روحی بانو سے ایک ملاقات اور فاؤنٹین ہاؤس
روحی بانو پاکستان ٹیلی وژن کی وہ صف اول کی اداکارہ ہیں ، جس پر یقینا فخر کیا جاسکتا ہے۔
روحی بانو پاکستان ٹیلی وژن کی وہ صف اول کی اداکارہ ہیں ، جس پر یقینا فخر کیا جاسکتا ہے۔ ورسٹائل اداکارہ روحی بانو نے اپنی اداکاری کے ساتھ جو انصاف کیا وہ نئی آنے والی اداکاروں کے لیے ایک رول ماڈل سے کم نہیں ۔ ہر نئے کردار کو قبول کرنے سے پہلے روحی بانو کا کمال یہ تھا کہ وہ اس کردار میں کئی کئی ہفتوں تک اپنے آپ کو اس میں ڈال کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتی تھیں۔کردار کی باریک بینی اور اس کی اصل شخصیت کو سمجھ کر جب وہ شان و شوکت کے ساتھ اس کردار میں سب کے سامنے آتیں تو لوگ یقین ہی نہیں کرتے تھے کہ وہ محض ایک کردار ہیں۔ وہ محض اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ پڑھی لکھی سے مراد محض ان کی دو ماسٹرز کی ڈگریاں ہی نہیں ، بلکہ مطالعہ کی بھی وہ خوب شوقین ہیں ۔ اداکاری کو محض اداکاری سمجھنے کی بجائے اس میں انھوں نے ایک فکری جان بھی ڈالی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے کیے گئے ڈرامے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
یہ وہ ٹیلی وژن کا دور تھا جب اداکاری میں جوہر دکھانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ کئی بڑے لوگ اور بڑے نام ٹیلی وژن کی دنیا میں اپنا سکہ جمائے ہوئے تھے ۔ ان میں عظمیٰ گیلانی ، عابد علی ، محمد قوی خان ، اورنگ زیب لغاری ، کمال احمد رضوی ،فردوس جمال ، شجاعت ہاشمی ، ثمینہ احمد، سلمان شاہد، راحت کاظمی ، سائرہ کاظمی ، شہناز شیخ ، مرینہ خان ،معین اختر ،خالدہ ریاست،محبوب عالم ، سلیم ناصر، دردانہ بٹ، نجمہ محبوب، منور سعید، عرفان کھوسٹ، جمیل فخری، شفیع محمد، جمال شاہ،سکینہ سموں، بہروز سبزواری، جاوید شیخ،جمشید انصاری، بشری انصاری، توقیر ناصر، لطیف کپاڈیا، افضال احمد جیسے لاتعداد لوگ موجود تھے۔ ان اہم افراد کی موجودگی میں روحی بانو جیسی اداکارہ کا اپنی محنت ، لگن ، شوق کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو منوانا ان ہی کا کمال تھا ۔
روحی بانو کافی عرصہ سے ذہنی طور پر بیمار ہیں ۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے فاؤنٹین ہاؤس میں زیر علاج ہیں۔ مجھ سمیت کچھ دوستوں کی خواہش تھی کہ ان سے ملاقات کی جائے۔مسلم لیگ)ن(کی رکن اسمبلی ڈاکٹر عالیہ آفتاب کی مدد سے ہونے والی اس ملاقات میں مجھ سمیت اکمل اویسی ، عنبرین فاطمہ ، عبداللہ ملک شامل تھے۔فاؤنٹین ہاؤس کی ڈاکٹر نومیس نوید ملک جو ایڈیشنل ایم ایس ہیں، نے اس سلسلے میں ہماری اچھی راہنمائی کی ۔ایک گھنٹہ سے زائد ہونے والی روحی بانو سے ملاقات کافی یادگار رہی۔ ماشاء اللہ وہ کافی بہتر نظر آئیں اور انھوں نے خوب دل کی باتیں کیں ۔اچھی بات یہ ہے کہ روحی بانو نے وہاں مقیم مریضوں کے ساتھ ایک ڈرامہ تیار کیا اور اس کی خوب پزیرائی ہوئی۔ ان کے بقول یہاں موجود لوگوں کو اکیلے رہنے کا احساس زیادہ ہے اور وہ آسانی سے گھلتی ملتی نہیں ۔
روحی بانو فوری طور پر گھر جانے کی خواہش رکھتی تھیں ، ان کے بقول انھوں نے گھر جاکر کافی کام کرنے ہیں اور گھر کا سارا نظام بکھرا ہوا ہے ۔ جب وہ گھر کا ذکر کر رہی تھیں تو ان کے چہرے پر اداسی بھی غالب تھی۔انھوں نے کمال بات کی کہ انسانوں کے حقوق کی طرح گھروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں ۔ اگرانسان گھروں کے حقوق پورے نہ کرے تو گھر کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔اداکاری کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اگرچہ اب بھی اچھا کام ہو رہا ہے ، لیکن اداکار زیادہ محنت نہیں کرتے۔ اداکاری میں آنے والے کمرشل ازم نے اداکاری کے مقابلے میں پیسے کی اہمیت بڑھا دی ہے۔
ان کے بقول ہمارے دور میں ڈرامہ سیاسی ، سماجی اور اخلاقی تبدیلی میں ایک فکری تبدیلی کے طور پر کام کرتا تھا ۔ کیوں کہ ہم سب مثبت تبدیلی لانے میں ڈرامہ کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے ۔روحی بانو اس بات پر خوش تھیں کہ کچھ لوگ ان سے ملنے بھی آتے ہیں اور ان کی اداکاری کی باتیں کرکے ان کو احساس دلاتے ہیں کہ انھوں نے اچھا کام کیا ہے ۔میں کافی دیر تک روحی بانو کی آنکھوں میں چمک دیکھتا رہا ، جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہیں اور بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں ۔وہ ماضی میں رہنے کی بجائے مستقبل کی طرف بھی دیکھ رہی ہیں اور ان کے بقول ماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل اہم ہوتا ہے ۔
اس ملاقات کے بعد کئی دن تک روحی بانو کے بارے میں سوچتا رہا کہ ماضی کی یہ عظیم اداکارہ آج کس قدر تنہائی کا شکار ہے ۔ ایک بڑا نام ہونے کے باوجود وہ گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ان کو وہاں دیکھ کر دل بجھ سا گیا ، کیوں کہ وہ ابھی بہت کچھ کرسکتی ہیں ، لیکن روحی بانو اور ان جیسے کئی اہم اداکار اس وقت ایک خاموش تماشائی کے طور پر زندہ ہیں۔ نئی نسل میں سے تو بہت سوں کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ کون روحی بانو اور ان کے وہ کردار جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ہم واقعی بڑے لوگوں سے جس انداز سے لاتعلقی اختیار کرتے ہیں وہ بڑا المیہ ہے۔ روحی بانو کے اردگرد لوگ تو موجود ہیں ، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو خود معاشرے اور خاندان کی مختلف قسم کی سماجی ، معاشی محرومیوںکے ساتھ اس کے اردگرد موجود ہیں ۔
ہم ان کرداروں کو دیکھیں تو ہر ایک کی اپنی ایک الگ داستان ہے ۔کئی ایسے کردار ہیں جو اچھے بھلے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے خاوند، جوان بیٹے ، بیٹیاں اور بھائی ، بہن بھی موجود ہیں ، لیکن ان تمام کرداروں کے باوجود وہ تنہا کردیے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر نومیس نوید ملک کے بقول یہاں 80فیصد سے زیادہ مریض وہ ہیں جن کے گھر والے ان کو پوچھنے تک نہیں آتے ، یہ بیچارے ان کی راہیں تکتے رہ جاتے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس1971میں پروفیسر رشید چوہدری اور ان کے احباب نے قائم کیا تھا۔یہاں پر پانچ سو سے زیادہ مریض رہائش پذیر ہیں۔ جب کہ ماہانہ دو ہزار سے زائد مریض او پی ڈی میں آتے ہیں ۔ ان مریضوں میں سے 90فیصد لوگ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تک پچاس ہزار سے زائد مریض یہاں سے صحت یاب ہوکر واپس گئے ہیں۔ بارہ سے تیرہ کروڑ سالانہ خرچہ ہے جس میں سے صرف پچیس لاکھ حکومت ادا کرتی ہے ، جب کہ باقی سارا پیسہ عام آدمی اور درددل رکھنے والے لوگ ادا کرتے ہیں ۔ لاہور ، شیخوپورہ اور اب سرگودھا میں اس کا پھیلاؤ ہوگیا ہے۔جسٹس ناصرہ جاوید اقبال ، ڈاکٹر امجد ثاقب اور حاجی انعام الہی اثر جیسے لوگ اس ادارے کی سرپرستی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
اگرچہ ہماری ملاقات تو روحی بانو سے تھی لیکن جو کچھ حال ہم نے وہاں ڈاکٹر نومیس نوید ملک کی مدد سے دیکھا تو دل اداس سے ہوگیا ۔ وہاں جو خواتین مریض تھیں سب ہم دوستوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔ سب کا خیال تھا کہ ہم ان سے ملنے آئے ہیں ۔ وہ پوچھ بھی رہی تھیں کہ آپ اب کب ملنے آئیں گے ، تو آنکھیں بھیگ سی گئیں ۔ خیال آیا کہ جن لوگوں کی حقیقی معنوں میں ان کے گھر والوں نے دیکھ بھال کرنی تھی ، وہ اپنوں کی موجودگی کے باوجود تنہا ہیں ۔ ان کی آنکھیں اپنے پیاروں کا انتظار کرتی ہیں ، لیکن بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان کے پاس آتے ہیں ۔ ان کو بوجھ سمجھ کر ڈال دیا جاتا ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ معاشرہ اخلاق اور تربیت کے حوالے سے زوال پذیری کا شکار ہے۔ ڈگریاں بانٹنے سے معاشرے تبدیل نہیں ہوتے، معاشرے کا حسن اس کی اخلاقی تربیت سے جڑا ہوتا ہے اس کا فقدان نظر آتا ہے، معاشرہ بہت کچھ ہونے کے باوجود تنہائی کا شکار ہے ۔
میں سوچتا رہا کہ اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے والدین سمیت اپنے دیگر پیاروں کو اس قدر بوجھ سمجھ لیتے ہیں ، ان کو گھروں سے نکال کر ایسی جگہوں پر ڈال دیتے ہیں کہ ان کو تنہائی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ لوگ ذہنی مریض ہیں ، اگر مان لیا جائے کہ ان کو علاج کی ضرورت ہے تو خاندان کی ان سے بے رخی اور لاتعلقی سمیت نہ ملنا کونسا علاج ہے ۔ اولڈ ہومز ہوں یا اس طرح کے فاؤنٹین ہاؤس، یہ واقعی غنیمت ہیں ۔ لیکن اس مسئلہ پر ضرور غور ہونا چاہیے کہ لوگ اپنے پیاروں کی بے رخی کے باعث یہاں کیونکر پہنچتے ہیں اور ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ۔کاش ہم اپنے خاندانی اور سماجی و اخلاقی نظام کی ترقی پر توجہ دیں ، وگرنہ جو لوگ کسی بھی محرومی کا شکار ہونگے ان کے ساتھ اس طرز کا سلوک معاشرتی اقدار پر بڑا سوالیہ نشان ہے ۔