کیوں خاک میں ملادیا
وہ جوان امنگیں، روشن آنکھیں، شرارتی لہجے کیوں خاک میں ملا دیئے گئے؟ کوئی تو جواب دے۔
دھیمی دھیمی سردی کا لطف اٹھانے اور خالی پیٹ کے دہکتے ایندھن کو بجھانے کے لئے میں نے بھی کلاس کے بعد ڈیپارٹمنٹ کے کینٹن کا رخ کیا اور چائے کا کپ اور گرما گرم سموسوں کی پلیٹ تھامے کونے والی ٹیبل پر جا بیٹھی۔ کیمسٹری کی ٹیچر وقت کی بہت پابند تھیں اور اگر 5 منٹ بھی لیٹ ہوجاؤ تو کلاس میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملتی۔ اس لئے تمام طالب علم 7:30 پر کلاس کے اندر موجود ہوتے، اور میں ٹھہری سدا کی سست، عین ٹائم پر بھاگم بھاگ بیدار ہو کر پوائنٹ پکڑ کر جامعہ پہنچتی اس لئے ناشتہ پانی کا وقت بھی نہ مل پاتا۔ سو اب کلاس کے بعد بھوک کے احساس نے بھی شدت اختیار کی تو یہاں تک کھنچی چلی آئی۔
اف کیا ذائقہ دار سموسہ ہے۔ میں نے آنکھیں بند کئے ہوئے منہ چلاتے ہوئے دل میں داد دی ہی تھی کہ اچانک ہاتھ سے سموسہ غائب، آنکھیں کھول کر دیکھا تو حیدر منہ میں سموسہ ڈالتے ہوئے چلایا، تم یہاں آ کر مزے اڑا رہی ہو اور وہاں ہم اسائنمنٹ کا موضوع فائنل کرانے کے چکر میں میڈم کے آفس کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہاں ہاں بالکل صحیح کہہ رہا ہے حیدر، صبوحی نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا، کس قدر بے مروت ہو تم، اگر دوست ہو تو کیا تمہاری جگہ امتحان بھی ہم دے دیں۔ اسائنمنٹ کی تیاری ہو یا لیکچرز چاہئے ہوں تو دوست اور گروپ یاد آجاتا ہے لیکن پارٹی اکیلے اکیلے اڑائی جاتی ہے۔ صبوحی بغیر رکے شروع ہوچکی تھی، اور میں محض ان دونوں کو کچکچاتی نظروں سے دیکھتی رہی جو مزے سے سب کچھ ہڑپ کرکے مجھ پر ہی الزام دھر رہے تھے۔
تم لوگوں کی پسلی پھڑکی ہوگی کہ مفت کی دعوت کہاں اڑانی ہے، ایک سموسہ اور چائے کے پیچھے تمام مروت بالائے طاق رکھ دیا کرو، آج اگر بھوک کی وجہ سے میڈم کے پاس نہ جاسکی اسائنمنٹ کے سلسلے میں، تو فوراً احسان جتا دیا، ایسے ہوتے ہیں دوست؟ جواباً میں نے بھی استفسار کیا اور حیدر تم کاپی ماسٹر اب ذرا امتحان میں پوچھنا جوابات، تمہیں بتاؤں گی، میری نقل کر کرکے ہی تم نے تھرڈ سیمسٹر میں سب سے زیادہ نمبرز لئے تھے کمپیوٹر میں، اور صبوحی تم جو ہر روز صبح میسج کرکے فرمائشیں کرتی ہو ناں پنک نیل پینٹ لے آنا میرے پاس آج میچنگ کی نیل پالش نہیں، تمہارے یہ چڑیلوں جیسے ناخن ہی کاٹ دوں گی۔ میں نے گھورتے ہوئے کہا تو بس پھر تو حیدر اور صبوحی بھی فل فارم میں آگئے اور کچھ دیر میں کلاس کی مغرور حسینہ، پڑھاکو انکل اور میڈم ثمینہ کے آتشیں لباس اور سر اظہار کی ہٹلر طبعیت کچھ بھی ہمارے اظہارِ خیال سے نہ بچ سکی۔
قہقوں کے درمیان ہی صبوحی کو اچانک حبا اور رضا کا خیال آگیا، ارے یہ دونوں کہاں رہ گئے ہمارے ساتھ ساتھ ہی تو تھے۔ وہ ذرا لان کی بے ہنگم گھاس اور درختوں کی نشوونما پر سیر حاصل گفتگتو کرنے وہیں رک گئے ہیں۔ حیدر کے اس جملے نے ہم دونوں کو ہی مفہوم سمجھا دیا۔ کچھ دیر بعد مریم بھی آپہنچی جو سنہری دھوپ میں خود بھی روشن روشن سی نظر آرہی تھی۔ یہ تمہارے چہرے پر ہزار وولٹ کے بلب کیوں جگگمگا رہے ہیں؟ جبکہ رضا بھی نہیں، حیدر کی اس جرات مندانہ سوال پر مریم نے پانی کی بوتل سے اس کا نشانہ لیا، جسے اس نے با آسانی کیچ کرکے حملہ ناکام بنا دیا۔ فضول باتیں نہ کیا کرو، میں تو لائبریری رک گئی تھی۔ کتاب تلاش کر رہی تھی۔ لیجئے محترمہ آپ کی مطلوبہ کتاب خود لائبریری سے چل کر یہاں آپہنچی۔ سجے سنورے سے رضا کو آتا دیکھ کر حیدر صاحب چلائے تو بے ساختہ حبا کی جھینپی جھینپی ہنسی میں ہمارے فلک شگاف قہقے بھی شامل ہوگئے۔
کب ہوگا ماسٹرز مکمل؟ مجھے اس کے بعد جلد نوکری تلاش کرکے ابو کا سہارا بننا ہے اور تمہاری بھابھی کو بھی لانا ہے، حیدر نے بذلہ سنجی سے اپنا مستقبل کے ارادے پیش کرتے ہوئے کہا تو اُس کے لہجے کی خوابناکی میں چھپے احساس اور ذمہ داری نے ہم سب کو لحظہ بھر کو خاموش کردیا۔ میرا تو دل کرتا ہے کہ کبھی ختم نہ ہوں یہ دن، مجھے تو ابھی ایم فل کرنا ہے اپلائیڈ کیمسٹری میں اور پھر پروفیسر صبوحی امین بن کرعلم پھیلانا ہے۔ مضبوط عزم اور جذبوں کی سچائی روشن آنکھوں سے عیاں تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے ساتھیوں کی کامیابی کی دعا کی اور ان کے سلامتی اور ساتھ کا وعدہ لیا اللہ میاں سے۔
ویسے رضا تم نے کیا سوچا ہے ڈگری لینے کے بعد کیا کروگے؟ شرارتی لہجے میں علی نے پوچھا تو اس نے سرسری سی نظر حبا پر ڈالتے ہوئے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی تیز آوازوں سے کیمپس گونج اٹھا، دوڑتے بھاگتے طلبہ سییمنار ہال کی جانب سے اسی جانب آرہے تھے۔ کچھ دہشت گرد جامعہ میں گھس آئے ہیں اور انہوں نے فائرنگ کرکے کتنے لوگوں کو زخمی کردیا سیمنار ہال میں، جلدی نکلو یہاں سے وہ اسی طرف آرہے ہیں۔ بے تحاشا زور سے چیختے ہوئے کسی نے ہم لوگوں کو خبردار کیا۔ ابھی کچھ سمجھتے اس سے قبل ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر اس کے بعد کچھ ہوش نہ رہا، بس ایک ہنگامہ تھا، چیخ و پکار، فائرنگ، ایمبولینسں کے سائرن کی آوازیں۔
آنکھیں کھلیں تو خود کو اسپتال کے بیڈ پر پایا، قریب ہی پاپا اور امی بھی موجود تھے، یونیورسٹی میں دہشتگرد گھس آئے تھے انہوں نے فائرنگ اور دھماکے کرکے کتنے بچوں کو مار ڈالا اور زخمی کردیا۔ شکر ہے کہ تم محفوظ رہیں اور بائیں ٹانگ سے گولی چھوتی ہوئی گذر گئی۔ امی نے بہتی آنکھوں سے بتایا تو مجھے پورا منظر یاد آگیا۔
پاپا میرے دوست بھی تھے میرے ساتھ حیدر، صبوحی، رضا اور مریم، وہ سب کہاں ہیں؟ میں نے اٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا تو پاپا وہاں سے چل دئیے۔ میں نے بے چینی سے امی کی جانب دیکھا۔ وہ ہم سےجدا کر دئیے گئے ہیں رضا نے بے تحاشا روتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ وہ ہم سے دور چلے گئے۔
میں کتنی دیر سے حیدر کو اٹھا رہا ہوں۔ اس کے ابو کے فون آ رہے ہیں، وہ پریشان ہیں لیکن جواب نہیں دے رہا، اتنا لاپروا تو نہیں تھا ہمارا یار اور وہ پروفیسر صاحبہ رہ گئیں وہیں جامعہ میں ہم ۔۔۔۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں۔ رضا نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا۔۔ مریم؟ میں نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی دھند سے کچھ دکھائی تو نہیں دے رہا تھا لیکن رضا کے چہرے کی مُردنی بہت واضح تھی۔ آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ، زرد رنگ کِھلتا ہے اس پر، میں نے صبح بھی بتایا تھا اسے، اس لئے اب سفید کفن میں چہرہ چھپالیا۔
ایسا کیوں ہوا؟ میں مسلسل پوچھ رہی تھی لیکن کوئی بھی جواب نہیں دے ہا تھا، کوئی دشمنی نہیں تھی میرے دوستوں کی، صبوحی کو ٹیچر بھی ڈانٹ دیں تو وہ روپڑتی ہے۔ حیدر کو انٹرویو کے لئے جانا تھا کل، بہت ضروری تھی وہ نوکری اس کے لئے، کیا کسی نے نہیں بچایا میرے دوستوں کو؟ کسی نے نہیں روکا دہشت گردوں کو وہ نہ ماریں، ابھی تو بہت کچھ کرنا تھا ان سب کو، وہ جوان امنگیں، روشن آنکھیں، شرارتی لہجے کیوں خاک میں ملا دیئے گئے؟؟ کوئی تو جواب دے۔۔ کوئی تو وجہ بتادے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
اف کیا ذائقہ دار سموسہ ہے۔ میں نے آنکھیں بند کئے ہوئے منہ چلاتے ہوئے دل میں داد دی ہی تھی کہ اچانک ہاتھ سے سموسہ غائب، آنکھیں کھول کر دیکھا تو حیدر منہ میں سموسہ ڈالتے ہوئے چلایا، تم یہاں آ کر مزے اڑا رہی ہو اور وہاں ہم اسائنمنٹ کا موضوع فائنل کرانے کے چکر میں میڈم کے آفس کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہاں ہاں بالکل صحیح کہہ رہا ہے حیدر، صبوحی نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا، کس قدر بے مروت ہو تم، اگر دوست ہو تو کیا تمہاری جگہ امتحان بھی ہم دے دیں۔ اسائنمنٹ کی تیاری ہو یا لیکچرز چاہئے ہوں تو دوست اور گروپ یاد آجاتا ہے لیکن پارٹی اکیلے اکیلے اڑائی جاتی ہے۔ صبوحی بغیر رکے شروع ہوچکی تھی، اور میں محض ان دونوں کو کچکچاتی نظروں سے دیکھتی رہی جو مزے سے سب کچھ ہڑپ کرکے مجھ پر ہی الزام دھر رہے تھے۔
تم لوگوں کی پسلی پھڑکی ہوگی کہ مفت کی دعوت کہاں اڑانی ہے، ایک سموسہ اور چائے کے پیچھے تمام مروت بالائے طاق رکھ دیا کرو، آج اگر بھوک کی وجہ سے میڈم کے پاس نہ جاسکی اسائنمنٹ کے سلسلے میں، تو فوراً احسان جتا دیا، ایسے ہوتے ہیں دوست؟ جواباً میں نے بھی استفسار کیا اور حیدر تم کاپی ماسٹر اب ذرا امتحان میں پوچھنا جوابات، تمہیں بتاؤں گی، میری نقل کر کرکے ہی تم نے تھرڈ سیمسٹر میں سب سے زیادہ نمبرز لئے تھے کمپیوٹر میں، اور صبوحی تم جو ہر روز صبح میسج کرکے فرمائشیں کرتی ہو ناں پنک نیل پینٹ لے آنا میرے پاس آج میچنگ کی نیل پالش نہیں، تمہارے یہ چڑیلوں جیسے ناخن ہی کاٹ دوں گی۔ میں نے گھورتے ہوئے کہا تو بس پھر تو حیدر اور صبوحی بھی فل فارم میں آگئے اور کچھ دیر میں کلاس کی مغرور حسینہ، پڑھاکو انکل اور میڈم ثمینہ کے آتشیں لباس اور سر اظہار کی ہٹلر طبعیت کچھ بھی ہمارے اظہارِ خیال سے نہ بچ سکی۔
قہقوں کے درمیان ہی صبوحی کو اچانک حبا اور رضا کا خیال آگیا، ارے یہ دونوں کہاں رہ گئے ہمارے ساتھ ساتھ ہی تو تھے۔ وہ ذرا لان کی بے ہنگم گھاس اور درختوں کی نشوونما پر سیر حاصل گفتگتو کرنے وہیں رک گئے ہیں۔ حیدر کے اس جملے نے ہم دونوں کو ہی مفہوم سمجھا دیا۔ کچھ دیر بعد مریم بھی آپہنچی جو سنہری دھوپ میں خود بھی روشن روشن سی نظر آرہی تھی۔ یہ تمہارے چہرے پر ہزار وولٹ کے بلب کیوں جگگمگا رہے ہیں؟ جبکہ رضا بھی نہیں، حیدر کی اس جرات مندانہ سوال پر مریم نے پانی کی بوتل سے اس کا نشانہ لیا، جسے اس نے با آسانی کیچ کرکے حملہ ناکام بنا دیا۔ فضول باتیں نہ کیا کرو، میں تو لائبریری رک گئی تھی۔ کتاب تلاش کر رہی تھی۔ لیجئے محترمہ آپ کی مطلوبہ کتاب خود لائبریری سے چل کر یہاں آپہنچی۔ سجے سنورے سے رضا کو آتا دیکھ کر حیدر صاحب چلائے تو بے ساختہ حبا کی جھینپی جھینپی ہنسی میں ہمارے فلک شگاف قہقے بھی شامل ہوگئے۔
کب ہوگا ماسٹرز مکمل؟ مجھے اس کے بعد جلد نوکری تلاش کرکے ابو کا سہارا بننا ہے اور تمہاری بھابھی کو بھی لانا ہے، حیدر نے بذلہ سنجی سے اپنا مستقبل کے ارادے پیش کرتے ہوئے کہا تو اُس کے لہجے کی خوابناکی میں چھپے احساس اور ذمہ داری نے ہم سب کو لحظہ بھر کو خاموش کردیا۔ میرا تو دل کرتا ہے کہ کبھی ختم نہ ہوں یہ دن، مجھے تو ابھی ایم فل کرنا ہے اپلائیڈ کیمسٹری میں اور پھر پروفیسر صبوحی امین بن کرعلم پھیلانا ہے۔ مضبوط عزم اور جذبوں کی سچائی روشن آنکھوں سے عیاں تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے ساتھیوں کی کامیابی کی دعا کی اور ان کے سلامتی اور ساتھ کا وعدہ لیا اللہ میاں سے۔
