باطن کی روشنی

رویے شخصیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان رویوں سے پتہ چلتا ہے کہ مدمقابل کی شخصیت کس قدر پختہ یا ناپختہ ہے۔


Shabnam Gul January 21, 2016
[email protected]

رویے شخصیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان رویوں سے پتہ چلتا ہے کہ مدمقابل کی شخصیت کس قدر پختہ یا ناپختہ ہے۔ ان رویوں کے پس منظر میں ایک پورا دور دیکھا جاسکتا ہے، جس میں پرورش، اسکول، طبقہ اور فرد کے اپنے رجحانات وغیرہ آجاتے ہیں۔ مجموعی طور پر مثبت رویے شخصیت کی کامیابی اور منفی رویے ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔

دور جدید میں منفی رویے زیادہ تر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں جس کی وجہ سے شکایتی رویوں کی ایک عجیب نفسیاتی تشکیل پاچکی ہے۔ یہ منفی رویے گھر سے لے کر اداروں تک کی کارکردگی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں، خاص طور پر ہمارے ادارے اس طرح کے رویوں کی وجہ سے مستقل محاذ آرائی کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے کام کا معیار متاثر ہوتا ہے جنھیں ہم غیر پیشہ ورانہ رویے بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ نان پروفیشنلزم یا غیر پیشہ ورانہ رویے ان معاشروں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں غیر مستحکم سیاسی نظام، معاشی بدحالی، سفارش، سماجی بدنظمی، اقربا پروری اور ذاتی تنظیم کی کمی پائی جاتی ہے۔اپنے شعبے میں مہارت اور کام سے مخلص ہونا کامیابی کی علامت ہیں۔

انسان فقط ذہانت کی وجہ سے آگے نہیں آتا بلکہ مثبت سوچ، برداشت، وسعت النظری، غیر جانبداری اور مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے ہر جگہ پذیرائی ملتی ہے۔ نفسیات کی جدید تحقیق کیمطابق انسان حالات، نتائج اور ناکامی کا انتخاب خود کرتا ہے، غیر حقیقی سوچ اور عمل کا فقدان اسے متضاد حالات و واقعات سے روشناس کرواتے ہیں۔

کوئی بھی شعبہ ہو، شخصیت کے ذہنی و جذباتی کمزور پہلو اسے ناکامی سے دوچار کرتے ہیں۔ ذہنی الجھنیں، بیرونی عوامل سے زیادہ ذہنی اندرونی کیفیات کا آئینہ دار ہوتی ہیں، مثال دو ایک جیسی صورتحال سے گزرنیوالے افراد اس مسئلے کی طرف ایک سا رویہ نہیں رکھتے۔ چھوٹی سی بات پر ایک شخص رائی کا پہاڑ بنالیتا ہے، جب کہ دوسرا اس معاملے کو نظر انداز کردیتا ہے، کیفیات عارضی اور کبھی ایک سی نہیں رہتیں، اگر انسانی عمل ان بدلتی کیفیات کے زیر اثر رہتا ہے تو ایسا شخص غیر مستقل مزاج، غیر یقینی اور اداروں کے لیے غیر موثر ہوجاتا ہے۔

قدیم سوچ اور انداز فکر خودشناسی کی طرف مائل کرتے ہیں، خود شناسی کا مطلب یہ ہے کہ رویوں، ضروریات، ترجیحات اور فیصلوں تک انسان کو ہر معاملے میں واضح ہونا چاہیے، فرد جب اپنی سوچ میں واضح ہے تو وہ تنظیم کا موثر رکن بن سکتا ہے، خود شناسی کا ہنر اسے اجتماعی سوچ کا حصہ بناتا ہے، لہٰذا نظریاتی اختلاف و انفرادی سوچ بہتر کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں، ہر حال میں کام کے معیار کو اولیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے اداروں کی صورتحال مختلف ہے۔

انا پرستی، ذاتی مفاد اور تنگ نظری کی وجہ سے ایک کمفرٹ زون بنادیا جاتا ہے جو غیر پیشہ ورانہ سوچ کا محرک بنتا ہے، سہل پسندی کے آزادی نے براہ راست کام کے معیار کو متاثر کیا ہے، سہل پسندی، اقربا پروری اور سفارش کی جڑ سے پھوٹ نکلی ہے۔ کوئی نہ کوئی بااثر حوالہ رکھنے والے لوگ متعلقہ شعبے کے حالات میں افرا تفری پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

جب بھی گڈ گورننس کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو اداروں کی ناقص کارکردگی سامنے آجاتی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ذاتی مفاد اور انفرادی سوچ کی بالادستی ہے، انتظامی معاملات زیادہ تر ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں جو موقع پرست اور چرب زبان ہوتے ہیں، جن کی ذاتی قابلیت فقط اپنے مفاد حاصل کرنے تک محدود ہوتی ہے، یہ ذہین، قابل اور فعال لوگوں کو سازشوں کے جال میں الجھا کے بہت پیچھے کردیتے ہیں۔

کام کی بہتر کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ اداروں میں فقط کام کی بات ہو، ذاتی گفتگو اور عدم یکسوئی کی وجہ سے بہتر نتائج نہیں ملتے، لوگ ایک وقت میں بہت سے کام کر رہے ہوتے ہیں، ایک سے زائد کام کرنے والے افراد کو وقت کا صحیح استعمال، تقسیم اور پابندی کا خیال رکھنا پڑتا ہے، خیال کی مرکزیت متاثر نہ ہو تو بیک وقت مختلف کام کیے جاسکتے ہیں، کیوںکہ مختلف ذمے داریاں، ٹائم، شفٹ کے ہنر کی متقاضی ہیں۔ وقت کی منتقلی کا یہ وقت کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے، تمام دن میں ہم ایک حقیقت سے نکل کر دوسری حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، ماحول تبدیل ہوتا رہتا ہے، وقت کی منتقلی کے ساتھ ذہن کو بھی تبدیل ہونا چاہیے۔

مثال کے طور پر گھر کے مسائل آفس میں نہیں لے کر جانا چاہیے، نہ ہی گھر میں آفس کے مسائل زیر بحث ہوں اور نہ ہی ذاتی الجھنوں کو اداروں میں لے کر جانا چاہیے، یہ پیشہ ورانہ خامیاں ہیں جو قابلیت و کارکردگی متاثر کرتی ہیں۔ اس ملک میں تو ایسے لوگ چل جاتے ہیں مگر ترقی یافتہ ملک ایسے افراد کو مسترد کردیتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو اچھا انسان بنانے کے بجائے اعلیٰ پائے کا پروفیشنل (پیسہ کمانے کی مشین) بنانا چاہتے ہیں۔

علم محض ڈگری اور پیسہ کمانے کا وسیلہ بن جائے، انسانی و اخلاقی قدریں ثانوی حقیقت اختیار کرجاتی ہیں۔ غیر پیشہ ورانہ سوچ کے حامل یہ لوگ انسانیت کی خدمت کے بجائے ذاتی مقاصد حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینک اور اساتذہ کے ٹیوشن سینٹرز، جس کی مثالیں ہیں، مادیت پرستی، غیر انسانی رویوں کو فروغ دیتی ہے۔زندگی کے مسائل و معاملات کو حل کرنے کے لیے سوچ کا صحیح تناظر چاہیے، کام کے معیار کو بہتر بنانے اور مسائل کا مناسب وقت پر حل ڈھونڈنے کی خاطر دنیا بھر میں تربیتی ورکشاپس منعقد کروائے جاتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فرد ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط ہوسکے، تاکہ اسے زندگی اور اپنا مقصد سمجھنے میں آسانی ہو، اپنا محاسبہ کرنے کے ساتھ وہ رویوں میں اعتدال قائم رکھنے کا سلیقہ سیکھ سکے۔

اس کا گھر ہو یا وہ ادارہ جہاں وہ کام کرتا ہے ذہنی انتشار کا نشانہ بننے سے بچ جائے، ترقی یافتہ ممالک میں رتبے یا عہدے کے مقابلے میں اہلیت و قابلیت کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مثبت انداز فکر رکھنے والے منتظمین اداروں کو فعال رکھتے ہیں، وہ بغیر کسی تفریق کے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں صاف گوئی، انصاف پسندی اور عفو و در گزر جیسے اوصاف انھیں ہر دلعزیز بنادیتے ہیں۔مثبت پیشہ ورانہ رویوں کا فقدان دن بدن معاشرتی نظام کو کھوکھلا کررہا ہے، ہم نے جدت کے نام پر اپنا طور طریقہ، رہن سہن و طرز زندگی بدل ڈالا ہے مگر ذہنی طور پر ترقی یافتہ قوموں سے صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ظاہری طور پر بناوٹ سجاوٹ یا دکھاوے میں ہم کوئی کسر نہیں چھوڑتے جگہ جگہ پارلر، اسپا اور باڈی شاپس نظر آتے ہیں، بہترین لباس اور آرائش کا سامان میسر ہے ساتھ جدید موبائلز سے آراستہ ہیں، اگر کسی چیز کی کمی نظر آتی ہے تو وہ باطن کی روشنی و ذہن کی خوبصورتی کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