اردو بے قاعدہ ٹ سے ٹھگ اور ٹھگی

جن افراد کو تاریخ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہوگا وہ امیر علی ٹھگ سے واقف ہونگے۔


شکیل صدیقی January 18, 2016

جن افراد کو تاریخ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہوگا وہ امیر علی ٹھگ سے واقف ہونگے۔ وہ ڈھکا چھپا ٹھگ تھا مگر ہمارے زمانے میں ٹھگ کھلے عام گھومتے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کرنیوالا کوئی نہیں اس لیے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ مزے کی بات یہ کہ ٹھگی بازی ہر پیمانے پر ہوتی ہے۔ چھوٹے ٹھگ لوگوں کی دھنیا میں برادہ ملادیتے ہیں، دودھ میں ملاوٹ کردیتے ہیں (جھاگ کے لیے سرف اور گاڑھا کرنے کے لیے سنگھاڑا) صاحبو! جن میں ایمان کی رمق باقی ہے، وہ دودھ میں پانی کے سوا کچھ نہیں ملاتے کہ وہ زود ہضم ہوجاتا ہے۔ (خاص طور پر بچوں کو ایسا دودھ پی کر کھٹی ڈکاریں نہیں آتیں) آٹے میں بھوسی کے ٹکڑے پیس کر ملا دیتے ہیں، مرچ میں لال اینٹ، گھی مکھن میں موبل آئل ملانے کا سلسلہ جاری ہے۔ (کام اتنا سلیقہ مندی اور سبھاؤ سے ہوتا ہے کہ قانون کے رکھوالے پکڑ ہی نہیں پاتے) گائے بکری کے گوشت میں گدھے کا گوشت ملانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔

شنیدن ہے کہ گدھے کے کباب بڑے شوق سے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھائے جا رہے ہیں (ٹھگی باز اس معاملے میں تیز مسالوں کا کمال دکھاتے ہیں، معلوم ہی نہیں ہونے دیتے کہ آپ کیا کھا رہے ہیں) ہر چیز کا دو نمبر اور تین نمبر مارکیٹ میں موجود۔ معلوم نہیں ایک نمبر کہاں جاتا ہے (کچھ مسخرے کہتے ہیں کہ جب آدمی ایک نمبر نہیں ملتا تو چیزیں ایک نمبر کیسے مل سکتی ہیں؟) اچھی سے اچھی دکانوں پر مشروبات جعلی دستیاب ہیں۔ یہاں تک کہ دین میں ملاوٹ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور معصوم لوگوں کو فرقوں میں بانٹا جارہا ہے۔

لوگ باہم دست و گریباں ہیں (پتا نہیں چلتا کہ راہ راست پر کون ہے، کسے جنت میں جانا ہے اور کسے جہنم میں) ہم صحیح ہیں اور باقی غلط کی درجہ بندی عام ہے۔ ہماری دینی کتابیں ''وہ'' نہیں پڑھتے اور ہم ''ان'' کی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے، حد یہ ہے مساجد بھی تقسیم ہوچکی ہیں، یہاں جانا ہے، وہاں نہیں جانا۔ بڑے ٹھگ بڑی ٹھگیاں کرتے ہیں۔ ایک ہی پلاٹ کو کئی کئی بار الاٹ کرتے ہیں، کئی کئی بار فروخت کرتے ہیں، ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے کے بعد اس پر پلازہ بنا کر الاٹ کردیتے ہیں۔ لوگ جب ان پلازاؤں میں قیام پذیر ہوجاتے ہیں تو انھیں نکلوا دیتے ہیں، انھی کے حق میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے (قانون کا بول بالا ایسے ہی تو ہوتا ہے)

سیاست میں ٹھگی بازی عام ہے۔ سیاستداں وعدے وعید ہزاروں اور کرتے کراتے کچھ نہیں (کچھ دل جلے انھیں گندے پانی کی مچھلیاں کہتے ہیں) بیان دینے کے بعد اپنی تصویریں بڑے طمطراق سے اخبارات میں شائع کرانا اور چینلز پر سیٹنگ کرکے انٹرویو دینا ان کا وتیرہ ہے۔ ایک ہزار سال پہلے کا کوئی اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، اس میں سیاسی رہنماؤں کے جو بیانات شائع ہوچکے ہیں، وہی آج تک شائع ہورہے ہیں۔ وطن عزیز اپنی جگہ پر ہے اور لوگوں کی معاشی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا، پہلے سے بدتر ہوگئی ہے۔ غریب مہا غریب اور امیر مہا امیر (ان کا جماعت کے امیر سے کوئی تعلق نہیں) سڑکیں اور بلند عمارات بنانے سے لوگوں کی معاشی حالت تو تبدیل نہیں ہوجاتی (البتہ جو تعمیراتی کام کراتا ہے اس کی چاندی ضرور ہوجاتی ہے) جو صحیح کام کرتا ہے، اس کی ٹانگ کھینچ لیتے ہیں۔ پارٹی بناتے ہیں جس میں اتنے ممبر ہوتے ہیں کہ تانگے میں آجائیں اسی لیے اسے تانگہ پارٹی کہا جاتا ہے۔ (جس میں تانگے والے وہ خود ہوتے ہیں)

ٹھگی سارے معاشرے میں سرائیت کرچکی ہے۔ ٹیلی وژن آن کیجیے۔ ایک ڈراما آرہا ہوتا ہے۔ ایک سال بعد ٹیلی وژن کھولنے پر بھی ویسا ہی ڈراما نظر آتا ہے۔ وہی کہانی، وہی مکالمے، وہی گھسی پٹی اداکاری (گویا ڈراما برسوں سے وہیں کھڑا ہوا ہے، البتہ سیٹ، لباس اور چہرے ''کچھ'' تبدیل ہوجاتے ہیں) ہیرو شادی کی فکر میں دبلا ہوتا رہتا ہے۔ (بالکل جیسے فلمی ہیرو محبت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا جانتا، آٹھ دس گانا گانے کے بعد آخرکار سوائے ہیروئن کے اس کی مٹھی میں کچھ نہیں ہوتا، دیکھنے والے جو تین گھنٹے سے سانس روکے بیٹھے تھے، اب اطمینان کا سانس لیتے ہیں) اس کے علاوہ دو لڑکے ایک لڑکی۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا، محبت کی تکون کا فارمولا عام ہے۔ ڈراما ہٹ ہوجائے تو سیریل بن جاتا ہے۔ پھر اکتا دینے والی سچویشن گھوم پھر کر آپ کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ وہی چہرے مہرے اور مزاح کے نام پر جگت بازی۔ (ہنسی کی جگہ رونا آنے لگتا ہے) بعض ڈراموں کی سو اقساط تک ہوجاتی ہیں، مگرنتیجہ صفر۔ (اغلب ہے کہ اسے ٹائیں ٹائیں فش بھی کہتے ہیں)

حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ٹیلیوژن کا سوئچ آن کیجیے تو وحشت ہونے لگتی ہے۔ ایک ہی خبر کو سب اپنے اپنے انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے قیامت صغریٰ آنیوالی ہے۔ اینکرز کا جوش و خروش دیکھنے والا ہوتا ہے، منہ سے جھاگ بہہ رہا ہوتا ہے اور آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے ہیں۔ متعلقہ افراد سے انٹرویو پہ انٹرویو لیتے پھر رہے ہیں۔ ڈفلی اور راگ اس طرح سے بجاتے ہیں جیسے کل جب آنکھ کھلے گی تو انقلاب آچکا ہوگا اور لوگوں کا معیار زندگی تبدیل ہوچکا ہوگا۔ مثال کے طور پر عمران خان کا کنٹینر پر چڑھنا اور حکومت کو للکارنا مگر جب گرد بیٹھ چکی اور سب نارمل ہوگئے تو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ نتیجہ آیا تو معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔اسپتالوں میں ٹھگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ علاج کرنے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ کچے علاقوں میں ''ابن بطوطہ کلینک'' کا بورڈ لگا ہوتا ہے، جہاں معالج کے پاس ڈگری نہیں ہوتی۔ مریض ڈگری کے بارے میں کچھ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

نرس مریض کو دیکھتے ہی ڈرپ لگا دیتی ہے۔ مریض کے ساتھ آنیوالوں کو یک گونہ اطمینان ہوجاتا ہے جب کہ مریض کی تکلیف اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے، چہرے سے کرب جھلکتا رہتا ہے، پھر کافی دیر بعد ڈاکٹر آتا ہے اور مریض کو نسخہ لکھ دیتا ہے تاکید کرتا ہے کہ سامنے والے میڈیکل اسٹور سے لے لیجیے اور مجھے دکھا دیجیے۔ میڈیکل اسٹور والے سے ڈاکٹر کی لائن بنی ہوتی ہے چنانچہ سب کا کام چلتا رہتا ہے، سوائے مریض کے۔ وہ شفایاب ہوگیا تو اس کی مرضی، ورنہ جہاں چاہے جاسکتا ہے۔ (عموماً وہ دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاکر ہی شفا پاتا ہے) چلتو ڈاکٹر چلتو ادویہ دے دیتے ہیں۔ (جس سے بعض اوقات مریض بھی چل دیتا ہے، قبرستان کی طرف)

ہومیو طریقہ علاج میں بھی ٹھگی ہے۔ ڈاکٹر نے نسخہ لکھ دیا۔ سیلڈ شیشی لینے پر تو آپ بچ جاتے ہیں، لیکن اگر آپ نے دکان سے ڈرم بھروایا تو کسی بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہ دکاندار کے پاس نسخے والی دوا نہیں ہے تو وہ کچھ بھی ڈرم میں بھر کر دے سکتا ہے، جس سے مریض فوراً نہ چل بسا تو لٹک ضرور جائے گا اور کافی دنوں تک لٹکا رہے گا (سولی پر)۔

کچے پکے علاقوں میں اسکولوں کی بہتات ہے۔ سب ٹھگی کے سہارے چل رہے ہیں (بلکہ دوڑ رہے ہیں) مزے کی بات یہ کہ سب کے سب انگلش میڈیم ہوتے ہیں (اردو میڈیم پر پیلا سا رنگ ہوتا ہے) معصوم والدین انگلش میڈیم کے نام پر دھوکا کھا جاتے ہیں اور بھاری فیسیں ادا کر ڈالتے ہیں) ایسے اسکولوں کی ٹیچرز میٹرک پاس ہوتی ہیں (جب کہ اسکول کی کتابیں ہانگ کانگ کی چھپی ہوتی ہیں) لینا ایک نہ دینا دو۔ طالب علم پہلے دن جہاں کھڑا ہوتا ہے، وہاں آخری روز بھی کھڑا ملتا ہے۔ مجبوراً والدین اسے ٹیوشن لگا دیتے ہیں۔ جب وہ پاس ہوجاتا ہے تو اسے اردو نما انگریزی آجاتی ہے اور کمپیوٹر میں شد بد۔ باقی مضامین کسی کام ہی نہیں آتے (جغرافیہ، تاریخ اور معاشرتی علوم بعد میں بھرتی کے مضامین بن جاتے ہیں اور ساری زندگی کام نہیں آتے)

کچھ مسخرے کہتے ہیں کہ وطن عزیز میں نہ پڑھائی ہوتی ہے اور نہ علاج کیا جاتا ہے۔ دونوں جگہوں پر کاروبار ہوتا ہے۔ چنانچہ طالب علم تعلیمی مراکز میں ٹائم پاس کرنے جاتے ہیں اور ہفتے میں ایک بار حاضری لگا کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہاں لیکچرار ہی نہیں آتے (وہ بھی تیرھ رام فیروز پوری کے ڈاکٹر فومانچو اور سنہری بچھو ہوتے ہیں)۔ طالب علموں کو جب ڈگری ملتی ہے تو اسے ہاتھ میں لے کر خاک چھانتے پھرتے ہیں، لہٰذا ملازمت، قابلیت کے بجائے پارٹی کی بنیاد پر ہی ملتی ہے (بات تو آپ سمجھ گئے ہیں نا؟ اب نتیجہ بھی خود نکال لیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں