ایل این جی بزنس ٹرمینل آپریٹر کی کمائی سرمایہ کارکے ریونیوکو خدشات لاحق

 ایل این جی ٹرمینل پر14.3ارب خرچ کرنیوالاآپریٹر10 ماہ میں ری گیسفکیشن چارجز کی مدمیں8ارب کماچکا


Kashif Hussain January 22, 2016
ٹرمینل استعمال نہ کرنے پرادائیگی،وصولیوں میں تاخیر،ڈیمریجزودیگرمیں سے کوئی بھی عنصرپی ایس اوکاسارامارجن اڑاسکتاہے،ماہرین،اخراجات کثیرہیں،ٹرمینل آپریٹر فوٹو: فائل

KARACHI: مائع قدرتی گیس کے کاروبار پر قلیل مارجن اور بھرپور خدشات نے ایل این جی کی درآمد کو پی ایس او کیلیے گھاٹے کا سودا بنا دیا، گزشتہ 10 ماہ کے دوران ایل این جی کی درآمد پر ٹرمینل لگانے والی کمپنی نے 8 ارب روپے کا ریونیو کما لیا، پاکستان میں اس مدت میں 44 ارب روپے کی ایل این جی درآمد کی گئی۔

مارچ سے دسمبر 2015کے دوران 17کنسائمنٹس کے تحت 10لاکھ 36ہزار 446میٹرک ٹن ایل این جی اوسطاً 7.8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت پر درآمد کی گئی، ایل این جی کی درآمد سے ٹرمینل لگانے والی کمپنی اینگرو ایلنجی کو 8ارب روپے سے زائد کا ریونیو حاصل ہوا جبکہ سرمایہ مہیا کرنیوالی پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کو ایل این جی کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات اور خدشات کے لحاظ سے انتہائی قلیل مارجن مل رہا ہے۔

وفاقی وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے اعدادوشمار کے مطابق 26 مارچ 2015 سے 16دسمبر 2015کے دوران ایل این جی کے 17 کنسائمنٹس درآمد کیے گئے جن کے ذریعے مجموعی طور پر 5کروڑ 38لاکھ 97 ہزار 243 ایم ایم بی ٹی یو(10 لاکھ 36ہزار 446 میٹرک ٹن) گیس درآمد کی گئی جو 23لاکھ 61ہزار 350 کیوبک میٹرز بنتی ہے، 10ماہ کے دوران یہ گیس کم سے کم 6ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور زیادہ سے زیادہ 8.77ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو نرخ پر درآمد کی گئی جبکہ مجموعی 10لاکھ 36ہزار 446 میٹرک ٹن ایل این جی اوسطاً 7.8114ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت پر درآمد کی گئی۔

ایل این جی کی درآمدی مالیت امریکی ڈالر میں 42 کروڑ 10لاکھ جبکہ پاکستانی روپے میں 44ارب سے زائد ہے، حکومت نے اینگرو ایلنجی کے ساتھ ٹرمینل کے قیام کے پہلے سال میں 200ایم ایم سی ایف یومیہ ری گیسفکیشن پر 1.43ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو چارجز ادا کرنے کا معاہدہ کیا ہے، اس نرخ کے مطابق اب تک درآمد کی جانے والی 5کروڑ 38لاکھ 97ہزار 243 ایم ایم بی ٹی یو گیس پر ایلنجی ٹرمینل کمپنی کو 7کروڑ 70لاکھ 73ہزار ڈالر سے زائد کا ریونیو حاصل ہوا ۔

جس کی پاکستانی روپے میں مالیت 8ارب روپے سے زائد ہے، معاہدے کی مدت 15سال ہے اور دوسرے سال سے حکومت اس ٹرمینل کے ذریعے 400ایم ایم سی ایف گیس یومیہ درآمد کرنے کی پابند ہے جس کے لیے دوسرے سال سے معاہدے کی مدت ختم ہونے تک 0.66ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ری گیسفکیشن چارجز ادا کیے جائیں گے، ایل این جی ٹرمینل بشمول جیٹی 13کروڑ 50لاکھ ڈالر یعنی پاکستانی 14ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے لگایا گیا، پاکستان میں ایل این جی کی درآمد کیلیے فنانسنگ اور مینجمنٹ کی ذمے داری قومی تیل کمپنی پی ایس او کو تفویض کی گئی ہے جس کی مالی حالت اربوں روپے کے واجبات سرکلرڈیٹ میں پھنس جانے کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہے۔

