بھارت پاکستان سے سبق سیکھے
کانگریس اور بی جے پی کرپشن کے الزامات سے داغدار ہو چکی ہیں اور عوام میں ان کی بھد اُڑ چکی ہے۔
آیندہ عام انتخابات میں جو بھی ہو ... میرا شرطیہ دعویٰ ہے کہ یہ اوائل 2013ء میں ہوں گے ... لیکن ان کے نتیجے میں ملک اور زیادہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جائے گا۔
عمومی خیال یہ ہے کہ زیادہ نشستیں دو بڑی سیاسی پارٹیاں' کانگریس اور بی جے پی ہی جیتیں گی' مگر یہ خیال اب درست ثابت نہیں ہو گا۔ دونوں پارٹیاں عوام کی نظروں میں اتنی گر چکی ہیں کہ شاید وہ ایک سو نشستیں بھی حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام مذہبی اور نظریاتی پارٹیاں انتخابات کے موقع پر میدان میں ہوں گی تو ووٹ لازماً تقسیم ہوں گے۔ جو بھی پارٹی 50 سے زائد نشستیں جیت جائے گی، اس میں خود بخود ایک مقناطیسی کشش پیدا ہو جائے گی جس سے دوسری پارٹیاں اس کی طرف کھنچتی چلی آئیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 546 نشستوں والے ایوان زیریں ''لوک سبھا'' میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے 273 نشستیں درکار ہوں گی۔ چنانچہ اتنی نشستیں جمع کرنے کے لیے بہت ساری پارٹیوں کو اتحاد یا انضمام کرنا ہو گا۔ کانگریس اور بی جے پی کرپشن کے الزامات سے داغدار ہو چکی ہیں اور عوام میں ان کی بھد اُڑ چکی ہے۔
بی جے پی کے صدر نتن گڈکری نے جعلی کمپنیاں بنا کر لوٹ مار کی جب کہ کانگریس پر کرپشن کے بہت سارے الزامات ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ ودرا پر جعل سازی سے اراضی کا بڑا رقبہ خریدنے کا الزام بھی شامل ہے۔ لیکن اس ساری کرپشن سے بھی زیادہ جو چیز بُری ہے وہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا تکبر اور غرور ہے۔ جنھیں عوام کے اس مطالبے کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ ان مالیاتی اسکینڈلوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے۔ کرپشن کے الزامات کانگریس کی انتخابی مہم میں اس کا پیچھا کریں گے۔
وزیراعظم منموہن سنگھ جو اپنے تئیں ایک صاف ستھرے شخص ہیں مگر ان کی پارٹی پر جن اسکینڈلوں کا الزام ہے، ان کے ڈانڈے پی ایم آفس سے بھی ملتے ہیں۔ لہٰذا اگر ان پر شریک جرم ہونے کا الزام نہ بھی لگے تب بھی جرم میں معاونت کا یا چشم پوشی کا الزام ضرور لگ سکتا ہے۔ مرکزی کابینہ میں ردوبدل سے عام انتخابات میں کانگریس کی امیدیں پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ کانگریس کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے۔ کابینہ کے وزراء کی اکثریت نہ پاک صاف ہے اور نہ ہی ان میں کوئی قابلیت یا اہلیت ہے۔ لہٰذا جب ایک نسبتاً دیانتدار وزیر جے پال ریڈی کو وزارت پیٹرولیم سے ہٹایا گیا تو یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ یہ تبدیلی اس وزارت کے ذریعے انتخابی رقوم اکٹھی کرنے کے پروگرام کی خاطر کی گئی ہے۔
کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کم قصور وار ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ آٹھ سال سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں نہیں ہے۔ بعض ریاستیں بالخصوص کرناٹک اور مدھیہ پردیش اس پارٹی کی بدنامی کا باعث بنی ہیں۔ تاہم بی جے پی کی حکومت کی ان ریاستوں میں بدنامی کا عام انتخابات پر زیادہ اثر نہیں ہو گا کیونکہ اس موقع پر کانگریس کے اسکینڈل ہی موضوع بحث رہیں گے۔ البتہ کانگریس کو اس حوالے سے بی جے پی پر قدرے برتری ہو گی کیونکہ بی جے پی بہت فرقہ پرست جماعت ہے اور اس کے آر ایس ایس کے ساتھ گہرے روابط اس حقیقت کے غماض ہیں۔ آر ایس ایس کو ہمہ اقسام کی فرقہ ورانہ نفرت کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ آر ایس ایس کی طرف سے گڈکری کی حمایت سے شہ پا کر جس انداز سے بی جے پی نے گڈکری کی حمایت شروع کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل قوت آر ایس ایس کے پاس ہے۔
