ہم سب کا پاکستان

جب ہم اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہیں تو اپنے ملک کے کسی مسئلے کو اپنا مسئلہ کیوں نہیں سمجھتے؟


تو یہ بتا اگر تیرے گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اُس کو حل کرنے کے لئے تو خود کوئی راہ نکالے گا یا کسی اور کی راہ دیکھے گا؟ فوٹو: فائل

وسیم نے ہاتھ میں دبے اخبار کو چائے کی ٹیبل پر بے زاری سے رکھتے ہوئے مجھ سے کہا۔ یار یہ اخبار پڑھ کر بنا پیسوں کے ہائی بلڈ پریشر مل جاتا ہے۔ قسم سے لگتا ہے ہر شے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو سر پٹ دوڑے ہی جارہی ہے۔ پھر خواہ وہ مہنگائی ہو، بدامنی ہو، روپے کے ساتھ ساتھ روز بروز گرتی ہوئی معشیت، ٹارگٹ کلنگ یا کرپشن آخر کیا چیز ہے جو یہاں نہیں ہو رہی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں جہنم میں رہنے کی مشق کرائی جارہی ہو۔

پھر بڑے فلسفیانہ انداز میں گویا ہوا! ریحان قسم سے تو لکھ کر رکھ لے، اگر یہ سب یونہی چلتا رہا نا تو دس بیس سال بعد ہمارے وہ حالات و حالت ہوگی کہ ہم سے کچھ اوپر، کچھ نیچے اور ہم مڈل کلاس والوں کی حالت دیکھنے کے لئے دوسرے ممالک سے لوگ ٹکٹ لے کر دیکھنے آیا کریں گے کہ ان حالات میں کوئی عجوبہ ہی ہوگا جو زندہ رہ سکتا ہو۔ قسم سے جلد سے جلد کسی نہ کسی کو ان حالات و ہماری حالت کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے آگے آنا چاہئیے تاکہ کوئی بہتری کی راہ نکلے۔

ہاں یار واقعی کسی نہ کسی کو تو اس کی ابتداء کے لئے آگے آنا ہوگا۔ سُن یہ کام تو خود کیوں نہیں کرتا؟ میں نے پوچھا، میرے اس سوال پر وہ جھیپنی جھیپنی سی ہنسی کے ساتھ بولا۔ کون میں؟ کیوں مذاق کررہا ہے؟ پاکستان مجھ اکیلے کا تو نہیں۔ پہلے کسی دوسرے مضبوط شخص کو آگے بڑھنا چاہئیے تاکہ کسی دشواری کا سامنا نہ ہو، میں اپنی بات نہیں کررہا مگر ہاں یہ سہی بول رہا ہوں کہ کوئی آگے بڑھ کر کچھ ایسا کرے کہ یہاں بھی خوشحالی اور سکون ہو۔

مانتا ہوں یار کہ تیرے اکیلے کا پاکستان نہیں نہ اس کے مسائل تجھ اکیلے کا درد سر ہیں مگر کسی نہ کسی کو تو اس ابتداء کے لئے آگے بڑھنا ہوگا ناں پھر وہ توہو یا میں کیوں نہیں؟ میں نے پوچھا۔ ہم بس یہی سوچتے ہیں کہ کوئی دیگر مضبوط شخص پہلے آگے بڑھے اور ہمارا یہ انتظار ہمیں پہلے کی بہ نسبت اور کمزور کرتا چلا جاتا ہے۔ ہم آگے بڑھنے کے لئے اپنے قدم کے بجائے سامنے والے کے قدموں پر نگاہیں ٹکا کر رکھتے ہیں، اور اس صورت میں ہمارے قدم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ خود بھی اُٹھنے کے عمل سے واقف ہیں۔ بس سمت کا تعین کرنا ہے۔

تو یہ بتا اگر تیرے گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اُس کو حل کرنے کے لئے تو خود کوئی راہ نکالے گا یا کسی اور کی راہ دیکھے گا؟ تو جب ہم اپنے وطن کو اپنا گھر سمجھتے ہیں تو اپنے ملک کے کسی مسئلے کو اپنا مسئلہ کیوں نہیں سمجھ سکتے؟

مگر میری بات کا کوئی جواب دئیے بنا ہی اُس نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے میز پر سامنے دھری اپنی موٹر بائیک کی چابی اور ہیلمٹ اُٹھاتے ہوئے جھینپی جھینپی ہنسی کے ساتھ کہنے لگا، چل یار یہ بحث کسی اور کے لئے چھوڑ دے، تجھے کہا ہے ناں۔ پاکستان اور اس کی بہتری مجھ اکیلے کی ذمہ داری تو نہیں۔

روڈ پر ٹریفک پتہ نہیں کیوں اتنا جام تھا۔ دور دور تک گاڑیوں کی قطاریں نظر آرہی تھیں، جو آہستہ آہستہ آگے راہ ہموار ہونے کی صورت میں بڑھ رہی تھیں، لیکن کچھ گاڑی والوں نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خود آگے نکلنے کے چکر میں دیگر گاڑیوں کا راستہ بھی بند کردیا تھا۔ ادھر وسیم تھا کہ گاڑیوں کی کبھی اس قطار کے پیچھے اپنی بائیک لگا دیتا تو کبھی مزید آگے بڑھنے کو دوسری قطار میں گھس جاتا اور اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اس اندھی تقلید کا حصہ بن گئے اور تھوڑی دیر میں ہی نجانے کتنے موٹر بائیک سواروں نے فُٹ پاتھ پر اپنی بائیک چڑھا دیں اور یوں فُٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لئے بھی یہ حرکت ذہنی کوفت کا باعث ہوگئی۔

میں نے وسیم کے کاندھے کو ہلاتے ہوئے اپنا مُنہ اُس کے کانوں کے قریب لے جا کر کہا۔ بھائی یہ کیا کررہے ہو تمہاری اس حرکت کے باعث پیچھے موٹر بائیک والے بھی فُٹ پاتھ پر چڑھ آئے ہیں۔ یہ جہاں روڈ پر چلنے والی گاڑیوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے وہیں فُٹ پاتھ پر چلنے والے لوگ موٹر بائیک کی اس قطار کے باعث کبھی ادھر کبھی اُدھر ہونے کی صورت میں ایک ذہنی اذیت دے رہی ہے۔

یار مجبوری ہے اب کوئی پریشان ہوتا ہے تو ہو میری بلا سے، کم از کم اس طرح مجھے تو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ آخر کو پاکستان اپنا ہے اور اس کی سڑکیں اور فُٹ پاتھ بھی اپنے، اور پھر اُس نے بے ساختہ ایک قہقہ لگایا اور شاید میں اس قہقے کی تشریح کبھی نہ کرسکوں، مگر اس قہقہے اور وسیم کے ابھی تھوڑی دیر قبل کہے گئے جملے کی روح تک پہنچ گیا تھا کہ یار پاکستان اور اس کی بہتری مجھ اکیلے کی ذمہ داری تو نہیں۔

اور اب کم از کم مجھ پر یہ عیاں ہوچکا تھا کہ ایسی سوچ رکھنے والے ہی درحقیقت ہماری اس حالت اور حالات کے ذمہ دار ہیں جو اپنی ضرورتوں کے تحت کبھی پاکستان کو اپنا اور تو کسی سدھار کے لئے دوسروں کی ذمہ داری تصور کرنے لگتے ہیں۔

[poll id="904"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں