شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری آخر کب تک

آج کی خر مستیاں کل کے طوفان کو دیکھ نہیں پائیں گیں اور ایسے میں طاقت کی مدہوشی عزت سے ذلت کا سفر مختصر کردے گی۔


محمد عاصم January 21, 2016
جب قانون حکمران طبقہ کے گھر کی باندی بن کر رہ جاتا ہے، جب قاتل سرِعام اپنی طاقت کا نشہ دکھاتا ہے، تب ایسا انقلاب رونما ہوتا ہے جس کی بے پناہ موجوں میں سبھی ظالم و جابر تنکوں کی مانند بہہ جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: قوموں کی تاریخ میں چند سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سماج کی تبدیلی کا عمل کئی سال کی مسلسل محنت اور اشرافیہ کے کئے گے فیصلوں کے نتیجہ میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ قوم کے رہنما جو فیصلے کرتے ہیں وہی دراصل اس سفر کی حدوں کا تعین کرتے ہیں۔ آج جو فیصلہ کیا جائے گا کل کو اُسی کے اثرات اور ثمرات سمیٹے جائیں گے۔

جنگِ عظیم دوم کے وقت جب برطانوی افواج کو مخالفین کی مسلسل پیش قدمی کا سامنا تھا۔ چرچل نےعین اس وقت اپنے وزراء سے پوچھا تھا، ''کیا ہماری عدالتیں اور ہمارے قوانین عوام کو انصاف فراہم کر رہے ہیں؟'' سننے والوں نے کہا ''جی جناب'' تب چرچل نے تاریخی جملہ کہا تھا ''جب تک عوام کو انصاف ملتا رہے گا اُس وقت تک ہمیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی''۔ پھر یہ بات برطانیہ کی فتح کے ساتھ ہی ثابت ہوگئی۔

آج پیارے وطن میں قانون ساز ادارے ایک ایسے عمل میں الجھ کر رہ گئے ہیں جو نہ صرف عمرانی معاہدہ کے خلاف ہے بلکہ دنیا کے عمومی اخلاقیات کے بھی متضاد ہے۔ لیکن کیا کہیئے ان شاہ کے وفاداروں کو جو عوامی فلاح کی صورت گری کے لئے قانون سازی کرنے کے بجائے اپنی کرسی کے تحفظ کے گول چکر میں پھنس چکے ہیں۔

کتنا حسین منظر تھا جب ایک عام مسلمان نے مسجد میں عین جمعہ کے خطبہ سے پہلے مسلمانوں کے خلیفہِ دوم حضرت عمرؓسے کہا تھا ''ہم تب تک آپ کی بات نہیں سنیں گے جب تک کہ آپ اس چادر کی بابت جواب ناں دے دیں، جس سے آپ کے کپڑے سلے ہیں''۔ لیکن آج عالم دیکھیے کہ کوئی عام شہری کسی 14 اسکیل کے فرد سے اُس کی عیاشیوں کا نہیں پوچھ سکتا، تو چیف منسٹر اور وزیر اعظم سے پوچھنے کی کیسے جرات کرسکتا ہے؟

آئیے ایک نظر اس بل کو بھی دیکھ لیں جس کی طاقت کی بنیاد پر سندھ کے وڈیرے، اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر دِکھا رہے ہیں۔ یہ جمعہ 15 جنوری 2016 کا دن تھا۔ صوبائی وزیر برائے تعلیم جناب نثار احمد صاحب نے ایک بل پیش کیا۔ یہ دراصل سندھ کریمنل پروسیکیوشن ایکٹ 2009 میں تبدیلی کا بل تھا۔ اس بل کو اسمبلی میں صرف 3 منٹ کے دورانیے میں پاس کر دیا گیا۔

اس بل کے مطابق پروسیکیوٹر جنرل کسی بھی کیس پر کام کرنے والے سرکاری افسر کو تبدیل، کام کے لیے رہنمائی یا کسی دوسرے کام پر تعینات کرسکتا ہے۔ یعنی سندھ کے شاہ نے بادشاہی کا بھیس پہن لیا ہے۔ اب کوئی بھی تحقیق کار اور دیانتدار افسر کسی ایسے مجرم کی تفتیش نہیں کرسکے گا جو حکمران طبقہ یا با اختیار اشرافیہ کا منظورِ نظر ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ کچھ تو ایسا ہے کہ جس کی پشت پناہی کا مقصد اس قانون سازی کے پیچھے چھپا ہے۔ نا انصافی اور قتلِ عام کے ان حالات میں قانون کو مزید سخت کرنے کے بجائے چند افراد کی خواہشات کی بھینٹ کیوں چڑھایا جا رہا ہے؟ جب عدالتیں موجود ہیں تو پھر کس واسطے اتنے اختیارات کو سمیٹنے کی خواہش نے جنم لیا؟

جب قانون حکمران طبقہ کے گھر کی باندی بن کر رہ جاتا ہے، جب قاتل سرِعام اپنی طاقت کا نشہ دکھاتا ہے، جب بیوہ ماں مجبوراََ خود سوزی کا راستہ اپناتی ہے، جب ایک لختِ جگر اپنے باپ کے سامنے مار دیا جاتا ہے، جب دیکھی سچائی کو ان دیکھی کہہ کر بھول جانے کا رویہ اپنایا جاتا ہے، تب ایک ایسا انقلاب رونما ہوتا ہے جس کی بے پناہ موجوں میں سبھی ظالم و جابر تنکوں کی مانند بہہ جاتے ہیں۔

عوام کے منتخب نمائندے اگر اپنی وفاداریوں کا قبلہ بدلنا چاہتے ہیں تو ضرور ایسا کرلیں۔ آج اگر عوام بے بس ہے تو کل پھر اسی عوام کی چوکھٹ پر آنا ہوگا۔ تب حساب ضرور بے باک کیا جائے گا۔ آج کی خر مستیاں کل کے طوفان کو دیکھ نہیں پائیں گیں اور ایسے میں طاقت کی مدہوشی عزت سے ذلت کا سفر مختصر کردے گی۔

تھر کے علاقے میں روز بھوک اور ادویات کی کمی کا شکار ہونے والے بچے، اگر صوبائی اسمبلی کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے تو پھر سفاکیت اور کس بلا کا نام ہے؟ ڈاکڑ عاصم اگر کسی کی سرپرستی میں بے پناہ طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں تو تھر کے یہ بچے بھی اس پاک مٹی کا خون ہیں۔ جن کی خاطر یہ وطن بنایا گیا تھا۔ اگر ان کی قدر نا کی گئی تو کل کا سورج ان ظالموں کی رسوائی کا پیغام لیکر طلوع ہوگا، جو چند ''سفید پوش'' لوگوں کو بچانے کی فکر میں قانون سازی کر رہے ہیں۔

ہم عدالت عظمٰی سے گذارش کرتے ہیں کہ اس قانون سازی کا جائزہ لے۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے عدالتی نظام کا بھی کہ جس کی پیچیدگیوں سے چند طاقتور لوگ فائدہ اٹھا کر صاف بچ جاتے ہیں۔

[poll id="905"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں