تاریخ کا مقدمہ تہذیبی نرگسیت اور سانحہِ چارسدہ
ہمیں قومی بیانیہ بدلنا پڑیگا۔ فوجی عدالتیں، قومی ایکشن پلان اور صرف عوامی رائےعامہ کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ خیال و ملال اور شوق و وصال کی ایک سرما زدہ شام ہے اور میں سہ پہر کی اس میلی دھوپ میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بیٹھے دھند و کہر میں لپٹے اسلام آباد کو دیکھ رہا ہوں اور اپنی خاموشی سے ہمکلام ہوں۔ سچ یہ ہے کہ میں اداس ہوں اور بہت اداس ہوں۔ میری اداسی اور بے دلی نے مجھے ایسی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے کہ میں سوچنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ چار سو سناٹا ہے اور ایک مہیب سی خاموشی۔ یہ ایک نا خوشگوار شام ہے اپنی پوری فضا کے ساتھ نا خوشگوار شام۔ ہواعبث کی فضا میں بہہ رہی ہے اور میں بے کیفی میں سانس لے رہا ہوں۔
ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جس کا وجود ہی ہر لمحہ زیرِ بحث رہتا ہے، اور پھر بھی حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اِس ملک کو بہر صورت ایسا ملک مانا جائے جِسے تاریخ کی طرف سے بقائے دوام کا پروانہ عطا ہوچکا ہے۔ ہمارا روگ بھی ایسا عجیب روگ ہے جس میں اشتعال انگیزی ہے۔ ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ ہم تاریخ کے جبر کا شکار ہیں اور وہی قومیں تاریخ کے جبر کی اسیر ہوتی ہیں جو تاریخ کے مزاج سے نا آشنا اور تاریخ کے شعور سے ناواقف ہوتی ہیں۔ اگر نجات مقصود ہے تو تاریخ کا شعور ہی تاریخ کے جبر سے نجات کا حل ہے۔ نہ جانے جون ایلیا نے جذبات و بے کیفی کی کس کیفیت میں یہ شعر لکھا تھا،
''ہر متاعِ نفس نظرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی
گل زمیں سے اُبلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے''
یقین مانیے میں اس کی کوئی بھی تشریح اور تاویل دینے سے قاصر ہوں مگر یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عدمیت کے پیروکار اردو ادب کے اِس لازوال شاعر نے اپنی دور اندیشی میں خاک اور خون میں بڑھتی اور پھلتی پھولتی سروں کی اِس فصل کی نشاندہی بہت عرصہ پہلے کردی تھی۔
میں اردو زبان میں قلم گوئی سے شعوری اجتناب برتتا ہوں، اِس کی ایک وجہ اِس زبان کی وسعتِ وجودیدت کے سامنے اپنی کم مائیگی کا احساس ہے، مگر جب کوئی سانحہ بیت جائے یا حادثہ گزر جائے تو میرے پاس اردو کے علاوہ جذبات کے اظہار کا کوئی بہتر متبادل بھی میسر نہیں ہے۔
''پروفیسر جوش ہپلر'' نے ایک دفعہ گفتگو میں زبان و بیان کے تنقیدی اور فلسفیانہ جائزے میں ایک دلچسپ رجحان کی نشاندہی کی کہ پاکستانی صفات (adjectives) کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔ یہ پروفیسر کا نقطہ نظر ہی نہیں سوال بھی تھا۔ میں ما بعد جدیدیت کے تنقیدی تجزیے کا اس عمل پر جو فلسفیانہ اور ادبی زُبان پر کیا جاتا ہے سے کماحقہ واقف نہیں ہوں۔ Subalternism اور Deconstructionism پر کام کرنے والے اگر ''دریدین'' اور ''سارترین روایات'' میں اس سوال کا جواب دیں گے تو موزوں رہے گا اور میں اس پر علمِ فلسفہ کے ماہرین کی راہنمائی کا خواستگار ہوں۔ میرے مطمعِ نظر اس وقت سانحہِ چارسدہ ہے، اور میرا سوال بھی صرف ایک ہے۔
وہ پھر آئیں گے، پھر ہمیں مار ڈالیں گے، ہم کیا کر لیں گے؟
سانحہِ پشاور کے پسِ منظر میں ایک سال پہلے ایک کالم رقم طراز کیا تھا۔ جس میں سے ایک پیرا ملاحظہ ہو،
''ایک ملک کے ایک ادارے میں ایک جوڑا ایک بڑے چھاوں والے درخت کے نیچے غیر اخلاقی حرکتوں کا مرتکب پایا گیا۔ ادارے کی انتظامیہ نے ہنگامی میٹنگ بلائی اور تحقیقات کا آغاز کردیا۔ کئی دن کے پُر مغز تجزیے کے بعد انتطامیہ نے مستقبل میں ایسی صورت حال کے سدِباب کے طور پر ایک اہم قدم اٹھایا اور یوں بڑا درخت کاٹ دیا گیا''۔
قومی سلامتی منصوبہ کو اِس واقعے سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کریں تو ساری صورت حال واضح ہوجائے گی۔ ہمیں قومی بیانیہ بدلنا پڑے گا۔ فوجی عدالتیں اور قومی عملدرآمد پلان اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ صرف عوامی رائےعامہ کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم تو تاریخ کے جبر کا شکار رہے ہیں۔ یہ ردعمل ہے اور غضبناک رد عمل۔ میر تقی میر بر محل یاد آئے،
''کن نیندوں اب تُو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا''۔
ہمیں من حیث القوم پشتونوں سے معافی مانگنی چاہئے۔ ہم پشتونوں کی نسل کشی کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے پُرامن پشتونوں کی ایک پوری نسل اپنی مذہبی تشریحات کے مطابق گھڑے ہوئے جہاد کی نذر کی ہے۔ عالمِ اسلام کا نام نہاد قلعہ اپنے انہدام کے نزدیک نزدیک ہے۔ بہت ہی چونکا دینے والے لب و لہجہ کے شاعر ادریس بابر یاد آئے،
ہم اپنا کچھ بنا تو لیں ہم اپنا گهر بچا تو لیں
عراق شام اور فلسطین کی تو خیر ہے
پرانا عربی قاعدہ ہوا نہ جس کا فائدہ
پر اب زبان سیکھ لیں گے چین کی، تو خیر ہے
یہ سوچ کے رکو نہیں ڈرو نہیں مرو نہیں
کہ ہم بهی مارے جائیں گے، سبین کی تو خیر ہے
تہذیبی نرگسیت کا شکار ہمارے یہ نام نہاد دانشور اور مورخ کاش ہمیں دوسری مقامی قومیتوں کی بربریت اور سفاکی بھی پڑھا دیتے، اگر نہ بھی پڑھاتے تو بتا تو دیتے۔ خیر اختلاف کرنے والے Ranajit Guha کی کتاب An Indian" Historiography of India" پڑھ سکتے ہیں۔
سانحہِ چارسدہ کی مذمت کو چھوڑیں اور نئی لغت کی تیاری شروع کریں۔ جسم میں ظلم، بربریت، سفاکی، ماتم جیسے الفاظ کا متبادل ڈھونڈیں کیونکہ یہ الفاظ اپنا اثر مکمل طور پر کھوچکے ہیں۔ ہمارا ماضی ندامت ہے، ہمارا حال نحوست ہے اور ہمارا مستقبل نا امیدی ہے۔ کیا ہمیں اِس حقیقت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تسلیم کرلینا چاہیئے؟ کیا یہ کوئی سر نوشت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا؟ آئیے یہ بات بار بار سوچیں اور جون ایلیا کو پڑھیں،
ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بُو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
ہر متاعِ نفس نظرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی
گل زمیں سے اُبلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اِس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایہِ جستجو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
اِک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرِ جاں، اور آباد جب شہرِ جاں ہوگیا
ہیں یہ سرگوشیاں در بدر کُو بہ کُو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
اول شب کا مہتاب بھی جاچکا صحنِ میخانہ سے اب اُفق میں کہیں
آخر شب ہے، خالی ہیں جام و سبو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
دشت میں رقصِ شوقِ بہار اب کہاں، باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں
بس گزرنے کو ہے موسمِ ہائے و ہو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
ہم ہیں رسوا کنِ دلی و لکھنو، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو
میر دلی سے نکلے، گئے لکھنو، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے
[poll id="907"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