اختر وقار عظیم کیا رشوت لینے کا ارادہ ہے
یہ شاید اسلم اظہر کی آخری تحریروں میں سے ایک ہے۔ وہ خود اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے
یہ کیسے ممکن ہے کہ اردو ادب کسی کا اوڑھنا بچھونا ہو اور اس نے محترم سید وقار عظیم کی وقیع کتاب' داستان سے افسانے تک' نہ پڑھی ہو۔ داستانوں سے افسانوں کا رشتہ جوڑتی ہوئی یہ کتاب نویں جماعت میں ہی پڑھ لی تھی اور اسی نے داستان امیر حمزہ، اس کی ذیلی داستان طلسم ہوشربا اور ایرج نامہ، تورج نامہ کی تلاش پر اُکسایا۔ طلسم ہوشربا گھر میں مل گئی ، دوسری داستانیں لیاقت نیشنل لائبریری کے چیف لائبریرین سید ابن حسن قیصر مرحوم کی عنایت سے پڑھیں۔
چند ہفتوں پہلے کراچی، آرٹس کونسل کے انتخابات کے دنوں میں اختر وقار عظیم سے چند سرسری ملاقاتیں رہیں اور پھر عزیز دوست حسینہ معین کے توسط سے اختر وقار عظیم کی ٹی وی سے متعلق 50 سالہ یادیں 'ہم بھی وہیں موجود تھے' مجھ تک پہنچیں۔ان کی کتاب پر یوں تو کئی لوگوں نے لکھا ہے لیکن سب سے مختصر اور جامع اسلم اظہر کی تحریر ہے، جو انھوں نے انگریزی میں لکھی ۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1964میں جب پاکستان ٹیلی وژن نے کام شروع کیا تو وہ لوگ جو اس نئے میڈیم سے منسلک ہوئے، ان میں سب سے لائق و فائق اختر وقار عظیم تھے۔ وہ ادب سے ان کی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے والد لاہور کی روشن ادبی شخصیتوں میں سے ایک تھے، اختر اپنے اسی ادبی پس منظر کی وجہ سے بہت سے اہم لوگوں کو ٹیلی وژن کی طرف لے کر آئے جن میں صف اول کے ادیب، لوک اور کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔
یہ شاید اسلم اظہر کی آخری تحریروں میں سے ایک ہے۔ وہ خود اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے اور اپنے ارد گرد ایسے ہی لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اختر وقار نے انھیں اپنی کتاب میں بہت محبت سے یاد کیا ہے۔ اختر مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے لیکن اس سے پہلے انھیں پی ٹی وی میں ملازمت مل گئی۔ اس کے سال بھر بعد مقابلے کے امتحان کا وقت آیا اور اسلم اظہر کو ان کی خواہش کا علم ہوا تو ان کے اور اختر کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ کچھ یوں ہے:
'' اچھا تو تم مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے ہو''؟ '' جی'' میرا جواب تھا۔
''رشوت لینے کا ارادہ ہے''؟ '' جی نہیں خیال تو نہیں ہے''۔ میرے جواب پر اسلم صاحب نے کہا: '' پھر تم ایک کرسی بھی اپنی تنخواہ سے نہیں خرید سکتے، یہیں کیوں نہیں رہتے ، ٹیلی وژن نیا ادارہ ہے، ملک میں شروع ہوئے اسے ابھی پانچ چھ سال ہوئے ہیں، یہاں آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں''۔ میں خاموش رہا۔ میری خاموشی پر انھوں نے کہا:
'' پروفیسر صاحب سے میں خود بات کرلیتا ہوں''۔ یہ کہہ کر لاہور میرے والد کو فون ملا لیا۔ '' میں اختر کو مقابلے کے امتحان میں شرکت سے منع کرکے یہیں ٹیلی وژن میں کام جاری رکھنے پر مجبور کررہا ہوں، آپ کی اجازت چاہیے''۔ اس پر انھیں جواب ملا: ''بچوں کو پڑھانا میری ذمے داری تھی، اب یہ کرنا کیا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں''۔ اس کے بعد مقابلے کاامتحان پیچھے رہ گیا اور میری تمام توجہ ٹیلی وژن کی طرف مبذول ہوگئی۔
'' ہم بھی وہیں موجود تھے'' پی ٹی وی کے 50 برسوں کی کتھا کہانی ہے۔ اس میں کہیں تلخی نہیں، کسی کی عیب جوئی نہیں اور خود کو طرم خاں ثابت کرنے کی کوشش نہیں یہ اختر وقار عظیم کا کمال ہے۔ طرزِ تحریر کی روانی ہمیں بہائے لیے جاتی ہے اور اس زمانے کی جھلکیاں دکھاتی ہے جب سب ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور ایک خاندان کی طرح خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتے تھے۔
محترم فرہاد زیدی نے اس کتاب کی ابتدا میں اختر کا یہ جملہ دہرایا ہے کہ '' میری یاد داشت لوگوں کی خامیوں اور برائیوں کے معاملے میں خاصی کمزور ہے'۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایک ایسے شخص کی یادداشتوں میں افراد کی عیب جوئی کا کیسا فقدان ہوگا۔ آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے کسی ناپسندیدہ شخص میں وہ عیوب بھی چمٹی سے اٹھا کر ڈال دیتے ہیں، جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو، ایسے میں اختر وقار جیسے فرد کو کس خانے میں رکھا جائے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کتاب بہت بے رس اور غیر دلچسپ ہوتی لیکن اختر نے متعدد ایسے دلچسپ واقعات لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر ہم لطف اٹھاتے ہیں بے نظیر بھٹو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
'' ایک دن وزیراعظم بے نظیر بھٹو اپنی تقریر کی ریکارڈنگ کے لیے آئیں تو ہمیشہ کی طرح جنرل منیجر کے کمرے میں آکر بیٹھ گئیں۔ ایک آدھ مرتبہ انھوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن چُپ رہیں، سیکریٹری ناہید خان نے جی ایم سے کہا کہ وزیراعظم آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ جی ایم سمجھے کہ وہ پروگرام کے بارے میں کوئی بات کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے پوچھا تو وزیراعظم کہنے لگیں '' ابھی میں نے ٹی وی سینٹر کی طرف آتے ہوئے ویگن کے اڈے پر ایک بھٹے والا بیٹھا دیکھا ہے ۔ اس سے دو بھٹے تو منگوادیں!''
اسی طرح اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد ڈھائی بجے رات جو مختصر تقریر کی اس کا احوال اختر وقار ہمیں یوں بتاتے ہیں:
جنرل صاحب نے نہایت مختصر تقریر کی اور تفصیلی تقریر ایک دو دن بعد کرنے کا اعلان کیا۔ یوں پوری قوم اُس غیر یقینی صورتِ حال سے باہر نکل آئی جس میں وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے قید تھی۔
تقریر کی ریکارڈنگ سے پہلے ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کافی دیر تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ جنرل صاحب تقریر وردی میں ریکارڈ کرائیں یا عام لباس میں ۔ وجہ یہ تھی کہ سری لنکا سے واپسی میں جنرل صاحب نے سوٹ پہن رکھا تھا اور وردی کراچی اترنے پر شاید تیار نہیں تھی۔ اس لیے وہاں پہ موجود ایک کمانڈو کی قمیض پہن کر پرویز مشرف نے تقریر ریکارڈ کروائی ۔ اسی ذکر کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ 'ہنگامی حالات' کے دوران 'قوم' کو جو قومی نغمے سنائے جاتے ہیں ان کی ایک فہرست پی ٹی وی پر موجود رہتی ہے۔ ان نغموں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی ذو معنی مصرعہ یا شعر نشر نہ ہوجائے۔
اختر نے ہمیں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بھی سادگی سے یہ بتادیا ہے کہ یہ دونوں حضرات اپنے بارے میں کس قدر حساس اور زودرنج تھے۔
اپنی سرکاری مصروفیات کے سبب اختر کو دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنا پڑا۔ انھوں نے کئی ملکوں کا احوال ہمیں سنایا ہے۔ جب وہ منگولیا پہنچتے ہیں تو چنگیز خان اور اس کے گھوڑے کے شاندار مجسمے کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے ہم بھی اس دیس کا ایک پھیرا لگالیں۔ وہ لکھتے ہیں:
کمپلیکس کی عمارت میں ایک عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جس میں چنگیز خان اور اس کے زمانے کی چیزیں اور یادگاریں اکھٹی کی گئی ہیں۔ عمارت چھتیس ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ چھتیس ستون چنگیز خان اور اس کے بعد آنے والے پنتیس منگول حکمرانوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
عمارت کے ایک حصے میں چنگیز خان کا 131 فٹ اونچا مجسمہ بنایا گیا ہے جس میں یہ جنگجو سپہ سالار اپنی جنگی وردی میں ملبوس ایک گھوڑے پر سواریوں تیار بیٹھے دکھایا گیا ہے جیسے محاذِ جنگ پر جارہا ہے۔ یہ گھوڑا اپنی جسامت کے اعتبار سے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ دس بارہ لوگ ایک ساتھ گھوڑے کے سینے اور گردن سے ہوتے ہوئے اس کے سرتک پہنچتے اور دہاں کھڑے ہوکر ارد گرد کا نظارہ کرتے ہیں۔چنگیز خان اور اس کے ساتھی کس قسم کا کھانا پسند کرتے تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پلاؤ ، کباب اور کوفتے جیسے کھانے ہم تک چنگیز خان کی فوجوں ہی کے ذریعے پہنچے تھے''۔
''ہم بھی وہیں موجود تھے'' میں اختر وقار عظیم نے پی ٹی وی کی نصف صدی کا قصہ لکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں اس دور کی جھلکیاں دکھائی ہیں جب باپ کے دوست بچوں کی تربیت کو اپنا حق جانتے تھے، جب اسلم اظہر دو ٹوک یہ پوچھ لیتے تھے کہ سول سروس میں کیوں جانا چاہتے ہو؟ کیا رشوت لینے کا خیال ہے ؟ اور جب اپنے سینئرز کے کہے ہوئے الفاظ حکم کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ صدی دو صدی پرانی بات نہیں، ابھی بیس پچیس برس پہلے کا تذکرہ ہے لیکن زمانہ منقلب ہوچکا ہے۔ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ اختر وقار عظیم کا کرم ہے کہ انھوں نے ہمیں ان دنوں کی جھلک دکھا دی جو اب قصہ کہانی ہوگئے ۔
چند ہفتوں پہلے کراچی، آرٹس کونسل کے انتخابات کے دنوں میں اختر وقار عظیم سے چند سرسری ملاقاتیں رہیں اور پھر عزیز دوست حسینہ معین کے توسط سے اختر وقار عظیم کی ٹی وی سے متعلق 50 سالہ یادیں 'ہم بھی وہیں موجود تھے' مجھ تک پہنچیں۔ان کی کتاب پر یوں تو کئی لوگوں نے لکھا ہے لیکن سب سے مختصر اور جامع اسلم اظہر کی تحریر ہے، جو انھوں نے انگریزی میں لکھی ۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1964میں جب پاکستان ٹیلی وژن نے کام شروع کیا تو وہ لوگ جو اس نئے میڈیم سے منسلک ہوئے، ان میں سب سے لائق و فائق اختر وقار عظیم تھے۔ وہ ادب سے ان کی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے والد لاہور کی روشن ادبی شخصیتوں میں سے ایک تھے، اختر اپنے اسی ادبی پس منظر کی وجہ سے بہت سے اہم لوگوں کو ٹیلی وژن کی طرف لے کر آئے جن میں صف اول کے ادیب، لوک اور کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔
یہ شاید اسلم اظہر کی آخری تحریروں میں سے ایک ہے۔ وہ خود اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے اور اپنے ارد گرد ایسے ہی لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اختر وقار نے انھیں اپنی کتاب میں بہت محبت سے یاد کیا ہے۔ اختر مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے لیکن اس سے پہلے انھیں پی ٹی وی میں ملازمت مل گئی۔ اس کے سال بھر بعد مقابلے کے امتحان کا وقت آیا اور اسلم اظہر کو ان کی خواہش کا علم ہوا تو ان کے اور اختر کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ کچھ یوں ہے:
'' اچھا تو تم مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے ہو''؟ '' جی'' میرا جواب تھا۔
''رشوت لینے کا ارادہ ہے''؟ '' جی نہیں خیال تو نہیں ہے''۔ میرے جواب پر اسلم صاحب نے کہا: '' پھر تم ایک کرسی بھی اپنی تنخواہ سے نہیں خرید سکتے، یہیں کیوں نہیں رہتے ، ٹیلی وژن نیا ادارہ ہے، ملک میں شروع ہوئے اسے ابھی پانچ چھ سال ہوئے ہیں، یہاں آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں''۔ میں خاموش رہا۔ میری خاموشی پر انھوں نے کہا:
'' پروفیسر صاحب سے میں خود بات کرلیتا ہوں''۔ یہ کہہ کر لاہور میرے والد کو فون ملا لیا۔ '' میں اختر کو مقابلے کے امتحان میں شرکت سے منع کرکے یہیں ٹیلی وژن میں کام جاری رکھنے پر مجبور کررہا ہوں، آپ کی اجازت چاہیے''۔ اس پر انھیں جواب ملا: ''بچوں کو پڑھانا میری ذمے داری تھی، اب یہ کرنا کیا چاہتے ہیں، یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں''۔ اس کے بعد مقابلے کاامتحان پیچھے رہ گیا اور میری تمام توجہ ٹیلی وژن کی طرف مبذول ہوگئی۔
'' ہم بھی وہیں موجود تھے'' پی ٹی وی کے 50 برسوں کی کتھا کہانی ہے۔ اس میں کہیں تلخی نہیں، کسی کی عیب جوئی نہیں اور خود کو طرم خاں ثابت کرنے کی کوشش نہیں یہ اختر وقار عظیم کا کمال ہے۔ طرزِ تحریر کی روانی ہمیں بہائے لیے جاتی ہے اور اس زمانے کی جھلکیاں دکھاتی ہے جب سب ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور ایک خاندان کی طرح خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتے تھے۔
محترم فرہاد زیدی نے اس کتاب کی ابتدا میں اختر کا یہ جملہ دہرایا ہے کہ '' میری یاد داشت لوگوں کی خامیوں اور برائیوں کے معاملے میں خاصی کمزور ہے'۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایک ایسے شخص کی یادداشتوں میں افراد کی عیب جوئی کا کیسا فقدان ہوگا۔ آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے کسی ناپسندیدہ شخص میں وہ عیوب بھی چمٹی سے اٹھا کر ڈال دیتے ہیں، جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو، ایسے میں اختر وقار جیسے فرد کو کس خانے میں رکھا جائے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کتاب بہت بے رس اور غیر دلچسپ ہوتی لیکن اختر نے متعدد ایسے دلچسپ واقعات لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر ہم لطف اٹھاتے ہیں بے نظیر بھٹو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
'' ایک دن وزیراعظم بے نظیر بھٹو اپنی تقریر کی ریکارڈنگ کے لیے آئیں تو ہمیشہ کی طرح جنرل منیجر کے کمرے میں آکر بیٹھ گئیں۔ ایک آدھ مرتبہ انھوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن چُپ رہیں، سیکریٹری ناہید خان نے جی ایم سے کہا کہ وزیراعظم آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ جی ایم سمجھے کہ وہ پروگرام کے بارے میں کوئی بات کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے پوچھا تو وزیراعظم کہنے لگیں '' ابھی میں نے ٹی وی سینٹر کی طرف آتے ہوئے ویگن کے اڈے پر ایک بھٹے والا بیٹھا دیکھا ہے ۔ اس سے دو بھٹے تو منگوادیں!''
