توانائی بھر ے چھ گھنٹے
حکومت وقت کو بھی اس بارے میں اقدامات کرنے چاہئیں
دوپہر پونے ایک کا وقت تھا۔ میں کراچی کی ریگل مارکیٹ کے ایک بڑے الیکٹرونک شو روم کے باہر آدھے گھنٹے سے کھڑا اس کے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ نصف دن گزرنے کے باوجود ابھی تک آدھی سے زیادہ دکانیں بند تھیں۔
کچھ دیر میں مساجد سے ظہر کی اذان کی آوازیں بھی آنے لگیں مگر وہ دکانیں نہ کھل سکیں، میں وہاں سے مایوس نزدیک ہی واقع کوآپریٹیو مارکیٹ اپنے درزی کے پاس کپڑے لینے پہنچا، مگر پتلی پتلی گلیوں والی اس مارکیٹ میں بھی ابھی تک دن چڑھنے کے کوئی آثار نہ تھے، ستر فیصد مارکیٹ بند پڑی تھی۔ چنانچہ میں لوگوں کی دیر تک سونے کی روٹین کو کوستے ہوئے خالی ہاتھ ہی واپس لوٹ گیا۔ کراچی میں لوگوں کا دیر سے جاگنا اور بازاروں کا بارہ ایک بجے کھلنا معمول کی بات ہے۔
یہاں لوگ رات گئے تک جاگتے اور دوپہر تک سوتے ہیں، اس حقیقت سے قطعی غافل کے اس طرزِ زندگی سے وہ خود کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کراچی کی تقلید میں دیگر شہروں میں بھی یہ بیماری کسی حد تک پھیلنے لگی ہے۔ تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ فجر سے زوال تک کا وقت انتہائی صحت افزا، تخلیقی اور پھنسے ہونے کام سنوارنے والا وقت ہوتا ہے، جس میں ڈیلز طے پاتی ہیں، رشتے مضبوط اور مزاج خوشگوار ہوتے ہیں، امتحانات میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس وقت فطرت انسان پر مہربان ہوتی ہے، انسان کا ذہن فریش ہونے کی بناء پر بہتر، مثبت نتائج دیتا ہے، مگر ہم لاپرواہی سے ان انمول لمحات کو ضایع کر دیتے ہیں۔
دن دیر تک سونے کی غیر فطری روٹین کس طرح ہر زاویے سے ہماری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اس کا ہمیں بالکل اندازہ نہیں۔مجھے بھی اس کا کچھ اندازہ اس وقت ہوا جب میں کچھ عرصے قبل لاہور میں پندرہ دن گزارنے کے بعد تازہ تازہ کراچی واپس لوٹا تو مجھے لاہور اور کراچی کے شہریوں کے چہروں میں ایک واضح فرق محسوس ہوا۔
یہاں ہر شخص کے چہرے پر کھنچاؤ اور تناؤ کی کیفیت تھی، ماتھے پر بل تھے، ہر کوئی پریشانی، جلد بازی اور بے سکونی کا شکار تھا، جب کہ لاہور اور پنجاب کے لوگ پُرسکون اور آسودہ حال دکھائی دیتے تھے، حالانکہ وہ بھی کم و بیش ان ہی تمام مسائل کا شکار تھے جن کا ہم کراچی والے۔ بہت غور کرنے پر مجھے سمجھ میں آیا کہ اس کی بنیادی وجہ تھی ان کی اور ہماری سونے جاگنے کی روٹین کا فرق۔ لاہور اور صوبہ پنجاب میں اب بھی لوگ عموماً صبح جلدی اُٹھتے ہیں، ان کے پاس دن کے پورے بارہ گھنٹے ہوتے ہیں، جن میں وہ بغیر کسی جلدی یا دباؤ کے سہولت سے اپنے ذمے تمام کام نمٹاتے ہیں۔
وہ صبح کی سیر بھی کرتے ہیں، ناشتہ بھی، عزیزوں سے دکھ سکھ بھی، معاشی معاملات بھی سب کچھ کر لیتے ہیں، لہٰذا پُرسکون رہتے ہیں، جب کہ کراچی میں لوگوں کی دیر سے جاگنے کی روٹین سب سے پہلے ان سے دن کے چھ قیمتی گھنٹے چھین لیتی ہے، باقی صرف زوال سے مغرب تک چھ گھنٹے بچتے ہیں جن میں وہ توانائی نہیں ہوتی جو صبح کے وقت میں ہوتی ہے۔
لیٹ جاگنے کے سبب دماغ بھی باقی ماندہ دن بوجھل اور جسم سستی کا شکار رہتا ہے، لہٰذا بچے کچے دن سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو پاتا، لہٰذا وہ اس دن کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہاں لوگ صبح کی واک، وقت پر ناشتہ، چڑھتا سورج دیکھنا، اطمینان سے کسی کا مسئلہ سننا، کچھ بھی نہیں کر پاتے، وقت کی کمی ان کی ہر چیز کے آڑے آ جاتی ہے، ان تمام حقائق کا بوجھ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ضمیر پر پڑتا ہے اور وہی تناؤ کی صورت میں ان کے چہروں پر دکھائی دیتا ہے۔
میں خود بھی کچھ عرصے پہلے تک دیر تک سونے والوں میں شامل تھا پھر اللہ کی مہربانی ہوئی، تبدیلی رونما ہونے لگی، میں فجر میں جاگ کر دوبارہ سونے سے گریز اور صبح کے ان گھنٹوں کو استعمال کرنے لگا جلد ہی مجھے اس کے مثبت اثرات اپنی ذہنی و جسمانی کارکردگی میں محسوس ہونے لگے۔
میں باقاعدگی سے صبح سائیکلنگ و ورزش کرنے لگا، جس کے نتیجے میں لگنے والی بھوک کی وجہ سے بہتر ناشتہ اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی توانائی سے اپنے امور تندہی سے انجام دینے لگا جنھیں پہلے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیا کرتا تھا۔ ناشتے کے بعد ساڑھے آٹھ سے دوپہر ڈیڑھ بجے تک کے 5گھنٹے بھی میرے لیے بہت مفید ثابت ہوتے، اس دوران میں اپنے ضروری کام باآسانی نمٹا لیتا۔ مجھے براہ راست یہ تجربہ ہوا کہ فجر کے وقت جاگنے اور دوپہر کو جاگنے والے شخص کے دن میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
فجر کے بعد کے چھ گھنٹے استعمال کرنیوالے شخص کے دن روشن، پرسکون اور اچیومنٹس والے ہوتے ہیں جب کہ دیر سے اُٹھنے والے کے بوجھل اور ناکامیوں سے عبارت۔اللہ نے کائنات کو ایک فطرت، ایک قانون کے تحت خلق کیا ہے، سورج صبح طلوع ہوتا ہے، تاریکی کو روشنی میں بدل دیتا ہے، اس کی کرنوں سے پھول کھلتے، فضائیں مہکتی ہیں، سبزہ چرند پرند قوت و افزائش حاصل کرتے ہیں جس طرح سورج دوپہر کو طلوع نہیں ہو سکتا، انسان بھی دوپہر کو جاگ کر کامیابی و سکون حاصل نہیں کر سکتا۔ فجر کے بعد کے چھ گھنٹوں کی مثال ہماری نوجوانی کی ہے، جس طرح نوجوانی کا دور ہماری زندگی کا بہترین، صلاحیتوں سے بھرا خوابوں کو حقیقت بنانے کا دور ہوتا ہے، اسی طرح چوبیس گھنٹوں کی نوجوانی صبح کے یہ چھ سات گھنٹے ہیں، جن کے استعمال سے ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس وقت انسان کو فطرت کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے، اس لیے وہ بہتر فیصلے کرتا ہے، جب کہ زوال کے بعد یہ سپورٹ ماند اور مغرب کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ عشاء کے بعد کا بہترین عمل صرف اور صرف جلدی سو جانا ہے، اگلی صبح وقتِ فجر ہشاش بشاش اُٹھ کر اس وقت سے بھرپور نتائج حاصل کرنے کے لیے۔ صبح کے گھنٹوں کو سو کر برباد کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان نوجوانی کو سو کر ضایع کر ڈالے۔طلوع ِ آفتاب کے وقت جاگنے میں ہی صحت، سکون، ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ دنیا کی کامیاب قومیں فطرت کے اسی اصول ''جلدی سونا، منہ اندھیرے جاگنا'' کے تحت ہی ترقی و ایجادات کی منازل طے کر سکیں۔ چین، جاپان، امریکا، یورپ ہر جگہ لوگ صبح سویرے دن کا آغاز کرتے ہیں۔
نجانے ہم لوگوں میں دوپہر تک سونے کی یہ خطرناک روٹین کس دشمن نے ڈالی، جو لوگ دن کا بہترین وقت سو کر گزار دیں وہ کبھی ترقی کر سکتے نہ ہی نفسیاتی جسمانی الجھنوں سے آزاد خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ بحیثیت والدین بھی ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی اولاد کو صبح جلد اُٹھنے کے اس بہترین ہتھیار سے ابھی سے لیس کریں جو کہ انھیں اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کل شدت سے درکار ہو گا، انھیں ہر صورت 'مارننگ پرسن' بنائیں، دن کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا۔ رات اور دن کے وقت کا صحیح استعمال ہماری کایا پلٹ سکتا ہے۔
یہ باریک نقطہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کائنات کے ساتھ ہمارا ایک ربط قائم ہے، فطرت ہمیں اسی صورت سپورٹ کرتی ہے جب ہم اس کے مطابق اعمال انجام دیں، اس سے منہ موڑنے سے ہم خود اپنی بربادی کا سامان کرتے ہیں۔ جو قومیں خندہ پیشانی سے جاگتے ہوئے صبح کا استقبال کرتی ہیں، وہی اس سے بیش بہا فوائد حاصل کرتی ہیں۔ ہمارا دھیان ابھی تک اس باریک اور انتہائی اہم نقطے کی جانب نہیں گیا کہ رات کے اندھیروں میں بلاوجہ جاگنا ہمیں سوائے اندھیروں کے کہیں نہیں پہنچائیگا۔ روشن مستقبل کے لیے ہمیں روشن صبح کا انتخاب کرنا ہو گا، جو کہ ترقی یافتہ اقوام کا طرزِحیات ہے۔
حکومت وقت کو بھی اس بارے میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ رات آٹھ بجے تمام تجارتی و کاروباری مراکز بند اور صبح آٹھ بجے کھولنے کے لیے قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کروانا چاہیے، معاشرے میں موجود غلط روایات کو مثبت طرز ِ زندگی میں بدلنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، تا کہ ہم بھی فطرت سے ہم آہنگ ہو کر بھرپور، پُرسکون اور کامیاب زندگی بسر کر سکیں۔