اسلم اظہر ایک سچا کامریڈ

بہرحال عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور اس کے حل کی تجویز پیش کرتا ہے


Zuber Rehman January 18, 2016
[email protected]

KARACHI: ڈرامہ کا بنیادی مقصد معاشرے کا حقیقی منظرنامہ عوام کے سامنے پیش کرکے شعور میں اضافہ کرنا اور دنیا کو ظلم و جبر سے نجات دلانے اور ایک بہتر خوشحال سماج کی تعمیر کی جانب توجہ دلانا ہوتا ہے۔ یہ ڈرامے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شخصیات پر مبنی، جو اکثر حکمرانوں کی قصیدہ خوانی اور زندگی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ دوسرا ڈرامہ عام لوگوں، پیداواری قوتوں اور محنت کشوں کی زندگی پر مبنی مسائل کے متعلق ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ڈرامے دنیا میں مقبول و مشہور ہوتے ہیں اور عوام کو سبق بھی ملتا ہے۔ یہ ادب ڈرامہ کی شکل میں ہو، نظم، ناول یا افسانے کی شکل میں ہو یا فلم کی۔

بہرحال عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور اس کے حل کی تجویز پیش کرتا ہے،جیسا کہ معروف ڈرامہ نگار چیخوف، بریخت، شیکسپئر اور ٹیگور نے گرگٹ، کنگ لیئر اور کابلی والا میں کیا ہے، اور یہ ڈرامے دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ نظموں کی شکل میں پابلو نرودا، نذرالاسلام، ساحر لدھیانوی اور حبیب جالب جیسے بہت سے شاعروں نے عوام کے خون گرمائے۔ ناول نگاری میں میکسم گورکی، کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کا کوئی ثانی نہیں۔ افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند اور عظمت چغتائی کی مثال نہیں۔

پاکستان میں اسلم اظہر اور منصور سعید کے عوامی ڈراموں کی کوئی مثال نہیں۔ اسلم اظہر 1932 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد برطانوی راج میں سرکاری ملازم تھے۔ 1954 میں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں قانون میں آنرز کیا، جو کہ ایم اے کے برابر کی ڈگری ہے۔ پھر انھوں نے ایک آئل کمپنی میں ملازمت کرلی۔ دو سال چٹاگانگ سابق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں پوسٹنگ پر نوکری کی۔ 1960 میں مستعفی ہوکر کراچی آگئے۔ یہاں آکر ڈا کومنٹری فلم بنانے لگے۔ ان کی گندھارا تہذیب کی ڈاکومنٹری بہت مشہور ہوئی۔ اسلم اظہر انتہائی بااخلاق، پرخلوص اور پرکشش انسان تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران انگریزی ڈراموں میں اداکاری کی، اسی دوران کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے محنت کشوں میں منصور سعید کے ساتھ مل کر اسٹریٹ ڈراموں میں حصہ لیا۔ اسلم اظہر اور منصور سعید نے 'دستک' نامی تھیٹر تشکیل دیا۔ اسلم اظہر سے متاثر ہوکر ہی منصور سعید کی بیٹی ثانیہ سعید ڈرامہ کی جانب راغب ہوئیں۔ بریٹول بریخت کا ڈرامہ 'دی لائف آف گلیلیو' جرمن زبان سے اردو میں منصور سعید نے ترجمہ کیا اور ڈرامہ کا نام رکھا 'گلیلیو کی داستان'۔ گلیلیو سولہویں صدی کے اطالوی سائنسدان تھے، انھوں نے ڈرامے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے۔

ڈرامہ نگار بریخت نے ڈرامے کے اختتام پر لکھا کہ 'اگر سورج کے گرد دنیا گھومتی ہے تو پھر ریاست چرچ اور غریب امیر کے گرد کیوں گھومتی ہے؟' یہ ڈرامہ ریو آڈیٹوریم کراچی میں منعقد ہوا تھا۔ ایک اور ڈرامہ 'سینٹ جون اسٹاک یارڈ' جس میں مزدور کارخانے میں بغاوت کرتے ہیں۔ صد سالہ یکم مئی میں 1986 میں سائٹ کراچی کے علاقے بڑا بورڈ میں بیچ سڑک پہ منعقد ہوا، جس میں ہزاروں مزدوروں نے شرکت کی۔ انھوں نے کراچی پریس کلب میں چیخوف کا ڈرامہ 'گرگٹ' اور ریو آڈیٹوریم میں بریخت کا ڈرامہ گلیلیو کا کھیل دکھا کر عوام کا دل موہ لیا۔

اسلم اظہر نے ملک بھر میں خاص کر لاہور اور کراچی میں اسٹریٹ ڈرامے کیے۔ بعد ازاں ان اسٹریٹ ڈراموں نے کراچی میں سائٹ، بڑا بورڈ، لانڈھی، کورنگی اور دیگر محنت کش بستیوں میں اسٹریٹ ڈراموں کے ذریعے محنت کشوں کے شعور میں زبردست اضافہ کیا۔ اسلم اظہر نظریاتی طور پر اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے، چونکہ وہ پی ٹی وی کے ایم ڈی اور چئیرمین تھے اس لیے کمیونسٹ پارٹی نے سرعام سرگرمی کرنے کو منع کر رکھا تھا۔ میں (راقم) ان دنوں کمیونسٹ پارٹی کراچی کا سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ اسلم اظہر اور ان کی اہلیہ نسرین اظہر اور بیٹا عارب کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے۔

نسرین اظہر خواتین کی تنظیم ویف میں سرگرمی کرتی تھیں۔ اسلم اور نسرین پارٹی کو بلاناغہ چندہ دیا کرتے تھے۔ اسلم اظہر آخر دم تک کرایے کے مکان میں رہتے رہے۔ انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ضیائی اسلام کو عوام پر مسلط کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی۔ پی ٹی وی پر حکومتی احکامات نہ ماننے پر ان کو ان کے عہدے سے بھی ہٹایا گیا، مگر وہ ہمیشہ انقلابی ادب اور کمیونسٹ نظریات پر قائم رہے۔ اسلم اظہر جو ڈرامے کرتے تھے اس میں ان کی بیوی نسرین اظہر اداکاری کرتی تھیں۔ اسلم ڈراموں، تحت الفظ، اپنی دانش اور گفتگو میں ایک انقلابی تھے، انھوں نے مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد میں بھی شرکت کی۔ کامریڈ اسلم کا نظریہ آج بھی زندہ تابندہ ہے۔

دنیا کے اربوں انسان کمیونسٹ نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ جب روس، چین اور مشرقی یورپ سوشلسٹ ممالک تھے تو وہاں کی تمام تر خامیوں کے باوجود بھوک، افلاس، جہالت، بے روزگاری، بے گھری، قتل و غارت گری، عصمت فروشی، مہنگائی، منشیات نوشی اور لاعلاجی کا نام و نشان نہیں تھا۔ سوویت یونین میں 35 سال میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ بسوں کا کرایہ نام نہاد تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور ہاسٹل ماسکو میں تھا۔

پہلی خاتون خلانورد روس کی تھیں، دنیا کا سب سے اعلیٰ فلم ڈائریکٹر گریگوری بھی روس کا تھا۔ ماؤزے تنگ کے وقت چین میں کوئی بے روزگار نہیں تھا اور آج سرمایہ دارانہ چین میں ستائیس کروڑ بے روزگار اور پچاسی افراد ارب پتی ہیں۔ آج بھی کیوبا، شمالی کوریا، بائیلو روس، لاؤس، منگولیا، ویتنام، زمبابوے، وینزویلا، بولیویا، گوئٹے مالا، پیرو، ایکواڈور اور برکینافاسو سمیت متعدد ممالک خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ یہ ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات سے دور ہیں۔ دنیا میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ کیوبا کی ننانوے فیصد، شمالی کوریا میں سو فیصد اور زمبابوے میں اٹھانوے فیصد ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں پیداواری قوتیں اور محنت کش عوام سوشلسٹ انقلاب کے لیے لڑرہے ہیں۔

امریکا میں 2016 میں ہونے والے انتخابات میں برنی سینڈرز سوشلسٹ صدر کے امیدوار ہیں۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کاربن بھاری ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ سوشلسٹوں کی سی ڈبلیو آئی (کمیٹی فار ورکرز انٹرنیشنل) امریکا، جرمنی، فرانس، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، ہندوستان، ہانگ کانگ، تائیوان، ملائیشیا، سری لنکا اور پاکستان سمیت 55 ملکوں میں جدوجہد کررہی ہے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ دنیا کی سرحدیں، نجی ملکیت، اسلحہ، جنگ، اسمبلی، بے روزگاری اور لاعلاجی ختم ہوجائے گی اور دنیا ایک ہوجائے گی۔ سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے، یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں