قومی صحت پروگرام اور غریبوں کی توقعات

پاکستان میں کمزور اور غریب طبقے کے لیے علاج و معالجے کا حصول کتنا دشوار ہے


[email protected]

پاکستان میں کمزور اور غریب طبقے کے لیے علاج و معالجے کا حصول کتنا دشوار ہے، اس کا تصور بھی محال ہے۔ غریب طبقے کے بہت سے لوگ علاج کی سہولت کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب علاج و معالجے کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ یہ اب عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

تھر سے پشین تک ایک غریب آدمی موذی بیماری میں مبتلا ہو کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتا ہے کیونکہ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے بھلا وہ علاج کیسے کرائے؟ جہاں تک پاکستان میں قومی صحت کا معاملہ ہے تو اس وقت اس کی حالت تشویش ناک ہے ڈاکٹرز کی کمی، ادوایات کی قلت، جعلی دوائیں، مہنگے ٹیسٹ وغیرہ نے مریضوں کو وقت سے پہلے ہی مار دیا ہے۔ ہر برسراقتدار آنیوالی حکومت علاج و معالجے کی سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے انتخابی منشور میں بھی اس کا تذکرہ کرتی ہے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں۔ البتہ موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے قومی صحت پروگرام کا اعلان کیا ہے۔

قومی صحت پروگرام کا بنیادی مقصد کم آمدنی والوں کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ پروگرام 23 اضلاع میں شروع کیا جائے گا اور اس پروگرام سے 32 لاکھ خاندان مستفید ہوں گے۔

اس پروگرام کے ذریعے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو امداد فراہم کی جائے گی اور وہ بغیر کسی معاوضے کے اپنا علاج کرا سکیں گے۔ پروگرام پر عمل درآمد کے بعد اب ایسا نہیں ہو گا کہ کوئی غریب خاندان مالی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنا علاج نہ کرا سکے یا پھر اسے علاج کی غرض سے اپنا اثاثہ فروخت کرنا پڑے۔ اس پروگرام کے ذریعے یہ کوشش کی جائے گی کہ مریض کو دور دراز علاقے تک سفر نہ کرنا پڑے اور ضروری ادویات اسے اس کے گھر کے قریب ہی دستیاب ہوں اور غریب خاندان کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پروگرام کے افتتاح کرنے کے موقعے پر متنبہ کیا کہ اگر قومی صحت کارڈ کا غلط استعمال ہوا یا اس پر علاج نہ کیا گیا تو متعلقہ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پروگرام کے تحت جو قومی صحت کارڈ جاری کیا جائے گا وہ پاکستان کی تاریخ میں صحت عامہ کا عظیم تاریخی منصوبہ ہے۔ قومی صحت پروگرام کے تحت 7 خطرناک بیماریوں کا علاج مفت ہو گا جن میں شوگر اور دل کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ پروگرام کا اجراء وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے کیا گیا ہے، اس پروگرام میں مریض کو یہ سہولت بھی فراہم کی گئی ہے کہ وہ اپنے موبائل سے ایک ایس ایم ایس کے ذریعے اردو یا انگریزی میں معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

کارڈ ایک خاندان کو جاری کیا جائے گا جس پر پورے خاندان کو علاج و معالجے کی سہولت حاصل ہو گی۔ ابتدائی طور پر مریض کو علاج کے لیے 3 لاکھ روپے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اگر علاج کے اخراجات زیادہ ہوئے تو پھر وہ ادارہ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن و کوآرڈینیشنز برداشت کرے گا۔ اس مقصد کے لیے بیت المال سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس قومی صحت پروگرام کے ذریعے اب شہری سرکاری اسپتالوں کے ساتھ ساتھ نجی اسپتالوں میں بھی اپنا علاج کروا سکیں گے۔ یہ کارڈ ان افراد کو جاری کیا جائے گا جن کی یومیہ آمدنی 200 روپے تک ہو گی۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے جب حکومت سنبھالی تو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، بدحال معیشت کو بہتر بنائیں گے اور ایک عام آدمی جن مسائل سے دوچار ہے وہ اسے اس سے نجات دلائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی، معیشت کی حد بہتر صورتحال اور توانائی بحران میں کمی جیسے بڑے بڑے سے نمٹتے ہی نواز شریف نے 2015-16ء کے بجٹ میں اجرت کی کم سے کم حد 13 ہزار روپے مقرر کی تھی اور اب صحت کارڈ ان افراد کو جاری کیا جائے گا جن کی ماہانہ آمدنی 6 ہزار روپے تک ہو گی۔

حادثے، زچگی، کھانسی، نزلہ، زکام اور ہیپاٹائٹس سمیت چھوٹی بیماریوں کے لیے 50 ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں جب کہ بائی پاس، گردوں کا آپریشن اور انجیوپلاسٹی سمیت بڑی بیماریوں پر 3 لاکھ روپے خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ قومی صحت پروگرام کو ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔ غریب طبقے کا مختص وظیفہ 36 ارب سے بڑھا کر 95 ارب روپے کر دیا جائے گا۔ بلاشبہ ملک میں پیچیدہ امراض میں مبتلاء مریضوں کی شرح کم کرنے کے لیے قومی صحت پروگرام موجودہ حکومت کا مستحسن اقدام ہے۔ جس کے لیے وزیر اعظم محمد نواز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران عوام کے مسائل سے بے خبر نہیں۔ اس پروگرام سے اب غریب طبقہ علاج و معالجے کی مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کے باعث جن عطائی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے تھے اب وہ ان سے محفوظ ہو جائیں گے۔ کیونکہ عطائی ڈاکٹر گلی محلوں میں دکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں اور ہر آنیوالے مریض کا الٹا سیدھا علاج کر رہے ہیں جس سے مریض ٹھیک ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے اگر حکومت عطائی ڈاکٹروں کو لوگوں کی صحت سے کھیلنے سے روکنے کا بندوبست کر لے تو وزیر اعظم کے قومی صحت پروگرام کے نتائج مزید حوصلہ افزاء ہو سکتے ہیں۔

قومی صحت پروگرام کی افادیت مسلمہ ہے اس پر عمل درآمد سے ہزاروں غریب موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں گے اور اس کی بدولت قومی صحت کا عمومی معیار بھی بہتر ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروگرام کو جلد از جلد پورے ملک میں توسیع دی جائے کیونکہ غربت پورے ملک کا مسئلہ ہے اور علاج کی معیاری سہولتوں پر غریب کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے کا۔ اس قومی صحت پروگرام کو کامیاب بنانے کی ذمے داری وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

شرح غربت کے لحاظ سے سندھ پہلے نمبر پر 33 فیصد جب کہ خیبرپختونخوا 32 فیصد کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس شرح کے باوجود یہ دونوں صوبے اس پروگرام میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 9 ارب 10 کروڑ روپے اس پروگرام کے لیے مختص کیے۔ ابتدائی طور پر حامی بھرنے کے بعد دونوں صوبائی حکومتوں نے اس فلاحی پروگرام میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ جب کہ سندھ کے علاقے تھر میں روزانہ غذائی کمی اور دیگر بیماریوں کے باعث معصوم بچے ہلاک ہو رہے ہیں، گزشتہ سال بھی 500 بچے ایسے صورتحال میں ہلاک ہوئے تھے۔

وزیر اعظم نے تھر کا دورہ بھی کیا تھا اور اس کی امداد کے لیے 1 ارب روپے دینے کا بھی اعلان کر کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت عوام میں 60 فیصد رقم تقسیم کی گئی۔ مگر سندھ حکومت تھر کے عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ وفاق سے رابطہ کر کے وزیر اعظم قومی صحت پروگرام کے تحت تھر کے عوام کو ریلیف دے اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ تھر کے عوام کو سندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، فوری طور پر اس پروگرام کے تحت عوام کو ریلیف دے۔

اس کے لیے مریم نواز کو بھی تھر کا دورہ کرنا چاہیے تا کہ تھر ی عوام سے احساسِ محرومی ختم ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مفت علاج کے اس عظیم پروگرام کی کامیابی کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جائیں اور اسے بہتر بنانے کا عمل بھی جاری رکھا جائے تب ہی حکومت یہ ذمے داری پور ی کر کے اپنے بنیادی فرض سے عہدہ برآء ہو گی۔ مریم نواز نے وفاقی سطح پر شعبہ صحت کی نظم و نسق کی سربراہ سائرہ افضل تارڑ کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کے خواب کو عملی جامہ پہنایا ہے، بلکہ دور جدید کے تمام تر تقاضوں کے مطابق بنایا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں