تھر میں موت کا رقص
تھرپارکرکے علاقے میں ایک بار پھر معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا افسوسناک سلسلہ چل پڑا ہے
NEW DELHI:
تھرپارکرکے علاقے میں ایک بار پھر معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا افسوسناک سلسلہ چل پڑا ہے، دو ہفتوں کے دوران 50 کے لگ بھگ بچوں کی ہلاکت کی خبریں گردش کررہی ہیں، اب سے 5-4 سال پہلے بھی سیکڑوں بچوں کی ہلاکت کا سانحہ پیش آچکا ہے۔ میڈیا میں اس سانحے کو پوری قوت سے ہائی لائٹ کیا گیا تھا اسی افسوس ناک سانحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبائی حکومت سخت اور موثر اقدامات کرتی لیکن افسوس! کہ صوبائی حکومت نے اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور رسمی اقدامات کرکے مطمئن ہوگئی ۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ علاقہ اسی افسوس ناک صورتحال سے دوچار ہے اور ہر روز معصوم بچے جان سے جارہے ہیں، پچھلے دور ابتلا میں حکومت کی جانب سے اپنے عذر کے طور پر ایسے جوازات پیش کیے گئے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا کہا گیا کہ تھر میں بچوں کی اموات ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں اس بار اس سانحے کے عوام میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں اس کا چرچا کیا گیا، اس حوالے سے متعلقہ شعبوں کے ذمے داران اور محترم وزراء کرام نے یہ عجیب و غریب منطق پیش کی کہ تھر میں بچوں کی اموات غذا کی قلت کی وجہ سے نہیں بلکہ بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔
اگر حکومت کا یہ موقف مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کی بیماریوں کا علاج کیا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے، بلا شبہ بچوں کی ہی نہیں بلکہ بڑوں کی ایک بڑی تعداد بھی علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہے لیکن یہ المیہ اس لیے پیش آتا ہے کہ حکومت نے کبھی صحت کے شعبے میں اتنا بجٹ نہیں رکھا جو غریب عوام کے علاج معالجے کی ضرورت پوری کرسکے۔
صحت اور تعلیم کو ہر ملک میں خصوصاً جمہوری ملکوں میں بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور ہر سال بجٹ میں ان شعبوں کے لیے ایک معقول رقم رکھی جاتی ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں کسی حکومت نے زندگی کے ان دو اہم شعبوں کے لیے کبھی ضرورت کے مطابق رقوم نہیں رکھی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ہر سال لاکھوں عوام جن میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب شامل ہوتے ہیں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تھر کے مختلف علاقوں میں بچوں کی بے تحاشا اموات کے جو سانحات پیش آتے ہیں ان کی اصل وجہ غذائی قلت ہی بتائی جاتی ہے نومولود بچوں کو دودھ اور ہلکی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ مناسب غذا کی عدم دستیابی دیہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ شہری علاقوں میں رہنے والے لاکھوں بچے بھی دودھ جیسی بنیادی ضرورت سے محروم رہتے ہیں، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق حاملہ خواتین بھی لاکھوں کی تعداد میں ہر سال اپنی جانوں سے اس لیے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں کہ وہ مناسب غذا سے محروم ہوتی ہیں۔
زچگی کے دوران بھی لاکھوں مائیں غذا اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں غذائی قلت اتنی شدید ہے کہ ہر سال لاکھوں انسان موت کا شکار ہوجائیں؟ ہمارا خیال ہے بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جس ملک میں کل آبادی کا 53 فی صد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہو اس ملک میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ملک میں اس قدر غذا پیدا نہیں ہوتی جو اس ملک کے20 کروڑ انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مارکیٹیں غذائی اجناس اور دودھ سے بھری پڑی ہیں لیکن عوام کے پاس قوت خرید نہیں وہ دکانوں اور مارکیٹوں میں ان اشیا کی بھرمار کو دیکھ تو سکتے ہیں خرید نہیں سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی آمدنی کا اسی فی صد حصہ ناجائز اور غیر قانونی طریقوں سے دو فی صد ایلیٹ کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔
قومی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے ملک کی 90 فی صد سے زیادہ آبادی ہمیشہ دو وقت کی روٹی کی محتاج رہتی ہے، کہا جاتا ہے کہ ان مسائل کا حل جمہوریت کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے کیوں کہ جمہوریت میں عوامی نمائندوں کا انتخاب عوام ہی کرتے ہیں، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انتخابات میں عوام ہی اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں لیکن جب انتخابات نفع بخش سرمایہ کاری اور جمہوریت اشرافیہ کی لونڈی بن جائے تو اشرافیائی آمریت بن جاتی ہے۔
اگر ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو تھر پارکر میں ایسی ہی ہماری جمہوریت کا وہ بدنما چہرہ نظر آتا ہے جس کا عکس ہم ہزاروں بچوں کی موت کی شکل میں تھر پارکر کے علاقوں میں دیکھ رہے ہیں سابقہ المیوں کے دوران میڈیا میں یہ شرمناک خبریں آتی رہیں کہ جن حکومتی اکابرین اور منتخب نمائندوں کو تھر میں بچوں کی بے تحاشا اموات کی روک تھام کے اقدامات کے لیے بھیجا گیا تھا وہ تھر کر علاقوں میں پکنک مناتے رہے اور لہو لعب میں اس طرح مصروف رہے کہ تھری بچے ان کی نظروں سے اوجھل ہوئے۔
یہی وہ جمہوریت ہے جو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک خطرناک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے سیاسی نظاموں کی تاریخ میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کو ایک منافع بخش صنعت بناکر رکھ دیا گیا ہے اور طریقہ انتخابات منافع بخش سرمایہ کاری بن گیا ہے جب صورتحال یہ ہو تو تھر کے المیے حیرت انگیز نہیں رہتے۔
سندھ میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو ''قوت کا سرچشمہ عوام ہیں'' کا فلسفہ رکھتی ہے اگر اس فلسفے کی روشنی میں تھرپارکر کے المیے کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ''بے بسی کی تصویر عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کے بانی نے پاکستانی عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کا تاریخی کام انجام دیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کے سجادہ نشینوں اور وارثوں نے بھٹو مرحوم کی کوششوں کو آگے بڑھایا؟
اس سوال کا جواب ہمیں 2013 کے الیکشن میں مل جاتا ہے اور یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ قوت کا سرچشمہ عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کردیا اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت عوام کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ تھر پارکر میں موت کا شکار ہونے والے سیکڑوں معصوم بچے پیپلزپارٹی اور جمہوریت کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہوئے ہیں اور عوام حیرت سے یہ المیے دیکھ رہے ہیں۔