پاکستان میں درآمد کیے جانے والے اب تک کے 17پارسلز میں سے 14سے 15پارسلز پی ایس او جبکہ باقی 2 سے 3 پارسلز نجی شعبے نے درآمد کیے، اوگرا نے ایل این جی کے کاروبار پر پی ایس او کا مارجن 1.82فیصد مقرر کیا ہے جس میں 1.32فیصد کے محصولات کی ادائیگی کے بعد پی ایس او کے پاس صرف 0.5فیصد کا نیٹ مارجن مل رہا ہے، درآمد کی جانے والی ایل این جی پر پی ایس کا مارجن مجموعی طورپر 70سے 80کروڑ روپے کے درمیان ہے جس میں سے 1.32فیصد محصولات منہا کرنے کے بعد پی ایس او کا خالص مارجن 20سے 22کروڑ روپے بنتا ہے۔

اس صورتحال میں ریکارڈ مدت میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کے بعد پی ایس او کی انتظامی سربراہی سنبھالنے والے ایم ڈی شیخ عمران الحق بھی دہری پریشانی میں مبتلا ہیں، ایک جانب پی ایس او کا بنیادی کاروبار اور دوسری جانب ایل این جی کے معاملات ہیں جن کی شفافیت پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں، ادھر ٹرمینل لگانے والی کمپنی اینگروایلنجی کا موقف رہا ہے کہ ٹرمینل کے ری گیسفکیشن چارجز میں سروس پر اٹھنے والے کثیر اخراجات شامل ہیں جن میں صرف فلوٹنگ اسٹوریج ریگیسیفکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کو یومیہ 1.5لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جارہی ہے۔

پورٹ اتھارٹی یومیہ 70ہزار ڈالر جبکہ مینٹی نینس اور آپریشن پر 25ہزار ڈالر یومیہ خرچ ہورہے ہیں، ان بھاری اخراجات کی وجہ سے کمپنی کا خالص منافع بہت مناسب اور خطے میں سروس چارجز بھی سب سے کم ہیں۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ پی ایس او کے لے اتنے قلیل مارجن پر کام کرنا ناممکن ہے، اوگرا کے منظور کردہ موجودہ قلیل ترین مارجن نے ایل این جی کے کاروبار کو پی ایس او کیلیے گھاٹے کا سودا بنادیا ہے، ایل این جی کی درآمد میں ٹرمینل آپریٹر کو ٹرمینل استعمال نہ کرنے کی صورت میں 2لاکھ 75ہزار ڈالر یومیہ کی ادائیگی، وصولیوں میں تاخیر، آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کی ادائیگی، ریگولیٹری تنازعات کے خدشات، ایل این جی کی امپورٹ کے لیے طویل مدتی گارنٹی اور ڈیمرجز کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

ان میں سے کوئی بھی ایک عنصر ایل این جی پر پی ایس او کے پورے مارجن کا صفایا کرسکتا ہے، پاکستان میں گردشی قرضوں اور پاور سیکٹر کا بوجھ پی ایس او پر ڈالے جانے کی وجہ سے پی ایس او کا ڈیویڈنڈ تیزی سے کم ہورہا ہے، سال 2006میں 34 روپے کے ڈیویڈنڈ کی ادائیگی سے 2015تک ڈیویڈنڈ کم ہوکر 10روپے کی سطح پر آ چکا ہے، ایل این جی کے کاروبار میں خدشات اور نہ نظر آنے والی مشکلات کسی بھی وقت حقیقت کا روپ دھار کر پی ایس او جیسے اہم ترین ادارے کو خسارے سے دوچار کرسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں