ڈاکٹر عاصم حسین تصویر کے دورخ

اندرون خانہ کوئی ’’بارگیننگ‘‘کی جارہی ہے۔ بیک اسٹیج پر ایسی سرگرمیاں جاری ہیں ا


علی احمد ڈھلوں January 20, 2016

اس وقت سندھ حکومت ایسی غلطیاں کر رہی ہے جو کسی جماعت کے لیے اس کا مستقبل اندھیر کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ رینجرز اختیارات کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر عاصم حسین کیس کا معاملہ، پیپلز پارٹی کے لیے حالات دگر گوں ہوتے جارہے ہیں ، ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں ''گریٹ گیمز'' کا آغاز ہو چکا ہے ۔

تصویر کا پہلا رُخ یہ کہ ڈاکٹر عاصم 145 دن سے حراست میں ہے لیکن اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا حالانکہ اتنے عرصے تک اگر کسی کو پولیس کی حراست میں رکھا جائے تو وہ اُن گناہوں کو بھی قبول کر لیتا ہے جو اُس نے نہیں کیے ہوتے لیکن داد دینی چاہیے ڈاکٹر عاصم کو کہ وہ زندہ بھی ہے اور حالیہ ''ایم آر آئی'' رپورٹ میں وہ باقاعدہ صحت مند بھی ہیں، اس کیس کی طوالت سے شکوک و شبہات پیدا ہونا فطری ہے ۔

یہ تاثر کیوں دیا گیا کہ اندرون خانہ کوئی ''بارگیننگ''کی جارہی ہے۔ بیک اسٹیج پر ایسی سرگرمیاں جاری ہیں اور بعض ذرایع تو یہ تصدیق کر رہے ہیں کہ شاید کچھ لے دے کے معاملہ رفع دفع کر لیا جائے۔ اسی لیے تو ہر دوسرا شخص دبئی میں زرداری یاترا کرنے پہنچا ہوتا ہے۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے کہ سندھ حکومت نے ایک اور قلابازی مار کر سندھ اسمبلی میں ''کریمنل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل 2015'' پاس کیا ہے جس کے تحت پراسیکیوٹرز کو یہ اختیار حاصل ہو گا ہے کہ وہ عدالت کی رضامندی سے کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ یا مقدمات واپس لے سکتے ہیں۔ اس بل کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں، جن کے تحت وہ پراسیکیوٹرز کو کام کی تفویض اور ان کے تبادلے و تقرریوں کے احکامات جاری کر سکتا ہے۔بہرکیف تصویر کے دونوں رُخ دیکھیں تو آپ پر یہ حقیقت خود ہی عیاں ہوگی کہ ایسے کیسز کو طول کیوں دیا جاتا ہے۔

یہ دراصل ان کے لیے انتباہ ہوتا کہ اپنا بچاؤ کرلیں اور اگلی باری کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیں یا یہاں سے نو دو گیارہ ہو جائیں۔ حالات تو یہ ہیں کہ بااثر ملزمان کے خلاف کیسز کی سماعت نہیں ہوتی جب کہ جس کیس کا فیصلہ حکومت وقت کو جلدی چاہیے ہوتا ہے اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جاتا ہے اور فوری فیصلہ بھی سنا دیا جاتا ہے۔ اور قارئین کو یاد ہوگا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ایسے کئی ایک کیسوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ڈاکٹر عاصم کیس میں طاقتور شخصیات کے درمیان بارگیننگ کا معاملہ ہے۔ اور جہاں اگر عام لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے میرے خیال میں یہ سب کچھ نورا کشتی ہے۔

میں نورا کشتی نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔۔ یہ 28سال پہلے بھی ایسے ہی تھے اور آج بھی ایسے ہی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1988 میں جب بے نظیر حکومت میں تھیں تو وفاقی حکومت کسی ن لیگ کے رہنما کو گرفتار کرتی تھی تو پنجاب پولیس مزاحمت کر کے اسے چھڑا لیتی تھی حتیٰ کہ بعض وفاقی افسران کو حوالات کی ہوا کھانا پڑ گئی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان بڑی جماعتوں نے 28سالوں میں کچھ نہیں سیکھا اور آج ''مفاہمتی'' عمل کے تحت ہر جماعت ایڈجسٹمنٹ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی لیے تو امیرالمومنینؓ حضرت ابوبکر صدیق سے کہا گیا تھا کہ آپ کاروبار بند فرما دیجیے کہ اگر آپ کپڑا بیچیں گے تو اوروں سے کپڑا کون خریدے گا؟ ہمیں کیوں نہیں سمجھ آرہی ہے کہ یہ بھی خاموش دہشت گردی ہے۔

معاشرے میں کرپشن کا تناسب 98فیصد سے زائد ہے اور میں کئی بار یہ بات کر چکا ہوں کہ اس ملک میں کچھ بھی نہ کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کو اگر صرف لوٹ مار سے ہی بچا لیا جائے تو عوام خوشحال ہو سکتے ہیں اور خوشحال نہ بھی ہوں تو خط غربت ختم ہو سکتا ہے اور کریمنل ذہنیت کے لوگ بھی اپنی موت آپ مر سکتے ہیں، اور پھر نہ ہی ایسے کریمنل پراسیکیوشن جیسے بل پاس کرانے کی ضرورت رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں