وزیرکو دیکھتے ہیں
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے پیچھے VIP کلچر کا خاتمہ تھا
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے پیچھے VIP کلچر کا خاتمہ تھا، کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہاں آنیوالے ہر لیڈر کے پیچھے سیاسی نعرے وہی ہیں۔ میں اگر اپنی یادداشت پر زور دوں تو یہ بات 1996ء کی ہے۔ جیسے آج تحریک انصاف VIP کلچر کے خلاف بول رہی ہے، اُس وقت نواز شریف بھی یہ ہی نعرہ لگاتے تھے۔
جیسے آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ اُن کی واحد جماعت ہے جو پارٹی کے اندر الیکشن کروا رہی ہے، ایسے ہی نعرے مسلم لیگ (ن) کے تھے اور ایسا ہی ایک دن 17 اگست 1996ء کا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت مشکلات کا شکار تھی اور مسلم لیگ نے اعلان کیا ہوا تھا کہ وہ اپنی پارٹی میں الیکشن جیسی کوئی چیز کروائینگے۔ اسلام آباد میں مسلم لیگ کے جنرل کونسل کا اجلاس تھا اور جس طرح اس وقت عمران خان کے علاوہ کوئی تحریک انصاف کی چیئرمین شپ جیت نہیں سکے گا۔ بالکل اسی طرح مسلم لیگ کی جنرل کونسل نے بھاری اکثریت سے نواز شریف کو تین سال کے لیے اپنا صدر منتخب کر لیا۔
اب ظاہر ہے کونسل نے صدر کا انتخاب کیا تو عوام کی بے حد تالیوں میں انھوں نے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور کہا کہ عوام VIP کلچر سے تنگ آ گئے ہیں۔ برائیوں کے خاتمے کے لیے انقلابی اقدامات کیے جائیں گے اور ہر صورت میں VIP کلچر کا خاتمہ کیا جائے گا۔ جس طرح سے اس وقت عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہر صورت میں ملک لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے گا ویسے ہی اس دن نواز شریف نے بھی یہی کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ برسراقتدار آ کر 1947ء سے اب تک جائیداد بنانے والوں کا احتساب کریں گے۔ نعرے تو نعرے ہوتے ہیں۔ جو پہلے دن سے آج تک اُسی طرح چلتے ہوئے آ رہے ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے اور جو مسائل ان کے یہاں دس سال پہلے تھے وہ اس سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارا ملک واحد ہے جہاں پر نعرے سارے پرانے ہیں، بس چہرے بدل بدل کر سیاسی جھنڈے بدل جاتے ہیں۔
آپ مجھے بتائیں کہ کیا اس VIP کلچر کا تعلق صرف اور صرف سیاسی لوگوں سے ہے؟ کیا آپ نے بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ایک لمبا چوڑا پروٹوکول چلتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ میں ایسے ایک نہیں سیکڑوں علاقائی مذہبی رہنما بتا سکتا ہوں جن کو VIP کہا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کو ایسے بہت سے زمیندار نظر نہیں آتے ہیں جن کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
یہ وہ لوگ ہیں جب اپنے علاقوں میں گھومتے ہیں تو سب لوگوں کو نظریں جھکا دینے کا حکم ہوتا ہے بادشاہوں اور وزیروں کے بھی کیا نخرے ہوں گے جو ان کے ناز ہوتے ہیں۔ ہم ان پر بات کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں، اگر اور بات کی جائے تو کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی ہے کہ 'دہشت گردی، بھتے کے نام پر بہت سے سرمایہ دار کس خاص ٹھاٹ کے ساتھ آتے ہیں۔ اس پابندی کے باوجود کہ کوئی مسلح گارڈ لے کر نہیں گھوم سکتا۔ قانون آپ کو صرف کمزوروں کے لیے نظر آئیگا۔ کیا آپ کو ایسے شاہانہ پولیس آفیسر نظر نہیں آتے جن کے لیے اکثر ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے۔
جب آپ آنکھیں کھول کر یہ مان لیتے ہیں کہ یہ وی آئی پی پروٹوکول صرف سیاستدانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے۔ شادی کی تقاریب میں کیا کسی نام نہاد بڑے کے لیے ایک علیحدہ سے VIP ٹیبل نہیں سجائی جاتی ہے اور باقی سارے عوام کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف ٹریفک تک کا نہیں ہے۔ یہ شادیوں میں، مختلف تقاریب میں، یہاں تک کے جنازوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے قصوروار سارے حکمران ہیں یا پھر ہم لوگ ہیں جو اس کے لیے خاص انتظام کرتے ہیں، اگر تقاریب میں خاص پروٹوکول کے ساتھ لوگ نہ آئیں تو ہم جیسے غریبوں کو بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا اس دنیا میں کوئی مقام ہی نہیں ہے۔
کس بات کا شور مچا رکھا ہے اس VIP کلچر کا۔ آپ نے اب تک کتنے ایسے لوگوں کو ووٹ دیے ہیں جو پڑھا لکھا ہو مگر اس کے پاس پیسے نا ہو۔ آپ ایسے کتنے لوگوں کے لیے عزت کے ساتھ اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے ہیں، جو تعلیم کے میدان میں اعلیٰ مقام رکھتے ہو۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہو ں جو لیاری میں رہتا ہے۔ اس نے جرمنی سے کیمسٹری میں PHD کی ہے۔ مگر اپنے والدین کی خدمت اور اس ملک کی خاطر وہ واپس آ گیا ۔ آج ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔
چُپ چاپ آتا ہے اور چُپ چاپ چلا جاتا ہے۔ میرا ایک دن اس علاقے سے گزر ہوا صاحب نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آ رہے تھے۔ میں فورا اپنی گاڑی سے اترا اور انھیں سلام کیا۔ انھوں نے خیرخیریت پوچھی اور چلے گئے میرے ساتھ اس علاقے کا ایک نوجوان تھا۔ میں نے پوچھا کیا اس شخص کو جانتے ہو جو آپ کے علاقے میں رہتا ہے، کہا نہیں پہچانتا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا اس علاقے کے بدمعاش کو جانتے ہو۔ تو وہ فرفر بولنے لگا۔ اس نے گینگسٹرز کی ساری کہانی بتا دی لیکن افسوس ہے کہ اُسے یہ نہیں معلوم کے اس کے ساتھ ایک اتنا قابل اور پڑھا لکھا شخص رہتا ہے۔
بات پھیل رہی ہے۔ میں اسے تھوڑا سا سمیٹنا چاہتا ہوں۔ میرا پہلا نکتہ یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت VIP کلچر کا رونا رو رہے ہیں یہ ہمارے معاشرے میں نیا نعرہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا پھر نواز شریف یا پھر نئے پاکستان کے خالق عمران خان۔ یہ سب وہ ہی پرانی باتیں کر رہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ کلچر صرف سیاستدانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ مذہبی رہنماؤں، زمینداروں، سرمایہ داروں غرض یہ کہ ہر طرح کے طاقتور لوگوں میں نظر آئیگا۔ میرا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم خود اس کلچر کو فروغ دیتے ہیں ہم انھیں بلانا اور ان کے گرد رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہم وجوہات کے خاتمے کی بجائے اس کے اثرات پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنا چہرہ گورا کرنے کے لیے کریم لگانا پسند کرتے ہیں مگر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ انسان اور انسانیت کا تعلق رنگ سے نہیں ہے۔ اس رپورٹ کو مان لیجیے کہ دنیا بھر کے ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی کہ باقی 99 فیصد کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کا مسئلہ بھی یہ ہی ہے۔ یہاں طاقت اور اختیار کی تقسیم برابر نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر روز امیر، امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور غریب، غربت کی لکیر سے نیچے جاتا جا رہا ہے۔ جب طاقت اور دولت کا محور چند لوگ ہوں اور باقی لوگوں کو ظلم کی چکی میں روز پسنا ہو تو پھر آپ ہی بتا دیجیے کہ یہ VIP کلچر پروان چڑھے گا یا نہیں ۔
کوئی اس بات پر زور کیوں نہیں دیتا ہے کہ ہمارے یہاں کا معاشرتی، معاشی اور سماجی نظام سڑ چکا ہے اور اس کے ذمے دار ہم سب لوگ ہیں۔ عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 46 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 30 فیصد تک غریب ہیں۔ ایسے معاشرے میں لوگ اپنے تحفظ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ انھیں اپنے پیٹ کو پالنے کے لیے جی حضوری کرنی پڑھتی ہے۔ ان کے پاس تعلیم کی اعلیٰ سہولیات موجود نہیں ہیں۔
ان کے پاس باوقار زندگی گزارنے کے لیے حکومت کی طرف سے تعاون صفر ہے اور دوسری طرف طاقت اور دولت ایک جگہ جمع ہو چکی ہے۔ انصاف کا ترازو ایک ہی طرف جھکا ہوا ہے۔ بارش کے بوندیں بس کچھ مکانوں کی چھت پر گر رہی ہیں۔ ایسے میں یہ نعرہ بس نعرہ ہی رہے گا کہ VIP کلچر ختم ہو جائے گا۔ جب تک اس معاشرے میں معاشی انصاف نہیں ہو گا۔ یہ سب بس نعرے ہی رہیں گے۔ اس لیے یہ جو چند لوگ شوشے چھوڑ کر ہمارے سوئے ہوئے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ ہم فلم وزیر دیکھ رہے ہیں۔