کچھ اقدامات ہمارے ہاں صرف فوجی ڈکٹیٹرکرسکتے ہیں فہمیدہ ریاض

کمال فن ایوارڈ پر خوش گوار حیرت ہوئی، شاید حکم راں طبقے کے انداز فکر میں تبدیلی آرہی ہے


Ashraf Memon/iqbal Khursheed January 24, 2016
برصغیر کی ممتاز شاعرہ، ادیب اور دانش وَر، فہمیدہ ریاض سے خصوصی مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

آئیں، ایک سچی قلم کار سے ملتے ہیں۔
کھری قلم کار، جو خوف اور یاسیت کی تاریکی میں غیرجانب دار نہیں رہی، ظلم کے شور میں چپ کی زنجیر نہیں پہنی، سمجھوتا نہیں کیا، جس فکر کو سچ جانا، اُسے مشعل راہ بنایا، اپنے الفاظ سے دیے روشن کیے۔ ہاں، اس راہ میں تکالیف آئیں، کڑی تنقید ہوئی، جلا وطنی سہی۔ خود کو یہ کہہ کر تسلی دی:

زندگی سے آدمی کی دوستی ممکن نہیں
آدمی سے اِس قدر، مختلف ہے زندگی

مگر سپر نہیں ڈالے۔ مشکلات سہہ لیں۔ سفر جاری رکھا۔ ہنستے ہنستے کہا: ''جب غربت، ذہانت اور علم اکٹھے ہوں، تب ہی مارکسسٹ بنتا ہے!''

آپ انھیں اپنی تہذیب کا، گنگا جمنی تہذیب کا حقیقی نمایندہ کہہ سکتے ہیں۔ ایسا نمایندہ، جس نے اس تہذیب کو توسیع دی، جس کی دانش نے سندھ میں پیدا ہونے والی لسانی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی، دیگر زبانوں سے اردو کا فطری رشتہ قائم کرنے پر زور دیا۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے، اس کے لیے الگ دفتر درکار۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ تقسیم کے بعد کی اردو شاعری کا تذکرہ ان کے بنا ادھورا۔ اُن موضوعات پر لکھا، جو شجر ممنوعہ تصور کیے جاتے تھے۔ مشرقی عورت ان کا بنیادی موضوع۔ ایسی عورت، جو آج کے زمانوں میں سانس لے رہی ہے۔

اگر آپ فہمیدہ ریاض کو Living legend کہتے ہیں، تو غلط نہیں ہوگا۔ نظم ہو یا نثر، ان کے قلم سے نکلی ہر تخلیق نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ انگریزی اور سندھی؛ دونوں پر عبور۔ تراجم کے میدان میں بھی بڑی خدمات ہیں۔ البتہ ستایش سے زیادہ یہ تنازعات تھے جنھوں نے انھیں گھیرے رکھا، حکومتوں کو جو ادیب ناپسندیدہ رہے۔

ان میں فہمیدہ صاحبہ کا نام بھی شامل۔ اسی باعث جب اُنھیں اکادمی ادبیات کا سب سے بڑا اعزاز ''کمال فن ایوارڈ'' دینے کا اعلان ہوا، تو من میں کئی سوالات کا جنم ہوا، جنھیں لیے ایک نکھری صبح ہم آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے دفتر پہنچ گئے۔ سیکیوریٹی چیکنگ کے مراحل سے گزر کر ان سے ملے۔ ان کی مسکراہٹ نے خوش آمدید کہا۔ مکالمہ شروع ہوا۔ چلیں، آپ بھی اِس گفت گو میں شامل ہوجائیں:

ایکسپریس: میاں نوازشریف کے پہلے دورحکومت میں آپ کو غیرملکی ایجنٹ قرار دیا گیا، پاسپورٹ ضبط ہوا، اب اُن ہی کے دور میں کمال فن ایوارڈ مل رہا ہے، تو کیا حکم راں طبقے کی فکر میں کچھ تبدیلی آئی ہے یا یہ محض اتفاق ہے؟
فہمیدہ ریاض: یہ اعلان میرے لیے بھی خوش گوار حیرت کا باعث بنا۔ مجھے یہ اعزاز ادیبوں کی کمیٹی کی جانب سے دیا گیا ہے۔ وہ ادیب، جو وقار رکھتے ہیں۔ پھر بھی، میرے خیال میں یہ پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے۔

عام خیال ہے کہ اعزازات میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے، اس کے لیے ادیب کو بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ مجھے نہ تو اِس کی خبر تھی، نہ ہی امید تھی، نہ ہی کبھی اس کے لیے کوشش کی۔ پھر مجھے یہ ایوارڈ کیسے ملا؟ اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی آئی ہے۔ مجھے یہ ایوارڈ نوازشریف صاحب کے دور حکومت میں دیا جارہا ہے۔ یہ خوش آیند تبدیلی ہے، بہ شرطے کہ یہ تبدیلی ہو۔ (ہنستے ہوئے) ممکن ہے، محض اتفاق ہو۔ خیر، ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکم راں طبقے کے اندازفکر میں تبدیلی آرہی ہے۔ اور یہ مثبت ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ انھیں ماضی کی پالیسیوں کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ چیزیں قابو سے باہر ہوگئیں۔

ایکسپریس: ادیب کو ایوارڈ تو ملتا ہے، مگر رائلٹی نہیں ملتی۔ احمد فراز جیسے شاعروں اور ادیبوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
فہمیدہ ریاض: یہ تو بالکل سچ ہے۔ احمد فراز بہت مقبول آدمی تھے۔ ان کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں، مگر رائلٹی کے لیے جو ذہانت اور توانائی درکار ہوتی ہے، وہ بھی اپنے اندر رکھتے تھے۔ ہر ادیب کا یہ معاملہ نہیں۔ قرۃ العین حیدر کا ناول ''آگ کا دریا'' آج بھی فروخت ہورہا ہے، مگر انھیں کسی قسم کی رائلٹی نہیں ملی۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ وہ ہندوستان میں تھیں، اور ناول پاکستان میں شایع ہو رہا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ پبلشنگ بڑی افراتفری والی انڈسٹری ہے۔ کسی قسم کے اصول نہیں ہیں۔ سب اپنی مرضی چلاتے ہیں۔ حکومت بھی اُن پر توجہ نہیں دیتی۔ اس کا نقصان ادیب کو اٹھانا پڑتا ہے۔

ایکسپریس: رائلٹی کے معاملے میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
فہمیدہ ریاض: مجھے بیش تر کتابوں کی رائلٹی نہیں ملی۔ ہاں، کچھ رقم کبھی کبھی ادا کی گئی۔ مگر میرے لیے یہ پریشانی کی بات نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میری کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ شاید کچھ فروخت ہوئی بھی ہوں، مگر اس بات کا تعین کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے، آزادی اظہار پر آج بھی قدغن ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
فہمیدہ ریاض: موجودہ صحافت میں سینسر شپ بھی ہے، اور سیلف سینسر شپ بھی۔ البتہ انگریزی پریس اور اردو پریس میں تھوڑا فرق ہے۔ آج انگریزی پریس زیادہ آزاد ہے۔ صورت حال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔

ہمارے زمانے میں اردو پریس آزادی اظہار کی علامت تھا۔ اردو کے کئی بڑے اخبارات تھے۔ پروگریسیو لکھنے والے تھے۔ انگریزی پبلی کیشنز خاصی کم تھیں۔ بعد میں ایک زمانہ آیا، جب انگریزی اخبار نکلنے لگے۔ نئے لوگ آئے، رجحانات بدلے۔ اِس وقت انگریزی پریس میں لکھنے والے نسبتاً آزادی کے ساتھ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔



ایکسپریس: سیلف سینسر شپ کے پیچھے خوف کا عنصر ہے یا ذمے داری کا؟
فہمیدہ ریاض: ذمے داری تو ہوتی ہے، مگر خوف کا بھی عنصر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اردو پریس میں آنے والے مستقبل میں کیا لکھتے ہیں۔ امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایکسپریس: آپ سوشل میڈیا پر خاصی متحرک ہیں، بے لاگ رائے دیتی ہیں، کیا اِسے متوازی ذرایع ابلاغ کے طور پر دیکھتی ہیں؟
فہمیدہ ریاض: (ہنستے ہوئے) ہاں، فیس بک پر میں خاصا وقت گزارتی ہوں، ایک معنوں میں ورچول ورلڈ میں زندہ ہوں۔ بہت عرصے سے فیس بک پر ہوں۔ وہاں آپ بولڈ انداز میں اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ رسک کا عنصر تو ہوتا ہے، مگر رائے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہوتا ہے۔ اخبار میں ایسا نہیں۔ آپ رسک لے کر اپنی رائے تو دے سکتے ہیں، مگر ایڈیٹر چاہے تو اسے روک لے۔ یہاں فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ تو یہ متوازی میڈیا کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ ایک عشرے سے ہم دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ البتہ 2015 میں ریاستی اقدامات کے بعد کچھ بہتری نظر آئی، اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
فہمیدہ ریاض: بالکل بہتری آئی ہے۔ میں اسے سراہتی ہوں۔ اور اسے سراہنا بھی چاہیے۔ پرویر مشرف کی بھی اِسی وجہ سے تعریف کرتی تھی۔ ہمارے ہاں ان کے متعارف کردہ Enlightened Modernism پر بے طرح تنقید کی گئی، مگر حقیقتاً ہمیں اس کی ضرورت تھی۔ انھوں نے پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ کی تجدید کی۔ ضیاء الحق کے پاکستان میں ایسا کرنا بڑی دلیری کا کام تھا۔ انھوں نے شیعہ سنی کی خلیج کو پاٹنے اور خفیہ اداروں کو سینٹرل کنٹرول میں لانے کی کوشش کی، جو افغان وار کے بعد آزاد حیثیت میں کام کر رہے تھے۔ لبرل دوستوں نے مشرف کی تعریف کرنے پر ہمیشہ مجھ پر کڑی تنقید کی، شاید اسی وجہ سے جنرل راحیل شریف کی کھل کر تعریف کرنے میں کچھ جھجک محسوس کرتی ہوں، مگر ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ سربراہاں کے مثبت فیصلوں سے فرق پڑتا ہے۔

ایکسپریس: پاکستانی لبرلز ایک آمر (پرویز مشرف) کو سراہتے ہوئے شاید خود کو متذبذب محسوس کرتے ہوں؟
فہمیدہ ریاض: (ہنستے ہوئے) آپ اس عمل کی تعریف کریں، جو معاشرے کے لیے اچھا ہے۔ آپ ایک منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو جو بھی آپ کو منزل کی سمت لے جائے، اسے سراہنا چاہیے۔ تنقید کرنے والوں کا تمام تر زور طریقۂ کار پر ہے۔ وہ کہتے ہیں، اسے منتخب شخص ہونا چاہیے۔ بے شک ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والا شخص عوام کا منتخب کردہ ہونا چاہیے۔ البتہ اگر ایسا نہیں ہے، لیکن وہ ملک کو صحیح سمت لے کر جارہا ہے، تو قابل تعریف ہے۔

آپ کو سمجھنا ہوگا، کچھ اقدامات ہمارے ہاں صرف فوجی ڈکٹیٹر کرسکتے ہیں، کیوں کہ فوج کے ادارے مضبوط ہیں، ایک عرصے تک اقتدار میں رہے، جڑیں رکھتے ہیں۔ جو اصلاحات پرویز مشرف نے کیں، جیسے معاشرے کو لبرل بنانے کی کوشش کی، اگر یہی کام بے نظیر بھٹو نے کیا ہوتا، تو بھیڑیوں کا ایک غول ان پر جھپٹ پڑتا۔

ایکسپریس: پاک و ہند کے جمہوری نظام کو اس طرح بیان کرتے ہوئے آپ اُس طبقے کی فکر کے قریب معلوم ہوتی ہیں، جو کہتا ہے، یہاں مغربی جمہوری نظام نہیں چل سکتا!
فہمیدہ ریاض: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہمیں فوراً نتائج پر نہیں پہنچنا چاہیے۔ میں کہتی ہوں، آپ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بہتری کی سمت بڑھیں۔ بھٹو صاحب عوامی طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، مگر کیا وہ ڈکٹیٹر نہیں تھے؟ بالکل تھے۔ یعنی آپ کو منتخب ڈکٹیٹر بھی ملے (قہقہہ!)، مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ اُن کی شخصیت کے اچھے پہلو نہیں تھے۔ ہم ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اور بھٹو صاحب کے مانند اگر کوئی اور اچھا کام کرتا ہے، تو اُس کی بھی تعریف کرنی چاہیے۔

ایکسپریس: شدت پسندی سے نجات کے لیے ہمیں کیا ٹول استعمال کرنے ہوں گے؟
فہمیدہ ریاض: کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے، ایسی قوت ہونی چاہیے، جو ان کا مقابلہ کرسکے۔ آپ شہر کی دیواریں دیکھیں، اُن پر کس قسم کے انتہاپسندانہ نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ ہم اس کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی جوابی نعرہ نہیں لکھتا، تو کم از کم انھیں مٹا تو سکتا ہے۔ تو کیا ریاست ان لوگوں سے نمنٹے کے لیے سنجیدہ ہے، جو ہمارے ملک اور معاشرے کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں!

ایکسپریس: کیا تعلیم اس ضمن میں کردار ادا کرسکتی ہے؟
فہمیدہ ریاض: بے شک تعلیم کا کردار ہے۔ ہمیں اسکولوں اور کالجوں میں بہتری کی ضرورت ہے، لیکن جب ہم شدت پسندی کی بات کرتے ہیں، تو یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ ہم نے ایسی فکر عام کرنے کی اجازت ہی کیوں دی، جو ہمارے Social Fabric کے لیے مضر تھی۔

ایکسپریس: روشن خیال حلقوں پر الزام لگتا ہے کہ وہ معروضی حالات کا ادراک نہیں کر سکے؟
فہمیدہ ریاض: ایک سے زاید بار ایسا ہوا۔ کبھی کبھار مجھے لگتا ہے، انھیں اس بگاڑ کی گہرائی کا اندازہ نہیں۔ کئی بار انھوں نے قومی اداروں کی صلاحیت کو overestimate کیا۔ ہم بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔

ہمیں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جو پاکستان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، چاہے ان کا تعلق فوج سے ہو۔ سوچیے، کیا ان عسکریت پسندوں کا، شدت پسندوں کا مقابلہ آپ اور میں کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس تو غلیل بھی نہیں۔ یہ ہتھیار کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ان کا مقابلہ تو فوج ہی کرسکتی ہے۔ تو جب وہ ان قوتوں سے لڑتی ہے، تو میں انھیں سراہنے میں خود کو حق بہ جانب پاتی ہوں۔
سوال: آپ کے دور نوجوانی میں نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والی دنیا کی آنکھوں میں کمیونسٹ انقلاب کی آرزو تھی، کچھ حلقوں کا موقف ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں شدت پسندی کی تازہ شکل اسی کا تسلسل ہے؟
فہمیدہ ریاض: پاکستان کے کچھ حصے، بالخصوص خیبر پختون خوا کے علاقے مذہبی انتہاپسندی کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ یہ انتہاپسندی تہذیب کو تباہ کر رہی ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ کمیونسٹوں نے اُن سے ہاتھ ملا لیا ہے یا وہ مذہبی انتہاپسندی کی جانب مائل ہوگئے ہیں۔ بائیں بازو کو ایک طرف دھکیل دیا گیا۔

لوگ کہتے ہیں، وہ اب بے معنی ہوگئے ہیں، مگر میں اپنی نظموں میں بھی کہتی ہوں، آج بھی دنیا میں جو جدوجہد ہورہی ہے، وہ The Haves and the Have Nots کے درمیان ہے، ہاں اِس کا انداز الگ ہے، لوگ الگ ہیں۔ یہ بھی پیش نظر رہے، انقلابی تحریک کا مقصد تہذیب کو تباہ کرنا نہیں ہوتا۔ ہمیں تہذیب ہی نے حیوان سے انسان بنایا۔ روس اور باقی ممالک میں آنے والے انقلاب نے ایسی کسی شے کو پیدا نہیں کیا، جو تہذیب کا خاتمہ کر دے، تمدن کو مٹا دے، بربریت کو رائج کردے۔ سوشلزم انسانی حقوق کی سمت اٹھنے والا قدم تھا، مذہبی شدت پسندی تہذیب کے خاتمے کا سفر ہے۔

ایکسپریس: پہلے لوگ خود کو کسی فکر کے حوالے سے شناخت کرتے تھے، اب ایسا نہیں رہا، فکری زوال کی سی کیفیت ہے!
فہمیدہ ریاض: اس کی ایک وجہ inflation (منہگائی) ہوسکتی ہے۔ روزمرہ کے مسائل میں انسان اتنا الجھ گیا ہے کہ نظریہ ایک پرتعیش شے بن گیا، کم از کم لوگ تو یہی سمجھتے ہیں۔ مگر یہ لوگ کہیں نہ کہیں خود کو نظریات کے ساتھ شناخت بھی کرتے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ خود کو مذہبی کہتا ہے۔

ایکسپریس: کیا ادب کو نظریے کا پابند ہونا چاہیے؟ کہا جاتا ہے، ترقی پسند ادب کی تحریک ختم ہو چکی ہے!
فہمیدہ ریاض: حقیقی ادب ازخود نظریہ کا پابند ہوجاتا ہے، چاہے آپ شعوری کوشش کریں، یا نہ کریں۔ بنیادی نظریہ، انصاف کا نظریہ ہے۔ وہ ہی Driving Force ہے۔ یہ بحث اب پرانی ہوچکی ہے۔ میرے خیال میں ہر طرح کا ادب نظریاتی ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، جو پروگریسیو رائٹر نہیں تھے، وہ اردو کو بڑا ادب نہیں دے سکے!
فہمیدہ ریاض: میرا یہ موقف ہے کہ اردو کی حد تک پروگریسیو رائٹرز نے بہترین ادب تخلیق کیا۔ فیض جیسا تو کوئی نہیں۔ ہندی میں یہی صورت حال ہے۔ پریم چند سے اچھا کس نے لکھا ہوگا۔ پھر سعادت حسن منٹو اور قرۃ العین حیدرہیں۔ اگرچہ انھیں پروگریسیو رائٹرز کی فہرست سے نکال دیا گیا، یہ ترقی پسندوں کی بہت بڑی غلطی تھی۔ وہ پروگریسیو رائٹر تھے۔ خود میرے ساتھ یہی ہوا۔ اس حلقے نے کبھی مجھے پروگریسیو رائٹر کے طور پر قبول نہیں کیا، وہ میرے دوسرے مجموعے (بدن دریدہ) پر اعتراضات اٹھاتے رہے۔ بے شک انھیں اپنی فکر میں توسیع کرنی چاہیے تھی۔ حُسن تخلیق کرنا اپنے آپ میں ایک پروگریسیو عمل ہے۔

ایکسپریس: بعد میں جو تحاریک آئیں، جو ادیب آئے، کیا انھوں نے اچھا ادب نہیں لکھا؟
فہمیدہ ریاض: آپ مجھے کچھ مثالیں دیں۔ آپ انتظار حسین کا نام لیں گے۔ انھوں نے ابتدا میں پروگریسیو رائٹرز پر شدید تنقید کی، مگر بعد میں ان کی اپروچ تبدیل ہوئی۔ ان کی بعد کی تحریریں سماجی اور سیاسی حالات پر ایک تبصرہ بنتی چلی گئیں۔

