ملالئی جس نے اپنے آنچل کو پرچم بناکرجنگ کا پانسہ پلٹ دیا
پختون تاریخ میں عورت کی جرأت کی علامت بن جانے والا کردار۔
ستمبر1878ء میں درّے کے راستے جاکر انگریز فوج افغانستان میں داخل ہوگئی۔
اس فوج کا ایک حصہ بولان کے راستے قندہار پر حملہ آور ہوا اور دوسرا کرم کے راستے افغانستان میں داخل ہوا اور تیسرا خیبر کے راستے افغانستان پہنچا۔ ان افواج کا مقامی باشندوں سے کوئی قابل ذکر مقابلہ نہ ہوا۔ امیر شیر علی خان کابل سے نکل کر ترکستان کی جانب روانہ ہوئے اور راستے ہی میں وفات پاگئے۔ افغانستان پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ افغانستان پر حملہ کرنا تو آسان تھا، لیکن اس ملک پر اپنا قبضہ قائم رکھنا بہت مشکل تھا۔ انگریزوں پر یہ حقیقت تو افغانستان کی پہلی لڑائی ہی میں منکشف ہوگئی تھی، مگر اس جنگ نے بھی ان پر یہ ثابت کردی۔
امیر شیر علی خان کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا یعقوب خان افغانستان کا امیر بنا۔ مئی1879ء میں امیر یعقوب خان اور برطانوی حکومت کے درمیان ''گندمک'' کے مقام پر ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے امیر کابل میں ایک برطانوی سفیر رکھنے کے لیے راضی ہوگیا۔ اس کے علاوہ لورالائی، ژوب، پشین اور نوشکی کے اضلاع بھی انگریزوں کے قبضے میں دے دیے گئے اور تمام دروں پر بھی انگریزوں کا قبضہ مان لیا گیا۔ چناںچہ 24جولائی 1879ء کو میجر سرکوئی برطانوی حکومت کے سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے کابل آگئے۔
تاریخ اپنے اعادے کے وقت کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔ انگریز سفیر کے آنے کے ڈیڑھ ماہ بعد انگریزوں کے خلاف پختونوں کے جذبات ایک دم بھڑک اٹھے اور اچانک ملک میں انارکی اور بغاوت پھیل گئی اور جنگ کی آگ، جو فرو ہوچکی تھی، پھر بھڑک اُٹھی۔ عام لوگوں اور باغیوں نے مل کر سفارت خانے کواپنے گھیرے میں لے لیا اور سفیر سرکوئی کو قتل کردیا گیا۔ گو کہ اس قتل میں امیریعقوب خان کا کوئی کردار نہیں تھا اور اس نے بھی اسے ایک اتفاقی سانحہ قراردیا اور سفیر کے قتل کی اطلاع خود حکومت ہند اور انگریزی افواج کے سالار کو دی، مگر انگریزوں نے سفیر کے قتل کا الزام یعقوب خان پر عاید کردیا۔ اگرچہ اس نے اپنی بے گناہی کے بہت سے عذر پیش کیے، لیکن اس کی ایک نہیں مانی گئی اور یکم ستمبر1879ء کو شاہی قیدی کی حیثیت سے ہندوستان روانہ کردیا گیا، جہاں اس نے ساری زندگی نظربندی کی حالت میں گزاری۔
یہ بغاوت چند روز جاری رہی، مگر انگریزی فوجوں نے تمام اہم مقامات پر قبضہ کرکے حالات کو قابو میں کرلیا۔ انگریز حکومت کا یہ ارادہ تھا کہ قندھار اور کابل کو صوبوں کی شکل دے کر انہیں ہندوستان میں شامل کردیا جائے، لیکن انگلستان کی لبرل پارٹی نے اس تجویز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور بڑی شدت سے اس تجویز کی مخالفت کی۔
