یا خوف کا اظہارکہیں نہیں، بس یہ کہ اس زمانے میں انسان پرکیا گزررہی تھی،خاص کروہ زمانہ جب مین لائن کیمونسٹ ان سے الگ ہیں۔ اس دورکا سارا جبرہرصفحے پرپھیلا ہے، لیکن بغیرکسی غصے ، ترحم یا افسوس کے۔ بہت ہی زبردست آدمی ہے۔ البانیہ کا ہے، اس لیے کم لوگ جانتے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ قبل اس کی ناول نما چیزپڑھی ہے۔ ساٹھ کے زمانے میں جب وہ ماسکویونیورسٹی میں پڑھتا تھا،اس دورکے مشاہدات کوبیان کیا اورپھراسے جوڑاہے، البانیہ میں ماقبل مسلمان کلچرسے ۔ اس میں داستان گو ہے،جس کی داستان ریکارڈ کرنے لوگ آتے ہیں، وہ ایک جملہ کہتا ہے ،'' یہ جولکھے ہوئے حرف ہیں، یہ توبولے ہوئے حرف کے لاشے ہیں'' اس جملے نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ پوری تہذیب کا نچوڑ اس جملے میں آگیا۔ ادھردریدا صاحب اسی پرمرے ہیں کہ تحریرمقدم ہے، تقریرکے اوپر ۔ ہمارے ہاں زبانی روایت مقدم رہی ہے۔ محمدحسن عسکری نے بتایاکہ زبانی روایت کے معنی کیا ہیں،کیا اس کی قوت ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ دوسوبرس کی تاریخ میں عسکری ایک ہی پیدا ہوا۔
افسانے میں انتظارحسین کا کارنامہ
اور بیدی سے بڑا ہے
اردوفکشن کی تاریخ میں جتنے بڑے نام لیے جاتے ہیں،ان میں سے اکثروں سے انتظارحسین بڑے فکشن نگار ہیں۔ منٹوکی میرے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ صحیح معنوں میں بڑے افسانہ نگار ہیں،ان کے بعد مجھے راجندرسنگھ بیدی نظرآتے ہیں۔ ان دونوں کے بعد انتظارحسین ہیں ۔کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی اورغلام عباس سب بعد میں آتے ہیں ۔
نئی نسل کے لوگوں مثلاً انورسجاد اورسریندرپرکاش کی دنیا چھوٹی ہوکررہ گئی اوروہ ختم ہو گئے۔ اردوافسانے کی تاریخ میں انتظارحسین کے برابرکوئی دوسرا افسانہ نگارنظرنہیں آتا ۔ پریم چند کی بڑی اہمیت ہے۔ پرکھوں میں سے ہیں۔کوئی افسانہ نگار ان کو پڑھے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔ بیدی بڑے افسانہ نگارہیں، اوربھی بڑے افسانہ نگارہوسکتے تھے، اگردل جمعی سے کام کرتے اورفلم ولم میں نہ جاتے۔ بیدی سے جھگڑا بھی رہتا ہے۔ ان کی کرداروں میں جوکمی ہوتی ہے، خاص طورپرعورت کے کردارمیں ،اس کی میں نشاندہی کرتا رہا ہوں، وہ عورت کوہمیشہ مظلوم ہی دکھانا پسند کرتے ہیں۔
ان کی عورتیں کہیں نہ کہیں سے مظلوم ضرور ہیں۔ فکشن سے کچھ نہ کچھ جھگڑا کرنا پڑتا ہے ۔ شاعری کا معاملہ اورہے، اقبال سے مجھے کئی جگہ اختلاف ہے، لیکن ان کی شاعری مجھے پھربھی اچھی لگتی ہے۔ شاعری میں چل جاتا ہے، لیکن فکشن میں ہم چونکہ آدمی کوانوالو کرتے ہیں، کرداروں کوانوالو کرتے ہیں، اس لیے ان سے جھگڑے بغیرگزارانہیں ہوتا، شاعری میں کردارہوتے نہیں، اوراگر ہوں توایسے ہوتے ہیں، کہ کردارہیں بھی اورنہیں بھی۔ اقبال کے ہاں بہت سے کردارہیں، لیکن وہ خیالی ہیں، ان سے ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں۔ مثلاً ابلیس کا کردارہے،اس سے میں کیوں جھگڑوں۔ بیدی کی زبان چاہے ، منٹو اور انتظار جتنی خوبصورت نہ ہو لیکن ان کے پہلے جملے سے لے کرآخری جملے تک ، کوئی جملہ بیکارکا نہیں ہوتا ۔ منٹواوربیدی کے برابرمیں انتظارکورکھ سکتا ہوں ۔
