افغانستان پرعملی مسائلچھٹا حصہ
وسطی ایشیاء کی تمام ریاستیں، افغانستان کی معیشت کی علاقائی بنیاد پر تشکیل دی گئی
وسطی ایشیاء کی تمام ریاستیں، افغانستان کی معیشت کی علاقائی بنیاد پر تشکیل دی گئی حکمتِ عملی کا حصہ بننے کی خواہاں ہیں۔خاص طور پر ترکمانستان، کرغیزستان اور تاجکستان کو مایوسی ہوئی ہے کہ ایسے بڑے منصوبوں کا ادراک نہیں کیا گیا جن سے انھیں فائدہ پہنچتا۔کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کو یہ امید تھی کہ ایساف ممالک افغانستان میں اپنے دستوں کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں سے خریداری کریں گے۔ تاہم بظاہر ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ ان مصنوعات کے بارے میں بھی جو یہاں آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں یا جنھیں تیار کیا جاسکتا ہے۔
دراصل اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج خریداری کے اپنے روایتی طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ۔وسطی ایشیا کی تمام ریاستوں نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے پیشِ نظر عالمی اتحادیوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکمانستان کے علاوہ تمام ریاستیں شنگھائی تعاون تنظیم کی رکن ہیں، لیکن اس تنظیم نے افغانستان میں اتحادیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا، ماسوائے ان اجلاسوں کے جن میں افغانستان کی صورتحال کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔
روس اس ساری صورتحال میں مرکزی نوعیت کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے، البتہ وہ دن گزر چکے ہیں جب روس اور امریکا مخالفت کی بنا پر ان ممالک پر پابندیاں عائد کرسکتے تھے۔ قازقستان عالمی معاملات پر اثرانداز ہونیوالے ملک کے طور پر اُبھرا ہے۔ ازبکستان کا کردار اُس سے کچھ محدود ہے، اور ترکمانستان اور تاجکستان نے بھی کثیر الجہتی خارجہ پالیسیاں ترتیب دی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک چین، روس کو وسطی ایشیاء میں سیکیورٹی کے متعلق خاص کردار دینا چاہتا تھا، تاہم اب چین یہ محسوس کرتا ہے کہ خطے میں روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے باعث اُس کے معاشی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔
وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنما یہ چاہیں گے کہ ایساف کے آپریشن اُس وقت تک جاری رہیں، تاوقتیکہ افغان حکومت ملک میں امن وامان کے قیام اور ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے قابل نہیں ہوجاتی۔ وسطی ایشیائی ممالک، افغانستان سے اتحادیوں کے وقت سے پہلے انخلاء کو امن وامان اور سیکیورٹی کے لیے طالبان سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ مزید براں دہشتگردی کے خطرے اور منشیات کی عالمی تجارت کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کرزئی کی طرح طالبان نے بھی منشیات کی تجارت کو کم کرنے اور اسے قانون کے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کی تھی ، لیکن اس کاروبار سے وابستہ افراد نے خانہ جنگی کے دوران طالبان کے حمایتیوں کو لالچ دے کر خرید لیا۔
ازبکستان کی حکومت ، مذاکرات کے لیے عالمی میکانزم کی تشکیل کا مطالبہ کرتی رہی ہے جو افغان معاشرے کی تمام قوتوں اور عناصر کو ، جن میں طالبان بھی شامل ہیں ، انھیں مذاکرات کی میز پر لے کر آئے گا۔اتحادیوں کے برعکس، وسطی ایشیائی ممالک کے لیے طالبان کے بجائے، القاعدہ کا خاتمہ زیادہ اہم ہے۔چین کے افغانستان میں مفادات کا انحصار بڑی حد تک پاکستان اور جنوبی ایشیا؛ وسطی ایشیا؛ دہشتگردی کے خلاف اندرونی کوششوں؛ غیرملکی مصنوعات، توانائی اور معدنی ذخائر کی خریداری کے عمل؛ اور امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر ہے۔اہم ترین اَمر یہ ہے کہ چین ایسی افغان پالیسی ترتیب نہیں دینا چاہتا جس سے اُس کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات متاثر ہوں۔
ایک مستحکم ، آزاد اور خطے میں طاقت ور ملک کی حیثیت سے پاکستان ،جنوبی ایشیاء کو بھارت کے اثرو رسوخ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان، وسطی ایشیاء میں بھارتی اثر و رسوخ کو کم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے اور چین کے مسلمان دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے بھی تعاون فراہم کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ، چین کے لیے تجارتی نقطۂ نظر سے بھی اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین، افغانستان کے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف براہِ راست کارروائی کرکے پاکستان کو پریشان نہیں کرنا چاہتا جن کے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستانی ریاست اور معاشرے کے لیے براہِ راست کوئی مسئلہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔چین جہاں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے یا محفوظ بنا رہا ہے، وہاں وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی مستحکم کرنے کی سعی کر رہا ہے۔