انہی دنوں ایک طرف سردارعبدالرحمان افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا اور دوسری طرف امیریعقوب خان کا چھوٹا بھائی سردارایوب خان (جو بعد میں غازی میوند کے نام سے مشہور ہوئے اور جن کا مقبرہ پشاور میں ہے) بھی اپنی بادشاہی کے لیے ہاتھ پیرمار رہا تھا۔ سردارایوب خان ایک فوج کے ساتھ قندھار پر حملے کے ارادے سے ہرات سے روانہ ہوا۔ انگریزوں سے اس کا مقابلہ ''میوند'' کے مقام پر ہوا۔ جنگ میں ایوب خان کام یاب ہوا اور انگریز فوج کا بہت نقصان ہوا، مگر ایوب خان نے یہ جنگ کیوں اور کیسی جیتی؟ ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اس جنگ کی تاریخ پر ایک گہری نظر ڈالنی ہوگی۔
یہ آج سے ٹھیک ایک سو بتیس سال قبل 27جولائی 1880ء کا واقعہ ہے۔ افغانستان کے موجودہ صوبہ قندھار کے قریب علاقہ میوند کے میدان میں برطانوی فوج کے خلاف پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں برسرپیکار تھا۔ فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جنھکار سے گونج رہی تھی۔ گولا بارود کی بارش برس رہی تھی۔ دوران جنگ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پختونوں کے حوصلے پست نظر آنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے۔ کہ ایک خوب صورت پختون دوشیزہ ''ملالئی'' اچانک جنگ کے میدان میں نمودارہ وئی، اپنے دوپٹے سے جنھڈا بناکر لہرایا اور یہ تاریخی ٹپہ گایا
کہ پہ میوند کے شہید نہ شوے
گرانہ لالیہ بے نگئی تہ دے ساتینہ
( میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے، تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے)
ملالئی کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی، تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جوش وجذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس کی وجہ سے برطانوی فوج شکست کھاکر میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی اور پختون جنگ میوند میں فاتح ٹھہرے، اور ملالئی کا مذکورہ ''ٹپہ'' اور اس کا نام اور کارنامہ پختون تاریخ میں جرأت کا باب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گیا۔ جس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔
ملالئی میومند کے قریب خیگ نامی گائوں میں ایک گڈریے کے ہاں 1861ء میں پیدا ہوئی تھی۔ جنگِ میوند کے موقع پر اس کی عمر انیس سال تھی، جس جنگ کو جیتنے کا سہرا ملالئی کے سرجاتا ہے، اس میں ان کا باپ اور منگیتر بھی شریک تھے اور ان دونوں نے اس معرکے میں جام شہادت نوش کیا۔ برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالئی کی وجہ سے شکست کھائی، اگر وہ میدانِ جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی اور ٹپہ نہ گاتی توہم یہ جنگ جیتنے ہی والے تھے۔
افغانستان کی سرزمین اپنے محل وقوع کے اعتبار سے سنگلاخ پہاڑی سلسلوں سے گھری ہوئی ہے، جس کا بہت کم رقبہ قابل کاشت ہے۔ اس لیے وہاں کے باشندے جفاکش، محنتی اور سخت جان واقع ہوئے ہیں اور اس اعتبار سے ان کا مزاج بھی یہی ہے۔ اپنے اوائل ہی سے وہ جنگ وجدل میں مصروف رہے ہیں۔ ہر لمحہ بیرونی حملہ آوروں اور اجنبی حکم رانوں سے نبردآزمائی میں گزرا۔ خلافت بغداد کی فوجوں کے دوش بدوش، اسلامی جنگوں میں شرکت، مغلوں سے نبردآزمائی، مرہٹوں سے معرکہ آرائی، سکھوں کے ساتھ لڑائی اور انگریز سام راج سے قدم قدم پر تصادم۔ اس تمام پس منظرکو ذہن میں رکھ کر ہی ان کی تاریخ کا مطالعہ مفید رہتا ہے۔
