ایران کے ساتھ بینکاری روابط قائم کرنے کافیصلہ
دونوں ملکوں میں صرف 10کروڑ 76لاکھ ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جبکہ 5سال قبل باہمی تجارت کا حجم 73کروڑ 49 لاکھ ڈالر تھا
ایران پر عالمی پابندیوں ختم ہونے کے بعد حکومت نے دوطرفہ تعلقات اور تجارت کو فروغ دینے کیلیے ایران کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) اور بینکاری نظام کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مذاکرات فروری میں ہونگے۔
وزارت تجارت کے حکام کے مطابق پاکستان اور ایران میں ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود باہمی تجارت انتہائی کم ہے، گزشتہ 5سال میں باہمی تجارت75فیصدکم ہو گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، اس وقت دونوں ملکوں میں صرف 10کروڑ 76لاکھ ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جبکہ 5سال قبل باہمی تجارت کا حجم 73کروڑ 49 لاکھ ڈالر تھا، تجارت میں سب سے بڑی رکاوٹ عالمی پابندیوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان بینکاری نظام کا فقدان اور ڈیوٹیز میں بے جا اضافہ ہے۔
اس ضمن میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت تجارت روبینہ اطہر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایران سے عالمی پابندیاں اٹھنے کے ساتھ ہی تجارت کے فروغ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں، ایران کے ساتھ بینکاری نظام کے قیام کیلیے اسٹیٹ بینک سے رابطہ اور تجاویز طلب کی گئی ہیں کیونکہ فوری طور پر بینکاری نظام کے قیام سے ہی تجارت کو فروغ ملے گا، پاکستان اور ایران کے مابین 4مارچ 2004 کو ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
انھوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر سسٹم بڑے معاہدوں میں ممکن نہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم کے مئی 2014 میں دورہ تہران کے دوران دونوں ملکوں نے 1 معاہدے اور 8 ایم او یوز پر دستخط کیے تاکہ مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔
اس موقع پر دونوں اطراف سے خواہش ظاہر کی گئی کہ باہمی تجارت کو سالانہ 5ارب ڈالر تک لے جایا جائیگا، اس ضمن میں وزیر اعظم کے مشیر خارجہ اور دیگر کابینہ ارکان نے اپنے ایرانی ہم منصبوں سے روابط قائم کیے رکھے۔
وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے اکتوبر 2014 اور وزیر تجارت خرم دستگیر نے اپریل 2015 میں تہران کا دورہ کیا جو جوائنٹ ٹریڈ کمپنی کے 7ویں راؤنڈ کے ضمن میں تھا، ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور دوطرفہ تجارتی تعلقات کو زیر بحث لایا گیا ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے اپریل اور اگست 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا، ایرانی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شیم خانی نے اکتوبر 2015میں اسلام آباد کا دورہ کیا۔
وزارت تجارت کے حکام کے مطابق پاکستان اور ایران میں ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود باہمی تجارت انتہائی کم ہے، گزشتہ 5سال میں باہمی تجارت75فیصدکم ہو گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، اس وقت دونوں ملکوں میں صرف 10کروڑ 76لاکھ ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جبکہ 5سال قبل باہمی تجارت کا حجم 73کروڑ 49 لاکھ ڈالر تھا، تجارت میں سب سے بڑی رکاوٹ عالمی پابندیوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان بینکاری نظام کا فقدان اور ڈیوٹیز میں بے جا اضافہ ہے۔
اس ضمن میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت تجارت روبینہ اطہر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایران سے عالمی پابندیاں اٹھنے کے ساتھ ہی تجارت کے فروغ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں، ایران کے ساتھ بینکاری نظام کے قیام کیلیے اسٹیٹ بینک سے رابطہ اور تجاویز طلب کی گئی ہیں کیونکہ فوری طور پر بینکاری نظام کے قیام سے ہی تجارت کو فروغ ملے گا، پاکستان اور ایران کے مابین 4مارچ 2004 کو ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
انھوں نے کہاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر سسٹم بڑے معاہدوں میں ممکن نہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم کے مئی 2014 میں دورہ تہران کے دوران دونوں ملکوں نے 1 معاہدے اور 8 ایم او یوز پر دستخط کیے تاکہ مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔
اس موقع پر دونوں اطراف سے خواہش ظاہر کی گئی کہ باہمی تجارت کو سالانہ 5ارب ڈالر تک لے جایا جائیگا، اس ضمن میں وزیر اعظم کے مشیر خارجہ اور دیگر کابینہ ارکان نے اپنے ایرانی ہم منصبوں سے روابط قائم کیے رکھے۔
وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے اکتوبر 2014 اور وزیر تجارت خرم دستگیر نے اپریل 2015 میں تہران کا دورہ کیا جو جوائنٹ ٹریڈ کمپنی کے 7ویں راؤنڈ کے ضمن میں تھا، ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور دوطرفہ تجارتی تعلقات کو زیر بحث لایا گیا ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے اپریل اور اگست 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا، ایرانی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شیم خانی نے اکتوبر 2015میں اسلام آباد کا دورہ کیا۔