جنرل مشرف کے ٹی وی انٹرویو
کئی سینئرفوجی افسروں کے بقول اس احمقانہ آپریشن میں ہمارے جتنے جواں سال اور بہادر افسر شہید ہوگئے
MUMBAI:
شادی کی ایک تقریب میں ایک دوست نے ایک سینئر اینکر سے پوچھا کہ انٹرویو لیتے وقت سیاستدانوں کے ساتھ آپ کا انداز جارحانہ اور جرنیلوں کے ساتھ فدویانہ ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟ تو اس نے کہا اس کی دو وجوہات ہیں پہلی ڈر اور دوسری خوف ۔
حال ہی میں جنرل مشرف کے ایک دو ٹی وی انٹرویو ز دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں بڑے مودبانہ انداز میں بڑےBenign سے سوال کیے گئے لیکن پھر بھی ان کی شخصیّت کے کئی پہلومزید کھل کر سامنے آگئے۔ حیرانی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ کسطرح وہ کارگل جیسے مس ایڈونچر کا ذکر بڑے فخر کے ساتھ کرتے ہیں۔ راقم کی جس جنرل سے بھی بات ہوئی ہے اس نے کارگل آپریشن کو ill planned, ill Conceived اور ill executedقرار دیا ہے۔
چونکہ آپریشن میں حصّہ لینے والے فوجی افسروں اور جوانوں کو مجاہدین قرار دیا گیا تھا اس لیے نہ ان کے لیے سپلائی کا بندوبست تھااور نہ ہی انھیں Air Coverفراہم کیا گیا تھا۔ ہمارے اپنے ایک رشتے دارمیجر نے کارگل سے واپسی پر بتا یا کہ خوراک کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے افسرگھاس کھاتے رہے اور مشرف کو بر ا بھلا کہتے رہے، جنرل جاوید پر نوجوان افسروں نے جوتے پھینکے ۔۔۔ اور جنگ بند کرانے پر (جس کے لیے خود جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے وزیرِاعظم کو قائل کرکے امریکا بھیجا تھا) کارگل کی چوٹیوں پر تعینات فوجی افسروں اور جوانوں نے وزیرِاعظم نوازشریف کے حق میں نعرے لگائے۔
کئی سینئرفوجی افسروں کے بقول اس احمقانہ آپریشن میں ہمارے جتنے جواں سال اور بہادر افسر شہید ہوگئے اتنی تعداد میںبڑی جنگوں میں نہیں ہوئے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی عزت اور مقام میں بہت اضافہ ہوا تھا تمام بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کو برابری کی سطح پر دیکھتے اور ٹریٹ کرتے تھے کارگل کے بعد حالات بالکل تبدیل ہوگئے۔
پاکستان اور پاکستان کی فوج کا امیج بہت خراب ہوا ، اس مس ایڈونچر کی وجہ سے پاکستان کو ایک غیر ذمے دار ملک سمجھا جانے لگا ۔ عالمی سطح پر ہمارا کسی نے ساتھ نہ دیا اور پاکستان تنہائی (isolation) کا شکار ہوگیا، اس کے بعد 1998 والا کھویا ہوا مقام پاکستان کو دوبارہ نہ مل سکا۔
کیا یہ معمولی جرم ہے ؟کیا اس پر جنرل مشرف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اتنے بڑے غیرذمے دارانہ اقدام پر اور ملک کو اسقدر نقصان پہنچانے پر منتخب حکومت نے جنرل مشرف کو عہدے سے ہٹا یا تو انھوں نے اور ان کے دو تین ساتھیوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیابلکہ وزیرِاعظم کو گرفتار کرلیا اور آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ فوج کی اپنی Internal Accountability بھی بہت موثّر ہوتی ہے، کیا سوچے سمجھے اور حکومت سے پوچھے بغیر کارگل پر چڑھ دوڑنے اور فوج اور ملک کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے پرکوئی انکوائری یا کارروائی یا کورٹ مارشل نہیں ہونا چاہیے تھا؟ حیرت ہے کہ جنرل مشرف اپنے پہاڑ جتنے بڑے بلنڈر پر شرمندہ ہونے اور قوم اور فوج سے معافی مانگنے کے بجائے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کسی بھی مہذّب ملک میں آئین کو وہاں کے سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے اور آئین کی خلاف ورزی کوسب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر ایک ریاست کی تشکیل کرتا ہے۔ آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے گائیڈ لائینز فراہم کرتا ہے اس لیے اسے قومی اتحاّد کی ضمانت اور بنیاد سمجھا جاتا ہے اور کتابِ الٰہی کے بعد اسے سب سے مقّدس دستاویز ماناجاتا ہے، اسی لیے مہذّب معاشروں میں آئین کا تقّدس پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔
اسکو غدّاری کے بجائے آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے، اور تمام جمہوری ملکوں میں بغاوت کی طرح اس کی سزا بھی موت ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا قانون توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ" آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر کھلم کھلا لوگ آرمی چیف کو آئین شکنی پر اکسا رہے ہوتے ہیں"۔ میڈیا پر آئین شکنی کی ترغیب دینے والوں کی تین اقسام ہیں ۔ سب سے پہلے تو ریٹائرڈ ملٹری افسران جن کا مائینڈ سیٹ ہی یہ ہے کہ اپنے کسی سابق جنرل کی کسی غیرقانونی یا غلط بات کو بھی غلط نہیں کہنا اس کی حمایت کرنی ہے۔ پارلیمنٹ کی توہین اور تضحیک کرنی ہے، اور مارشل لاء کے حق میں بات کرنی ہے، دوسرے وہ صحافی اور اینکر جو سپانسرڈ ہیں اور' کہیں' سے لائن لے کر بات کرتے ہیں ۔ تیسرے وہ صحافی ہیںجو کوئی ذاتی کام نہ ہونے یا مناسب اہمیّت نہ ملنے کی وجہ سے وزیرِ اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ناراض ہیں اور ان سے بغض اور عناد رکھتے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل، گنوار یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر مارشل لاء کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرکے گمراہ کرتے ہیں کہ فوجی حکمران جونہی حکومت پر قبضہ کریں گے مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، غربت اور کرپشن ختم ہوجائے گی اور انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ وہ مارشل لاء کے خطرناک اثرات اور نتائج سے اپنے سامعین کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔کیا وہ نہیں جانتے کہ آج کی جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ، میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔
فوجی حکمرانی کا مطلب چاروںستونوں کا انہدام ہے، ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے ایک طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی ان کی نفی کرتی ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار ججوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے پارلیمنٹ کو منہدم کرنے کے بعد سب سے پہلا وار عدلیہ پر کیا جاتا ہے۔ پی سی او کے ذریعے باضمیر ججوں کو گھر بھیج کر مرضی کے فیصلے لکھنے والے جج بھرتی کیے جاتے ہیں اسطرح مقننہ کے بعد عدلیہ کو تباہ کیا جاتا ہے۔
پھر ڈکٹیٹر کو ایک جعلی ریفرنڈم کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے ڈبّے بھرنے والی بددیانت انتظامیہ تیار کی جاتی ہے۔پھر اِدھر اُدھرکے لوٹوں پر مشتمل ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، پھرجعلی پارلیمنٹ بنانے کا ڈرامہ کیا جاتا ہے تاکہ وہاں کی جعلی اکثریت سےIndemnityمل جائے ، کنگز پارٹی کو جتوانے کے لیے ایسے چیف سیکریٹری ، آئی جی، ڈی پی اواور ڈی سی او لگائے جاتے ہیںجوحکومت کے مخالفین کو ہرانے کے لیے ہر غیرقانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں، اسطرح انتظامیہ کو برباد کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو اپنا حامی بنانے یا اسے دبانے کے لیے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل ہوگئے ۔
ملک کا نام دنیا بھر میں بے وقار ہوتا ہے اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر وہ ادارہ جو ہرصورت غیر متنازعہ رہنا چاہیے جو سب سے مقبول ہونا چاہیے جسے پوری قوم سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے کیونکہ وہ ملک اور قوم کے محافظوں کاادارہ ہے یعنی فوج ۔ ُاسے متنازعہ بنادیا جاتا ہے ،کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اس ادارے کے خلاف کھلم کھلا نفرت اور غصّے کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ ہیں اس حکمرانی کے نتائج جس کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور جسکے لیے آئین شکنی کی ترغیب دی جاتی ہے ۔گورننس کا نام لے کر جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک نہیں ٹوٹنے دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے باندھ کر رکھتی ہے۔ غیرجمہوری دور میں وہ بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک اندھا بھی جانتا ہے کہ قبلہ زرداری صاحب کا دور گورننس کے لحاظ سے بدترین دور تھا، اس دور میں پرویز مشرف جمہوریت کے حق میں باتیں کرتے رہے اورا نٹرویوز میں کہتے رہے کہ فوج کو کسی صورت میں سیاسی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
موجودہ دور ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کے بقول معاشی ترقی اورامن و امان کے لحاظ سے پچھلے دور سے بہت بہتر ہے مگر جنر ل مشرف اب کہتے ہیں کہ' ملک ڈوب رہا ہے۔ فوج کو کچھ کرنا چاہیے'۔ کمانڈو میں اور کچھ بھی نہ ہو صاف گوئی اور intellectual honesty ضرورہوتی ہے مگریہاں تو وہ بھی نہیں ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی کے دورے کے موقع پر شہرِ قائد میں جس درندگی اور قتل وغارتگری کا مظاہرہ کیا گیا اسے یقیناً مشرف کی اشیرباد حاصل تھی۔ ملک کا (جعلی ہی سہی) صدر ہونے کی حیثیّت سے اس نے پچاس بیگناہ افراد کی ہلاکتوں پر انکوائری کرانے یادکھ کا اظہارکرنے کے بجائے اسی شام کو اسلام آباد میں مُکّے لہرا کر فخر سے کہا " کراچی میں جو ہوا اسے کہتے ہیں عوامی طاقت کا مظاہرہ "کراچی میں درندگی کا کھیل کھیلنے والی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے مجرموں ، قاتلوں اور ڈاکوؤں کو مشّرف کے حکم پر جیلوں سے رہا کیا گیا اس نے اس تنظیم کے عسکری ونگ کی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کی،اس لیے اب وہ دہشت گردی کے خلاف کس منہ سے بات کرتے ہیں۔
موصوف کو جب بھی عدالت سے سمن آتا ہے ۔ ان کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ "ملک تباہی کی طرف جارہا ہے اس لیے لوگ فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں" ۔اگرحکومت پر کرپشن کے الزام ہوں تواحتساب کے اداروںکوکارروائی کرنی چاہیے ،اگر ان اداروں میں جان نہیں تو انھیں مضبوط بنایا جائے ان اداروں کو مضبوط اور آزاد کرنے کے بارے میں راقم کئی بار لکھ چکا ہے مگر کیا کسی مہذّب معاشرے میں فوج کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ حکومت پر کرپشن کے الزام کی آڑ میں حکومت پر قبضہ کرلے ، کیا وہ ادارہ خود کرپشن سے پاک ہے ؟کئی ریٹائرڈ جنرلز کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میںکرپٹ سیاستدانوں ، کرپٹ بیوروکریٹوں اور کرپٹ جرنیلوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔
لیکن مشّرف تو ملک کی تاریخ کے وہ واحد حکمران ہیںجنہوں نے این آر او کے ذریعے کرپشن میںملوثّ تمام چوروں اور ڈاکوؤں کو معاف کردیاتھا اور کرپشن کو سرکاری طور پر جائز قراردے دیاتھا اس لیے وہ کرپشن کے بارے میں بات کریںتو لوگ ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔ موصوف ٹی وی پر انڈیا کے خلاف بڑھکیں مار کر قوم کو بیوقوف بنا نے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کیونکہ قوم بخوبی جانتی ہے کہ حکومتِ پاکستان سب سے زیادہ انڈیا کے تھّلے مشرف کے دور میں لگی تھی اور اس نے بھارتی حکومت کی تمام شرائط مان لی تھیں۔ اعلیٰ معیار کے کمانڈو وہ ہوتے ہیںجو آپریشن کی اجازت یا ہدایت دے دیں تو پھرmishapبھی ہوجائے تو وہ اسے ownکرتے ہیں۔ لال مسجد یا نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے سوال پرجنرل مشرف کاجواب ایک جرنیل یا بہادر کمانڈر کا نہیں بلکہ کمزور اورماٹھے سے ملزم والا ہوتا ہے جو اس موقّف کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے''جناب میں اکیلا نہیں تھافلاں فلاں بھی میرے ساتھ تھا''۔
سب غلط نہیں جنرل صاحب نے کچھ صحیح بھی کہا ہے۔ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ "اٹھارویں ترمیم ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے" اب بھی اسمیں ترمیم کرکے انرجی اور تعلیم کے شعبے ریاست کو واپس لَوٹا دینے چاہئیں۔
انھوں نے یہ بھی ٹھیک کہا کہ جنرل راحیل شریف ان سے زیادہ مقبول ہیں۔ موجودہ آرمی چیف کی بے پناہ مقبولیت کی تین وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ کئی Dismantled سیاستدانوں اور چندفوجی افسروں (جو مشرف کے قریب رہے اور ان کے منہ کو اقتدار کی چاٹ لگی ہوئی ہے) کی انگیخت کے باوجود انھوں نے آئین شکنی سے گریز کیا اور فوج کو متنازعہ نہیں بننے دیا۔
دوسرا یہ کہ انھوں نے ریاست کے دشمنوں کے خلاف بڑی جرأت اور یکسوئی کے ساتھ جنگ کی اور اس جنگ سے گریز کرنے کی کوشش نہیں کی اور تیسرایہ کہ انھوں نے فوج کے اندر بھی کرپٹ عناصر کا احتساب شروع کیا اور مشرف کی طرح پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ لوگ جتنا بھی اکسائیں مگر مجھے سو فیصد یقین ہے کہ خانوادۂ شہداء کا فرزند اور ہماری عظیم مادرِ علمی (جی سی لاھور)کا پڑھا ہوا راحیل شریف آئین کی پاسبانی کا پرچم بلند رکھے گا اور سپہ سالارانہ تمکنت اور وقار کے ساتھ رخصت ہوگا تاکہ پوری قوم اسے ہمیشہ عزت و احترام سے یاد کرے۔