پختون فطرتاً ایک آزاد قوم ہے۔ پختونوں کے دل میں آزادی کی بے پناہ لگن ہے۔ انگریز سام راج کے خلاف تحریک آزادی کی یادگار کے طور پر ان کی عوامی شاعری کی سب سے زیادہ قدیم اور مقبول صنف ٹپے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ واضح رہے کہ پختون شاعری کی سب سے مقبول اور قدیم ترین صنف ٹپہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ پختون عورت کی ایجاد ہے۔ پختون عورت ہمیشہ سے مردوں کے حُریت اور مزاحمت پر ابھارتی رہی ہے، جس کے غماز یہ ٹپے ہیں، جن کا ترجمہ یوں ہے:
آزادی کی راہ میں شہید ہوجائو
تاکہ میں سہیلیوں کے آگے سرخرو ہوجائوں
آزادی کی محبوبہ کہتی ہے کہ غلامی کے طلب گار کو بوسہ نہ دوں گی
میری مانگ اُجڑتی ہے تواُجڑ جائے
میں وطن کی جنگ میں جانے کے لیے اپنے محبوب کو ہرگز نہیں روکوں گی
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پختونوں کی اولوالعزمی کے کارناموں میں پختون عورت کا بھی بڑا حصہ ہے، جنگ کے ہنگاموں میں وہ گھبرانے یا خوف زدہ ہونے کے بجائے نوجوانوں کی ہمت بندھاتی ہے
مئینہ زہ اللہ دے مل شہ
زہ شینکے خال او زلفے تالرہ ساتمہ
(میرے محبوب جا، خدا حافظ، میرے سبزخال اور زلفیں تیری امانت ہیں) اور اس ٹپے میں تو ایسی عجیب خواہش کا اظہار کیا گیا ہے جو ایک پختون عورت ہی کرسکتی ہے:
ٹوٹے ٹوٹے پہ تورو راشے
چہ پرہرونہ دے گنڈم خولہ درکومہ
(کاش توتلوارسے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آئے، تاکہ میں تیرے زخم سیتے وقت تجھے بوسے دوں)
اسی طرح اس محبوبہ کے جذبات بھی دیکھیے جو میدان جنگ میں اپنے محبوب کو بھیجتی ہے، وہ یہ نہیں کہتی کہ میں تیرے لیے بے قرارہوں، خدا تجھے جلد واپس لائے میرا دل تیری جدائی میں ماہی بے آب بنا ہے، رات دن گریہ وزاری کرتی ہوں ایک لمحہ چین نہیں آتا، بل کہ وہ ایک عجیب لب ولہجے میں اسے للکارتی ہے:
جانانہ جنگ نہ پہ شا نہ شے
چہ دہ ہمزولومے رانہ شی پیغورونہ
چہ تورہ اوباسے گڈیگہ
ماپہ ہمزولوپورے ڈیرخندلی دینہ
(میرے محبوب جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا کہ مجھے اپنی سہیلیوں کے طعنے نہ سننے پڑیں۔ میدان جنگ میں ناچتے ہوئے تلوار نکالنا، میں نے اپنی سہیلیوں کی خوف زدہ مجبوریوں کا ہمیشہ مذاق اڑایا ہے) اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ پختونوں کے گھر میں ماتم نہیں شادی بن کر آتی ہے۔ اپنی ناموس کی حفاظت اور اپنی حریت کے تحفظ کے لیے جانیں لٹانا ان کے لیے کھیل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ مائیں بچوں کو بہنیں بھائیوں کو اور دوشیزائیں اپنے عاشقوں کو اسلحے سے سجاکر خوشی خوشی رخصت کرتی ہیں، اور ہر ایک اپنے طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ ایک دوشیزہ اپنے بزدل محبوب کو یوں جھنجھوڑتی ہے:
جنگ خود کلی مینزتہ راغلو
نامردہ پورتہ شہ چہ ملا دے اوتڑمہ
(جنگ توگائوں کے بیچ آگئی ہے، اے نامرد اٹھ کہ تیری کمر باندھوں) ایک اور کہتی ہے:
دنتکئی لال بہ پرے خیرات کڑم
کہ مے جانان پہ دغہ جنگ کے شہیدشنہ
(میں اپنی نتھ کا موتی خیرات میں دوں گا اگر میرا محبوب اس جنگ میں شہادت پاجائے)
کہ توراوربل مے میراتیگی
پہ وطن جنگ دے لالے نہ منع کومہ
(میری مانگ اجڑ جائے توپروا نہیں، وطن کے لیے جنگ ہے، محبوب کو جانے سے نہیں روکوں گی)
پختون عورت کی حب الوطنی اس کی تمام خواہشات پر غالب ہے۔ وہ نہ صرف مردوں کو وطن کی حفاظت کے لیے اکساتی ہے، بل کہ وقت پڑنے پر خود بھی میدان جنگ میں کودنے سے دریغ نہیں کرتی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے تن من دھن قربان کرنے کو سب سے زیادہ مقدم سمجھتی ہے:
خاوندہ سل زلہ جوندراکڑے
چہ دوطن پہ مینہ سل زلہ مڑہ شمہ
(یااﷲ مجھے سوبار زندگی دے، کہ میں اپنے وطن پرسو مرتبہ قربان ہوجائوں)
پختونوں میں وطنیت کا تصور بڑی قوت کا حامل ہے، لیکن یہ تصور محض اپنے وطن کی محبت اور تحفظ اور آزادی تک محدود ہے۔ اہل یورپ کی طرح دوسروں کی آزادی چھیننا انہیں گوارہ نہیں۔ وہ خود آزاد رہنا اور دوسروں کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں پختونوں کی لوری ''اﷲ ہو'' کی خصوصیت بھی یہ ہے کہ اس میں بچے کو بلی، کُتے یا ہوئے سے ڈرانے کے بجائے بہادری، اولوالعزمی اور غیرت وحمیت کا درس دیا جاتا ہے۔ جو آئندہ زندگی میں بچے کے لیے حزرجان بن جاتا ہے۔ اس میں اسلاف کے جُرأت مندانہ کارنامے جنگ کی کہانیاں حب الوطنی اور سخت کوشی کا درس ملتا ہے۔
پشتو کے شاعر انسانیت رحمان بابا اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
چہ پہ ننگ اوپہ ناموس ترلورہ کم وی
صدقہ شہ ناقابل زویہ ترلورہ
ترجمہ: جب غیرت اور بہادری میں بیٹی سے کم ہو، تو ایسے بیٹے کو بیٹی پر صدقہ کردوں۔
اس ثقافتی تناظر بہن بیٹیوں کی بہادری پر فخر کرنے والے پختون معاشرے کے لیے ملالئی کا کردار اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بھی پختونوں کی تاریخ میں قومی حمیت، بہادری اور حب الوطنی کی علامت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے اسکولز اور کالجز کے نصاب میں بھی ملالئی کی بہادری کا قصہ شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں اس کے نام سے کئی اسکولز اور اسپتال بھی منسوب کیے گئے ہیں، جب کہ ہم ایک معصوم چودہ سالا طالبہ ملالہ یوسف زئی کی معصوم آواز کو بھی ہمیشہ کے لیے دبانے سے دریغ نہیں کرتے، جو دنیا کی عورتوں کو علم وتعلیم اور ان کے نسوانی حقوق کی طرف راغب کرنا چاہتی ہے۔ کتنا بڑا فرق ہے۔ ہمارے دور جدید اور دورقدیم کی سوچ میں اس پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ترقی کی جانب گام زن ہیں یا کہ تنزل کی طرف جارہے ہیں ؟ مگر بقول علامہ قلندرمومند:
زما پہ نوم باندے کہ ہرسو سیاہی ومگی
د شب پرستو پہ افسون پہ رنڑا تورہ نہ شی
یہ پہ حال مستہ درخشانہ مستقبل زما دے
سپوگمئی کہ تندرکے راگیرہ شی سہ نورہ نہ شی
چاہے میرے نام پر سومرتبہ سیاہی مل دے
مگرشب پرستوں کی جادو سے روشنی اندھیرے میں بدل نہیں سکتی، اے حال میں مست رہنے والے! درخشاں مستقبل ہمارا ہے کیوں کہ اگر چاندگرہن بھی ہوجائے تو وہ پھر بھی چاند رہتا ہے۔