بھارت کا پرنالہ
پٹھان کوٹ ائربیس پر حملہ سے بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ چکا ہے
پٹھان کوٹ ائربیس پر حملہ سے بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ چکا ہے ۔ اس واقعہ پر بھارتی ذرایع ابلاغ کی رپورٹوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حملہ آور فوجی یونیفارم پہنے ہوئے تھے اور چوری کی سرکاری گاڑی میں سوار ہو کر آئے تھے ۔
وہ ائربیس کے رہایشی ایریا سے عسکری ایریا کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے تھے ، لیکن بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور 14گھنٹے کے اندر اندر ائربیس کو کلیئر کروا لیا۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کارروائی کے دوران ائربیس کے اوپر فوجی ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی دیکھی گئیں ۔ بھارت نے پہلے روز تو یہی کہا کہ دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہو سکی ، لیکن گزشتہ روز ، جیسا کی اس کی روایت رہی ہے ، دہشت گردی کی اس کارروائی کا سارا الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا ۔
یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان کو تمام ثبوت دیدے گئے ہیں اور بال اب پاکستان کی کورٹ میں ہے ۔ بھارت میں دہشت گردی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ، جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس اور ممبئی دھماکوں کا ملبہ بھی پاکستان ہی پر ڈالا گیا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بھارت کی اپنی انکوائری رپورٹ نے پاکستان کی بے گناہی ثابت کر دی تھی ،اور ممبئی دھماکوں کے مرکزی ملزم اجمل قصاب کو 'پاکستانی' قرار دینے کی بھارت کی تمام تر سعی بھی ناکام ہو گئی۔ اس کے باوجود اگر پٹھانکوٹ ائر بیس پر حملے کا تانا بانا پاکستان سے جوڑا جا رہا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کا پرنالہ اب ھی وہیں بہہ رہا ہے ، جہاں نریندرمودی کی راے ونڈ یاترا سے پہلے بہہ رہا تھا ۔
سچ تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے پٹھانکوٹ ائر بیس پر حملہ کے فوراً بعدانتہائی اعلیٰ سطح کی میٹنگ طلب کی گئی ، جس میں قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی یقینی بنائی گئی ۔ پٹھانکوٹ حملہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم جاری ہوا ۔ پھر خبر آئی کہ مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔ اس طرح کی 'مصدقہ اطلاعات' بھی حکومتی ذرایع کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو پیشگی مطلع کر دیا تھا کہ پاکستان سے آنے والے کچھ دہشت گرد پٹھانکوٹ ائربیس پر حملہ کرنے والے ہیںِ ۔
ان'مصدقہ اطلاعات' کی مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجیے کہ بھارت اپنے حساس ترین ائر بیس پرحملہ کی پیشگی اطلاع نہ صرف یہ کہ حکومت پاکستان سے شیئر کر رہا ہے ، بلکہ اس سے یہ حملہ رکوانے کی ا ستدعا بھی کر رہا ہے ۔ پٹھانکوٹ ائر بیس پرپاکستان کے فوری ردعمل کی تان وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان پر ٹوٹی کہ پٹھانکوٹ حملہ کے حقائق بے نقاب کیے جائیں گے۔ حملہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کو بھارت بھجوانے کی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں ۔
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے ۔ حکومت کی بدحواسی کا وہی نتیجہ نکلا ، جو نکلنا چاہیے تھا۔ یعنی ، جے آئی ٹی کے اعلان اور مسعود اظہر کی گرفتاری کے گزشتہ روز دہلی میں پی آئی اے کے دفتر پر حملہ ہوا اور اب بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے یہ کھلی دھمکی دی ہے کہ پٹھانکوٹ ائر بیس پر حملہ کے نتیجہ پوری دنیا ایک سال کے اندر اندر دیکھ لے گی ، اور یہ کہ پاکستانی جے آئی ٹی کو پٹھانکوٹ ائر بیس میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسایے بھی ہیں اور ایٹمی طاقتیں بھی ۔ اس تناظر میں بقائے باہمی کے نسخہ تو یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوں ۔ چنانچہ، مسلم لیگ ن ہو یا مسلم لیگ ق،جماعت اسلامی ہو یا جمعیت علماے اسلام، پیپلزپارٹی ہو یا ایم کیو ایم ، ایم کیوایم ہو یا تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت بھی بھارت سے جنگ نہیں چاہتی ہے ۔قائداعظم کی خواہش تو یہ تھی کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کو اب اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے ۔ وہ اس ضمن میں امریکا اورکینیڈا کے باہمی تعلقات کی مثال دیا کرتے تھے ۔
مولانامودودی کی امارت میں جماعت اسلامی کی بنیاد ہی پٹھانکوٹ میں رکھی گئی تھی ۔ بھارت میں آج بھی جماعت اسلامی نہ صرف موجود ہے بلکہ 'جماعت اسلامی ہند' کے نام سے اپنا سرگرم کرداربھی ادا کر رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمانے اسلام حقیقتاً جمعیت علماے ہند ہی کا پاکستانی ایڈیشن ہے ۔ اے این پی کے جدامجد خان عبدالغفار خان، مہاتما گاندھی کی نسبت سے'سرحدی گاندھی' ۔ کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔
ان کے بعد ولی خان اور اب اسفند یار ولی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات کے حامی ہیں۔ ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین کی یہ خواہش ہی نہیں، مطالبہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ رہ گئی پیپلزپارٹی ، تو اس کے خلاف الزام کی حد تک کہا جاتا ہے کہ بھارت سے تعلقات قائم کرنے کے لیے وہ ضرورت سے زیادہ پرجوش ہو جاتی ہے ۔ بعینہ پاکستانی میڈیا بھی، سوائے ایک آدھ کے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات چاہتا ہے ۔ نائن الیون کے اسٹیبلشمنٹ کا رخ بھی اندرونی دہشت گردی کی طرف مڑ چکا ہے ۔لال قلعہ فتح کرنے اور اس پر پرچم اسلام لہرانے کی سوچ اب قصہ پارینہ ہے ۔گویا ، پاکستان میں آج سوال یہ نہیں کہ پاک بھارت تعلقات خوش گوار ہونے چاہییں یا نہیں ؛ سوال یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کس طرح خوش گوار بنائے جا سکتے ہیں۔
پہلی رائے یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے ۔ اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں ۔بلکہ اس کے بعد بھی دو بار دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ یہ رائے پاکستان کے عسکری حلقوں کی یہی ہے اور ان کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کی بھی ۔
بقول سیکیورٹی امور کے امریکی ماہر بروس رائیڈل کے ، جنرل ایوب خان کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو سب سے زیادہ تقویت جنرل ضیاالحق کے دور میں ملی، جب جماعت اسلامی ان کے شانہ بہ شانہ کھڑی تھی ۔ یہ بھی اب کوئی راز نہیں کہ فروری 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی لاہور یاترا کے اختتام پرجاری ہونے والے 'اعلان لاہور' کے ابتدائی ڈرافٹ میںکشمیر کا ذکر موجود نہیں تھا اور جنرل مشرف کی مداخلت کے بعد ہی یہ ذکر ہوا تھا۔
جنرل مشرف اس حد تک مسئلہ کشمیر کے کورایشو ہونے پر اصرار کرتے تھے کہ جب واجپائی آگرہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیرکو بطور' کورایشو' تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے تو جنرل مشرف نے بھی مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح آگرہ سمٹ کا اختتام انتہائی ناخوشگوار انداز میں ہوا، اور واجپائی نے اس پر کافی سبکی محسوس کی تھی۔
دوسری رائے یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت اپنی جگہ ، لیکن پاکستان اوربھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات اس کے حل کے بغیر بھی قائم ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بے شک تین جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں موجود ہے ۔ علاوہ اس کے، کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل کشیدگی کے باعث پاکستان کے دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ کرنا پڑتا ہے ۔ نتیجتاً قومی معیشت غیر ضروری دباو اور عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے ۔
لہذابہتر یہ ہے کہ پاکستان فی الحال مسئلہ کشمیر کو بھول جائے اور جیسا کہ بھارت کہہ رہا ہے ، اس کے ساتھ ابھی صرف باہمی تجارت کی بات کرے؛ جب باہمی اعتماد کے رشتے مستحکم ہو جائیں تو کسی مرحلے پر کشمیر کی بات بھی ہو سکتی ہے ۔ ظاہراً نوازشریف کی حکمت عملی یہی ہے ۔ نوازشریف کے پچھلے دور میں واجپائی اور اس بار مودی ان کی دعوت پر لاہور یاترا کے لیے آئے لیکن دونوں بھارتی وزراے اعظم اپنی ہٹ کے اتنے پکے نکلے کہ مسئلہ کشمیرکو ''کور ایشو'' تو دور کی بات ، ایشو کہنے کے لیے بھی تیار نہ ہوئے ۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو ''کراس بارڈر ٹیررازم'' قرار دیتا ہے ۔ نائن الیون کے بعد اس کے لیے دنیا کو یہ باور کرانے میں مزید آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔ جنرل مشرف نے بھارت کی اس حکمت عملی کو سمجھا اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسے ناکام بنانے کی کوشش بھی کی ، لیکن ان کے بعد زرداری حکومت اور اب نوازشریف حکومت 'باہمی اعتماد کی بحالی' کے نام پر پے در پے ایسے عاقبت نااندیشانہ اقدامات کر رہی ہے ، جس کے نتیجہ میں پاکستان کے خلاف بھارت کے دہشت گردی کے الزامات کو تقویت مل رہی ہے ،بلکہ اب تو امریکا کی طرح وہ بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے ۔شاعر نے کہا تھا،
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ 'بے ننگ ونام ہے'
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں