وطن کی فکر کر ناداں
ضرب عضب کامیابیوں کی نوید دے رہا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر پوری سیاسی قیادت متفق ہے
ضرب عضب کامیابیوں کی نوید دے رہا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر پوری سیاسی قیادت متفق ہے، سوا دو ہزار دہشت گرد مارے گئے ہیں، دو ہزار گرفتار کر لیے گئے، قبائلی علاقہ جات میں کامیاب آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، بلوچستان میں اکثر علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا، دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی، یہ ہے وہ تصویر جو گزشتہ ایک سال کے آپریشن اور ضرب عضب کے بعد پیش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن گزشتہ تیس روز میں ایک سو چالیس افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے۔ یعنی اوسطاً روزانہ پانچ افراد جان سے گئے۔
ایک سال بعد یہ سب اچانک کیسے شروع ہو گیا۔ یہ ایک بحث ہے جو گزشتہ ایک سال سے ہمارے میڈیا پر جاری ہے۔ ایک طبقہ جنھیں قلم کی طاقت اور میڈیا کا کیمرہ میسر ہے وہ آغاز ہی سے ایک بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بیانیہ دہشت گردی کو جنم دے رہا ہے۔ ان ہی میں سے ایک گروہ سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ انھوں نے نیشنل ایکشن پلان کے اکثر نکات پر عملدرآمد ہی نہیں کیا۔
ان نکات میں سے سب سے محبوب نکتہ مدارس پر کنٹرول ہے۔ دوسرا گروہ جنھیں گزشتہ تیس برسوں سے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی سے ایک خاص قسم کا بغض ہے وہ دبی دبی زبان میں بھی اور کھل کر بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں، کچھ کو درست سمجھتے ہیں اور کچھ کو دشمن، اس لیے دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو رہی۔ ان تمام گروہوں کا نصب العین اور مقصد مشترک ہے۔
ان کے تبصروں اور تجزیوں میں پاکستان کی سلامتی پر اثر انداز کسی قسم کے بیرونی عوامل پڑوسی ممالک کی مالی امداد، اسلحہ کی ترسیل اور وقت ضرورت چھپنے کے لیے پناہ گاہیں مہیا کرنے کا ذکر شامل نہیں ہوتا۔ یہ گزشتہ پندرہ برسوں سے ہم پر مسلط کی گئی امریکی سلامتی کی جنگ کو بھی اس صورت حال کا ذمے دار نہیں ٹھہراتے۔ ان کے نزدیک امریکا سے نجات ممکن نہیں، اس لیے خواہ وہ ڈرون حملے کرے، افغانستان میں پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو پناہ دے، ممکن ہو تو ان کو حملہ کرنے کے لیے راستہ فراہم کرے، اپنی سرپرستی میں بھارت کے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کی مکمل اجازت دے۔
ہمہ وقت پس پردہ رہ کر پاکستان پر جنگ مسلط رکھے، لیکن ہم صرف اور صرف یہی کہیں گے کہ یہ تو ہماری اپنی جنگ ہے۔ ایسا تو بدترین غلامی میں بھی نہیں ہوتا کہ پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ ڈمہ ڈولہ میں ہوا جہاں 80 کے قریب معصوم طلبہ جاں بحق ہوئے اور ہماری حکومت نے کس ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ ہم نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا تھا۔ کسی دوسرے کا قتل اپنے سر لینے کی روایت وڈیروں، سرداروں اور نوابوں میں صدیوں سے موجود ہے، جب وہ کسی قتل کے بدلے اپنے ملازم، نوکر یا غلام کو پیش کر دیا کرتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جب اسلام نے قصاص کی آیت نازل کی تو صاف کہا کہ آزاد کے بدلے میں آزاد سے ہی قصاص لیا جائے گا، یہ نہیں کہ غلام کی گردن پیش کر دی جائے۔ لیکن ہم وہ بدترین غلام تھے جنھوں نے امریکا کے کہنے کے بغیر ہی اپنی گردن پیش کر دی اور آج تک ہماری گردنیں کٹ رہی ہیں۔
لیکن کوئی تبصرہ نگار اس سارے معاملے کا ذمے دار براہ راست امریکا بھارت یا افغانستان کو نہیں ٹھہرائے گا۔ ہر کوئی اپنا گھر درست کرنے کو کہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ چاروں جانب سے گندے پانی کے جوہڑ میں گھر چکے ہوں اور وہاں مچھروں کی افزائش دن بدن ہو رہی ہو اور آپ گھر میں اسپرے کرتے پھریں، نہ کھڑکیاں بند کریں اور نہ دروازے بلکہ اس گندے پانی کے جوہڑ کو بھی اس ساری آفت کا ذمے دار نہ ٹھہرائیں۔ جنرل شاہد عزیز ان لوگوں میں سے ہیں جو اس سارے قضیے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک رہے ہیں۔ آج سے دو سال قبل 15 دسمبر 2013ء کو انھوں نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے اپنا مضمون پڑھا۔ اس کی چند لائنیں اس پورے قضیے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
''امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر اور ان کے حکم پر ہم نے یہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا، اس کے انجام میں جو معصوم جانوں کا قتل عام ہوا، اور حکومت کے خلاف جو نفرتیں ابھریں، انھیں ملک دشمن عناصر نے منظم کر کے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ انھیں بھی طالبان کہا، تا کہ افغان مجاہدین ہماری نظروں سے گر جائیں اور ہمیں ان کے دشمن امریکا کا ساتھ دینے پر دل میں کسک نہ ہو'' یہ حقیقت نہیں کہ جب قبائلی علاقہ جات میں افغانستان کے شمالی اتحاد کے مدرسوں کے ذریعے بھارت کچھ گروہوں کو منظم کر رہا تھا تو پہلے انھوں نے بہت سے نام رکھنے کی کوشش کی، لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو ان کی قیادت کا حصہ تھا کہ کیسے امریکا اور شمالی اتحاد نے انھیں تحریک طالبان پاکستان کا نام رکھنے کو کہا۔ انھیں علم تھا کہ ہم نے ان سے پاکستان میں دہشت گردی کا کام لینا ہے۔
اس لیے جب لوگ ان سے نفرت کریں گے تو افغانستان کے مجاہدین جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور طالبان کہلاتے ہیں ان سے بھی نفرت خودبخود کرنے لگیں گے۔ جنرل شاہد عزیز نے پھر کہا ''فاٹا کی مسلح تنظیموں کو کون مالی امداد دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں، حکومت کئی بار اعلان کر چکی ہے لیکن کوئی نام نہیں لیتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں جتنے کھلاڑی ہیں سب کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے۔ میرا مقصد بیرونی طاقتوں پر الزام نہیں۔ وہ یقینا اپنے مفاد میں ہی کام کریں گے۔ ہم امریکا کے نرغے میں ہیں اور یہ گھیرا آہستہ آہستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اندرونی طور پر بھی ان کی گرفت میں ہیں۔
ان کے خفیہ داروں نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ آگے چل کر جنرل صاحب نے کہا ''اس وقت امریکا پوری اسلامی دنیا میں اپنا کھیل کھیل رہا ہے، صرف پاکستان اور افغانستان میں نہیں، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تبدیل آ رہی ہے۔ جب کھلاڑی شطرنج کے مہرے چلاتا ہے تو ایک چال سوچ کر نہیں چلاتا، منجھا ہوا کھلاڑی ہر چال سے پہلے اپنے ذہن میں ساری چالیں چل لیتا ہے، مات تک کا خاکہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے، اگر ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تو دکھائی تو دیتا ہے کہ باقی مسلم ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ وہیں سے سیکھ لیں، امریکا سے اچھی توقع کیوں؟''۔ ''جب امریکا یہاں سے اپنے ٹھکانے نکالنے پر مجبور ہو گا، تو اس خطے میں آگ لگا دے گا، امریکا ہمارے ملک میں انتشار پھیلائے گا اور ہماری حکومت کی امداد میں بھی کر رہا ہو گا۔
انڈیا کی فوجیں بھی ہمارے بارڈر پر آ موجود ہوں گی تا کہ حکومت کے ہاتھ کمزور کیے جائیں اور آگ کو اور بھڑکایا جائے'' کس قدر واضح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا جنرل شاہد عزیز کا جو مشرف دور میں اس ساری دہشت گردی کی جنگ میں کلیدی عہدے پر فائز رہے۔ میں جنرل صاحب کے ساتھ اس سیمینار میں موجود تھا اور مجھے ان کے ایک ایک لفظ کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ موجودہ ایک ماہ میں ایک سو چالیس معصوم جانوں کے زیاں کے پس منظر میں کوئی صدر اوباما کا یہ دعویٰ نظر میں رکھے کہ پاکستان میں ابھی کئی دہائیاں بدامنی اور خلفشار رہے گا اور ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان کہ اگلے ایک سال میں پاکستان کو پتہ چل جائے گا کہ پٹھان کوٹ حملے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ہماری قیادت نہ امریکا کے مقابلے میں زبان کھولے گی اور نہ ہی بھارت کے معاملے میں اپنی فدویانہ روش ترک کرے گی۔
ادھر وہ لوگ جو اس ملک کی اساس کی تباہی چاہتے ہیں، بیانیئے کی بحث چھیڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک تو دہشت گردی کا آغاز قرارداد مقاصد کے بیانیے سے ہی ہو گیا تھا۔ لیکن کیا کچھ ہونے والا ہے، ایک صاحب نظر گزشتہ دنوں سے بہت پریشان، انتہائی مضطرب، کہنے لگے یوں لگتا ہے بھارت جلد پاکستان پر حملہ کر دے گا اور یہ بہت شدید ہو گا کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکے، حکمرانوں کو خبردار کرو، بھارت ہیڈ مرالہ اور سیالکوٹ کے درمیان سے جنگ کا آغاز کرے گا۔
میں نے کہا کہ یہ بات تو ایک درویش نے نسیم انور بیگ مرحوم کے گھر میں آٹھ سال قبل بتائی تھی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ کہنے لگے۔ اب بہت جلد معلوم ہوتا ہے، اس قوم کو ایک بیانیئے پر متحد کرنے کے لیے قضا و قدر کی قوتوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ اللہ سے رحم مانگو، اس سے پہلے یہ جنگ ہم پر مسلط ہو جائے، ہمیں علم تو ہو کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون۔
نوٹ: ایک ضرورت مند جو خانیوال سے تعلق رکھتی ہیں، انھیں اپنے قرض سے نجات کے لیے قرضِ حسنہ کی ضرورت ہے۔ کوئی صاحب تصدیق فرما کر مدد فرما دیں۔ ٹیلی فون نمبر: 0348-7910025
ایک سال بعد یہ سب اچانک کیسے شروع ہو گیا۔ یہ ایک بحث ہے جو گزشتہ ایک سال سے ہمارے میڈیا پر جاری ہے۔ ایک طبقہ جنھیں قلم کی طاقت اور میڈیا کا کیمرہ میسر ہے وہ آغاز ہی سے ایک بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بیانیہ دہشت گردی کو جنم دے رہا ہے۔ ان ہی میں سے ایک گروہ سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ انھوں نے نیشنل ایکشن پلان کے اکثر نکات پر عملدرآمد ہی نہیں کیا۔
ان نکات میں سے سب سے محبوب نکتہ مدارس پر کنٹرول ہے۔ دوسرا گروہ جنھیں گزشتہ تیس برسوں سے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی سے ایک خاص قسم کا بغض ہے وہ دبی دبی زبان میں بھی اور کھل کر بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں، کچھ کو درست سمجھتے ہیں اور کچھ کو دشمن، اس لیے دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو رہی۔ ان تمام گروہوں کا نصب العین اور مقصد مشترک ہے۔
ان کے تبصروں اور تجزیوں میں پاکستان کی سلامتی پر اثر انداز کسی قسم کے بیرونی عوامل پڑوسی ممالک کی مالی امداد، اسلحہ کی ترسیل اور وقت ضرورت چھپنے کے لیے پناہ گاہیں مہیا کرنے کا ذکر شامل نہیں ہوتا۔ یہ گزشتہ پندرہ برسوں سے ہم پر مسلط کی گئی امریکی سلامتی کی جنگ کو بھی اس صورت حال کا ذمے دار نہیں ٹھہراتے۔ ان کے نزدیک امریکا سے نجات ممکن نہیں، اس لیے خواہ وہ ڈرون حملے کرے، افغانستان میں پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو پناہ دے، ممکن ہو تو ان کو حملہ کرنے کے لیے راستہ فراہم کرے، اپنی سرپرستی میں بھارت کے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کی مکمل اجازت دے۔
ہمہ وقت پس پردہ رہ کر پاکستان پر جنگ مسلط رکھے، لیکن ہم صرف اور صرف یہی کہیں گے کہ یہ تو ہماری اپنی جنگ ہے۔ ایسا تو بدترین غلامی میں بھی نہیں ہوتا کہ پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ ڈمہ ڈولہ میں ہوا جہاں 80 کے قریب معصوم طلبہ جاں بحق ہوئے اور ہماری حکومت نے کس ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ ہم نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا تھا۔ کسی دوسرے کا قتل اپنے سر لینے کی روایت وڈیروں، سرداروں اور نوابوں میں صدیوں سے موجود ہے، جب وہ کسی قتل کے بدلے اپنے ملازم، نوکر یا غلام کو پیش کر دیا کرتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جب اسلام نے قصاص کی آیت نازل کی تو صاف کہا کہ آزاد کے بدلے میں آزاد سے ہی قصاص لیا جائے گا، یہ نہیں کہ غلام کی گردن پیش کر دی جائے۔ لیکن ہم وہ بدترین غلام تھے جنھوں نے امریکا کے کہنے کے بغیر ہی اپنی گردن پیش کر دی اور آج تک ہماری گردنیں کٹ رہی ہیں۔
لیکن کوئی تبصرہ نگار اس سارے معاملے کا ذمے دار براہ راست امریکا بھارت یا افغانستان کو نہیں ٹھہرائے گا۔ ہر کوئی اپنا گھر درست کرنے کو کہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ چاروں جانب سے گندے پانی کے جوہڑ میں گھر چکے ہوں اور وہاں مچھروں کی افزائش دن بدن ہو رہی ہو اور آپ گھر میں اسپرے کرتے پھریں، نہ کھڑکیاں بند کریں اور نہ دروازے بلکہ اس گندے پانی کے جوہڑ کو بھی اس ساری آفت کا ذمے دار نہ ٹھہرائیں۔ جنرل شاہد عزیز ان لوگوں میں سے ہیں جو اس سارے قضیے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک رہے ہیں۔ آج سے دو سال قبل 15 دسمبر 2013ء کو انھوں نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے اپنا مضمون پڑھا۔ اس کی چند لائنیں اس پورے قضیے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
''امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر اور ان کے حکم پر ہم نے یہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا، اس کے انجام میں جو معصوم جانوں کا قتل عام ہوا، اور حکومت کے خلاف جو نفرتیں ابھریں، انھیں ملک دشمن عناصر نے منظم کر کے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ انھیں بھی طالبان کہا، تا کہ افغان مجاہدین ہماری نظروں سے گر جائیں اور ہمیں ان کے دشمن امریکا کا ساتھ دینے پر دل میں کسک نہ ہو'' یہ حقیقت نہیں کہ جب قبائلی علاقہ جات میں افغانستان کے شمالی اتحاد کے مدرسوں کے ذریعے بھارت کچھ گروہوں کو منظم کر رہا تھا تو پہلے انھوں نے بہت سے نام رکھنے کی کوشش کی، لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو ان کی قیادت کا حصہ تھا کہ کیسے امریکا اور شمالی اتحاد نے انھیں تحریک طالبان پاکستان کا نام رکھنے کو کہا۔ انھیں علم تھا کہ ہم نے ان سے پاکستان میں دہشت گردی کا کام لینا ہے۔
اس لیے جب لوگ ان سے نفرت کریں گے تو افغانستان کے مجاہدین جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور طالبان کہلاتے ہیں ان سے بھی نفرت خودبخود کرنے لگیں گے۔ جنرل شاہد عزیز نے پھر کہا ''فاٹا کی مسلح تنظیموں کو کون مالی امداد دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں، حکومت کئی بار اعلان کر چکی ہے لیکن کوئی نام نہیں لیتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں جتنے کھلاڑی ہیں سب کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے۔ میرا مقصد بیرونی طاقتوں پر الزام نہیں۔ وہ یقینا اپنے مفاد میں ہی کام کریں گے۔ ہم امریکا کے نرغے میں ہیں اور یہ گھیرا آہستہ آہستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اندرونی طور پر بھی ان کی گرفت میں ہیں۔
ان کے خفیہ داروں نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ آگے چل کر جنرل صاحب نے کہا ''اس وقت امریکا پوری اسلامی دنیا میں اپنا کھیل کھیل رہا ہے، صرف پاکستان اور افغانستان میں نہیں، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تبدیل آ رہی ہے۔ جب کھلاڑی شطرنج کے مہرے چلاتا ہے تو ایک چال سوچ کر نہیں چلاتا، منجھا ہوا کھلاڑی ہر چال سے پہلے اپنے ذہن میں ساری چالیں چل لیتا ہے، مات تک کا خاکہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے، اگر ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تو دکھائی تو دیتا ہے کہ باقی مسلم ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ وہیں سے سیکھ لیں، امریکا سے اچھی توقع کیوں؟''۔ ''جب امریکا یہاں سے اپنے ٹھکانے نکالنے پر مجبور ہو گا، تو اس خطے میں آگ لگا دے گا، امریکا ہمارے ملک میں انتشار پھیلائے گا اور ہماری حکومت کی امداد میں بھی کر رہا ہو گا۔
انڈیا کی فوجیں بھی ہمارے بارڈر پر آ موجود ہوں گی تا کہ حکومت کے ہاتھ کمزور کیے جائیں اور آگ کو اور بھڑکایا جائے'' کس قدر واضح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا جنرل شاہد عزیز کا جو مشرف دور میں اس ساری دہشت گردی کی جنگ میں کلیدی عہدے پر فائز رہے۔ میں جنرل صاحب کے ساتھ اس سیمینار میں موجود تھا اور مجھے ان کے ایک ایک لفظ کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ موجودہ ایک ماہ میں ایک سو چالیس معصوم جانوں کے زیاں کے پس منظر میں کوئی صدر اوباما کا یہ دعویٰ نظر میں رکھے کہ پاکستان میں ابھی کئی دہائیاں بدامنی اور خلفشار رہے گا اور ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان کہ اگلے ایک سال میں پاکستان کو پتہ چل جائے گا کہ پٹھان کوٹ حملے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ہماری قیادت نہ امریکا کے مقابلے میں زبان کھولے گی اور نہ ہی بھارت کے معاملے میں اپنی فدویانہ روش ترک کرے گی۔
ادھر وہ لوگ جو اس ملک کی اساس کی تباہی چاہتے ہیں، بیانیئے کی بحث چھیڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک تو دہشت گردی کا آغاز قرارداد مقاصد کے بیانیے سے ہی ہو گیا تھا۔ لیکن کیا کچھ ہونے والا ہے، ایک صاحب نظر گزشتہ دنوں سے بہت پریشان، انتہائی مضطرب، کہنے لگے یوں لگتا ہے بھارت جلد پاکستان پر حملہ کر دے گا اور یہ بہت شدید ہو گا کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکے، حکمرانوں کو خبردار کرو، بھارت ہیڈ مرالہ اور سیالکوٹ کے درمیان سے جنگ کا آغاز کرے گا۔
میں نے کہا کہ یہ بات تو ایک درویش نے نسیم انور بیگ مرحوم کے گھر میں آٹھ سال قبل بتائی تھی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ کہنے لگے۔ اب بہت جلد معلوم ہوتا ہے، اس قوم کو ایک بیانیئے پر متحد کرنے کے لیے قضا و قدر کی قوتوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ اللہ سے رحم مانگو، اس سے پہلے یہ جنگ ہم پر مسلط ہو جائے، ہمیں علم تو ہو کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون۔
نوٹ: ایک ضرورت مند جو خانیوال سے تعلق رکھتی ہیں، انھیں اپنے قرض سے نجات کے لیے قرضِ حسنہ کی ضرورت ہے۔ کوئی صاحب تصدیق فرما کر مدد فرما دیں۔ ٹیلی فون نمبر: 0348-7910025