اسی طرح اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد ڈھائی بجے رات جو مختصر تقریر کی اس کا احوال اختر وقار ہمیں یوں بتاتے ہیں:
جنرل صاحب نے نہایت مختصر تقریر کی اور تفصیلی تقریر ایک دو دن بعد کرنے کا اعلان کیا۔ یوں پوری قوم اُس غیر یقینی صورتِ حال سے باہر نکل آئی جس میں وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے قید تھی۔
تقریر کی ریکارڈنگ سے پہلے ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کافی دیر تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ جنرل صاحب تقریر وردی میں ریکارڈ کرائیں یا عام لباس میں ۔ وجہ یہ تھی کہ سری لنکا سے واپسی میں جنرل صاحب نے سوٹ پہن رکھا تھا اور وردی کراچی اترنے پر شاید تیار نہیں تھی۔ اس لیے وہاں پہ موجود ایک کمانڈو کی قمیض پہن کر پرویز مشرف نے تقریر ریکارڈ کروائی ۔ اسی ذکر کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ 'ہنگامی حالات' کے دوران 'قوم' کو جو قومی نغمے سنائے جاتے ہیں ان کی ایک فہرست پی ٹی وی پر موجود رہتی ہے۔ ان نغموں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی ذو معنی مصرعہ یا شعر نشر نہ ہوجائے۔
اختر نے ہمیں جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بھی سادگی سے یہ بتادیا ہے کہ یہ دونوں حضرات اپنے بارے میں کس قدر حساس اور زودرنج تھے۔
اپنی سرکاری مصروفیات کے سبب اختر کو دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنا پڑا۔ انھوں نے کئی ملکوں کا احوال ہمیں سنایا ہے۔ جب وہ منگولیا پہنچتے ہیں تو چنگیز خان اور اس کے گھوڑے کے شاندار مجسمے کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے ہم بھی اس دیس کا ایک پھیرا لگالیں۔ وہ لکھتے ہیں:
کمپلیکس کی عمارت میں ایک عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جس میں چنگیز خان اور اس کے زمانے کی چیزیں اور یادگاریں اکھٹی کی گئی ہیں۔ عمارت چھتیس ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ چھتیس ستون چنگیز خان اور اس کے بعد آنے والے پنتیس منگول حکمرانوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔
عمارت کے ایک حصے میں چنگیز خان کا 131 فٹ اونچا مجسمہ بنایا گیا ہے جس میں یہ جنگجو سپہ سالار اپنی جنگی وردی میں ملبوس ایک گھوڑے پر سواریوں تیار بیٹھے دکھایا گیا ہے جیسے محاذِ جنگ پر جارہا ہے۔ یہ گھوڑا اپنی جسامت کے اعتبار سے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ دس بارہ لوگ ایک ساتھ گھوڑے کے سینے اور گردن سے ہوتے ہوئے اس کے سرتک پہنچتے اور دہاں کھڑے ہوکر ارد گرد کا نظارہ کرتے ہیں۔چنگیز خان اور اس کے ساتھی کس قسم کا کھانا پسند کرتے تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پلاؤ ، کباب اور کوفتے جیسے کھانے ہم تک چنگیز خان کی فوجوں ہی کے ذریعے پہنچے تھے''۔
''ہم بھی وہیں موجود تھے'' میں اختر وقار عظیم نے پی ٹی وی کی نصف صدی کا قصہ لکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں اس دور کی جھلکیاں دکھائی ہیں جب باپ کے دوست بچوں کی تربیت کو اپنا حق جانتے تھے، جب اسلم اظہر دو ٹوک یہ پوچھ لیتے تھے کہ سول سروس میں کیوں جانا چاہتے ہو؟ کیا رشوت لینے کا خیال ہے ؟ اور جب اپنے سینئرز کے کہے ہوئے الفاظ حکم کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ صدی دو صدی پرانی بات نہیں، ابھی بیس پچیس برس پہلے کا تذکرہ ہے لیکن زمانہ منقلب ہوچکا ہے۔ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ اختر وقار عظیم کا کرم ہے کہ انھوں نے ہمیں ان دنوں کی جھلک دکھا دی جو اب قصہ کہانی ہوگئے ۔