ویسے رضا تم نے کیا سوچا ہے ڈگری لینے کے بعد کیا کروگے؟ شرارتی لہجے میں علی نے پوچھا تو اس نے سرسری سی نظر حبا پر ڈالتے ہوئے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ اچانک فائرنگ کی تیز آوازوں سے کیمپس گونج اٹھا، دوڑتے بھاگتے طلبہ سییمنار ہال کی جانب سے اسی جانب آرہے تھے۔ کچھ دہشت گرد جامعہ میں گھس آئے ہیں اور انہوں نے فائرنگ کرکے کتنے لوگوں کو زخمی کردیا سیمنار ہال میں، جلدی نکلو یہاں سے وہ اسی طرف آرہے ہیں۔ بے تحاشا زور سے چیختے ہوئے کسی نے ہم لوگوں کو خبردار کیا۔ ابھی کچھ سمجھتے اس سے قبل ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر اس کے بعد کچھ ہوش نہ رہا، بس ایک ہنگامہ تھا، چیخ و پکار، فائرنگ، ایمبولینسں کے سائرن کی آوازیں۔
آنکھیں کھلیں تو خود کو اسپتال کے بیڈ پر پایا، قریب ہی پاپا اور امی بھی موجود تھے، یونیورسٹی میں دہشتگرد گھس آئے تھے انہوں نے فائرنگ اور دھماکے کرکے کتنے بچوں کو مار ڈالا اور زخمی کردیا۔ شکر ہے کہ تم محفوظ رہیں اور بائیں ٹانگ سے گولی چھوتی ہوئی گذر گئی۔ امی نے بہتی آنکھوں سے بتایا تو مجھے پورا منظر یاد آگیا۔
پاپا میرے دوست بھی تھے میرے ساتھ حیدر، صبوحی، رضا اور مریم، وہ سب کہاں ہیں؟ میں نے اٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا تو پاپا وہاں سے چل دئیے۔ میں نے بے چینی سے امی کی جانب دیکھا۔ وہ ہم سےجدا کر دئیے گئے ہیں رضا نے بے تحاشا روتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ وہ ہم سے دور چلے گئے۔
میں کتنی دیر سے حیدر کو اٹھا رہا ہوں۔ اس کے ابو کے فون آ رہے ہیں، وہ پریشان ہیں لیکن جواب نہیں دے رہا، اتنا لاپروا تو نہیں تھا ہمارا یار اور وہ پروفیسر صاحبہ رہ گئیں وہیں جامعہ میں ہم ۔۔۔۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں۔ رضا نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا۔۔ مریم؟ میں نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی دھند سے کچھ دکھائی تو نہیں دے رہا تھا لیکن رضا کے چہرے کی مُردنی بہت واضح تھی۔ آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ، زرد رنگ کِھلتا ہے اس پر، میں نے صبح بھی بتایا تھا اسے، اس لئے اب سفید کفن میں چہرہ چھپالیا۔
ایسا کیوں ہوا؟ میں مسلسل پوچھ رہی تھی لیکن کوئی بھی جواب نہیں دے ہا تھا، کوئی دشمنی نہیں تھی میرے دوستوں کی، صبوحی کو ٹیچر بھی ڈانٹ دیں تو وہ روپڑتی ہے۔ حیدر کو انٹرویو کے لئے جانا تھا کل، بہت ضروری تھی وہ نوکری اس کے لئے، کیا کسی نے نہیں بچایا میرے دوستوں کو؟ کسی نے نہیں روکا دہشت گردوں کو وہ نہ ماریں، ابھی تو بہت کچھ کرنا تھا ان سب کو، وہ جوان امنگیں، روشن آنکھیں، شرارتی لہجے کیوں خاک میں ملا دیئے گئے؟؟ کوئی تو جواب دے۔۔ کوئی تو وجہ بتادے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