چین ، جنوبی اور وسطی ایشیاء کے دوسرے ممالک کا تعاون بھی چاہتا ہے جس کی سیاسی، اسٹرٹیجک اور معاشی وجوہات ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث چین کا کرغیزستان، قازقستان ، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ سیکیورٹی کے ضمن میں تعاون بڑھا ہے، یہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ اہم ترین ترجیح کے طور پر چین وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے، اور یہ خطہ چینی مصنوعات کی منڈی کے طور پر ابھر رہا ہے۔تیسرا اہم ترین عامل یہ ہے کہ چین یہ نہیں چاہتاکہ افغانستان کی صورتحال یا اُس کے اپنے اقدامات ملک میں عسکریت پسندی کے خطرے ، منشیات کی اسمگلنگ یا ایک سے زیادہ ممالک میں ہونیوالے جرائم کی وجہ بنیں۔ چین ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان ، وسطی ایشیاء میں طویل مدت کے لیے امریکا کا عسکری، معاشی اور سیاسی ٹھکانہ بنے اور نہ ہی دوسروں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ایسے کسی نتیجے کا خواہاں ہے۔
بہت سارے چینی مبصرین سمجھتے ہیں کہ امریکا کی افغانستان میں طویل عرصہ تک موجودگی دراصل چین کے گرد حصار قائم کرنے اور وسطی ایشیاء میں چینی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔دوسری طرف چین یہ بھی نہیں چاہتا کہ امریکا افغانستان میں ناکام ہوکیونکہ اس سے اُس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا، اور نہ ہی وہ اس بھیانک جنگ کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ چین کے لیے امریکی ناکامی کا سب سے بھیانک نتیجہ یہ ہوگا کہ چینی اقلیتوں میں انتہا پسندی وبا کی طرح پھیلے گی ۔
اور آخر میں چین کے افغانستان سے وابستہ معاشی مفادات بڑھ رہے ہیں۔ چین ، افغانستان کو قابلِ ذکر امداد بھی فراہم کر رہا ہے اور اُس کے افغان حکومت کے ساتھ اچھے خارجہ اور سیاسی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں تیل، قدرتی گیس، لوہے کے ذخائر اور دیگر معدنیات موجود ہیں جن میں چین گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ چین نے اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں میں افغان حکومت کی حمایت کی ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان کے مسئلے کو زیرِبحث لایا ہے۔چین نے اعلانیہ طور پر افغانستان میں امریکا اور عالمی برادری کے مقاصد کی حمایت کی ہے۔اس کے ساتھ ہی چین، پاکستان اور افغانستان میں امریکی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے افغانستان میں امریکی قیادت میں لڑی جانیوالی عالمی جنگ میں لاجسٹک مدد کے لیے اپنا کوئی دستہ روانہ نہیں کیا، اور نہ ہی پاکستانی حکومت پر براہِ راست کوئی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدی علاقے میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی تیز کرے یا افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو۔
تاہم چین ، افغان حکومت کی عسکری تربیت کے لیے رضامند ہے۔ مختصراً چین افغانستان کا استحکام اوراس کی خوشحالی چاہتا ہے۔چین کے لیے متعلقہ ممالک میں پاکستان، امریکا، وسطی ایشیائی ریاستیں، روس اور بھارت شامل ہیں۔چین نے پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات کی بنا پر اُس کے اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات کی کئی طرح سے حمایت کی ہے، اس سے قطع نظر کہ حالیہ مہینوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں واضح طور پر سردمہری آگئی تھی۔ چین کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی ان تعلقات کو متاثر نہیں کرتی۔ چین کی پالیسیاں، امریکی مفادات کے لیے ملے جلے نتائج کی حامل ہیں۔
چین نے امریکا کی افغانستان کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے ضمن میں غیر عسکری شعبوں میں نمایاں اقدامات کیے ہیں۔ چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے اُن اقدامات کی حمایت کی ہے جن کے تحت افغان حکومت اور ملک کو مستحکم کرنے کی کاوشیں کی گئی ہیں تاہم وسطی ایشیاء کے کچھ مبصرین چین کی حمایت کو محض بڑی طاقتوں امریکا، بھارت اور روس کی دلچسپی کا ردِعمل قرار دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ یہ افغان عوام کی حمایت کے پیشِ نظر کی گئی ہے۔ چین کی افغانستان کے ضمن میںپالیسیاں کئی حوالوں سے روسی مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں لیکن تفصیلات میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ روس ممکنہ طور پر طالبان کے مکمل خاتمے اورشمالی اتحاد کی حکومت کے قیام کا متمنی ہے۔
(جاری ہے)