تندرستی ہزار نعمت ہے
امریکی ناول نگار آئزک اسیموا کا قول ہے کہ زندگی خوش گوار کیفیت کا نام ہے
امریکی ناول نگار آئزک اسیموا کا قول ہے کہ زندگی خوش گوار کیفیت کا نام ہے جب کہ موت انتہائی سکون کی علامت ہے البتہ درمیانی وقفہ تھوڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میر تقی میر نے اس بات کو اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کیا ہے۔
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ زندگی کی خوش گواری کا دارومدار صحت پر ہے۔ اس کا اندازہ ان ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے لیکن بے چارے صحت کی سب سے بڑی دولت سے محروم ہیں۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ بات اگرچہ برسوں پرانی ہے مگر ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔ ہمیں ایک ویڈیو انٹرویو کے سلسلے میں وطن عزیز کے ایک ممتاز صنعت کار سے ملاقات کرنا تھی جس کے لیے سہ پہر کا وقت مقرر تھا۔
جب ہم ان سے ملنے کے لیے ان کے آفس پہنچے تو انھوں نے ہماری خاطر تواضع کے لیے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا، ہائی ٹی کے نام پر انواع و اقسام کی نعمتیں میز پر سجی ہوئی تھیں مگر ہمیں یہ جان کر بڑا زبردست دھچکا لگا کہ خرابی صحت کی وجہ سے میزبان موصوف ان میں سے کوئی بھی نعمت چکھنے تک سے محروم تھے کیوں کہ ان کے معالجین نے انھیں سخت پرہیز کی ہدایت کی ہوئی تھی۔ ہم نے اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور دل ہی دل میں اس شعر کو دہرایا:
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
بلاشبہ صحت اﷲ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے، اسی لیے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت کے شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جب اپنے نائب کے ہمراہ لندن کے ایک اسپتال کے دورے پر گئے تو مریضوں کی مزاج پرسی سے قبل اپنی آستینیں چڑھانا بھول گئے، جوکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی، اس پر اسپتال کے ڈاکٹر ڈیوڈ نن نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور فوراً باہر نکل جانے کو کہا، اسپتال ہائی جین کی یہ خلاف ورزی ناقابل برداشت قرار پائی اور وزیراعظم کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہ ہوسکا۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں ناداری اور بیماری سب سے بڑا عذاب ہے، ہمارے حکمران ووٹ حاصل کرنے کی حد تک تو جمہوریت کے متوالے ہیں لیکن غریبوں کی حالت زار سے انھیں کوئی دلچسپی اور غرض نہیں ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں صوبہ سندھ کے علاقے مٹھی میں کئی معصوم بچے گیسٹرو اور ڈائیریا جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر لقمہ اجل بن گئے، اس علاقے میں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔
مٹھی کے سول اسپتال میں نہ صرف دواؤں کی شدید قلت ہے بلکہ طبی عملے کی بھی بڑی زبردست کمی ہے، اس کے علاوہ چھاچھرو، ننگر پارکر، ڈیپلو اور اسلام کوٹ وغیرہ سے بھی اس طرح کی ناگفتہ بہ صورتحال کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ضلع کے محکمہ صحت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹروں کی تقریباً 298 آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، جن میں خواتین ڈاکٹروں کی 22 آسامیاں بھی شامل ہیں۔ افسران بالا کی شان بے نیازی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 70 سے زیادہ ڈاکٹرز جنھیں کنٹریکٹ پر رکھا گیا تھا ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مستقل ملازمت کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے۔
مٹھی کے سول اسپتال کے حالات بھی تسلی بخش نہیں ہیں، جہاں 24 ڈاکٹروں کی کمی انتہائی شدت سے محسوس کی جارہی ہے، جن میں زیادہ تر ڈاکٹر اسپیشلسٹ ہیں۔ ان میں 7 خواتین ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ 174 بستروں والا یہ اسپتال فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ 174 بستروں کی تعداد والے اس اسپتال میں صرف 74 بستروں کے لیے ہی فنڈز دستیاب ہیں۔ اتنی خراب صورتحال میں بے چارے مریضوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہوگا اس کا اندازہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ گزرچکا جب سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اسلام کوٹ اور چھاچھرو کے ہیلتھ سینٹرز کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر عالم یہ ہے کہ بقول غالب۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ضلع کی 215 ڈسپنسریز میں سے صرف 30 ڈسپنسریز کو فنڈز میسر ہیں، جن کے سوا باقی کے تمام دواخانوں کا بہت برا حال ہے۔ یہ اس صوبے کا حال ہے جہاں مدت دراز سے عوام کا دم بھرنے والی پیپلزپارٹی کی حکمرانی ہے، اس کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی حکومت نے تھر کے علاقے کو خصوصی اہمیت دی ہے اور مٹھی کے ضلع اسپتال کو جدید ترین آلات سے لیس کرکے ایک مثالی صحت گاہ بنادیا گیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے ماتحت کام کرنے اور جی حضوری کرنے والے سرکاری اہلکار ''سب اچھا ہے'' کی ہی رپورٹ دے رہے ہیں، مثلاً کمشنر میرپورخاص ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں فرمایا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں تھر کا دورہ کیا ہے اور وہاں انھیں کہیں بھی قحط سالی کے آثار نظر نہیں آئے۔ انھوں نے یہ عذرِ لنگ بھی پیش کیا کہ چوں کہ اسپتال ڈسٹرکٹ اور تعلقہ ہیڈ کوارٹرز میں قائم ہیں اس لیے دور دراز کے مریضوں کو ٹرانسپورٹ کی دقت کی وجہ سے وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
انھوں نے تجویز پیش کی کہ مریضوں کو جلد از جلد اسپتال پہنچانے کے لیے 4x4 ایمبولینس گاڑیاں مہیا کی جائیں، سننے میں آیا ہے کہ چیف منسٹر سائیں نے یہ تجویز منظور کرکے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ کو مطلوبہ فنڈز کی فراہمی کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ہدایات پر کب اور کس حد تک عمل ہوتا ہے؟ اور عمل ہوتا بھی یا نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے وعدے تو ماضی میں بھی بھولے بھالے عوام کو طفل تسلیاں دینے کے لیے بار بار اور وقتاً فوقتاً کیے جاتے رہے ہیں۔
تھر سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے شاہ سائیں کی جے جے کرتے ہوئے کہاکہ تھر میں نہ تو کوئی قحط سالی کی کیفیت ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتوں کی کوئی کمی ہے، یہ سب میڈیا کی کارستانی ہے جو بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہاہے۔
تاہم انھوں نے وزیراعلیٰ کو تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کا مشورہ دیا جس کے زیر سایہ خرابیوں کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے اور علاقے کی ترقی کا بندوبست بھی ہوسکے۔ برسبیل تذکرہ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ 400 آر او پلانٹس میں سے 100 خراب پڑے ہیں، جن کی مرمت کے بارے میں وزیراعلیٰ نے فوری احکامات جاری کردیے، ڈاکٹر مہیش نے یہ سجھاؤ بھی پیش کیا کہ مقامی لڑکیوں کو مڈوائفری اور نرسنگ کی تربیت دی جائے تاکہ سرکاری اسپتالوں، میٹرنٹی ہومز اور دواخانوں میں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ نے اسلام کوٹ اور چھاچھرو تعلقوں کے اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے ہیں۔
شاہ سائیں نے 5ممبران پر مشتمل ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کی نگرانی میں امدادی اور سہولیاتی سرگرمیاں انجام پذیر ہوںگی، کمیٹی کے ارکان میں ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی بھی شامل ہوںگے جو تھر کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کریںگے اور جنگی بنیاد پر ان کا حل بھی پیش کریںگے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے فیصلے اور اقدامات لائق تحسین تو ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتے:
وقت پر کافی ہے قطرہ ابرِ خوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ زندگی کی خوش گواری کا دارومدار صحت پر ہے۔ اس کا اندازہ ان ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے لیکن بے چارے صحت کی سب سے بڑی دولت سے محروم ہیں۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ بات اگرچہ برسوں پرانی ہے مگر ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔ ہمیں ایک ویڈیو انٹرویو کے سلسلے میں وطن عزیز کے ایک ممتاز صنعت کار سے ملاقات کرنا تھی جس کے لیے سہ پہر کا وقت مقرر تھا۔
جب ہم ان سے ملنے کے لیے ان کے آفس پہنچے تو انھوں نے ہماری خاطر تواضع کے لیے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا، ہائی ٹی کے نام پر انواع و اقسام کی نعمتیں میز پر سجی ہوئی تھیں مگر ہمیں یہ جان کر بڑا زبردست دھچکا لگا کہ خرابی صحت کی وجہ سے میزبان موصوف ان میں سے کوئی بھی نعمت چکھنے تک سے محروم تھے کیوں کہ ان کے معالجین نے انھیں سخت پرہیز کی ہدایت کی ہوئی تھی۔ ہم نے اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور دل ہی دل میں اس شعر کو دہرایا:
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
بلاشبہ صحت اﷲ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے، اسی لیے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت کے شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جب اپنے نائب کے ہمراہ لندن کے ایک اسپتال کے دورے پر گئے تو مریضوں کی مزاج پرسی سے قبل اپنی آستینیں چڑھانا بھول گئے، جوکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی، اس پر اسپتال کے ڈاکٹر ڈیوڈ نن نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور فوراً باہر نکل جانے کو کہا، اسپتال ہائی جین کی یہ خلاف ورزی ناقابل برداشت قرار پائی اور وزیراعظم کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہ ہوسکا۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں ناداری اور بیماری سب سے بڑا عذاب ہے، ہمارے حکمران ووٹ حاصل کرنے کی حد تک تو جمہوریت کے متوالے ہیں لیکن غریبوں کی حالت زار سے انھیں کوئی دلچسپی اور غرض نہیں ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں صوبہ سندھ کے علاقے مٹھی میں کئی معصوم بچے گیسٹرو اور ڈائیریا جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر لقمہ اجل بن گئے، اس علاقے میں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔
مٹھی کے سول اسپتال میں نہ صرف دواؤں کی شدید قلت ہے بلکہ طبی عملے کی بھی بڑی زبردست کمی ہے، اس کے علاوہ چھاچھرو، ننگر پارکر، ڈیپلو اور اسلام کوٹ وغیرہ سے بھی اس طرح کی ناگفتہ بہ صورتحال کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ضلع کے محکمہ صحت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹروں کی تقریباً 298 آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، جن میں خواتین ڈاکٹروں کی 22 آسامیاں بھی شامل ہیں۔ افسران بالا کی شان بے نیازی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 70 سے زیادہ ڈاکٹرز جنھیں کنٹریکٹ پر رکھا گیا تھا ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مستقل ملازمت کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے۔
مٹھی کے سول اسپتال کے حالات بھی تسلی بخش نہیں ہیں، جہاں 24 ڈاکٹروں کی کمی انتہائی شدت سے محسوس کی جارہی ہے، جن میں زیادہ تر ڈاکٹر اسپیشلسٹ ہیں۔ ان میں 7 خواتین ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ 174 بستروں والا یہ اسپتال فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ 174 بستروں کی تعداد والے اس اسپتال میں صرف 74 بستروں کے لیے ہی فنڈز دستیاب ہیں۔ اتنی خراب صورتحال میں بے چارے مریضوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہوگا اس کا اندازہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ گزرچکا جب سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اسلام کوٹ اور چھاچھرو کے ہیلتھ سینٹرز کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر عالم یہ ہے کہ بقول غالب۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ضلع کی 215 ڈسپنسریز میں سے صرف 30 ڈسپنسریز کو فنڈز میسر ہیں، جن کے سوا باقی کے تمام دواخانوں کا بہت برا حال ہے۔ یہ اس صوبے کا حال ہے جہاں مدت دراز سے عوام کا دم بھرنے والی پیپلزپارٹی کی حکمرانی ہے، اس کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی حکومت نے تھر کے علاقے کو خصوصی اہمیت دی ہے اور مٹھی کے ضلع اسپتال کو جدید ترین آلات سے لیس کرکے ایک مثالی صحت گاہ بنادیا گیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے ماتحت کام کرنے اور جی حضوری کرنے والے سرکاری اہلکار ''سب اچھا ہے'' کی ہی رپورٹ دے رہے ہیں، مثلاً کمشنر میرپورخاص ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں فرمایا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں تھر کا دورہ کیا ہے اور وہاں انھیں کہیں بھی قحط سالی کے آثار نظر نہیں آئے۔ انھوں نے یہ عذرِ لنگ بھی پیش کیا کہ چوں کہ اسپتال ڈسٹرکٹ اور تعلقہ ہیڈ کوارٹرز میں قائم ہیں اس لیے دور دراز کے مریضوں کو ٹرانسپورٹ کی دقت کی وجہ سے وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
انھوں نے تجویز پیش کی کہ مریضوں کو جلد از جلد اسپتال پہنچانے کے لیے 4x4 ایمبولینس گاڑیاں مہیا کی جائیں، سننے میں آیا ہے کہ چیف منسٹر سائیں نے یہ تجویز منظور کرکے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ کو مطلوبہ فنڈز کی فراہمی کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ہدایات پر کب اور کس حد تک عمل ہوتا ہے؟ اور عمل ہوتا بھی یا نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے وعدے تو ماضی میں بھی بھولے بھالے عوام کو طفل تسلیاں دینے کے لیے بار بار اور وقتاً فوقتاً کیے جاتے رہے ہیں۔
تھر سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی نے شاہ سائیں کی جے جے کرتے ہوئے کہاکہ تھر میں نہ تو کوئی قحط سالی کی کیفیت ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتوں کی کوئی کمی ہے، یہ سب میڈیا کی کارستانی ہے جو بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہاہے۔
تاہم انھوں نے وزیراعلیٰ کو تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کا مشورہ دیا جس کے زیر سایہ خرابیوں کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے اور علاقے کی ترقی کا بندوبست بھی ہوسکے۔ برسبیل تذکرہ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ 400 آر او پلانٹس میں سے 100 خراب پڑے ہیں، جن کی مرمت کے بارے میں وزیراعلیٰ نے فوری احکامات جاری کردیے، ڈاکٹر مہیش نے یہ سجھاؤ بھی پیش کیا کہ مقامی لڑکیوں کو مڈوائفری اور نرسنگ کی تربیت دی جائے تاکہ سرکاری اسپتالوں، میٹرنٹی ہومز اور دواخانوں میں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ نے اسلام کوٹ اور چھاچھرو تعلقوں کے اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے ہیں۔
شاہ سائیں نے 5ممبران پر مشتمل ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کی نگرانی میں امدادی اور سہولیاتی سرگرمیاں انجام پذیر ہوںگی، کمیٹی کے ارکان میں ایم پی اے ڈاکٹر مہیش ملانی بھی شامل ہوںگے جو تھر کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کریںگے اور جنگی بنیاد پر ان کا حل بھی پیش کریںگے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے فیصلے اور اقدامات لائق تحسین تو ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتے:
وقت پر کافی ہے قطرہ ابرِ خوش ہنگام کا
جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا