سعادت حسن تو مرگیا مگر منٹو آج بھی زندہ ہے
حقیقت یہ ہے کہ مغرور و بزدل قاری بھی منٹو کی کہانیوں کو چھپ چھپ کر پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
18 جنوری کو سعادت حسن مرگیا، لیکن منٹو آج بھی زندہ ہے۔ انسان مرجاتا ہے مگر اس کا فن ہمیشہ کے لئے اُسے امر کردیتا ہے۔ اردو ادب کا سفاک افسانہ نگار نہ صرف ہمیں اپنی کہانیوں میں منفرد و ہنگامہ خیز افسانہ نگار کے روپ میں نظر آیا بلکہ معاشرتی و عمرانی صورتحال کا ایک بڑا نقاد اگر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
تقسیم ہند، فسادات، بیہمانہ تشدد کے اثرات ان کے مشہور افسانوں میں واضح نظر آتے ہیں۔ مثلاََ ''مرلی کی دھن'' میں لکھتے ہیں کہ،
منٹو کی کہانیاں بلاشبہ دنیائے ادب میں تخلیق کے ساتھ ہی طوفان برپا کردیتیں اور ایک بڑے قیامت خیز حادثہ کا سبب بن جاتیں۔ مقدمے، مباحث، تہمتیں، دشنام طرازیاں ایک جانب بدنامی کا سبب بنتیں ہیں تو دوسری جانب یہی بدنامی ان کی شہرت میں روز افزوں ترقی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہ بدنامی اور یہی متنازعہ شخصیت ہی کا سبب تھا کہ وہ افسانوی ادب پر چھائے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرور و بزدل قاری بھی ان کی کہانیوں کو چھپ چھپ کر پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے۔ زندگی کے تلخ حقائق جب بے نقاب ہو کر سامنے آتے ہیں تو ہم عصر منٹو کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں، گویا اپنی گندگی منٹو پر اچھال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
آئیے اندر کے منٹو کو احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں تلاش کرتے ہیں،
چکی پیسنے والی عورت منٹو کی ہیروئن نہ تھی منٹو کی ہیروین تو ۔۔۔۔۔۔۔ رات کو جاگتی اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا ہے۔
منٹو کے اسلوب بیان یا اختصار و جامعیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ اگر مشاق نظروں سے منٹو کا مطالعہ کریں گے تو اس کے افسانوں کے فن و معنی کے رموز یقیناََ آپ کے سامنے بے نقاب ہوتے چلے جائیں گے۔
[poll id="899"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
تقسیم ہند، فسادات، بیہمانہ تشدد کے اثرات ان کے مشہور افسانوں میں واضح نظر آتے ہیں۔ مثلاََ ''مرلی کی دھن'' میں لکھتے ہیں کہ،
''وہ لہو کس کا ہے جو روز اتنی بے دردی سے بہایا جارہا ہے وہ ہڈیاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی جن پر سے مذہب کا گوشت پوست چیلیں اور گدھ نوچ کر کھاگئے ہیں''۔
منٹو کی کہانیاں بلاشبہ دنیائے ادب میں تخلیق کے ساتھ ہی طوفان برپا کردیتیں اور ایک بڑے قیامت خیز حادثہ کا سبب بن جاتیں۔ مقدمے، مباحث، تہمتیں، دشنام طرازیاں ایک جانب بدنامی کا سبب بنتیں ہیں تو دوسری جانب یہی بدنامی ان کی شہرت میں روز افزوں ترقی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہ بدنامی اور یہی متنازعہ شخصیت ہی کا سبب تھا کہ وہ افسانوی ادب پر چھائے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرور و بزدل قاری بھی ان کی کہانیوں کو چھپ چھپ کر پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے۔ زندگی کے تلخ حقائق جب بے نقاب ہو کر سامنے آتے ہیں تو ہم عصر منٹو کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں، گویا اپنی گندگی منٹو پر اچھال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
آئیے اندر کے منٹو کو احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں تلاش کرتے ہیں،
''میں دراصل آج کل اس جگہ پہنچا ہوا ہوں جہاں یقین اور انکار میں تمیز نہیں ہوسکتی، جہاں آپ سمجھتے ہیں اور نہیں بھی سمجھتے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ساری کی ساری میری مٹھی میں چلی آئی ہے اور بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہاتھی کے جسم پر چیونٹی کی طرح رینگ رہے ہیں''۔
چکی پیسنے والی عورت منٹو کی ہیروئن نہ تھی منٹو کی ہیروین تو ۔۔۔۔۔۔۔ رات کو جاگتی اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا ہے۔
منٹو کے اسلوب بیان یا اختصار و جامعیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ اگر مشاق نظروں سے منٹو کا مطالعہ کریں گے تو اس کے افسانوں کے فن و معنی کے رموز یقیناََ آپ کے سامنے بے نقاب ہوتے چلے جائیں گے۔
''میں پھر یہی کہوں گی سعادت حسن تو مرچکا مگر منٹو آج بھی زندہ ہے''۔
[poll id="899"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