عالم اسلام کی حالت زار اور مسلم امہ کا کردار
آج تنگ نظری کی بنیاد پر انتہا پسندی و شدت پسندی کے نعرے قابل مذمت انداز میں بلند ہو رہے ہیں
اللہ رب العزت نے روز اول ہی سے اپنے کارخانہ قدرت میں جاری حیاتی کشمکش کی بنیاد جس اصول پر استوار فرمائی ہے وہ اصول ہے خیر و شر کی معرکہ آرائی لہٰذا ابتدا ہی سے خیر سے شر متصادم نظر آیا اور خیر و شر ایک دوسرے سے نبرد آزما نظر آئے، آج کے جدید تعلیم یافتہ دور میں خیر و شر کی تمیز بعض معاملات میں جس قدر مبہم، مشکل و محال ہوگئی ہے شاید آج سے قبل کبھی نہ تھی۔
آج تنگ نظری کی بنیاد پر انتہا پسندی و شدت پسندی کے نعرے قابل مذمت انداز میں بلند ہو رہے ہیں تو دوسری طرف وسیع نظر و وسیع القلبی اور پرامن بقائے باہمی پر مبنی احکامات و تعلیمات نیز عہد نبویؐ و عہد صحابہؓ کے معاہدات امن و صلح کی حکمت و بصیرت سے بھرپور و لبریز مثالیں امت مسلمہ و عالم اسلام کے لیے پیش کرکے صبر و تحمل اور فتح و نصرت کا درس دیا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ شدت پسندی و انتہا پسندی کا اسلام سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے اور تمام انتہا پسند نام نہاد اسلامی تنظیمیں بھی ایک منظم عالمی سازش کے تحت دنیا بھر میں اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
اسلام ایک امن پسند دین ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی زندہ رہنے اور جینے کے دیگر بنیادی اور اہم حقوق دیتا ہے۔ اور کسی صورت بھی ظلم کا درس نہیں دیتا بلکہ اسلام تو بجائے خود ظلم کے خلاف ڈھال اور سیسہ پلائی دیوار ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور ظالم کے خلاف اقدام اٹھانے کی تلقین کرتا اور پورا حق دیتا ہے اور یہ حق جہاد فی سبیل اللہ کہلاتا ہے جو اسلام کے نظریہ امن و سلامتی کی اصل بنیاد ہے لیکن آج مسلمانوں کی حالت زار یہ ہے کہ مسلمان ہر میدان میں پیچھے ہیں، تفرقہ و انتشار میں مبتلا عالمی دہشت گردی کا شکار اور روبہ زوال ہیں۔
آج مسلم امہ و عالم اسلام کی حالت زار یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے مقابلے میں تعلیم معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے پیچھے ہیں، واضح رہے کہ یہی وہ مندرجہ بالا تین اہم بنیادیں ہیں کہ جن کی بدولت کوئی بھی قوم ترقی کرتی اور کامیابی و کامرانی حاصل کرتی ہے یہ دنیا مسبب الاسباب ہے اور اللہ کا اصول و قانون بھی یہی ہے کہ اس رب نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر حکمت و بصیرت و دانائی سے نوازا پس اب جو عقل و شعور کا استعمال مثبت سمت اور زاویے میں کرے گا وہی غالب رہے گا، آج مسلم امہ بشمول تمام عالم اسلام خواب غفلت کی نیند میں مدہوش اور عیش و عشرت میں غرق نظر آرہا ہے۔
سب سے زیادہ یونیورسٹیوں کی تعداد مغرب میں ہے صرف امریکا میں 5,587 یونیورسٹیاں ہیں، اور ان کا معیار تعلیم ایسا بلند ہے جیساکہ کسی زمانے میں مسلم نشاط ثانیہ میں مسلمانوں کا تھا لوگ دور دور سے ہمارے پاس آتے تھے لیکن آج ہم دور دور سے مغربی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے معلوم ہوتے ہیں اور اس سبب سے آج ہمارا نوجوان شدید ذہنی غلامی میں جکڑا نظر آتا ہے۔ یہ ذہنی غلامی قدرتی بھی ہے اور فطری بھی! مغرب کی بات چھوڑیے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یونیورسٹیوں کی تعداد صرف 8,707 ہے جب کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں تاہم ہمارے وطن عزیز میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد (57) ہے یہ المیہ ہے، ہمارے مستقبل سے وابستہ تعلیمی المیہ۔ نیز ہمارا تعلیمی معیار بھی انتہائی پست اور تیسرے درجے کا ہے پھر تمام عالم اسلام بشمول پاکستان ہماری معیشت انتہائی خستہ و ناگفتہ بہ ہے۔
واضح رہے کہ اگر آج اسرائیل، جوکہ انتہائی چھوٹا ملک ہے، اثر و رسوخ کا حامل ہے تو صرف اور صرف اپنی معیشت کے بل بوتے پر، اگر امریکا دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے تو صرف اپنی معیشت کے بل بوتے پر، برطانیہ اگر دنیا کی سیاست میں مداخلت کرتا ہے تو معیشت کی بنیاد پر، جاپان ترقی یافتہ ہوا تو معیشت نے ہی اہم کردار ادا کیا، چین کے اگر نئی عالمی طاقت بن کر ابھرنے کے امکانات ہیں تو اس میں بھی اس کی معیشت ہی کار فرما نظر آتی ہے۔ افسوس اس سلسلے میں بھی ہم کسی ایک اسلامی ملک کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، تیسری چیز جو ترقی کی بنیاد ہے بلکہ قوی ترین بنیاد ہے وہ ہے سائنس و ٹیکنالوجی۔ غالباً ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کہاں کھڑے ہیں؟
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا دارومدار بھی جدید تعلیم اور معیشت کے مضبوط ہونے پر ہے جب ہماری تعلیم و معیشت ہی کمزور ترین ہے تو بھلا پھر سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا کیا تذکرہ، گویا ہم بشمول تمام عالم اسلام اس میدان میں بھی سب سے پیچھے ہیں نیز ہمارے دشمن اس میدان میں بھی ہم سے بہت زیادہ آگے ہیں اور ہماری زندگی میں جو بھی جدید سہولیات اور آسائشیں ہیں وہ سب کی سب آج کے دور کے تناظر میں مغرب و یورپ کی ہی محنت کا ثمر ہیں۔ یہ بات میں فخر سے نہیں بلکہ انتہائی دکھ کے ساتھ قلم بند کر رہا ہوں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں، 57 اسلامی ممالک میں بعض تو اتنے کمزور ہیں کہ وہاں کے عوام تک کو پیٹ بھر کر کھانا تک میسر نہیں ہے بدقسمتی یہ ہے انھیں غذا تک کے معاملے میں مدد ہمارا کوئی دوسرا ملک نہیں بلکہ خود مغربی ممالک کرتے ہیں اور وہ بے چارے کمزور اسلامی ممالک مغربی امداد پر پل بڑھ رہے ہیں۔ اس سے بڑی ہماری حالت زار اور ستم ظریفی کی داستان بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟
آج کے اس نفسا نفسی کے پرآشوب دور میں جب کہ دنیا خیر و شر کی بنیاد پر دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے یہ امر اشد ضروری ہے کہ پرامن بقائے باہمی اور صلح جوئی پر مبنی صلح حدیبیہ و میثاق مدینہ اور ان جیسے تاریخ اسلام کے دیگر معاہدات امن و صلح اور روشن تعلیمات پر مبنی حکمت و بصیرت اور دانائی سے بھرپور حقائق کو کھول کھول کر جامع اور واضح انداز میں امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا جائے اور عظیم ترین تاریخی حقائق سے بہرہ مند ہوا جائے تاکہ تمام عالم اسلام کے لیے دونوں راستوں میں سے امن و صلح کا روشن راستہ اختیار کرنے میں کسی قسم کی قباحت، ہچکچاہٹ اور شک و شبے کی قطعی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ تاریخ اسلام و حیات طیبہؐ سے معلوم چلتا ہے کہ رسول اللہؐ نے بھی یہود و نصاریٰ و کفار نیز دیگر غیر مذاہب کے افراد کے ساتھ سیاسی و عسکری تعلقات قائم فرمائے تھے اور معاہدات امن و صلح بھی کیے تھے جس کی واضح مثالیں معاہدہ نجران، میثاق مدینہ و صلح حدیبیہ وغیرہ کی صورت میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
میثاق مدینہ ''ہجرت'' کے بعد کیا جانے والا وہ عظیم معاہدہ تھا کہ جس کی بدولت اسلام کے تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل ہوگیا اور پہلی شہری اسلامی ریاست مدینہ قائم ہوگئی۔ نیز مسلمانوں کو طاقت و قوت سے حاصل ہوئی اور تمام اقوام مدینہ پر ان کی قیادت اور رسول اکرمؐ کی سیادت مسلمہ ہوگئی نیز صلح حدیبیہ جوکہ بظاہر کفار مکہ سے دب کر کی گئی لیکن وہ مسلمانوں کا ایک بہترین فیصلہ اور رسول اکرمؐ کی سیاست خارجہ کا شاہکار ثابت ہوئی، جیسے کہ اللہ نے قرآن حکیم میں ''فتح مبین'' اور ''نصر عزیز'' سے تعبیر فرمایا۔ معاہدہ نجران میں عیسائیوں کے ساتھ جس وسعت قلب و ظرف کا مظاہرہ کیا گیا اس کی مثال ملنا محال ہے۔
اسی طرح دیگر نبویؐ معاہدات امن و صلح ناصرف ہمارے بلکہ تمام عالم کے لیے مشعل راہ و مینارہ نور ہیں۔یہ مثالیں ہمارے لیے اس اعتبار سے بھی قابل تقلید اور بہترین نمونہ ہیں کہ ہم ان کی روشنی میں آج کے تناظر میں بھی امت مسلمہ غیر مذاہب پر مبنی دیگر اقوام سے سیاسی تعلقات استوار کرسکتے ہیں، ایسے سیاسی تعلقات جن میں آنکھیں کھلی رہیں، دل ہوش مند رہیں اور مغز بیدار رہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات جوکہ امن و صلح و سلامتی اور حکمت و بصیرت اور دانائی پر مبنی ہیں، اگر ہمیں ایک طرف غیر مسلموں سے تعلقات استوار کرنے کا درس دیتی ہیں تو دوسری جانب وہ ہمیں ان سے ازحد محتاط رہنے کی بھی نصیحت و تلقین کرتی ہے۔
اسلام اگر کسی کو تکلیف دینے سے روکتا ہے تو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ہمیں نقصان پہنچائے تاہم ہمیں ہر لحاظ سے حکمت و دانائی، وسیع القلبی و وسیع النظری، احترام آدمیت و تکریم انسانیت، انسان دوستی، پرامن بقائے باہمی، صبر و برداشت و تحمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پراز حکمت اقدامات کی ضرورت ہے اور تعلیم، معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں حتیٰ الامکان و حتیٰ المقدور پیش رفت کے ساتھ ساتھ تمام عالم اسلام اور مسلم امہ کو تمام تر تفرقہ سے پاک متحد و منظم رہنے اور اپنی صفوں میں مکمل یقین محکم کے ساتھ باہمی ہمدردی، خیر خواہی، اخوت و بھائی چارے اور اتحاد و تنظیم کی قوی اور اشد ضرورت ہے۔ اتحاد و تنظیم خیر ہے اور تفرقہ و فساد شر ہے۔
عالم اسلام و مسلم امہ کے لیے خیر و شر کی تمیز و پہچان ضروری ہے۔ پرامن بقائے باہمی اور صلح جوئی اجتماعی ترقی اور خوشحال و پرسکون کامیاب زندگی کا راستہ ہے۔ تمام عالم اسلام کو باہمی الجھن، ابتری، انتشار و خلفشار، اختلافات و تنازعات سے بالاتر ہوکر رنگ و نسل زبان، مذہب و مسلک کے معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خیر یا شر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا اور ہر ذی شعور اپنی ترقی و بقا کے راستے سے بخوبی واقف ہے۔