دنیا بھر میں مردہ بچوں کی پیدائش میں پاکستان سرفہرست
سال 2015 میں پاکستان میں 2 لاکھ 33 ہزار بچے مردہ پیدا ہوئے، رپورٹ
BANNU:
دنیا بھر میں پاکستان مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اول نمبر پر ہے جہاں آبادی کے تناسب سے مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے مقبول طبی جریدے ''دی لینسٹ'' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر روز 3287 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں جن کی موت کو باآسانی روکنا ممکن ہے اور ایک سال میں ان کی تعداد قریباً 26 لاکھ ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں صحت اور طبی مدد کی ناقص صورتحال ہے اور اسی لیے مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے جو70 فیصد سے بھی زائد ہے اور ان میں بھی پاکستان سرِفہرست ہے۔
جریدے میں شائع ہونے والے طویل تحقیقی مقالے میں سال 2000 سے 2015 تک کے لیے عالمی طور پر مردہ پیدائشوں کا شماریاتی جائزہ لیا گیا ہے اور گزشتہ برس بے جان پیدا ہونے والے بچوں کی تفصیل شائع کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پہلے 10 ممالک میں بالترتیب پاکستان، نائیجیریا، چاڈ ، گنی بساؤ، نائیجر، صومالیہ ، جیبوٹی، سینٹرل افریقن ریپبلک، ٹونگو اور مالی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2015 میں پاکستان میں 2 لاکھ 33 ہزار بچے مردہ پیدا ہوئے یا پیدائش کے فوراً بعد دم توڑگئے۔ اس کےعلاوہ بھارت میں 5 لاکھ 92 ہزار بچے مردہ پیدا ہوئے اور نائیجیریا میں 3 لاکھ 14 ہزار بچوں کی مردہ پیدائش ہوئی لیکن آبادی کےلحاظ سے پاکستان میں یہ شرح بہت بلند ہے اور اسی لیے پاکستان پہلے نمبر پر ہے کیونکہ یہاں 1000 میں سے 30 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں یا بعد میں دم توڑجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مقررہ تاریخ کے کئی روز بعد زچگی ان بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ اس کے علاوہ خوراک، رہن سہن، امراض اور ناقص طبی سہولیات بھی ہلاکتوں کے اہم عوامل میں شامل ہیں جب کہ ملیریا سے بھی 8 فیصد اموات واقع ہوجاتی ہیں۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ان بچوں کی زندگی بچانے کے لیے مڈوائف اور دائیوں کی مناسب تربیت کو اول ترجیح دی جائے جب کہ ماؤں کی صحت اور خوراک کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ نومولود کی بقا کا انحصار صحت مند ماں پر ہوتا ہے۔ حال ہی میں تھر میں نومولود بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ماؤں میں غذا کی کمی کو قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرا نمبر صحت کی ناکافی سہولیات شامل ہیں۔
دنیا بھر میں پاکستان مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اول نمبر پر ہے جہاں آبادی کے تناسب سے مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے مقبول طبی جریدے ''دی لینسٹ'' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر روز 3287 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں جن کی موت کو باآسانی روکنا ممکن ہے اور ایک سال میں ان کی تعداد قریباً 26 لاکھ ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں صحت اور طبی مدد کی ناقص صورتحال ہے اور اسی لیے مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے جو70 فیصد سے بھی زائد ہے اور ان میں بھی پاکستان سرِفہرست ہے۔
جریدے میں شائع ہونے والے طویل تحقیقی مقالے میں سال 2000 سے 2015 تک کے لیے عالمی طور پر مردہ پیدائشوں کا شماریاتی جائزہ لیا گیا ہے اور گزشتہ برس بے جان پیدا ہونے والے بچوں کی تفصیل شائع کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پہلے 10 ممالک میں بالترتیب پاکستان، نائیجیریا، چاڈ ، گنی بساؤ، نائیجر، صومالیہ ، جیبوٹی، سینٹرل افریقن ریپبلک، ٹونگو اور مالی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2015 میں پاکستان میں 2 لاکھ 33 ہزار بچے مردہ پیدا ہوئے یا پیدائش کے فوراً بعد دم توڑگئے۔ اس کےعلاوہ بھارت میں 5 لاکھ 92 ہزار بچے مردہ پیدا ہوئے اور نائیجیریا میں 3 لاکھ 14 ہزار بچوں کی مردہ پیدائش ہوئی لیکن آبادی کےلحاظ سے پاکستان میں یہ شرح بہت بلند ہے اور اسی لیے پاکستان پہلے نمبر پر ہے کیونکہ یہاں 1000 میں سے 30 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں یا بعد میں دم توڑجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مقررہ تاریخ کے کئی روز بعد زچگی ان بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ اس کے علاوہ خوراک، رہن سہن، امراض اور ناقص طبی سہولیات بھی ہلاکتوں کے اہم عوامل میں شامل ہیں جب کہ ملیریا سے بھی 8 فیصد اموات واقع ہوجاتی ہیں۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ان بچوں کی زندگی بچانے کے لیے مڈوائف اور دائیوں کی مناسب تربیت کو اول ترجیح دی جائے جب کہ ماؤں کی صحت اور خوراک کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ نومولود کی بقا کا انحصار صحت مند ماں پر ہوتا ہے۔ حال ہی میں تھر میں نومولود بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ماؤں میں غذا کی کمی کو قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرا نمبر صحت کی ناکافی سہولیات شامل ہیں۔