مجموعی طورپرانتظار کا کارنامہ، ان لوگوں سے بڑا ہے ۔ فکشن میں بیانیہ کی لائن میں کمیت کے اعتبارسے وہ ہیں، کیفیت کی اعتبار سے توخیرہیں ہی ۔ کئی قسم کا افسانہ انھوں نے لکھا۔ کتنا ہی ان کوالزام دیا جائے کہ صاحب!وہ ناسٹلجیا کے آدمی ہیں،اوروہ ہیں بھی اور نہیں بھی۔اوراگرہوں توعیب نہیں۔فن افسانہ نگاری میں بیانیہ کی تکنیک میں انھوں نے جومختلف تجربے کئے، اطوار و اسالیب کے، وہ اپنی جگہ کارنامہ ہیں۔ جتنا میں آج، ان کے بارے میں کہہ رہا ہوں، ممکن ہے کم کہہ رہا ہوں ، آیندہ لوگ ان کے بارے میں اس سے زیادہ کہیں گے۔ انتظارکے ہاں جو کمیاں ہیں، وہ بھی ہم سب کو معلوم ہیں۔ لیکن وہ ہیں، جن کووہ لپیٹ لیتے ہیں۔
چھپالیتے ہیں۔ ''بستی '' میں صابرہ کی ایک جھلک انھوں نے باتھ روم میں دکھا دی، اس کے علاوہ عورت کہیں نظرہی نہیں آتی ۔ ڈکنزکی ہیروین کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کوقبض رہتا ہے، واش روم میں کبھی جاتی ہی نہیں۔ اس حد تک مان لیتے ہیں۔ لیکن عورت کی راؤنڈ فگربھی توہوتی ہے، وہ کیوں نظرنہیں آتی۔ ناقابل بیان حصے توآپ چھوڑ دیں، جوقابل بیان حصے ہیں، ان کے بارے میں بھی انتظار نہیں لکھتے ۔ کیوں نہیں لکھتے ،اس کا کیا معاملہ ہے، وہ جانیں، نفسیاتی گرہوں کوکھولنا میں پسند نہیں کرتا۔ انتظارصاحب نے طرح طرح کے کرداربنائے ہیں، اتنی بڑی ان کی دنیاہے ، لیکن اس میں عورتیں نہیں۔ ان کے افسانے اورناول کو میں الگ الگ نہیں دیکھتا ۔ وہ اگرناول لکھیں گے تووہ بھی ان کے افسانے جیسا ہو گا۔
اس لیے وہ بڑے افسانہ نگارہیں، یا بڑے ناول نگار،اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افسانہ نگاربھی مکمل ہیں اورناول نگاربھی مکمل۔ لیکن اپنے طرزکے۔ میں نے ان کی نثرکودھوکا دینے والی نثرکہا ہے تو اس سے مراد یہ کہ دیکھنے میں معلوم ہوتاکہ لکھنے والے نے خاص محنت نہیں کی۔ بات سے بات بنانے کی کوشش۔ اوپرسے آسان، تانے بانے پرغورکریں تو پتاچلے کہ کیا کمال کیا ہے۔ نیرمسعود کوبہت بڑا افسانہ نگارسمجھتا ہوں۔ کمی یہ ہے کہ دوچارلائنیں ان کے پاس ہیں۔
ان چیزوں کووہ غورسے دیکھتے ہیں،ان کے بارے میں ساری باریکیاں جانتے ہیں۔ وہ لوگ کیسے اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان کوسب معلوم ہے ۔ لیکن وہ لکھتے ، اپنے انداز میں ہیں ۔ان کے ہرکردارکی بولی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ نیرمسعود بول رہے ہوتے ہیں۔ خاص طرح کی زبان کو،ماحول کو،اتنا گہرادیکھتے ہیں کہ عام طورپرلوگ اتنا گہرا نہیں دیکھ سکتے مگران کے ہاں آدمی نہیں، خیالات ہیں۔ نیریٹو فوکس ایک ہے لیکن مضمرات بہت سارے ہیں۔ کردار سے معاملہ نہیں کرتے۔ نثر ان کی بے مثال ہے۔ تشبیہ استعارہ کا استعمال نہیں کرتے ۔ استعاراتی زبان سے بھاگتے ہیں، لیکن نثرکا اسلوب ایسا بنالیا ہے کہ بات کہنے کوsufficientہوجاتی ہے، بیان ادھورا معلوم نہیں ہوتا۔ اکثر لوگوں کے ہاں نثرپوری نہیں ہوتی، لگتا ہے کوئی چیزچھوٹ گئی ہے۔ کہنے سے کچھ رہ گیا ہے۔مثلاًمنٹوکے ہاں ایسے نہیں ہوتا، خراب افسانہ بھی لکھیں گے تولگے گا نہیں کہ کچھ کہنے سے رہ گیا ہے۔
جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، وہ طرح طرح کے ظلم کرتاہے
ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی تہذیب آگے نکل جاتی ہے،اوردنیا کے بڑے حصے پرحاوی ہوجاتی ہے۔ ہم نے بھی ایک زمانے میں دنیا کوفتح کیا ۔دنیا کے بڑے حصے پرحکمران رہے ۔ لوگوں کو مہذب کیا ۔ عقل سکھائی ۔ اس کا بدلا یہ ہے کہ جن کوہم نے مہذب کیا وہ ہم کوغیرمہذب کہہ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے چین کودبانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ جہاں افیون نہیں کھائی جاتی تھی، وہاں زبردستی انھیں اس پرلگایا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت آگے بڑھ رہی ہے، اس لیے ہم آپ کوافیون ضرور کھلائیں گے، خواہ جنگ کیوں نہ کریں ۔
چینیوں کوبدنام کیا کہ وہ افیم کھاتے ہیں، جواکھیلتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، یوں دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کوبدنام کیا گیا ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس جب طاقت تھی توانھوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بہترمعاملہ کیا۔ یہودی اس بات کومانتے ہیں ۔ معروف اسکالربرنارڈ لیوس جویہودی ہے، اس نے اپنی کتاب میں The Jews of Islamمیں مسلمانوں کے یہودیوں سے اچھے سلوک کے بارے میں لکھا ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، وہ طرح طرح کے ظلم کرتاہے۔ ہم لوگوں کے بارے میں کہا گیاکہ ہم ورنیکولر ہیں ، یعنی ان زبانوں کے حامل جن کا رسم الخط نہیں ہے ۔ جبکہ ہم پہلے سے لکھ رہے ہیں ۔ انگریزی سے پہلے ہم لکھ رہے ہیں۔ عربی ، فارسی اورپھراردوبناکرہم لکھ رہے ہیں اورپھربھی ہم کوورنیکولرکہا جارہا ہے۔
فلوبیئر، یوسا اور موپساں کی عورت
فلوبئیرکی ''مادام بواری ''کو فرسٹ ایئرمیں پڑھا ۔باریکیاں پلے نہ پڑھیں۔بس یہ تھا کہ گنوارسے آدمی پراتنی اچھی لڑکی عاشق ہے لیکن وہ ناول میرے ساتھ رہا ۔بہت بعد میںفلوبیئرکے خطوط اورڈائریوں کوپڑھا توناول کوسمجھنے میں بڑے بصیرت افروزاورگہرے نکتے ملے عسکری صاحب نے لکھا کہ کوئی مادام بواری جیسے چارجملے لکھ دے تومیں اسے نثرنگارمان لوں گا۔ مادام بواری کا نظریہ حیات انتہائی pessimisticہے۔ بیانیہ بالکل سپاٹ ہے۔
دونوں میاں بیوی عجب طرح کے لوگ ہیں ۔ ناول نگاری کا ایک انداز ہے ۔ آج کے زمانے میں اگردیکھیں تومادام بواری بالکل پھسپھسی چیزمعلوم ہوتی ہے۔ ماریوبرگاس یوسا کی'' بیڈ گرل'' مجھے مادام بواری کے مقابلے میں زیادہ پاورفل معلوم ہوئی ۔ اس قسم کے موازنے حقیقی نہیں ہیں، کیونکہ مادام بواری آج سے پینسٹھ برس پہلے پڑھی، اوروہ کہانی اس سے 65برس پہلے کی۔'' بیڈ گرل ''آج کی پڑھی ہوئی۔ماحول بھی آج کا۔ اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ بہترکردارنگاری کون کررہا ہے، لیکن یہ مجھے زیادہ پاورفل چیزلگتی ہے، ایک تووہی بات کہ آج کے زمانے کی چیزہے،دوسرے مادام بواری کے مقابلے میں جنسی معاملات میں زیادہexplicit ہے۔
موپساں کا چھوٹا سا ناول ہے"Ball of Fat",۔اس میں لڑائی کے زمانے کا نقشہ ہے۔ لوگ شہرچھوڑ رہے ہیں۔ گاڑی میں سوارلوگ جارہے ہیں، ان میں ایک گول مٹول سی طوائف ہے۔ پہلے تولوگ اسے لفٹ نہیں دیتے۔ کھانا نکالتی ہے توسب اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ گاڑی چلتی رہتی ہے۔رات ہوجاتی ہے توان کوہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا ہے۔ ہوٹل میں فوج کا دستہ ٹھہرا ہے ،توکپتان اس پرعاشق ہوجاتا ہے ۔ اگلے دن جب سب جانے کے لیے تیارہورہے ہوتے ہیں، حکم ملتا ہے، آپ نہیں جاسکتے۔
اس طوائف کوبلایاجاتا ہے۔ وہ غصے سے بھری جاتی ہے،تواس سے کہا جاتا ہے کہ سب کوجانے کی اجازت اس وقت ملے گی، جب وہ کپتان کے ساتھ رات گزارنے پرآمادہ ہو۔ وہ راضی نہیں ہوتی۔ اب کئی دن گزرجاتے ہیں۔رفتہ رفتہ سب کا مزاج بدلنے لگتاہے ۔کہا جاتا ہے کہ بھئی!مہمان نوازی بھی کوئی چیزہوتی ہے۔ پیشے کے لوگ یہ کام کرتے ہی رہتے ہیں، اس میں توسب کی بھلائی ہے،آخرکار وہ طوائف تنگ آکرکپتان کی بات مان لیتی ہے۔ سب کوصبح جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔
اب وہ سارے دوبارہ اس خاتون سے کھینچے کھینچے رہنے لگتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ فلوبیئر، یوسا، اورموپساں ، تینوں کے ہاں عورت کا معاملہ مرکزی ہے ۔ موپساں کی عورت صحیح معنوں میں مظلوم ہے۔ مادام بواری ظالم ہے یا نہیں، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ بیڈگرل میں عورت ایک طرح سے ظالم ہے۔ موپساں کی عورت کا کردارنہیں، وہ حالات پیچیدہ ہیں، جس میں وہ ہے۔ فلوبئیر اور یوسا کے ہاں حالات پرطنزہے۔
لڑکپن میں موپساں کوشوق سے پڑھا۔ موپساں جیسا ظالم افسانہ نگارتوکیا انسان بھی نہیں دیکھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، وہ عورتوں کے خلاف ہے ، اس کہانی میں وہ کہاں عورت کے خلاف نظرآتا ہے؟ وہ اس کے مقابلے میں پوری دنیا کے خلاف نظرآتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ لوگ اتنے بیوقوف ، ظالم اورخود غرض ہیں، کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے قاعدے قانون توڑ لیتے ہیں، کسی چیزکی اپنی مرضی کی تعبیرکرلیتے ہیں، اورجب کسی سے کام نکل جائے تواس سے منہ پھیرلیتے ہیں۔ پوری دنیا پرگہرا اورظالمانہ طنز ہے۔ موپساں کے معنی عام طورپرسامنے رہتے ہیں، کم ازکم بظاہر، اس لیے شاید اسے فلوبیئرکے مقابلے میں زیادہ سمجھا ۔
عموماً زبان شاعر پر حاوی ہوتی ہے لیکن انیس زبان پر حاوی ہے
میں میرانیس کوہمیشہ سے چارپانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں ۔ بنیادی بات رواں کلام ہے ۔ یہ بہت بڑی صفت ہے ۔ہم اس کوسمجھ اورقدرنہیں کرپائے ۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو ۔ کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اورروانی سے ادا ہوجاتا ہے ۔ سمجھ میں آجاتا ہے ۔
مصرع میں لگتانہیں لفظ زیادہ ہوگیا ہے یا کم ہوگیا ۔ میرانیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کواپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بن نہیں پڑا ۔ مضمون ایک ہے ، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے ۔ زبان پرغیرمعمولی عبور۔ زبان عام طورپرشاعرپرحاوی ہوتی ہے لیکن میرانیس زبان پرحاوی ہے ۔
معمولی مصرع بھی کہیں گے توایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا ۔اکثریہ توآپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میرانیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے ۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں ۔ اس کے ہربند کے بارے میں بتادوں گا لیکن مجموعی طورپراتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میرانیس ۔ مرثیہ تومرثیہ ،سلام لکھنے بیٹھتا ہے تواس میں کمال کردیتا ہے ۔ میں کبھی گھرمیں سلام پڑھتا تومیری بیوی کہتی نہ پڑھو، مجھے رونا آرہا ہے، یعنی اسے بھی رونا آتا ہے جوسلام کی باریکیوں سے واقف نہیں ۔ وہ کہتے ہیں
؎زہرا کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب
میرا عقیدہ کچھ بھی ہو لیکن یہ مصرع مجھ پر بہت اثر کرتا ہے
کیا پرانے کیا معاصر، منیرؔ پر کسی شاعر کا اثر نہیں
منیرنیازی کا پرانا عاشق ہوں ۔بچوں کو اس کا عاشق بنایا ۔ کلام یاد کرایا ۔ بچپن میں وہ منیرنیازی کی شاعری پڑھتے رہتے ۔ وہ واحد شاعرہے ، جس پرکسی آدمی کا اثرمعلوم نہیں ہوتا ۔کسی معاصرکا اثرنہیں۔پرانے شاعرکا اثرنہیں ۔ معاصرکے اثرسے کوئی نہیں بھاگ سکتا لیکن وہ بھاگا ۔ ایک زمانے میں مجھے ان کا بہت کلام یاد تھا ۔ مجھے لوگوں نے شکایت کی کہ صاحب آپ نے اپنے مضمون میں غزل میں بھی ان کواتنا اہم دکھا دیا ،غزل میں توان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ،میں نے کہا کہ آپ حضرات جوبھی سمجھتے رہیں،ہم توکہتے ہیں دوشعروں پرزندہ رہیں گے ۔
٭اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
٭صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھرگیا
وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، اسے بیان کردیتا ہے ۔ ان کی نظم ''آغاززمستاں میں دوبارہ''مجھے بہت پسند ہے ۔
میری اینجیوپلاسٹی ہوئی تھی ۔ اس کی ڈرافٹ خراب ہوگئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کوکھولنا پڑے گا،اسے کھولنے کی کوشش میں فریکچر ہو گیا۔ بہت درد ہورہا تھا ۔ میں رویا نہیں ۔ چلاّیا نہیں ۔ بٹیا میری پردے کے پیچھے تھی ۔ مرتے مرتے مجھے کوئی اور شاعر یاد نہیں آیا منیرنیازی یاد آیا۔میں نے شعرپڑھا
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی