وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی دیر کر دی

خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہے یا نہیں یہ ایک لمبی بحث ہے

خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہے یا نہیں یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن اس حکومت نے جب بھی کوئی اچھا کام کیا اس میں تاخیر ضرور ہوئی اور پھر لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو وضاحتیں دینا پڑیں ۔عمران خان کے بارے میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کی ترقی کے بارے میں بہت جذباتی ہیں اور بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں ان کی حکومت کی پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں اور اگر کوئی بھی بہتر فیصلہ کرنا پڑے تو عمران خان بھی دیر کر دیتے ہیں اس کی بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر اس بار وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی دیر کر دی۔

پاک چین اقتصادی راہداری پر جب صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول وفاق میں برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ ن نے بھرپور احتجاج کیا تو کافی دنوں بعد وزیر اعظم صاحب کو خیال آیا کہ اب انھیں سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنا ہی پڑیں گے۔میں شک سے زیادہ امید وابستہ کرنے والا ہوں اور جب وزیر اعظم کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء کو یقین دلا دیں تو پھر یقین کی فضا قائم ہونی چاہئیے ۔اس کل جماعتی کانفرنس میں بظاہر وزیر اعظم نے خیبر پختون خوا کی سیاسی جماعتوں سمیت بلوچستان کی قیادت کو بھی آن بورڈ لیا ہے اورنہ صرف صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت چیف سیکریٹریز پر مشتمل گیارہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے بلکہ پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان نے بھی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کر لیاہے۔

اس اجلاس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اس سوال کے جواب سے قبل اگر خیبر پختون خوا کی سیاسی جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی وجہ سامنے رکھی جائے تو بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں خیبر پختون خوا کو یکسر نظر انداز کرنے کے معاملہ کو ساری قوم کے سامنے رکھا۔انھوں نے پہلی بار صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو اعتماد میں لینے کے بعد بتایا کہ اس منصوبے کے مغربی روٹ کی تعمیر پر پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ پاک چین سرحد شمال مغرب میں واقع ہے اور چین کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کے لیے چین کے صوبے سنکیانگ سے درہ خنجراب جہاں پاکستان اور چین کی سرحد ہے سے ہوتی ہوئی یہ سڑک ہزارہ ڈویژن سے گذرتے ہوئے مغربی اور اسلام آباد، لاہور، ملتان، سکھر اور پھر بلوچستان کے چند علاقوں سے ہوتے ہوئے مشرقی روٹ کے طورگوادر جائے گی۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے مطابق سنکیانگ سے حسن ابدال تک سڑک تو تعمیر کی جائے گی لیکن عوام کو معاشی و اقتصادی ترقی کے ثمرات سے محروم رکھا جائے گا اس کی بڑی وجہ سڑک کے ساتھ مختلف مقامات پر صنعتی بستیاں ،بجلی کے منصوبے، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،ریلوے اور گیس کی سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔اب وزیر اعظم نے چین سے جو معاہدہ کیا اس کی جو دستاویزت پرویز خٹک تک پہنچیں ان کے مطابق مشرقی روٹ جو پنجاب سے گذرے گا اس پر کئی منصوبے شروع کیے جائیں گے ان میںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک نئی دنیا آباد کرنے سمیت صنعتی شہر بھی قائم کیے جائیں گے اور خاص طور پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی ہوں گے۔


پرویز خٹک نے یہ بھی انکشافات کیے کہ پنجاب میں صنعتی بستیوں کے قیام پر کام شروع بھی کر دیا گیا ہے۔ایسی صورت میں جب کہ اس راہداری میں خیبر پختون خوا اپنا پورا حصہ ڈال رہا ہے اسے یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایک سڑک اٹک، میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب سے ہوتے ہوئے گوادر جائے گی۔ صوبائی حکومت نے اس منصوبے پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ صرف سڑک بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ عمران خان نے پشاور کے سینئر صحافیوں سے بنی گالا میں ملاقات کے دوران یہ بھی فرما دیا کہ حقیقت میں وزیر اعظم نواز شریف 2018 ء کے عام انتخابات جیتنے کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کو پنجاب سے گزارنا اور صنعتی بستیاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

خیبر پختونخوا ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور دہشت گردی کے واقعات نے صوبے کو اقتصادی و معاشی لحاظ سے تباہ کر دیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کو تو زیادہ سے زیادہ فائدہ اس پسماندہ صوبے کو دینا چاہئیے تھا مگر پانی اور گیس کے باوجود صوبے کو اس کے حق سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے چنانچہ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کے اس مؤقف سے اتفاق کیا اور جس کے بعد باالآخر وزیر اعظم کوآل پارٹیز کانفرنس بلانا ہی پڑی۔دستاویزات میں اس راہداری منصوبے سے متعلق کیا ہے اس بارے میں شاید اب بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کچھ نہ بتایا گیا ہو کہ یہ معاہدہ میاں نواز شریف اور چینی حکومت کے درمیان ہے اور اگر حکومت پاکستان اس منصوبے میں شریک ہوتی تو پھر میاں نواز شریف بہت پہلے حقیقت بیان کر چکے ہوتے۔

اس اجلاس میں تمام پارلیمانی سربراہوں نے کھل کر اپنے مؤقف کا اظہار کیا اور اپنے تحفظات و خدشات سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔اجلاس میں شریک ایک سیاسی جماعت کے راہ نما اس بات پر متفق ہیں کہ بہت عرصے بعد سنجیدہ گفت گو ہوئی۔وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ مغربی روٹ اگلے دو سال میں مکمل کر لیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اس مقصد کے لیے چالیس ارب روپے بھی جاری کر دیے جائیں گے۔سڑک چار لائنوں پر مشتمل ہو گی جسے بعد میں چھ لین موٹر وے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔خیبر پختون خوا حکومت مزید دو لین اضافے کے لیے اراضی مہیا کرے گی اور اخراجات وفاقی حکومت کرے گی۔

وزیر اعظم نے یہ یقین بھی دلایا کہ مغربی روٹ پر صنعتی بستیاں بھی قائم کی جائیں گی اور فائبر آپٹک بھی بچھائی جائے گی۔اس کل جماعتی کانفرنس کے بعد کسی حد تک سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور ہو گئے ہیں لیکن وزیر اعظم اگر دیر کرنے کی بجائے پہلے ہی خدشات دور کر دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔صوبائی حکومت کو بھی وزیر اعظم کی یقین دہانیوں کے بعد اب عمل درآمد کے حوالے سے نظر رکھنا ہو گی کہ ماضی میں اگر پہلے دن ہی سے وزیر اعلیٰ باقاعدگی سے اجلاسوں میں بہ نفس نفیس شرکت کرتے تو ممکن ہے کہ یہ معاملہ بہت پہلے حل ہو جاتا البتہ تین سال کے دور حکمرانی میں جس طرح عمران خان اور پرویز خٹک نے صوبے کے اس انتہائی مسئلے کو جس بھرپور انداز میں اٹھایا اس سے اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آیندہ سالوں میں یہ صوبہ بھی ترقی کے سفرپر گامزن ہوگا ۔
Load Next Story