بی جے پی محض دکھاوے کی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹروں کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ یہ پارٹی نریندر مودی کو بھارت کے اگلے وزیراعظم کے طور پر متعارف کرا رہی ہے جس نے کہ 2002ء میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا نہ صرف منصوبہ بنایا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کرایا۔ کانگریس کو اب بھی اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرنے کا فائدہ حاصل ہے۔ تاہم مختلف ریاستوں میں زیادہ تر مسلمان اس پارٹی سے دور ہو گئے ہیں جہاں کہ کانگریس کو بی جے پی کی متبادل ہونے کا مقام حاصل ہے۔ براہ راست مقابلوں میں تو مسلمان کانگریس کا ساتھ دیں گے لیکن ان ریاستوں میں نہیں جہاں دوسری پارٹیاں بھی سرگرم ہیں۔ مثلاً یوپی' بہار اور مغربی بنگال میں سول سوسائٹی حسب معمول کانگریس کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ مگر اس بات سے ان کو سخت مایوسی ہوئی ہے کہ منموہن سنگھ جیسا آدمی سونیا گاندھی کے دباؤ کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ اب کوئی تیسری متبادل پارٹی چاہتے ہیں۔چونکہ کانگریس اور بی جے پی لوگوں کی نظروں سے گر چکی ہیں تو دوسری پارٹیاں' خاص طور پر ریاستوں میں' ان کی جگہ لینے لگی ہیں۔ مغربی بنگال اور یوپی میں ریاستی انتخابات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ووٹر ملک بھر میں پھیلی ہوئی پارٹیوں کے بجائے مقامی پارٹیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آل انڈیا پارٹیاں عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی لوک سبھا میں بہت ساری پارٹیاں شامل ہوں گی۔ حتیٰ کہ ننھی منی پارٹیاں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔
جاٹ' دلت' راجپوت اور یادیو ممکن ہے برادری سسٹم اور ذات پات پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک ٹوٹ کر بکھرنے والا ہے بلکہ یہ رنگ برنگی سیاست ملک کی مضبوطی کی علامت ثابت ہو گی۔ اپنی شناخت کے بارے میں آوازیں مزید بلند ہو جائیں گی لیکن اس کا جواب ان آوازوں کو دبانے میں اور ان کو ملک دشمن قرار دینے میں نہیں بلکہ اس کا صحیح جواب مرکز گریز اختیارات میں ہے۔ ریاستیں کئی اعتبار سے محرومیوں کا شکار ہیں۔ بہار نے خصوصی حیثیت حاصل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لہٰذا اب زیادہ سے زیادہ ریاستیں اس کی تقلید کریں گی۔ عام انتخابات کے بعد جب یہ آواز علاقائی پارٹیوں کی طرف سے بلند ہو گی تو یہ مطالبہ اور زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ریاستوں کو زیادہ اختیارات تفویض کرنے کی گنجائش ہی نہیںہے چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین پر نظر ثانی کی جائے تا کہ ریاستوں کو زیادہ اختیارات دیے جا سکیں۔ آرٹیکل 370 کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ ا گرچہ اسے ایک عارضی شق کا درجہ حاصل تھا مگر یہ حیثیت مسلسل برقرار ہے۔ آخر دیگر ریاستوں کو یہ رعائت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ وہ سب کی سب خصوصی حیثیت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایک ایسی حیثیت جس سے مرکز ان کی امنگوں کو کچل نہ سکے اور وہ مرکز کی باجگزار محسوس نہ ہوں۔ مرکز کے پاس صرف دفاع' امور خارجہ' مواصلات' کرنسی اور منصوبہ بندی کے شعبے رہنے چاہئیں۔ ان کے علاوہ بھی ایک دو مزید شعبے اس کے حوالے کیے جا سکتے ہیں لیکن نہایت محتاط انداز میں تاکہ سارے کے سارے اختیارات اس کے پاس جمع نہ ہو جائیں۔
مرکز بیشک ریاستوں کی قیادت کرے مگر اس کا درجہ ان کے برابر ہی ہونا چاہیے اور جہاں تک اختیارات کی تقسیم کا تعلق ہے تو نہ صرف مرکز یعنی نئی دہلی کے اختیارات کی تقسیم ہو بلکہ ریاستی درالحکومتوں کے اختیارات بھی پہلے اضلاع اور پھر دیہات تک تقسیم کیے جانے چاہئیں تا کہ عوام خود اپنے آپ پر حکومت کر سکیں۔ علاقائی پارٹیاں اگر آل انڈیا پارٹیوں کے انجام کا شکار نہیں ہونا چاہتیں تو نہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔بہت سال قبل ایک بلوچ قوم پرست لیڈر میر غوث بخش بزنجو نے مجھے کہا تھا: ''ہم سے سبق سیکھو۔ دہلی میں تمام تر اختیارات جمع کرنے سے بھارت میں وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جسے پاکستان آج دیکھ رہا ہے۔''
(ترجمہ: مظہر منہاس)
عمومی خیال یہ ہے کہ زیادہ نشستیں دو بڑی سیاسی پارٹیاں' کانگریس اور بی جے پی ہی جیتیں گی' مگر یہ خیال اب درست ثابت نہیں ہو گا۔ دونوں پارٹیاں عوام کی نظروں میں اتنی گر چکی ہیں کہ شاید وہ ایک سو نشستیں بھی حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام مذہبی اور نظریاتی پارٹیاں انتخابات کے موقع پر میدان میں ہوں گی تو ووٹ لازماً تقسیم ہوں گے۔ جو بھی پارٹی 50 سے زائد نشستیں جیت جائے گی، اس میں خود بخود ایک مقناطیسی کشش پیدا ہو جائے گی جس سے دوسری پارٹیاں اس کی طرف کھنچتی چلی آئیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 546 نشستوں والے ایوان زیریں ''لوک سبھا'' میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے 273 نشستیں درکار ہوں گی۔ چنانچہ اتنی نشستیں جمع کرنے کے لیے بہت ساری پارٹیوں کو اتحاد یا انضمام کرنا ہو گا۔ کانگریس اور بی جے پی کرپشن کے الزامات سے داغدار ہو چکی ہیں اور عوام میں ان کی بھد اُڑ چکی ہے۔
بی جے پی کے صدر نتن گڈکری نے جعلی کمپنیاں بنا کر لوٹ مار کی جب کہ کانگریس پر کرپشن کے بہت سارے الزامات ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ ودرا پر جعل سازی سے اراضی کا بڑا رقبہ خریدنے کا الزام بھی شامل ہے۔ لیکن اس ساری کرپشن سے بھی زیادہ جو چیز بُری ہے وہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا تکبر اور غرور ہے۔ جنھیں عوام کے اس مطالبے کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ ان مالیاتی اسکینڈلوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے۔ کرپشن کے الزامات کانگریس کی انتخابی مہم میں اس کا پیچھا کریں گے۔
وزیراعظم منموہن سنگھ جو اپنے تئیں ایک صاف ستھرے شخص ہیں مگر ان کی پارٹی پر جن اسکینڈلوں کا الزام ہے، ان کے ڈانڈے پی ایم آفس سے بھی ملتے ہیں۔ لہٰذا اگر ان پر شریک جرم ہونے کا الزام نہ بھی لگے تب بھی جرم میں معاونت کا یا چشم پوشی کا الزام ضرور لگ سکتا ہے۔ مرکزی کابینہ میں ردوبدل سے عام انتخابات میں کانگریس کی امیدیں پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ کانگریس کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے۔ کابینہ کے وزراء کی اکثریت نہ پاک صاف ہے اور نہ ہی ان میں کوئی قابلیت یا اہلیت ہے۔ لہٰذا جب ایک نسبتاً دیانتدار وزیر جے پال ریڈی کو وزارت پیٹرولیم سے ہٹایا گیا تو یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ یہ تبدیلی اس وزارت کے ذریعے انتخابی رقوم اکٹھی کرنے کے پروگرام کی خاطر کی گئی ہے۔
کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کم قصور وار ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ آٹھ سال سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں نہیں ہے۔ بعض ریاستیں بالخصوص کرناٹک اور مدھیہ پردیش اس پارٹی کی بدنامی کا باعث بنی ہیں۔ تاہم بی جے پی کی حکومت کی ان ریاستوں میں بدنامی کا عام انتخابات پر زیادہ اثر نہیں ہو گا کیونکہ اس موقع پر کانگریس کے اسکینڈل ہی موضوع بحث رہیں گے۔ البتہ کانگریس کو اس حوالے سے بی جے پی پر قدرے برتری ہو گی کیونکہ بی جے پی بہت فرقہ پرست جماعت ہے اور اس کے آر ایس ایس کے ساتھ گہرے روابط اس حقیقت کے غماض ہیں۔ آر ایس ایس کو ہمہ اقسام کی فرقہ ورانہ نفرت کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ آر ایس ایس کی طرف سے گڈکری کی حمایت سے شہ پا کر جس انداز سے بی جے پی نے گڈکری کی حمایت شروع کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل قوت آر ایس ایس کے پاس ہے۔
بی جے پی محض دکھاوے کی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹروں کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ یہ پارٹی نریندر مودی کو بھارت کے اگلے وزیراعظم کے طور پر متعارف کرا رہی ہے جس نے کہ 2002ء میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا نہ صرف منصوبہ بنایا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کرایا۔ کانگریس کو اب بھی اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرنے کا فائدہ حاصل ہے۔ تاہم مختلف ریاستوں میں زیادہ تر مسلمان اس پارٹی سے دور ہو گئے ہیں جہاں کہ کانگریس کو بی جے پی کی متبادل ہونے کا مقام حاصل ہے۔ براہ راست مقابلوں میں تو مسلمان کانگریس کا ساتھ دیں گے لیکن ان ریاستوں میں نہیں جہاں دوسری پارٹیاں بھی سرگرم ہیں۔ مثلاً یوپی' بہار اور مغربی بنگال میں سول سوسائٹی حسب معمول کانگریس کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ مگر اس بات سے ان کو سخت مایوسی ہوئی ہے کہ منموہن سنگھ جیسا آدمی سونیا گاندھی کے دباؤ کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ اب کوئی تیسری متبادل پارٹی چاہتے ہیں۔چونکہ کانگریس اور بی جے پی لوگوں کی نظروں سے گر چکی ہیں تو دوسری پارٹیاں' خاص طور پر ریاستوں میں' ان کی جگہ لینے لگی ہیں۔ مغربی بنگال اور یوپی میں ریاستی انتخابات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ووٹر ملک بھر میں پھیلی ہوئی پارٹیوں کے بجائے مقامی پارٹیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آل انڈیا پارٹیاں عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی لوک سبھا میں بہت ساری پارٹیاں شامل ہوں گی۔ حتیٰ کہ ننھی منی پارٹیاں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔
جاٹ' دلت' راجپوت اور یادیو ممکن ہے برادری سسٹم اور ذات پات پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک ٹوٹ کر بکھرنے والا ہے بلکہ یہ رنگ برنگی سیاست ملک کی مضبوطی کی علامت ثابت ہو گی۔ اپنی شناخت کے بارے میں آوازیں مزید بلند ہو جائیں گی لیکن اس کا جواب ان آوازوں کو دبانے میں اور ان کو ملک دشمن قرار دینے میں نہیں بلکہ اس کا صحیح جواب مرکز گریز اختیارات میں ہے۔ ریاستیں کئی اعتبار سے محرومیوں کا شکار ہیں۔ بہار نے خصوصی حیثیت حاصل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لہٰذا اب زیادہ سے زیادہ ریاستیں اس کی تقلید کریں گی۔ عام انتخابات کے بعد جب یہ آواز علاقائی پارٹیوں کی طرف سے بلند ہو گی تو یہ مطالبہ اور زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ریاستوں کو زیادہ اختیارات تفویض کرنے کی گنجائش ہی نہیںہے چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین پر نظر ثانی کی جائے تا کہ ریاستوں کو زیادہ اختیارات دیے جا سکیں۔ آرٹیکل 370 کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ ا گرچہ اسے ایک عارضی شق کا درجہ حاصل تھا مگر یہ حیثیت مسلسل برقرار ہے۔ آخر دیگر ریاستوں کو یہ رعائت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ وہ سب کی سب خصوصی حیثیت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایک ایسی حیثیت جس سے مرکز ان کی امنگوں کو کچل نہ سکے اور وہ مرکز کی باجگزار محسوس نہ ہوں۔ مرکز کے پاس صرف دفاع' امور خارجہ' مواصلات' کرنسی اور منصوبہ بندی کے شعبے رہنے چاہئیں۔ ان کے علاوہ بھی ایک دو مزید شعبے اس کے حوالے کیے جا سکتے ہیں لیکن نہایت محتاط انداز میں تاکہ سارے کے سارے اختیارات اس کے پاس جمع نہ ہو جائیں۔
مرکز بیشک ریاستوں کی قیادت کرے مگر اس کا درجہ ان کے برابر ہی ہونا چاہیے اور جہاں تک اختیارات کی تقسیم کا تعلق ہے تو نہ صرف مرکز یعنی نئی دہلی کے اختیارات کی تقسیم ہو بلکہ ریاستی درالحکومتوں کے اختیارات بھی پہلے اضلاع اور پھر دیہات تک تقسیم کیے جانے چاہئیں تا کہ عوام خود اپنے آپ پر حکومت کر سکیں۔ علاقائی پارٹیاں اگر آل انڈیا پارٹیوں کے انجام کا شکار نہیں ہونا چاہتیں تو نہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔بہت سال قبل ایک بلوچ قوم پرست لیڈر میر غوث بخش بزنجو نے مجھے کہا تھا: ''ہم سے سبق سیکھو۔ دہلی میں تمام تر اختیارات جمع کرنے سے بھارت میں وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جسے پاکستان آج دیکھ رہا ہے۔''
(ترجمہ: مظہر منہاس)