ایکسپریس : ''بدن دریدہ'' پر جو اعتراضات ہوئے، اس کا سبب کیا آپ کا عورت ہونا تھا؟
فہمیدہ ریاض: ہاں، اگر میں مرد ہوتی، تو اس شاعری پر مجھے اس طرح تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ (ہنستے ہوئے) مگر میں ایک عورت ہوں۔ یہ شاعری اُن کے لیے نئی تھی، انھوں نے کڑی تنقید کی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ خواتین کے ساتھ کیا صورت حال ہے۔ پہلے میں خود کو فقط مارکسسٹ کہتی تھی، میں نے ایک مضمون میں بھی اس کا تذکرہ کیا کہ کس طرح اس تجربے نے مجھے نسائیت کی تحریک سے آگہی بخشی۔ اس کی ضرورت آشکار کی۔

ایکسپریس: یہ مجموعہ 70 کے عشرے میں آیا، یوں لگتا ہے کہ وقت آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت گیا ہے، آج کی شاعرات کے لیے ان موضوعات پر لکھنا ممکن نہیں، جن پر آپ نے لکھا؟
فہمیدہ ریاض: بالکل، اس میں کیا شک ہے۔ بہت بڑا رول بیک ہوا ہے۔ ضیاء الحق کا دور ہمیں گھسیٹتے ہوئے پیچھے لے گیا ہے۔ جو باتیں ادب میں پہلے کہی گئی ہیں، اب انھیں کہنا زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔

ایکسپریس: اردو شاعری کس سمت جارہی ہے، کیا نظم کا رجحان بڑھا ہے یا غزل اب بھی غالب ہے؟
فہمیدہ ریاض: میں نے پوری ایک تحریک چلائی تھی کہ غزل بہت ازکار رفتہ صنف ہوگئی ہے۔ مگر شاید وہ اتنی درست نہیں تھی۔ غزل کے جانے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ لوگ لکھ رہے ہیں۔ البتہ آج کی غزل کا اس کلاسیکل غزل سے کوئی تعلق نہیں۔ پہلے صنائع بدائع، تضاد کی صنعت استعمال ہوتی تھی۔ پھر اس کے پیچھے تصوف بھی تھا۔

تصوف نے غزل کو بنایا اور غزل نے تصوف کو آگے بڑھایا، لیکن ان عوامل سے موجودہ غزل گو شعرا کا کوئی تعلق نہیں۔ تصوف کا مقصد خدا کی تلاش تھی، مگر اب تو خدا لوگوں کے لیے ایک Established fact ہے۔ تو تلاش کوئی نہیں کرتا۔ عشق کے مضامین بھی نہیں لکھے جارہے، کیوں کہ وہ غیراخلاقی سمجھے جاتے ہیں۔ جدید غزل کے نام پر لکھا ضرور گیا، مگر اس میں وہ بات نہیں۔ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اچھی شاعری نہیں ہورہی۔ کبھی کبھی تو بہت اچھے اشعار نظر آجاتے ہیں، لیکن میں پھر کہوں گی کہ نظم اپنی ہر شکل میں انسان کے جذبات، احساسات اور فکر کا بہتر اور موثر ذریعہ ہے۔

ایکسپریس: آپ نے بھی نثری نظم کا تجربہ کیا، اسے کیسے دیکھتی ہیں؟
فہمیدہ ریاض: بالکل، میں نے بھی یہ تجربہ کیا۔ اب بھی لکھتی ہوں، مگر عادتاً، زیادہ رجحان پابند نظموں کی جانب ہے۔ نثری شاعری میں جس طرح الفاظ کا استعمال ہے، کیسے ایک مصرعے کو ختم کیا جائے، دوسرا شروع کیا جائے، یہ عنصر اسے شعریت عطا کرتا ہے۔ پھر جو کہا جارہا ہے، اس میں کوئی بات ہے یا نہیں، یہ بھی اہم ہے۔ نثری نظم پر ان سب اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے، جو دوسری شاعری کے لیے اہم ہیں۔

ایکسپریس: آپ کی سندھی شعر و ادب پر گہری نظر ہے۔ کیا سبب ہے کہ ایک ہی صوبہ ہونے کے باوجود سندھی اور اردو قلم کاروں میں فاصلہ دکھائی دیتا ہے؟
فہمیدہ ریاض: ایک سبب تو یہ ہے کہ اردو والے سندھی نہیں جانتے۔ انھیں سندھی سیکھنی چاہیے تھی، تاکہ وہ سمجھ سکتے کہ سندھیوں کے کیا جذبات اور احساسات ہیں، تاکہ وہ سمجھ سکتے کہ وہ ہم جیسے ہی ہیں۔ جب لسانی فسادات ہورہے تھے، تب سندھیوں کا موقف تھا کہ سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان بنایا جائے۔ کیا وہ غلط کہہ رہے تھے؟ اگر یہ سندھ کی سرکاری زبان نہیں بنے گی، تو کہاں کی بنے گی؟ اس وقت بھی جب وہ (سندھی) اردو والوں سے ناراض تھے، تب بھی کرشن چندر، منٹو اور قرۃ العین حیدر کو تو پڑھتے تھے۔

ایکسپریس: ایک حلقے کا خیال ہے کہ اردو بولنے والوں کے احساس تفاخر نے بھی بگاڑ پیدا کیا؟
فہمیدہ ریاض: نہیں ایسا کچھ نہیں۔ یہ خلیج اردو بولنے والوں نے پیدا نہیں کی۔ ایوب خان کا مارشل لا لگا، تب میں آٹھویں کلاس میں تھی۔ اس وقت سندھی کو ختم کیا گیا، ون یونٹ بن گیا۔ یہ اردو والوں کا فیصلہ نہیں تھا۔ ریاست جن کے ہاتھ میں تھی، ان کا فیصلہ تھا۔ اس کا شکار سب ہوئے۔ البتہ اردو بولنے والوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچ رہا تھا، اس لیے وہ چپ رہے۔ یہ ان کی کم اندیشی تھی۔

ایکسپریس: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے، صبح لکھتی ہیں یا شام، میز پر بیٹھ کر کاغذ پر لکھتی ہیں یا کمپیوٹر پر؟
فہمیدہ ریاض: انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اب میں کمپیوٹر پر لکھنے لگی ہوں۔ اب وہ دست یاب ہے۔ کب لکھتی ہوں؟ کسی بھی وقت۔

ایکسپریس: آپ نے کسی جگہ کہا تھا کہ ایک نظم آپ نے رکشے میں بیٹھ کر لکھی تھی؟
فہمیدہ ریاض: (ہنستے ہوئے) بالکل، ایک نظم میں نے رکشے میں سفر کرتے ہوئے لکھی تھی۔ اتفاق سے میرے پاس کاپی تھی، تو میں نے لکھ لی۔ ڈسپلن نہیں ہے زندگی میں۔ اگر ہوتا، تو زیادہ بہتر تھا۔ اب بھی ہوجائے، اگر زندگی کچھ باقی ہے۔

ایکسپریس: من پسند ادیب اور شعرا؟
فہمیدہ ریاض: آپ یہ سوال کرکے رائٹر کو بہت مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ سچی بات ہے، اگر میں کسی کا نام نہ لوں، تو وہ ناراض ہوجائے گا۔

ایکسپریس: ہم عصروں کو رہنے دیں، اپنے سنیئرز کا نام لے دیں!
فہمیدہ ریاض: جیسے فیض صاحب۔ جیسے شیخ ایاز۔ اب بھی نظر پڑ جائے ان کے کلام پر تو انسان مسرور ہوجاتا ہے۔ فکشن میں قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، کرشن چندر۔ انگریزی کے بہت سے شاعر ہیں۔ اب شیکسپیئر کتنا بڑا نام ہے۔ لوگ کلیشے کہتے ہیں، مگر سچ بات ہے کہ آپ آج بھی شیکسپیئر کو پڑھ کو مبہوت رہ جاتے ہیں۔

ابھی میں The Seven Ages of Man پڑھ رہی تھی۔ اپنے بارے سوچ رہی تھی کہ یہ کتنا سچ ہے، اس کی ابتدائی دو Ages مجھے اپنے نواسوں میں نظر آتی ہے۔ پھر وہ Age ہے، جس میں آپ لڑ رہے ہوتے ہیں، پھر عشق کرتے ہیں، پھر سوچ بچار کی Age آتی ہے۔ جتنا سوچ بچار میں اب کرنے لگی ہوں، اتنی پہلی نہیں کرتی تھی۔ تو سیکسپیئرنے سچ لکھا۔ میرا دل چاہتا ہے، عورت کی عمر کے سات ادوار بھی لکھوں۔

ایکسپریس: اب توجہ شاعری سے زیادہ نثر پر مرکوز ہے؟
فہمیدہ ریاض: یہ سچ ہے۔ سبب شاید یہ ہو کہ یہ بھی The Seven Ages of Man میں ایک Age ہے۔

ایکسپریس: اردو ادب میں امکانات؟
فہمیدہ ریاض: امکان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ اردو لٹریچر میں بھی امکانات ہیں۔ اردو میں بہت اچھے میگزین نکلتے رہے ہیں۔ ہندوستان میں اردو کی تجدید ہوتی نظر آتی ہے۔ اچھے رائٹرز نظر آتے ہیں۔ مگر اردو ادب کی ترقی انگریزی سے دوری میں نہیں، قربت میں پنہاں ہے۔ اردو تخلیقات کا انگریزی میں زیادہ ترجمہ ہونا چاہیے تھا۔ انگریزی نہ جاننے کے باعث یہ ہو نہیں سکا۔ میں تو سندھی کے بارے میں بھی یہی سوچتی ہوں۔ جب کوئی اچھی تخلیق پڑھتی ہوں، تو سوچتی ہوں، اس کا انگریزی میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ بلوچی، پشتو اور پنجابی ادب کا ہے۔

ایکسپریس: آج کل آپ ایک ناول پر کام کر رہی ہیں؟
فہمیدہ ریاض: جی ہاں، کوشش ہے کہ 2017 میں وہ چھپ جائے۔ اس کا عنوان ہے: قلعۂ فراموشی۔ یہ ایک تاریخی ناول ہے۔ یہ مزدک کی زندگی کے بارے میں ہے، جسے تاریخ کا پہلا سوشلسٹ انقلابی کہا جاتا ہے۔ وہ پانچویں صدی میں موجودہ ایران میں گزرا تھا۔ اس کے لیے خاصی تحقیق کرنی پڑی۔ آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے، مگر ایک ایسا قلعہ تھا، جہاں ان سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا، جنھیں بھلانا مقصود ہو۔ ان کا نام لینا منع تھا، اس قلعے کا تذکرہ بھی منع تھا۔ اور وہ قلعہ شہر ''اھواز'' میں تھا۔



کتاب زندگی کا ایک ورق
فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ شعور کی آنکھ حیدرآباد، سندھ میں کھولی، جہاں اُن کے والد، ریاض الدین معروف ماہر تعلیم، نور محمد صاحب کے قائم کردہ ہائی اسکول سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ہی اپنی بیٹی کے دل میں کتابوں سے محبت کا دیا روشن کیا۔

پانچ برس کی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس سانحے کے بعد والدہ، حُسنہ بیگم نے، جو تعلیم یافتہ خاتون تھیں، خاندان کو سنبھالا۔ مشکلات کے باوجود اولاد کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا۔ بچپن میں وہ تھوڑی تنہائی پسند تھیں۔ مطالعے کا شوق وراثت میں ملا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اُردو اور فارسی کے کلاسیکل شعراء و ادباء کا مطالعہ شروع ہوا۔ سندھی لٹریچر بھی جم کر پڑھا۔ زندگی کے نئے گوشے آشکار ہوئے۔ ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے لیے صداکاری کی، اسکرپٹ لکھے۔

زبیدہ گورنمنٹ کالج، حیدرآباد کے زمانے میں طلبا سیاست کی جانب مائل ہوئیں۔ ذہن لیفٹ کے نظریات سے لگا کھاتا تھا۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جو بعد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہوگئی) کے پلیٹ فورم سے ایوب مخالف تحریک میں حصہ لیا۔ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تقریریں بھی کیں، نظمیں بھی لکھیں۔ گریجویشن کرلیا، تو پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرنے کے لیے سندھ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ 1967 میں شادی ہوگئی، اور لندن چلی گئیں۔

اُدھر ایک لائبریری میں کام کیا، ایک انشورنس کمپنی سے وابستہ رہیں، بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہیں۔ فلم تیکنیک میں لندن سے ڈپلوما بھی کیا۔ 73ء میں واپس آئیں۔ آرلنٹاس میں کریٹیو ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ رہیں۔ ایک فارماسیوٹیکل کمپنی سے بھی جُڑی رہیں۔ پھر ادیبوں کا ایک فورم بنانے کے لیے رسالہ ''آواز'' شروع کیا۔

وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ''جرم'' میں کئی مقدمات بنے۔ انھوں نے جلاوطنی اختیار کرلی، اور بھارت چلی گئیں۔ ''آواز'' بند ہوا۔ 81ء تا 87ء وہاں رہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے وابستگی رہی۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ سے جڑی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ چیئرپرسن نیشنل بک کونسل آف پاکستان اور منسٹری آف کلچر کی کنسلٹنٹ رہیں۔ 96ء میں ''وعدہ'' کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ بعد کے برسوں میں بھی اُنھیں سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اِس وقت آکسفورڈ پبلی کیشنز سے بہ طور کنسلٹنٹ وابستہ ہیں۔

پہلی شادی ختم ہوگئی تھی۔ پہلے شوہر سے ایک بیٹی ہے، جو اب امریکا میں مقیم ہے۔ دوسری شادی سے ایک بیٹی ہے۔ ایک بیٹا تھا، جو 2007 میں ایک حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس سانحے نے گہرے اثرات مرتب کیے۔

اگست 2009 میں انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔



ادبی کہانی
بچپن سے شعر و سخن سے لگاؤ تھا۔ 15 سال کی عمر میں پہلی نظم کہی، جو ''فنون'' میں شایع ہوئی۔ بڑا حوصلہ ملا۔ بعد میں ''فنون'' میں کئی تخلیقات نے جگہ پائی۔ پابند نظمیں توجہ کا محور رہیں۔ پہلا مجموعہ ''پتھر کی زبان'' 1967 میں شایع ہوا۔

''بدن دریدہ'' دوسرا مجموعہ، جو مقبول بھی ٹھہرا، اور متنازعہ بھی۔ دیگر شعری تخلیقات ''دھوپ''، ''کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے''، ''ہم رکاب''، ''آدمی کی زندگی'' کے زیرعنوان شایع ہوئیں۔ کلیات کا عنوان ''سب لعل و گہر'' ٹھہرا۔ تخلیقات کا انگریزی، جرمن، روسی اور فرانسیسی میں ترجمہ ہوا۔

ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد اور شیخ ایاز کے کلام کو اردو روپ دیا۔ مولانا روم کی غزلیات کے انتخاب کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ فرید الدین عطار کی کتاب منطق الطیر کو انگریزی میں ڈھالا۔ شیخ سعدی اور بھٹائی کے کلام کا بھی انگریزی میں ترجمہ کرچکی ہیں۔ فکشن بھی لکھا۔ کتاب ''ہم لوگ'' تین نوویلا پر مشتمل، جو برصغیر کی نصف صدی پر محیط تاریخ کے پیچ و خم بیان کرتی ہے۔ ایک مجموعے ''خطِ مرموز'' میں ابتدائی زمانے کے افسانے بھی شامل ہیں۔

ان کی کتاب ''ادھورا آدمی'' سماجی نفسیات میں فاشزم کے رجحانات اور اسباب کا احاطہ کرتی ہے۔ Erich Fromm کی The Fear of Freedom اس کی بنیاد بنی۔Pakistan: Literature and Society ان کی ایک اہم تصنیف، جو پہلے پہل ہندوستان میں چھپی۔ اس میں پاکستان کے، اردو سمیت، مقامی زبانوں میں لکھے لٹریچر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

٭ میری شاعری پر کسی کا اثر ہے، تو شیخ ایاز کا اثر ہے!
شیخ ایاز کا بھی ترجمہ کیا۔ جب پوچھا، اس عمل میں کوئی دشواری پیش آئی، تو کہنے لگیں،''کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ میں سندھی جانتی ہوں۔ آدھا خاندان سندھی ہے۔ شوہر بھی سندھی ہیں۔ تو بہت خوش گوار تجربہ رہا۔ اگر میری شاعری پر کسی کا اثر ہے، تو شیخ ایاز کا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا یوں نہیں پتا کہ انھوں نے شیخ ایاز کو پڑھا ہی نہیں۔ شیخ ایاز کے ہاں نیشنلسٹ اور پروگریسیو اپروچ تھی۔ سندھ ایک مظلوم صوبہ تھا۔ پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ کردار سندھ نے ادا کیا، مگر اسے بدلے میں کچھ نہیں ملا۔ ان کے بڑے شہروں پر وہ لوگ غالب آگئے، جو ہندوستان سے آئے تھے۔

جو جگہیں خالی ہوئی تھیں، جنھیں سندھی سمجھتے تھے کہ اب ہم بھریں گے، وہ باہر سے آنے والوں نے بھر دیں۔ یہاں تک کہ سندھی زبان ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان جذبات کو شیخ ایاز نے بڑی خوب صورتی سے پیش کیا۔ بڑی نغمگی ہے ان کے ہاں۔ ان کے ہاں تصوف نہیں۔ وہ تصوف سے لڑتے رہے ہیں۔ اپنی شاعری میں انھوں نے سندھ کے معروف شاعر، سامی سے بہت جھگڑے کیے۔ وہ پوچھتے ہیں؛ تم کیوں دنیا کو مایا کہتے ہو، دنیا مایا نہیں ہے۔ وہ صوفیوں کی فکر کے خلاف تھے۔ البتہ بھٹائی سے وہ محبت کرتے تھے، کیوں کہ بھٹائی میں آپ کو سندھ بھی دکھائی دے گا، اور خدا بھی۔''

٭صوفی دنیا کی تفسیر کرتا ہے، مارکسسٹ اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے
ویسے تو عملی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، مگرتصوف کی جانب بھی جھکائو ہے، رومی کا بھی ترجمہ کیا، اس ضمن میں پوچھا، تو کہنے لگیں،''دیکھیں، صوفی دنیا کی Interpretation (تفسیر) کرتا ہے، مارکسسٹ اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ایک کڑی ہے، جو انھیں جوڑتی ہے۔ جیسے صوفی شاہ عنایت کی مثال ہے، جنھوں نے 'زمین اﷲ کی' کہہ کر اپنی املاک ہاریوں میں بانٹ دیں۔ مڈل ایسٹ میں ایسے صوفیوں کی مثالیں ہیں، جنھوں نے سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کی ہے۔

تو صوفی اور انقلابی میں اتنا فرق نہیں، جتنا سمجھا جاتا ہے۔ مارکسزم کی بنیاد فقط یہ نہیں ہے کہ کسی کو آپ انتہائی غریب نہ ہونے دیں، یہ بھی ہے کہ کسی کو آپ انتہائی امیر نہ ہونے دیں، کیوں کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ صوفی ازم میں جو نفس امارہ کو قابو کرنے کا تصور ہے، یہ وہی ہے۔ سوشل ازم نجی ملکیت کے خلاف ہے۔ صوفی ازم اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

وہ کہتا ہے، آپ کو سب چھوڑ چھاڑ کر جانا پڑے گا۔ شاہ لطیف لکھتے ہیں؛ بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئیں، اوزار یہاں پڑے ہیں، معمار جا چکے ہیں۔ اسی طرح ان میں رہنے والے بھی چلے گئے۔ تو ان دونوں میں اپروچ کا فرق ہے۔ ایک idealist ہے، دوسرا materialist ہے۔ صوفی یہ بتاتا ہے کہ materialism اور idealism، مادہ اور خیال ایک ہی شے کے دو پہلو ہیں۔ رومی اس پر بہت لکھتے ہیں۔ اِسے ثابت کرکے دکھاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں