سکڑتی ہوئی ریاست
ریاست کیا ہوتی ہے۔ کمزور اور ناکام ریاست میں تفریق ممکن ہے یا ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔
ریاست کیا ہوتی ہے۔ کمزور اور ناکام ریاست میں تفریق ممکن ہے یا ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ریاست ناکام پہلے ہوتی ہے یا کمزور۔ شہریوں کی عزت، مال اور جان کی حفاظت کا مطلب کیا ہے۔ حکومت اہم ہے یا ریاست۔ یہ سوال اٹھنے چاہئیں۔ مشکل کے باوجودان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔
چارسدہ کے اندوہناک واقعہ کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے اہم رخ تو اُن مظلوم طالبعلموں اور اساتذہ کی شہادت ہے جنھیں کسی بھی جرم اور جواز کے بغیر زندگی جیسی قیمتی چیز سے محروم کر دیا گیا۔ طلباء تو صرف پڑھنے آئے تھے۔ سب سے زیادہ نقصان ہاسٹل میں ہوا جہاں بچے سو رہے تھے۔ انھیں اسی حالت میں اَبدی نیند سلا دیا گیا۔ کوئی بھی ملک، کسی صورت میں اپنے بچوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کسی صورت میں بھی۔ دوسرا رخ ان بے مقصد مذمتی بیانات کا ہے جو سانحہ کے فوراً بعد میڈیا میں نظر آتے ہیں۔ ان تمام کا نفسِ مضمون بالکل ایک جیسا ہے۔
ملک کے فلاں شخص کو اس اندوہناک واقعہ پر شدید افسوس ہوا۔ ایسے ادنیٰ بیانات ساٹھ سال سے مسلسل، بے دریغ اور بغیرکسی شرم کے ہرصورت جاری کیے جارہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، افسوس اور صدمے کے گھنے بادل تو ان گھروں کو برباد کر گئے، جنھوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں اور اپنے اپنے چاند زمین میں دفن کر دیے۔ افسوس تو ان بدقسمت والدین اور لواحقین کو ہوا، جنھوں نے اپنے مستقبل کے چراغوں کو علم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بھجوایا تھا اور وہ مستقل طور پر بجھ کر رہ گئے۔ آپکو کیا افسوس، آپ کوکیسا افسوس۔
تیسرا رخ، اس جانی نقصان کے تعین کا ہے جو ہر سانحہ کے بعد برپا ہوتا ہے اور چارسدہ میں بھی پیہم ہوا ہے۔ ہر شخص ہیلی کاپٹرسے نکل کر صرف ایک رَٹا ہوا فقرہ کہتا تھا کہ بروقت کارروائی سے ہم "بڑے سانحہ" سے بچ گئے۔ پوچھنا چاہت اہوں، کہ ہم کس بڑے حادثے سے بچ گئے۔ کیا اکیس بے گناہ لوگوں کا خون ناحق بڑا حادثہ نہیں۔ چوتھا رخ، ان عیادت کرنے والوں کی لمبی قطار ہے جس میں سے اکثریت بلٹ پروف گاڑی سے نکل کر، محافظوں کی حفاظت میں زخمیوں کے پاس اسپتال گئے ہیں۔ یہ بے مقصد لوگ، زخمیوں کے گہرے زخموں کو مزید گہرا کرتے رہے بلکہ نمک پاشی کرتے رہے۔
میں نے کے پی کے ایک سابقہ صوبائی سربراہ کو دیکھا جو ڈولتا ہوا اسپتال پہنچا اور ایک زخمی پر تقریباً گر گیا۔ کیا لوگ ہیں صاحبان، کیا لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تم محفوظ کیوں ہو اور یہ نوجوان بچے غیرمحفوظ کیوں ہیں۔ چوتھا رخ، ہر حادثے کے بعد دہرایا جانے والا فقرہ ہے کہ یہ ساری کارروائی ہمسایہ ملک سے ہوئی۔ یہ بات تو تندور پر روٹی لگانے والے شخص کے بھی علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک گروہ یا قوت کو اتنی ہمت، جسارت اور تدبیر کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے بے گناہ شہریوں کو اپنی مرضی سے وار کر سکے۔ اگر آپ کو علم ہے تو ہمیں برباد کرنے والے لوگ اب تک زندہ کیوں ہیں۔
ان کے گھروں سے نوحہ کی وہ آوازیں کیوں نہیں آرہیں، جو چارسدہ کے ہر گھر سے بلند ہو رہی ہیں۔ پانچواں رخ یہ ہے کہ بروقت اور فوری کارروائی نے بزدل دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ یہ ایک خوفناک مذاق ہے۔ دہشت گرد جس واردات کے لیے آئے تھے، وہ مکمل طور پر اس میں کامیاب رہے۔ انھوں نے اپنے منصوبہ پر پوری طرح عملدرآمد کیا۔ نتائج حاصل کیے۔ انھیں یقین تھا کہ زندہ نہیں رہیں گے۔ وہ تو آئے ہی مرنے اور مارنے کے لیے تھے۔ انھیں مارنا شائد ایک کارنامہ ہو مگراصل کارنامہ تونقصان سے بچنا تھا۔ ذمے داری سے عرض کرتا ہوںکہ تمام ریاستیں ادارے ملکر ہمارے بچوں کی حفاظت نہ کر سکے۔
دہشت گرد اپنے ارادوں میں کامیاب رہے اور معذرت کے ساتھ، ہم بالکل ناکام! چھٹا رخ، ان باہمت گارڈز کی اس درجہ ستائش نہ ہونا ہے، جنھوں نے دہشت گردوں کے اصل وار کو اپنی چھاتی پر سہا۔ ہتھیاراور امونیوشن کے ضعف کے باوجود، ہوائی چپلیں پہن کر لڑتے رہے اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ میرے اصل ہیرو یہ بہادر چوکیدار ہیں جنھوں نے کم وسائل ہوتے ہوئے بھی، دہشت گردوں کو ایک مقام تک رکھا اور انھیں گرلز ہاسٹل یا کلاس رومز تک نہیں پہنچنے دیا۔ پولیس اور فوج کی کارروائی بھی درست، مگر ان گارڈز نے اس حادثہ کو محدود کرنے میں اول کردار ادا کیا۔
ساتواں رخ، انتقام کی وہ آگ ہے جو پہلی بار مجھے عام لوگوں میں نظر آئی۔ لائبرین کے بھائی نے گریہ کرتے ہوئے کہاکہ ہماری حکومت سے صرف ایک درخواست ہے کہ وہ دشمن کی نشاندہی کر دے، اس کی شکل دکھا دے، باقی کام ہم لوگوں کا ہے۔ ہم ہرصورت بدلہ لینگے۔ ہم خودبخود دشمن تک پہنچ جائینگے۔ ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے کے پی کی روایت کے عین مطابق چنگاری کو الاؤ میں بدلنے کی ہمت نظر آرہی ہے۔ یہ فقرہ میں نے پہلی بار سنا ہے۔ اگر یہ فقرہ چند دہائیاں پہلے ہمیں سمجھ آجاتا، تو چارسدہ اور ایبٹ آباد پبلک اسکول جیسے حادثوں کی گنجائش ہی نہ رہتی۔ آٹھواں رخ، اساتذہ کی وہ بلند ہمتی ہے جس میں وہ اپنے طالب علموں کو بچاتے ہوئے خود شہید ہوئے۔
اے۔ پی۔ ایس کے بعد چارسدہ میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر نے جس طرح اپنے طالبعلموں کو اپنی جان پر فوقیت دی، وہ ایک ثبوت ہے کہ مقتدر طبقے کی کم ہمتی کے باوجود، عام لوگوں میں آج بھی دم ہے، ان میں لگن اور اپنے مقصد سے محبت کی ہمت ہے۔ نواں رخ، ہمارا مجموعی ردِعمل ہے۔
مجموعی کا لفظ بھی درست نہیں۔ ملک کے متعلق ایک خاص تاثر ابھر رہا ہے کہ ہم ایک کمزور سا ملک ہیں۔ یا شائد کمزور بنا دیے گئے ہیں۔ ہم ریاستی طاقت کو شائد اپنے شہریوں کے لیے استعمال نہیں کر پا رہے یا دوسری صورت میں ہمارے پاس اس درجہ طاقت ہی موجود نہیں کہ ہم عام لوگوں کی حفاظت کر سکیں۔ کمزوری کا یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے۔ میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم ایک مجبور ریاست ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمیں ہر طریقے سے کمزور بنا دیا گیا ہے۔
ضعف اور کمزوری کے اہم نکتہ پر گزارش کرنا چاہونگا۔ یہ بالکل درست ہے کہ دہشت گرد ہمارے ملک میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ہم یکسوئی اور تدبیر سے ان پر قابو پا سکتے ہیں۔ یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہمیں بطور ملک کس نے کمزور کیا اور ہمیں کس اجنبی فریق نے مجبور کیا کہ قوموں کے درمیان ایک سرد مذاق بن کر رہ جائیں۔ غور کیجیے، کہ انصاف سے مبرا ملک درحقیقت کتنے طاقتور ہو سکتے ہیں۔ وہ تمام طبقے جو دیمک کی طرح ہمارے ملک کے پورے ڈھانچے کو کھا چکے ہیں، ان کی نشاندہی اہم بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔
ہم تمام لوگ، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی کے خلاف بولتے رہتے ہیں، جو بالکل درست ہے مگرکیا ہم ان عوامل کی طرف جا رہے ہیں، جو ان تمام کے برابر یا شائد بڑھ کر، ہمیں برباد کر چکے ہیں۔ میں وہ گزارشات کرونگا جو کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں ہیں۔ لیکن ہم تمام انکو اپنا مقدر تسلیم کر چکے ہیں۔ ہر بڑے حادثہ کے پیچھے ایک کامل داستان ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی وجوہات زیرزمین پنپتی رہتی ہیں اور بالاخر ایک دہکتے لاوے کی طرح سب کچھ خاک کر دیتی ہیں۔ ہماری چھوٹی چھوٹی حکومتی اور ذاتی کوتاہیاں بربادی کی اصل وجوہات میں سے ایک ہیں۔ آپ بازار جائیے۔
کوئی چیز خریدیے۔ آپکو تولنے میں کمی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ ناممکن ہے کہ جس چیزکے لیے آپ اپنا رزقِ حلال خرچ کر رہے ہو، وہ وزن، ناپ یا مقدار میں اتنی ہو، جتنی کے پیسے آپ دے رہے ہیں۔ آپ ہنسیں گے کہ میں نے کتنی عام سی بات کی ہے۔ صاحبان! یہ کم مقدار، ریاست کی وہ ناکامی ہے جسکی کوئی معافی نہیں ہے اور جس سے تباہی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ آپ جذباتیت کے بغیر فرمائیے، کہ کیا مغرب میں کوئی اسٹور، دکاندار، یا مارکیٹ کا مالک یا ملازم ہمت کر سکتا ہے کہ آپکو جو چیز فراہم کر رہا ہے، وہ لکھی ہوئی مقدار سے کم ہے۔ اگر کوئی کریگا تو حکومت برباد کر ڈالے گی۔
گزارش یہ، کہ ہمارے ملک میں ریاست اور حکومت کا جائزڈر، خوف آہستہ آہستہ ختم ہو چکا ہے۔ دلیل کو آگے لے جائیے۔ کیا کسی بھی چیز کو خریدتے ہوئے آپکو یقین ہو سکتا ہے کہ اس میں ملاوٹ نہ ہو۔ وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ ملاوٹ کے خلاف حکومت کی کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ یہ ملاوٹ آہستہ آہستہ ہمارے ایمان کا حصہ بن چکی ہے۔ ہماری سوچ، ہمارے نظریے، ہمارے عقائد اور ہمارے عمل کو قابو میں کر چکی ہے۔ کیا لندن میں آپ جعلی دودھ بیچ سکتے ہیں۔ وہاں قیامت برپا کر دی جائے گی، اس لیے کہ حکومت نہیں، ریاست بہت مضبوط ہے۔
میں ان باتوں پر توجہ دے رہا ہوں جو عوامی سطح کی ہیں۔ حکومتی سطح کی غفلتوں کا ذکر تو ہر وقت ہوتا ہی رہتا ہے۔ آپ آگے چلیے۔ ہمارے تمام کاروبار زندگی کی بنیاد دوسرے انسان سے بے موقع اور ناجائز منافع لینا ہے۔ آپ کسی سیکٹر میں چلے جائیے۔ آپکو بغیرکسی وجہ کے ایک معاشی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائیگا۔ آپ کسی سے پوچھ ہی نہیں سکتے کہ کل تو یہ چیز ایک روپے کی تھی، آج دس روپے کی کیسے ہو گئی۔
آپ بڑی وارداتوں کو چھوڑیے۔ آپ کسی بس، رکشہ یا ٹانگے والے سے پوچھ سکتے ہیں کہ صاحب، سفر کا اصل کرایہ تو یہ ہے، آپ زیادہ کیوں وصول کر رہے ہیں۔ آپ نہیں پوچھ سکتے۔ پوچھیے، آپکو دھکے مار مار کر سواری سے اتار دیا جائیگا۔ وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ اس رکشہ یا ٹانگے والے کو یقین ہے کہ کوئی اس سے نہیں پوچھ سکتا۔ اسی طرح عام مسافرکو بھی یقین ہے کہ اگر وہ کسی جگہ پر فریاد کریگا، تو کہیں بھی دادرسی نہیں ہوگی۔
ہمارے ملک میں بتدریج ریاست سکٹرتی چلی گئی ہے۔ ہر شعبہ میں، ہر سطح پر لوگوں کو یقین ہے کہ حکومت ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اب ہر جگہ آپکو ایک اجتماعی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ نکتہ ہمارا مقتدر طبقہ، بخوبی سمجھ چکا ہے۔ وہ اس تمام غیریقینی صورتحال سے مالی فائدہ حاصل کرنے کا گُر سیکھ چکا ہے۔ انھیں علم ہے کہ ملاوٹ زدہ ذہن، ایک ایسے طبقے کو جنم دے چکے ہیں جسکی خصلت میں موقعہ سے فائدہ اٹھانا ہے۔ جتنی زیادہ اور بھیانک دہشت گردی ہو گی، ان کی معاشی دہشت گردی چھپی رہے گی۔ ان کا سودا بغیر کسی اشتہار کے بکتا رہے گا۔
جس دن چارسدہ جیسے اندوہناک واقعہ نے ہمیں ذاتی انسانی سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ہم ہرطرح کی دہشت گردی کے خلاف ایک لمحہ میں کامیاب ہو جائینگے۔
چارسدہ کے اندوہناک واقعہ کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے اہم رخ تو اُن مظلوم طالبعلموں اور اساتذہ کی شہادت ہے جنھیں کسی بھی جرم اور جواز کے بغیر زندگی جیسی قیمتی چیز سے محروم کر دیا گیا۔ طلباء تو صرف پڑھنے آئے تھے۔ سب سے زیادہ نقصان ہاسٹل میں ہوا جہاں بچے سو رہے تھے۔ انھیں اسی حالت میں اَبدی نیند سلا دیا گیا۔ کوئی بھی ملک، کسی صورت میں اپنے بچوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کسی صورت میں بھی۔ دوسرا رخ ان بے مقصد مذمتی بیانات کا ہے جو سانحہ کے فوراً بعد میڈیا میں نظر آتے ہیں۔ ان تمام کا نفسِ مضمون بالکل ایک جیسا ہے۔
ملک کے فلاں شخص کو اس اندوہناک واقعہ پر شدید افسوس ہوا۔ ایسے ادنیٰ بیانات ساٹھ سال سے مسلسل، بے دریغ اور بغیرکسی شرم کے ہرصورت جاری کیے جارہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، افسوس اور صدمے کے گھنے بادل تو ان گھروں کو برباد کر گئے، جنھوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں اور اپنے اپنے چاند زمین میں دفن کر دیے۔ افسوس تو ان بدقسمت والدین اور لواحقین کو ہوا، جنھوں نے اپنے مستقبل کے چراغوں کو علم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بھجوایا تھا اور وہ مستقل طور پر بجھ کر رہ گئے۔ آپکو کیا افسوس، آپ کوکیسا افسوس۔
تیسرا رخ، اس جانی نقصان کے تعین کا ہے جو ہر سانحہ کے بعد برپا ہوتا ہے اور چارسدہ میں بھی پیہم ہوا ہے۔ ہر شخص ہیلی کاپٹرسے نکل کر صرف ایک رَٹا ہوا فقرہ کہتا تھا کہ بروقت کارروائی سے ہم "بڑے سانحہ" سے بچ گئے۔ پوچھنا چاہت اہوں، کہ ہم کس بڑے حادثے سے بچ گئے۔ کیا اکیس بے گناہ لوگوں کا خون ناحق بڑا حادثہ نہیں۔ چوتھا رخ، ان عیادت کرنے والوں کی لمبی قطار ہے جس میں سے اکثریت بلٹ پروف گاڑی سے نکل کر، محافظوں کی حفاظت میں زخمیوں کے پاس اسپتال گئے ہیں۔ یہ بے مقصد لوگ، زخمیوں کے گہرے زخموں کو مزید گہرا کرتے رہے بلکہ نمک پاشی کرتے رہے۔
میں نے کے پی کے ایک سابقہ صوبائی سربراہ کو دیکھا جو ڈولتا ہوا اسپتال پہنچا اور ایک زخمی پر تقریباً گر گیا۔ کیا لوگ ہیں صاحبان، کیا لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تم محفوظ کیوں ہو اور یہ نوجوان بچے غیرمحفوظ کیوں ہیں۔ چوتھا رخ، ہر حادثے کے بعد دہرایا جانے والا فقرہ ہے کہ یہ ساری کارروائی ہمسایہ ملک سے ہوئی۔ یہ بات تو تندور پر روٹی لگانے والے شخص کے بھی علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک گروہ یا قوت کو اتنی ہمت، جسارت اور تدبیر کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے بے گناہ شہریوں کو اپنی مرضی سے وار کر سکے۔ اگر آپ کو علم ہے تو ہمیں برباد کرنے والے لوگ اب تک زندہ کیوں ہیں۔
ان کے گھروں سے نوحہ کی وہ آوازیں کیوں نہیں آرہیں، جو چارسدہ کے ہر گھر سے بلند ہو رہی ہیں۔ پانچواں رخ یہ ہے کہ بروقت اور فوری کارروائی نے بزدل دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ یہ ایک خوفناک مذاق ہے۔ دہشت گرد جس واردات کے لیے آئے تھے، وہ مکمل طور پر اس میں کامیاب رہے۔ انھوں نے اپنے منصوبہ پر پوری طرح عملدرآمد کیا۔ نتائج حاصل کیے۔ انھیں یقین تھا کہ زندہ نہیں رہیں گے۔ وہ تو آئے ہی مرنے اور مارنے کے لیے تھے۔ انھیں مارنا شائد ایک کارنامہ ہو مگراصل کارنامہ تونقصان سے بچنا تھا۔ ذمے داری سے عرض کرتا ہوںکہ تمام ریاستیں ادارے ملکر ہمارے بچوں کی حفاظت نہ کر سکے۔
دہشت گرد اپنے ارادوں میں کامیاب رہے اور معذرت کے ساتھ، ہم بالکل ناکام! چھٹا رخ، ان باہمت گارڈز کی اس درجہ ستائش نہ ہونا ہے، جنھوں نے دہشت گردوں کے اصل وار کو اپنی چھاتی پر سہا۔ ہتھیاراور امونیوشن کے ضعف کے باوجود، ہوائی چپلیں پہن کر لڑتے رہے اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ میرے اصل ہیرو یہ بہادر چوکیدار ہیں جنھوں نے کم وسائل ہوتے ہوئے بھی، دہشت گردوں کو ایک مقام تک رکھا اور انھیں گرلز ہاسٹل یا کلاس رومز تک نہیں پہنچنے دیا۔ پولیس اور فوج کی کارروائی بھی درست، مگر ان گارڈز نے اس حادثہ کو محدود کرنے میں اول کردار ادا کیا۔
ساتواں رخ، انتقام کی وہ آگ ہے جو پہلی بار مجھے عام لوگوں میں نظر آئی۔ لائبرین کے بھائی نے گریہ کرتے ہوئے کہاکہ ہماری حکومت سے صرف ایک درخواست ہے کہ وہ دشمن کی نشاندہی کر دے، اس کی شکل دکھا دے، باقی کام ہم لوگوں کا ہے۔ ہم ہرصورت بدلہ لینگے۔ ہم خودبخود دشمن تک پہنچ جائینگے۔ ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے کے پی کی روایت کے عین مطابق چنگاری کو الاؤ میں بدلنے کی ہمت نظر آرہی ہے۔ یہ فقرہ میں نے پہلی بار سنا ہے۔ اگر یہ فقرہ چند دہائیاں پہلے ہمیں سمجھ آجاتا، تو چارسدہ اور ایبٹ آباد پبلک اسکول جیسے حادثوں کی گنجائش ہی نہ رہتی۔ آٹھواں رخ، اساتذہ کی وہ بلند ہمتی ہے جس میں وہ اپنے طالب علموں کو بچاتے ہوئے خود شہید ہوئے۔
اے۔ پی۔ ایس کے بعد چارسدہ میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر نے جس طرح اپنے طالبعلموں کو اپنی جان پر فوقیت دی، وہ ایک ثبوت ہے کہ مقتدر طبقے کی کم ہمتی کے باوجود، عام لوگوں میں آج بھی دم ہے، ان میں لگن اور اپنے مقصد سے محبت کی ہمت ہے۔ نواں رخ، ہمارا مجموعی ردِعمل ہے۔
مجموعی کا لفظ بھی درست نہیں۔ ملک کے متعلق ایک خاص تاثر ابھر رہا ہے کہ ہم ایک کمزور سا ملک ہیں۔ یا شائد کمزور بنا دیے گئے ہیں۔ ہم ریاستی طاقت کو شائد اپنے شہریوں کے لیے استعمال نہیں کر پا رہے یا دوسری صورت میں ہمارے پاس اس درجہ طاقت ہی موجود نہیں کہ ہم عام لوگوں کی حفاظت کر سکیں۔ کمزوری کا یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے۔ میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم ایک مجبور ریاست ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمیں ہر طریقے سے کمزور بنا دیا گیا ہے۔
ضعف اور کمزوری کے اہم نکتہ پر گزارش کرنا چاہونگا۔ یہ بالکل درست ہے کہ دہشت گرد ہمارے ملک میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ہم یکسوئی اور تدبیر سے ان پر قابو پا سکتے ہیں۔ یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہمیں بطور ملک کس نے کمزور کیا اور ہمیں کس اجنبی فریق نے مجبور کیا کہ قوموں کے درمیان ایک سرد مذاق بن کر رہ جائیں۔ غور کیجیے، کہ انصاف سے مبرا ملک درحقیقت کتنے طاقتور ہو سکتے ہیں۔ وہ تمام طبقے جو دیمک کی طرح ہمارے ملک کے پورے ڈھانچے کو کھا چکے ہیں، ان کی نشاندہی اہم بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔
ہم تمام لوگ، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی کے خلاف بولتے رہتے ہیں، جو بالکل درست ہے مگرکیا ہم ان عوامل کی طرف جا رہے ہیں، جو ان تمام کے برابر یا شائد بڑھ کر، ہمیں برباد کر چکے ہیں۔ میں وہ گزارشات کرونگا جو کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں ہیں۔ لیکن ہم تمام انکو اپنا مقدر تسلیم کر چکے ہیں۔ ہر بڑے حادثہ کے پیچھے ایک کامل داستان ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی وجوہات زیرزمین پنپتی رہتی ہیں اور بالاخر ایک دہکتے لاوے کی طرح سب کچھ خاک کر دیتی ہیں۔ ہماری چھوٹی چھوٹی حکومتی اور ذاتی کوتاہیاں بربادی کی اصل وجوہات میں سے ایک ہیں۔ آپ بازار جائیے۔
کوئی چیز خریدیے۔ آپکو تولنے میں کمی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ ناممکن ہے کہ جس چیزکے لیے آپ اپنا رزقِ حلال خرچ کر رہے ہو، وہ وزن، ناپ یا مقدار میں اتنی ہو، جتنی کے پیسے آپ دے رہے ہیں۔ آپ ہنسیں گے کہ میں نے کتنی عام سی بات کی ہے۔ صاحبان! یہ کم مقدار، ریاست کی وہ ناکامی ہے جسکی کوئی معافی نہیں ہے اور جس سے تباہی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ آپ جذباتیت کے بغیر فرمائیے، کہ کیا مغرب میں کوئی اسٹور، دکاندار، یا مارکیٹ کا مالک یا ملازم ہمت کر سکتا ہے کہ آپکو جو چیز فراہم کر رہا ہے، وہ لکھی ہوئی مقدار سے کم ہے۔ اگر کوئی کریگا تو حکومت برباد کر ڈالے گی۔
گزارش یہ، کہ ہمارے ملک میں ریاست اور حکومت کا جائزڈر، خوف آہستہ آہستہ ختم ہو چکا ہے۔ دلیل کو آگے لے جائیے۔ کیا کسی بھی چیز کو خریدتے ہوئے آپکو یقین ہو سکتا ہے کہ اس میں ملاوٹ نہ ہو۔ وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ ملاوٹ کے خلاف حکومت کی کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ یہ ملاوٹ آہستہ آہستہ ہمارے ایمان کا حصہ بن چکی ہے۔ ہماری سوچ، ہمارے نظریے، ہمارے عقائد اور ہمارے عمل کو قابو میں کر چکی ہے۔ کیا لندن میں آپ جعلی دودھ بیچ سکتے ہیں۔ وہاں قیامت برپا کر دی جائے گی، اس لیے کہ حکومت نہیں، ریاست بہت مضبوط ہے۔
میں ان باتوں پر توجہ دے رہا ہوں جو عوامی سطح کی ہیں۔ حکومتی سطح کی غفلتوں کا ذکر تو ہر وقت ہوتا ہی رہتا ہے۔ آپ آگے چلیے۔ ہمارے تمام کاروبار زندگی کی بنیاد دوسرے انسان سے بے موقع اور ناجائز منافع لینا ہے۔ آپ کسی سیکٹر میں چلے جائیے۔ آپکو بغیرکسی وجہ کے ایک معاشی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائیگا۔ آپ کسی سے پوچھ ہی نہیں سکتے کہ کل تو یہ چیز ایک روپے کی تھی، آج دس روپے کی کیسے ہو گئی۔
آپ بڑی وارداتوں کو چھوڑیے۔ آپ کسی بس، رکشہ یا ٹانگے والے سے پوچھ سکتے ہیں کہ صاحب، سفر کا اصل کرایہ تو یہ ہے، آپ زیادہ کیوں وصول کر رہے ہیں۔ آپ نہیں پوچھ سکتے۔ پوچھیے، آپکو دھکے مار مار کر سواری سے اتار دیا جائیگا۔ وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ اس رکشہ یا ٹانگے والے کو یقین ہے کہ کوئی اس سے نہیں پوچھ سکتا۔ اسی طرح عام مسافرکو بھی یقین ہے کہ اگر وہ کسی جگہ پر فریاد کریگا، تو کہیں بھی دادرسی نہیں ہوگی۔
ہمارے ملک میں بتدریج ریاست سکٹرتی چلی گئی ہے۔ ہر شعبہ میں، ہر سطح پر لوگوں کو یقین ہے کہ حکومت ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اب ہر جگہ آپکو ایک اجتماعی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ نکتہ ہمارا مقتدر طبقہ، بخوبی سمجھ چکا ہے۔ وہ اس تمام غیریقینی صورتحال سے مالی فائدہ حاصل کرنے کا گُر سیکھ چکا ہے۔ انھیں علم ہے کہ ملاوٹ زدہ ذہن، ایک ایسے طبقے کو جنم دے چکے ہیں جسکی خصلت میں موقعہ سے فائدہ اٹھانا ہے۔ جتنی زیادہ اور بھیانک دہشت گردی ہو گی، ان کی معاشی دہشت گردی چھپی رہے گی۔ ان کا سودا بغیر کسی اشتہار کے بکتا رہے گا۔
جس دن چارسدہ جیسے اندوہناک واقعہ نے ہمیں ذاتی انسانی سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ہم ہرطرح کی دہشت گردی کے خلاف ایک لمحہ میں کامیاب ہو جائینگے۔